Friday, November 8, 2024
HomePersonalitiesمفتی  محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ کی علمی خدمات کا ایک طائرانہ...

مفتی  محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ کی علمی خدمات کا ایک طائرانہ جائزہ،کابرین کی آراء کی روشنی میں

Academic review of Mufti Azam Mufti Muhammad Rafi Usmani’s life in the light of scholars’ opinions.

Altafur Rehman

Research Scholar, Department of Usooluddin, University of Karachi.

 Email: altafakhon1@gmail.com

Abstract

 Allah subhanahu wa ta’ala had blessed Mufti Azam with countless qualities, his personality was a shadow full of blessings in evil and temptation. He had a dignified tone and style as well as a real dignified person of worldly glory, compassionate and kind and one of the Saints. He possessed other qualities like a guardian. Besides being a madrasah and administrator, he also wrote more than 30 books, which have the status of a source in different positions. He was a leader in the true sense. In his speech and writing, there is also an element of spirituality along with the power of reasoning, which inspires the listener and the reader to action. In addition to being a nobleman, he is also performing his services at national and international levels. He was an eminent religious scholar, distinguished exegete and hadith scholar, researcher and manager, disciplined, modest and an ideal personality in terms of promoting knowledge and lofty thinking. .

Due to these attributes, the dignity, greatness and importance of every scholar and people of knowledge is clearly known, because the construction and development of religion and the world, the exaltation of Islam and the glory of the people of faith are related to the footsteps of scholars. It is the cause of happiness and happiness that no century, no era and no era of Islamic history has passed without the scholars of Rabbani and Rizal-e-Haqqani. There have been great scholars and men of knowledge who guided the Ummah on the right path and set them on the straight path in darkness and darkness. From this point of view, Mufti Muhammad Rafi Usmani (may Allah have mercy on him) is a role model for all of us. This void of Mufti Sahib (may Allah have mercy on him) will never be filled and his pain will be felt by everyone.

(1) To describe his academic and practical life, his good morals and the spirit of serving the people so that it is an instructive advice for every reader. (2) To describe his significant achievements. It is obvious that any human After his death, he lives on thanks to his important achievements. The high morals, exemplary work, authorial achievements, teaching efforts and unique and practical measures of a human being are examples for his successors. It is the duty of scholars to follow in their footsteps and preserve their attributes and situations in books so that a practical person gets guidance in his affairs and ponders the sayings of these scholars. And he benefits from all the religious and worldly virtues that are attributed to him.Therefore, in the article under review.
Keywords: Mufti Azam Mufti Muhammad Rafi Usmani’s, exaltation of Islam, guided the Ummah, role model

مفتی محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ کی پیدائش

مفتی  محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ ہندوستان کے صوبہ یوبی کے ضلع سہارنپور سے بیس (۲۰) کلو میڑ کے فاصلے پرواقع دیوبند میں مفتی محمد شفیع  صاحب رحمہ اللہ کے گھر ۲ جماد الاولیٰ ۱۳۵۵ھ بمطابق  ۱۹۳۶ء پیدا ہوئے ،جس کے ضوء علم و عمل سے ایک دنیا مستفید ہوتی رہی([1])مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانوی  رحمہ اللہ (متوفی ۱۷ رجب ۱۳۶۲ھ بمطابق ۲۰ جولائی ۱۹۳۶ء) نے آپ کا اسمِ گرامی  محمد رفیع رکھا ۔اس نام کی تجویز سے سورۃ مؤمن کی آیت’’رفیع الدّجٰت‘‘ کی طرف اشارہ ہوگیا اور اسی نام پر ایک فارسی شعر بھی موزون کردیا گیا ہے۔بروزِ قیامت محمد شفیع از جملہ خلائق محمد رفیع([2])

آپ رحمہ اللہ کی تعلیم

آپ رحمہ اللہ نے اپنی ابتدائی  تعلیم کا آغاز اپنے والد ماجد  مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ علیہ سے دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء میں ’’قاعدہ بغدادی ‘‘سے کیا۔اسی جامعہ  میں آپ نے پندرہ پارے حفظ کیے،تقسیم ہند کی بناء پر پاکستان کراچی آکر کچھ عرصہ جامع مسجد جیکب لائن  اور اس کے بعد مسجد باب الاسلام آرام باغ میں حفظ قرآن کی تکمیل کی، فلسطین کے ’’مفتی اعظم‘‘ الحاج امین الحسینی رحمہ اللہ  نے  آپ کا ختمِ قرآن کرایا۔آپ نے ترایح میں پہلا قرآن کریم ۱۳۷۰ء میں مسجد باب الاسلام میں موجود دارلافتاء میں سنایا۔([3]) اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی پاکستان سے سنہ ۱۳۵۷ ھ میں ’’مولوی عالم‘‘ کا امتحان پاس کیا۔سنہ ۱۳۷۹ھ سے مطابق ۱۹۵۹ء میں جامعہ دارلعلوم کراچی سے دورہ حدیث سند الفراغ حاصل کی،جسے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور کراچی یونیورسٹی سمیت پاکستان کی متعدد یونیورسٹیوں سے ایم اے اسلامیات اور یم اے عربی کے مساوی قرار دیا ہوا ہے۔سنہ ۱۳۸۰ ھ مطابق ۱۹۶۰ ء میں جامعہ دارلعلوم کراچی سے’’ تخصص فی الافتاء ‘‘کی سند حاصل کی جو پی ایچ ڈی کے برابر ہے۔([4])

سلسلہ اور شجرہ  نسب

محمد رفیع عثمانی بن مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب  بن مولانا یاسین بن خلیفہ تحسین علی  بن میاں جی خیر اللہ بن میاں جی شکر اللہ رحمہم اللہ([5])شجر نسب کے بارے میں  مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ:

’’مجھے اپنے خاندان کا کوئی موثق اور باسند نسب نامہ ہاتھ نہیں آیا کہ جس سے خاندان کے صحیح اور مستند حالات معلوم ہوتے،مگر شریعت نے ان معاملات میں  سند متصل ہونے کی شرط نہیں رکھی،بلکہ بڑے بوڑھوں کی زبان پر عام شہرت کو کافی سمجھا ہے،جس کو فقہاء کی اصطلاح میں ’’تسامح‘‘ کہا جاتا ہے۔میں نے اپنے خاندان کے بزرگوں سے  متواتر یہ بات سنی ہے کہ ہمارا خاندان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کی اولاد میں سے ہے‘‘َ۔([6])

روایاتِ حدیث کی اجازت

مفتی محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ کو روایتِ حدیث کی اجازت مندرجہ ذیل اکابر علمائے کرام سے حاصل ہے، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ علیہ،فضیلۃ الشیخ محمد حسن بن محمد المشاط المکی المالکی رحمتہ اللہ علیہ، مولانا ادریس کاندھلوی قدس سرہ العزیز، مولانا ظفر احمد عثمانی  رحمتہ اللہ علیہ  اور صاحب اعلاء السننشیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب قدس اللہ سرہ العزیز کے آسماء گرامی شامل  ہیں۔

تصوف و سلوک

اِسلامی علوم و فنون کتنے ہی حاصل کرلئے جائیں درحقیقت ان علوم میں صحیح روح و جان اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ان کے ساتھ ساتھ تزکیہ باطن اور صحبت صالح کا حسین امتزاج ہو،یہی تڑپ آپ کو سلوک و طریقت کی منزلیں طے کرنے کے ڈاکٹر عبد الحئی رحمہ اللہ سےفیض صحبت میں لے آئی اور آخر کار بفضلِ خدا عشق و معرفت کی ان پرہیچ راہوں سے گزرتے ہوئے خلعت اجازت و خلافت سے سرفراز ہوئے۔([7])

حضرت مفتی صاحب فارغ التحصیل ہونے کے بعد ۱۳۸۱ھ/۱۹۶۱ء میں دارالعلوم کراچی کے استاذ بنے اور تا حیات مسلم شریف سمیت مختلف النوع کتابوں کی تدریس میں مصروف رہے،۱۳۹۴ھ/۱۹۷۴ء میں دارالعلوم کے نائب مفتی بنے،۱۳۹۵ھ/ ۱۹۷۵ء  ذو القعدہ ۱۳۹۶ھ/ ۱۶ اکتوبر ۱۹۷۶ء میں مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد ڈاکٹر محمد عبد الحئی عارفی رحمہ اللہ (متولی ۱۵ رجب ۱۴۰۶ھ/ مارچ ۱۹۸۶ء) میں دارالعلوم کے صدر بنے اور تا حیات صدر اور مفتی رہے،اس دوران ہزاروں(اندون اور بیرون ملک)  طلبہ نے ان سے پڑھا،استفادہ کیا اور علمی و عملی تربیت حاصل کی۔([8])

اپنی  مستقل جدو جہد کے بعد  ۱۳۹۵ اھ  میں  نائب مفتی کے ساتھ ساتھ دارالعلوم کراچی کے نائب صدر نامزد کئے گئے۔حضرت مفتی صاحب کی وفات کے بعد دارلعلوم کراچی کے اہتمام کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد رہے۔آپ کو مفتی صاحب کا جانشین بجا طور پر کہا جاسکتا ہے۔آپ کی خوش نصیبی ہے کہ آپ کو سفر و حضر میں بکثرت مفتی صاحب اپنے ساتھ رکھتے اور طویل عرصہ تک استفادہ کرنے اور خدمت کرنے کا خوب موقع ملا تھا۔([9])

درس کی خصوصیات

 آپ اپنی قوتِ تفہیم کی بدولت مشکل ترین اور دقیق ترین مباحث کو ایسے آسان اور عام فہم انداز میں بیان کرتے کہ ہر طالب علم بخوبی مستفید ہو جاتا ؛ حلِ کتاب پر خاص توجہ ، غیر ضروری نکات و مباحث سے اجتناب ، صحتِ عبارت و تلفظ پر خصوصی نظر ، متنِ حدیث سے متعلق قدیم و جدید فقہی مسائل اور ان کے پسِ منظر کے ساتھ موجودہ حالات کے تناظر میں مختلف فکری ، سیاسی اور معاشی تحریکات اور جدت پسندانہ نظریات کا ٹھوس ، مدلل اور سنجیدہ علمی انداز میں تجزیہ ، موقع بموقع اپنے مخصوص دلکش انداز میں مختلف علمی و تفریحی نشاط آفریں لطائف سے طلبہ کو محظوظ کرنا آپ کے درس کی خصوصیات ہیں۔([10])

حسنِ خطابت

اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ  کو حسنِ خطابت سے خوب نوازا ہے۔ہر موقع پر پُر اثر اور دلنشین پیرائے میں ہر سطح کے سامع کو بات سمجھانا حضرت کا خصوصی کمال ہے جو اس قحط الرجالی کے دور میں کہیں کہیں نظر آتا ہے۔پھر بزرگوں کی صحبت کی برکت سے لوگوں کی اصلاح کا جذبہ کہ کسی طرح لوگ روحانی طور پر درست ہوجائیں حضرت کے بیانات کا لازمی حصہ ہے۔گویاکہ حضرت کے خطبات و بیانات شریعت و طریقت کا ایک حسین امتزاج ہوتے ہیں۔جن میں عالمانہ تحقیق،فقیہانہ نکتہ وری کے ساتھ ساتھ،ایک بلند پایہ صوفی،مصلح اور مربی کی سوچ بھی جلوہ نما ہوتی ہے۔([11])

آپ کا دورانِ درس ایک قابلِ تقلید عمل

کتاب میں مصنف یا کسی بزرگ کا اسمِ گرامی آتے  تو نہایت احترام کے ساتھ ان کا نام لیتے ، خصوصا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ نامی آنے پر یہ تعظیمی کیفیت مزید بڑھ جاتی ، واضح تلفظ کے ساتھ پورا “صلی اللہ علیہ وسلم” ہر مرتبہ خود پڑھتے اور طلبہ کو بھی صحیح تلفظ کے ساتھ اس کے پڑھنے کی تلقین کرتے اور اس میں فرو گزاشت (بھول چوک) نہیں ہونے دیتے ، اس معاملے میں آپ نہایت حساس اور بے لچک تھے۔([12])

 آپ رحمہ اللہ  طلبہ کرام کو دقیق ترین مباحث سمجھانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔آپ کے  درس کی دس اہم  خصوصیات  ڈاکٹر مولانا اعجاز احمد صمدانی نے آپ کی حیات میں قلم بند کی تھی جن کی تفصیل درجہ ذیل ہیں ۔

۱طلبہ کے ساتھ بھر پور شفقت ومحبت،ان کی سہولت ِ درس کے لئے فکر مندی اور ہر ممکن کوشش۔مگر اُن کی تربیت اور ضروری روک ٹوک سے اغماض نہ برتنا۔

۲)۔درس میں غیر ضروری اختلافی اقوال اور غیر ضروری نکات مباحث کے بیان سے حتیٰ الامکان اجتناب فرماتے ہیں۔حل ِ کتاب پر بھر پور توجہ دیتے ہیں۔

۳)۔صحتِ عبارت و تلفظ پر خصوصی نظر رکھتے ہیں،اس میں بالکل تسامح سے کام نہیں لیتے۔

۴)۔متنِ حدیث سے متعلق قدیم و جدید فقہی مسائل ان کے پس منظر کے ساتھ،موجودہ حالات کے تناظر میں بسط و تفصیل کے ساتھ بیان فرماتے ہیں۔نیز عصرِ حاضر کی مختلف فکری،سیاسی اور معاشی تحریکات ااور جدّت پسندانہ نظریات کا ٹھوس،مدلل اور سنجیدہ علمی انداز میں تجزیہ فرماتے ہیں۔کتاب الایمان اور کتاب البیوع میں یہ خصوصیات نمایاں نظر آتی ہے۔

۵)۔اصلاحِ اعمال سے متعلق کوئی حدیث آجائے تو اس موقع پر نہایت شفقت اور درمندی کے ساتھ طلبہ کو ان کے اخلاق و اعمال کی دُرستگی کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔

۶)۔کتاب میں مصنف کا یا کسی اور بزرگ کا اسمِ گرامی آئے تو نہایت اِحترم کے ساتھ ذکر فرماتے ہیں،اور دعائیہ کلمات کے ساتھ ان کا نام لیتے ہیں ۔ خصوصاً  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ِ نامی آنے پر یہ تعظیمی کیفیت مزید بڑھ جاتی ہے۔واضح تلفظ کے ساتھ پورا’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ہر مرتبہ خود بھی پڑھتے ہیں اور طلبہ کرام کو بھی صحیح تلفظ کے اتھ اس کے پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔اور اس میں فرو گزاشت نہیں ہونے دیتے۔اس معاملے آنجناب نہایت حساس اور بے لچک تھے۔

۷)۔زیرِ بحث مسائل میں ائمہ کا اِختلاف اور ان کے دلائل ضروری حد تک ایسے دلنشین انداز میں ربط اور ترتیب کے ساتھ بیان فرماتے ہیں کہ تمام تر متعلقہ تفاصیل بآسانی یاد ہوجاتی ہیں۔

۸)۔بسا اوقات گزشتہ سبق کی کوئی اہم بات بھی طلبہ سے پوچھ لیتے ہیں ،یاد نہ ہونے پربعض اوقات سرزنش اور تنبیہ بھی فرماتے ہیں۔([13])

چوٹی کے اساتذہ کرام اور ان کے آسماء گرامی

مفتی محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ کے مشہور اور چوٹی کے اساتذہ کرام کے آسماء گرامی   حضرت مولانا احمد لدھیانوی صاحب رحمہ اللہ،حضرت مولانا اکبر علی سہارنپوری صاحب رحمہ اللہ،حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ ،حضرت مولانا قاری رعایت اللہ صاحب رحمہ اللہ،حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمہ اللہ ۔([14])

حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر

حالاتِ حاضرہ پر  آپ گہری نظر رکھتے تھے ملکی اور بین الاقوامی کانفرنس میں آپ رحمہ اللہ کی شرکت ہوتی ہوتی تھی آپ کے بارے فقیہ العصر حضرت مفتی محمود اشرف عثمانی  فرماتے ہیں کہ’’ان کی شخصیت کا ایک چھپا ہوا سیاست اور حالاتِ حاضرہ پر ان کی گہری نظر اور الجھے اجتماعی اور سیاسی معاملات میں ان کی حکیمانہ صائب ِ رائے ہے جس کا مشاہدہ خا ص خاص  لوگوں کو ہوا ہے،اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور اس مملکتِ خداداد پاکستان میں  اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے اُن کی خاموش اور بار آور کوشیشیں بہت کم لوگوں کے علم میں ہیں ۔([15])

عقیدہ ختمِ نبوت کے پاسبان

حضرت والا  عقیدہ ختمِ نبوت کی پاسبانی میں بھی اپنے والد گرامی صحیح جانشین ثابت ہوئے’’علامات قیامت اور نزول مسیح‘‘ کے نام سے دو سو صفحات کی کتاب مرتب فرمائی۔اس میں اپنی کتاب کے تین حصے کئے:

1۔حصّہ اول میں اپنے والد گرامی کے رسالہ مسیح موعود کو اعلیٰ توضیح و عمدہ تشریح کے ساتھ درج کیا،پھر ثابت کیا کہ سیدنا مسیح ابن مریم علیھا السلام کی ایک بھی علامت و نشانی جھوٹے مدعی میسح موعود مرزا قادیانی میں نہیں پائی جاتی،پھر ایک رقابلی نقشہ(جدول) باحوالہ مرتب کیا کہ مسیح علیہ السلام کی جو نشانیاں و علامات قرآن و سنت سے ثابت ہیں جن کی آپ نے ایک سو پچھتر تعداد باحوالہ تحریر فرمائی اور پھر تقابل کرتے ہوئے جدول میں اس صفحہ پر ثابت کیا کہ یہ علامت مرزا قادیانی میں نہ پائی جاتی تھیں،اس تقابل میں آپ نے مرزا قادیانی کو سو فیصد جھوٹا،دجال و کذاب ثابت کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا۔

2۔دوسرے حصہ میں التصریح بما تواتر فی نزول المسیح میں مندرجہ تمام (ایک سو سولہ احادیث نزول مسیح)احادیث کا ترجمہ کردیا اور جگہ جگہ حواشی میں توضیح،تشریح و تطبیق اور قادیانی اعتراضات کے جوابات بھی درج فرماکر سونے پر سہاگہ کردیا۔

3۔تیسرے حصہ میں آپ نے ’’علامات قیامت‘‘ پر ایک وقیع مقالہ شامل کیا،جو بجائے خود ایک وقیع علمی و معلوماتی دستاویز ہے۔تحریک ختم نبوت نامی کتاب میں ہم درج کرچکے ہیں۔کہ جامعہ خیر المدارس ملتان کے جلسہ کے موقع پر مفتی محمد شفیع ہ، محمد علی جالندھری کی دعوت پر مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی دفتر میں تشریف لائے اور یہ کہ مجلس کا رکنیت فارم بھی پُر فرمایا۔زیر قلم تحریر میں اوپر مذکور ہوا کہ مفتی شفیع قادنیت کے تعاقب میں عوامی اجتماعات اور مناظروں میں بھی شرکت فرماتے تھے،ہمارے ممدوح مفتی رفیع عثمانی نے اپنے والد گرامی کے اس محاذ میں بھی جانشینی کا حق ادا کیا کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی سالانہ انٹر نیشنل ختم نبوت کانفرنس سینٹرل جامع مسجد برمنگھم کے اجلاس منعقدہ ۱۶/اگست ۱۹۹۲ء میں نماز ظہر تشریف لائے،خطاب فرمایا جسے بعد میں مکرم جناب عبد الرحمٰن یعقوب باوا کی خواہش پر حضرت مولانا محمد اقبال رنگونی نے کاعذ پر منتقل کیا جو بعد میں ہفت روزہ ختمِ نبوت کراچی میں شائع ہوا۔([16])

برخوردار عزیز مولوی محمد رفیع سلمہ کے علم و عمل اور عمرو عافیت میں ترقیاتِ ظاہرہ و باطنہ عطاء فرمائے کہ انہوں نے برے سلیقے سے رسالہ التصریح کی تمام آحادیث کا نہایت سلیس و ضحیح ترجمہ اور اس کے ساتھ حواشیمیں خاص خاص تشریحات بھی لکھ دیں۔اور ایک کام اور کیا جو اپنی جگہ ایک مستقل خدمت ہے کہ علامتِ قیامت جو رسالہ التصریح میں منتشر طور سےآئی ہیں ان کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ ایک فہرست کی صورت میں جمع کردیا۔جس سے یہ کتاب علاماتِ قیامت کے اہم مباحث کا مرتب مجموعہ ہوگیا۔اور اس رسالہ کے شروع میں علاماتِ قیامت سے متعلق چند اہم مباحث کے مابین ظاہری تعارض کے شبہات کا ازالہ اور علاماتِ قیامت کی تین قسموں پر تقسیمِ علامتِ بعیدہ،متوسطہ اور قریبہ کی تفصیلات کے ضمن میں فتنہ تاتار اور تار حجاز پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا ہے جزاہ اللہ تعالیٰ خیرا الجزاء ووفقہ لما یحب و یرضاہ

اب زیرِ نظر کتاب تین مستقل رسالون کا مجموعہ ہوگئی۔ایک مسیح موعود دوسرا التصریح کی آحادیث کا ترجمہ اور تیسرا علاماتِ قیامت ترتیب و تحقیقی کے ساتھ حق تعالیٰ مقبول و مفید بنادے،وھو المستعان وعلیہ التکلان۔([17])

مفتی اعظم کا خطاب

کراچی(پ ر) عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت پاکستان کے نمائندہ اجلاس میں جمعت علمائے اسلام(ف) جمعیت علمائے اسلام(س) انجمن سپاہ صحابہ،جمعیت اشاعت التوحید،سوادِ اعظم اہلسنت پاکستان۔متحدہ سنی محاذ،سنی مجلسِ عمل اور دیگر مذہبی تنظیموں اور مدارس کے علماء کی طرف سے مفتی اعظم پاکستان مفتی حسن ٹونکی رحمہ اللہ کی علالت کی بناء پر دارالعلوم کراچی کے صدر مہتم مفتی رفیع عثمانی کو’’ مفتی اعظم پاکستان‘‘ کے منصب کے لئے تجویز کیا۔جس کی اجلاس میں چار سو سے زائد علمائے       کرام نے تا۔ئید کی،چنانچہ مفتی رفیع عثمانی’’مفتی اعظم پاکستان‘‘ مقرر ہوئے۔مفتی رفیع عثمانی کے والد مفتی محمد شفیع بھی مفتی اعظم پاکستان تھے،مفتی محمد شفیع ؒ کی رحلت کے بعد مفتی ولی حسن نے مفتی اعظم  پاکستان کا عہدہ سنبھالا تھا۔([18])

فقہ وافتاء میں تربیت اور علمی مقام

مفتی محمد رفیع عثمانی اپنے والد ماجد سے  براہ راست فقہ و فتاویٰ کی تعلیم و تربیت  کی،ساتھ ہی درسِ نظامی کے تین اسباق کی تدریس آپ کے سپرد ہوئی،ایک سالہ’’ تخصص فی الافتاء ‘‘کے اختتام پر آپ نے فقہی مقالہ ’’حقوق مجردہ کی بیع‘‘ کے موضوع پر یہ تحریر فرمایا یہ اس خاص مسلے پر ’’فقہی تاریخ‘‘ کا ہماری معلومات کی حد تک سب سے پہلا قدم تھا۔

نوادر الفقہ میں حضرت رحمہ اللہ کے صرف وہ فتاویٰ ہیں جو وقتاً فوقتاً ماہنامہ البلاغ میں چھپے ہیں یا ملکی و غیر ملکی فقہی سمیناروں کے لئے لکھے گئے تھے جن میں سے بعض اہم شائع ہوچکے ہیں۔ورنہ آپ نے ۱۳۸۰ ھ سے ۱۴۲۰ ء تک جو فتاویٰ خود تحریر فرمائے ہیں اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے دارالافتاء کے رجسڑوں میں محفوظ ہیں۔ان کی تعداد تین ہزار چار سو بیس ہے،انکے علاوہ جو فتاویٰ آپ کی تصدیق سے ۱۴۲۰ ھ تک جاری ہوئے ہیں ان کی  تعداد چار ہزار دو سو اڑسٹھ (۴۲۶۸) ہے۔([19])

مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ نے تخصص فی الافتاء کی نگرانی اور طلبہ تخصص کے لکھے ہوئے فتاویٰ کی تصحیح اور افتاء کا کام تو پہلے ہی آپ کے سپرد فرمادیا تھا۔ربیع الثانی ۱۳۹۳ھ میں آپکو دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کا باقاعدہ نائب مفتی مقرر فرمادیا تھا۔آپ کے علاوہ یہ ذمہ داری حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری صاحب رحمتہ اللہ کے بھی سپرد تھی ۔آپ دونون حضرات حضرت اقدس مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ کی زیرِ سرپرستی یہ خدمت انجام دیتے تھے۔پھر شوال ۱۳۹۵میں مولانا عاشق الہی بلند شہری صاحب قدس سرہ مکہ مکرمہ اور وہاں سے مدینہ منورہ ہجرت فرما ہوگئی تو نیابت فتویٰ کی خدمت بڑی حد تک آپ ہی سے متعلق ہوگئی ۔پھر حضرت اقدس مفی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے اپنی وفات سے تقریباً ۹ ماہ قبل آپ کو اور آپ کے بھائی محمد تقی عثمانی کو جامعہ دارالعلوم کراچی کا باقاعدہ مفتی مقرر فرمادیا۔اس سارے عرصے کے دوران مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ سے فقہی استفاہ کا خوب خوب موقع ملا۔آپ کے تحریر کردہ اکثر فتاویٰ ان کی نظر گزرتے اور ان کی تصدیقی دستخط کے بعد جاری ہوتے تھے۔آپ کی اس فقہی تربیت و بصیرت سےآج تک آپ کے تلامذہ اہلِ علم اور طلبہ تخصص بھر پور فائدہ اٹھارہے ہیں۔آپ کی فقہی بصیرت کا اظہار مختلف مواقع پر ہوتا رہا۔

آپ رحمہ اللہ کی مجلس میں شرکت کے برکات

آپ کی مجالس میں شرکت کرنے سے دنیا کی محبت مغلوب اور آخرت کی فکر پیدا ہونے لگتی تھی،دنیا سے دل سرد ہونے لگتا تھا،اصلاح ظاہرہ و باطن کا داعیہ قوت پکڑتا تھا،فرائض و واجبات کی ادائیگی اور گناہوں کو چھوڑنے کے خصوصی اہتمام کی توفیق ہونے لگتی تھی۔([20])

مناصب اور فرائض

صدرِ جامعہ دارلعلوم کراچی۔صدر مجلسِ منتظمہ برائے جامعہ دارالعلوم کراچی۔رکن مجلسِ عاملہ،وفاق المدارس العربیہ پاکستان۔ نائب صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان(۱۴ محرم ۱۴۳۹ھ)رکن مجلسِ شوریٰ۔مجلس صیانۃ المسلمین،لاہور۔صدر دارالعلوم جامع مسجد بیت المکرّم ومدرسہ ٹرسٹ گلشنِ اقبال کراچی۔ملک وبیرون ملک کے متعدّد علمی ودینی اِداروں کی باضابطہ سرپرستی۔رابطۃ العالم الاسلامی مکہ مکرمہ کی قائم کردہ الھیئۃ العالمیۃ للعلماء المسلمین کی رکنیت۔اس عظیم ادارے میں دنیا بھر کے بہت ہی خاص خاص ممتاز علماء کرام کو لیا گیا ہے،پاکستان سے آپ ہی کی ذاتِ گرامی کا انتخاب ہوا تھا۔

دینی فہم و دانش،اعلیٰ علمی ذوق،لاجواب وسعتِ نظری اور باریک بینی آپ کا طرہ  امتیاز رہے،یہی وجہ  تھی کہ سترہ اپریل ۱۹۹۲ء کو اکابر علماء کی موجودگی میں آپ کو مفتی اعظم پاکستان کا لقب دیا گیا،اس کے علاوہ  مجلسِ عاملہ،مجلس شورہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی رکنیت کے ساتھ ۱۴۳۸ھ میں  نائب صدر وفاق المدارس العربیہ کے عہدہ کے لئے بھی منتخب ہوگئے تھے۔([21])

ترکِ وطن کے اسباب اور مشکل مسائل

مفتی اعظم پاکستان فرماتے ہیں کہ ’’پاکستان میں سب سے پہلا جشن آزادی منایا جانے والا تھا،اس میں شرکت کے لئے دیوبند سے شیخ الاسلام علامہ عثمانی سے اور حضرت والد صاحب کو بھی مدعو کیا گیا،لیکن حضرت والد صاحب شدید علالت کے باعث سفر نہ کرسکے۔حضرت شیخ الاسلام کراچی تشریف لائے اور قائد اعظم کی خواہش پر اس تقریب میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم آپ ہی نے اپنے دستِ مبارک سے بلند فرمایا۔

مفتی محمد رفیع عثمانی   رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں کہ’’ قیام پاکستان مسلمانوں کی جدو جہد کا پہلا مرحلہ تھا،جس میں اللہ تعالیٰ نے انہیں خصوصی نصرت و حمایت سے نوازا تھا۔اب دوسرا مرحلہ یہاں اسلامی نظامِ حیات قائم کرنے کا تھا،جو والد صاحب کی نظر میں پہلے سے صبر آزما اور کھٹن مرحلہ تھا۔اس میدان میں جدو جہد کے لئے حضرت والد صاحب جلد از جلد پاکستان آنا چاہتے تھے،مگر قیام پاکستان کے فوراً بعد ہندوؤں کی سوچی سمجھی اسکیم کے مطابق دہلی،مشرقی پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کا قتلِ عام شروع ہوگیا،تمام راستے مسدود تھے۔کچھ طبعی اور خانگی ۔

اسلامی قانون اور عدالتی نظام کے لیے گراں قدر خدمات

مجموعہ ضابطہ دیوانی کی اصلاح کے لیےاسلامی نظریاتی کونسل میں آپ نے ملک کے عدالتی نظام کو تیز رفتار،زیادہ فعّال اور زیادہ منصفانہ بنانے کے لیے ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے کہ کونسل کی قائم کردہ کمیٹی برائے جائزہ ’’مجموعہ ضابطہ دیوانی،۱۹۰۸ء‘‘ کے کنوینئر رہے،اس کمیٹی میں مختلف مکاتبِ فکر کے جید علماء کرام کے علاوہ سپریم کورٹ کے رکن،اور ریٹائرڈ جج صاحبان جیسے ماہرینِ قانون اور اسلامی عدالتوں کے تجربہ کار قاضی صاحبان بھی شامل تھے۔اس کمیٹی نے تقریباً سوا سال تک نہایت جانفشانی سے مختلف نظامہائے عدالت کا دقیق جائزہ لیا۔اس اہم مشن کے لیے ارکانِ کمیٹی کو ساتھ لے کر آپ نے سفر بھی کیا،اور پاکستان کے مجموعہ ضابطہ دیوانی ۱۹۰۸ٍء کے ایک ایک لفظ کا باریک بینی سے تنقیدی جائزہ لے کر ایسی ٹھوس تجاویز مرتب کیں کہ اُن پر عمل کیا جائے تو دیوانی مقدمات کی سست روی تقریباً ختم ہوسکتی ہے،حقدار کو حق ممکن حد تک آسانی سے مل سکتا ہے،ان تجاویز سے وہ چور دروازے بھی بند ہوجائیں گے جو انگریز حکومت نے خاص خاص مراعات یافتہ طبقوں کے لیے اپنے سرکاری و سیاسی مقاصد کی خاطر کھولے تھے،اور آج تک کھلے چلے آرہے ہیں۔یہ ضابطہ دیوانی اپنی سست روی پچیدگی،فریقین پر عائد ہونے والے بےجامصارف کے باعث اور حالات و زمانہ کی تبدیلی سے اس کی بہت سی دفعات کے فرسودہ ہوجانے کے باعث اس دور میں تقریباً غیر مؤثر ہوکر رگیا ہے۔.

نظامِ تعلیم کے لیے

قومی نظامِ تعلیم کو ایسے اسلامی خطوط پر اِستوار کرنا جو ایک آزاد و کود مختار ترقہ پزیر اسلامی ملک کے شایانِ شان ہو،اور جدید ترین علوم و فنون میں بھی دوسری اقوامِ عالم کی طرح بلکہ اُن سے بھی زیادہ بڑھ کر نئی نسل کو تیار کرسکے،وقت کی اہم ضرورت تھی،اس غرض سے نظام و نصاب میں مؤثر تبدیلیوں اور ضروری ترمیمات کے لیے آپ متعدّد اہم سرکاری و غیر سرکاری کمیشنوں،یونیورسٹیوں،کمیٹیوں،بورڈوں اور اِداروں کے رُکن رہے اور وہاں متعلقہ علوم و فنون کے تجربہ کار ماہرین کے ساتھ مل کر اپنی تمام تر علمی،فکری اور ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے مدبرانہ کردار ادا کیا۔

معیشت و اقتصاد کے میدان میں

سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنے آخری ایامِ حیات میں ایک مستقل اِقتصادی کمیشن تقریباً ۱۵ ارکان پر مشتمل بنایا تھا، اس کمیشن میں صرف ایک عالمِ دین کو رکنیت دی گئی تھی،اور وہ آپ کی شخصیت تھی۔حضرت رحمۃ اللہ اس کمیشن کے ایک اہم رُکن رہے اور ٹھوس علمی و تحقیقی کام کیا۔جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کی شہادت کے بعد آنے والی حکومت نے یہ کمیشن ختم کردیا،لیکن جو عظیم علمی کام اس کمیشن کے ذریعے حضرت رحمہ اللہ نے انجام دیا تھا،وہ اہم علمی دستاویز ہے،اور سرکاری ریکارڈ میں محفوظ ہے۔([22])

اصول و قوانین کی پاسداری

قانون کی بالادستی کا تحفظ اور اُصول کی پاسداری آپ کی طبیعتِ ثانیہ بن چکی تھی،اُصولوں پر سمجھوتے کے آپ بالکل قائل نہ تھے۔قانون کی خلاف ورزی آپ کی نظر میں سنگین کرم تھی۔آپ کے زیرِ تربیت افراد میں کوئی اگر جامعہ کے قواعد و اُصول کے خلاف سرگرمیوں میں کئی بار تنبیہ کے کے باجود مبتلا پایا گیا تو آپ اس کو معاہدہ ملازمت کی پوری پابندی کرتے ہوئے جامعہ سے لاتعلق کرنے میں کسی لیت و لعل اور پس و پیش سے کام نہیں لیتے،آپ جامعہ میں ایسی کسی بھی سرگرمی اور مشغولیت کی قطعاً اجازت نہیں دیتے تھے جو شریعت و قانون کے منافی ہو۔([23])

علمی و دینی حلقوں کے سرخیل تھے

حضرت صدر صاحب رحمہ اللہ علمی و دینی حلقوں کے سرخیل اور امت مسلمہ کا قیمتی اثاثہ تھے،اپنی سیرت و سلوک سے ہر ایک کے لیے شفقت بھری ٹھنڈی اور راحت بخش چھاؤں تھے،علم و دانش،ورع و تقویٰ،علمی اور انتظامی معاملات میں ان کی دور اندیشی،دقیقہ رسی،تعلیمی اور تعمیری منصوبہ جات میں ان کی بلند حوصلگی،پہاڑ کی طرح راہ حق میں ان کی استقامت اور نظم وضبط میں ان کی بالغ نظری اور ان کے وہ منفرد اور نمایاں اوصاف تھے کہ جن کی خوش بو کی مہک سے ہر ایک سرشار ہوجاتا تھا،تعلیم و تدریس،تصنیف و تالیف اور نظم و ضبط کے علاوہ وہ میدانِ خطابت کے بھی شہہ سوار تھے،اپنے پرسوز،مؤثر اور بلیغ اسلوب بیان سے حاضرین کے دلوں میں راہ نکالتے تھے،وہ بصیرت و فراست سے سرشار،دیدہ ور اور نبض شناس شیخ طریقت بھی تھے۔جو اپنے متوسلین کی اصلاح و تربیت کے لیے اصلاح اعمال و اخلاق کے تیر بہدف ایمانی نسخہ جات تجویز کرتے تھے۔([24])

حضرت اعظم  رحمہ اللہ کی ایک بہت ہی اعلیٰ خوبی یہ تھی کہ وہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے تمام اساتذہ،عملے اور ما تحتوں کی حتی الامکان خیر خبر رکھتے تھے۔ان کی تنخواہوں کا معیار ہمیشہ بہتر رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔جب تک صحت نے ساتھ دیا،بیماروں کی عیادت اور خوشی و غمی میں شریک رہنے کی روایت نبھاتے رہے۔حضرت جدید حالات و مسائل سے بخوبی واقف تھے اور طلبہ کو عہدِ حاضر کے تمام تقاضوں اور ضروریات سے نبرد آزمائی سے تیار کرنے کے لیے فکر مند رہتے تھے۔

حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کے بیانات سننے کا بارہا موقع ملا۔حضرت کی آواز میں ایک گونج اور قوت تھی۔الفاظ کا تلفظ نہایت واضح اور صاف ہوتا تھا۔اگر کہا جائے کہ صحیح اردو تلفظ سیکھنے کے لیے حضرت صدر صاحبؒ ایک معیار تھے تو غلط نہ ہوگا۔ان کی گفتگو میں سلیقے،حسنِ ترتیب،مضمون کے ربط و ضبط،علم کی گہرائی کا ایک عجیب عالم ہوتا تھاجس کی مثال اس دور کے علماء میں بہت کم ملے گی۔([25])

مفتی محمد رفیع عثمانی بیش بہا خدمات ہم سب کے لیے سرمایہ ہیں ۔ان کی زندگی سے سیکھنے کے بڑے بڑے اسباق ہیں؛وہ سب کے لیے خیر خواہ تھے اور سب کے لیے یکسان تھے۔وہ باوجود بہت مصروفیات کے اپنی ساری ذمہ داریاں احسن طریقت سے پوری کرتے تھے۔وہ ہمہ جہت شخصیت تھے،ہر شخص ان کی خداداد قابلیت اور صلاحیتوں کا معترف ہے، وہ ان لوگوں میں سے تھے کہ جنہوں نے اپنی محنت،علم اور ذہانت کے بل بوتے پر زندگی میں کامیاں حاصل کیں۔انہوں نے نئی نسل کو بھی مہد مسلسل اور تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی۔([26])

حضرت کی  رحلت سے  علمی دنیا کے علاوہ پاکستان کا بھی غیر معمولی نقصان ہے۔وہ تحریک ِ پاکستان کے بانی رکن،ابتدائی معمار اور پاکستان کی مضبوط و توانا حامی آواز تھے۔کئی اجلاسوں میں  انہیں پاکستان کے وزراء اعظم اور افسران کو حب الوطنی کا درس دیتے سنا۔یہ عاشق و محسنِ پاکستان کی رحلت ہے۔مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت ہر دیندار شخص کے لئے ایک سنگ میل اور نشانِ منزل کی حیثیت رکھتے تھے۔([27]) وہ دور دیہاتوں سے آئے طالب علموں کو تراش کر زمانہ شناس بنانے کا فن جانتے تھے۔انسانی تعمیر کے فن سے مالامال صدر صاحب دارالعلوم کراچی کی پُر شکوہ عمارتوں میں اندلس کا سحر،قرطبہ کی خوشنمائی،الحمراء کی باریکیاں، تاج محل کی نزاکت،آیا صوفیا کی یکتائی اور اہرام کی سحرکاریاں جھلک رہی ہیں‘‘([28])

حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کو جس طرح دارلعلوم اور اس کے اساتذہ کرام وطلبہ عظام سے محبت تھی اسی طرح وطنِ عزیز پاکستان بھی ان کی محبتوں اور دعا ہائے نیم شبی کا مرکز و محور تھا وہ پاکستان کو اپنے اکابر کی عظیم امانت اور مساعی کا ثمر سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت و ترقی کو جزوایمان سمجھتے تھے،۱۴/ اگست کی تقریب میں اہتمام کے ساتھ شرکت فرماتے۔حتیٰ کہ اپنی آخری شدید علالت کے باوجود اس سال ۱۴/اگست ۲۰۲۲ء کو بھی دارالعلوم میں منعقدہ تقریب میں شرکت فرمائی۔

حضرت مفتی اعظم مولانا مفتی محمد شفیع قدس سرہ کی وفات کے بعد حضرت صدر صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے ملتِ اسلامیہ کے لئے جو علمی،اصلاحی،تعلیمی،تحقیقی،تفسیری اور فقہی خدمات سے انجام دیں اس کے لئے پوری امتِ مسلمہ ان کی احسان مند ہے۔([29])

حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ کا حادثہ وفات ایک عظیم حادثہ ہے جو صحیح معنیٰ میں ’’موت العالمِ موت العَالم‘‘ اور وما کان قیس ھلکہ واحدولکنہ بنیان قوم تھدما کا مصداق ہے مفتی اعظم پاکستان  کو رب تعالیٰ  نے علم و عمل کی جامعیت کے ساتھ انہیں غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں اور حسن نظم کی خوبی سے حظ و وافر عطاء فرمایا تھا،ان کا حسن نظم،عمدہ اور نفیس ذوق دارلعلوم کے ہر شعبہ سے واضح ہے،حضرت نے تمام عمر درس و تدریس،افتاء،تصنیف و تالیف کی کامیاب اور مفید خدمات سرانجام دیں،  اور ساٹھ سال کا طویل عرصہ جامعہ دارالعلوم کراچی کو پروان چڑھانے میں صرف کیا اور اسے بین الاقوامی ادارہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔([30])

طلبہ کرام سے محبت کی مثالیں

مثال:۱

ایک مرتبہ امتحانات کے بعد تعطیلات کا سلسلہ شروع ہوگیا تو چند طلبہ گھر کی طرف روانہ ہورہے تھے،تک یہ پیغام پہنچا کہ استاذ جی حضرت صدر صاحبؒ اُن سے کچھ دیر ٹھہرنے کا فرمارہے ہیں۔طلباء تذبذب کے عالم میں سڑک کے کنارے انتظار کے عالم میں کھڑے ہوگئے،کچھ دیر بعد مفتی صاحب کھلکھلاتے چہرے اور متبسم انداز میں طلباء کے پاس وہیں روڈ پر تشریف لائے اور نہایت چاؤ کے ساتھ فرمایا کہ’’ہم سے ملکر نہیں جاؤ گے کیا؟یہ مٹھاس سے لبریز الفاظ نہ صرف اُن کی طلباء سے محبت کا پتہ دے رہے ہیں بلکہ ساتھ ہی میں اُن کے اس عمل سے خالص تواضع اور انکساری بھی واضح طور پر جھلک رہی ہے کہ کس طرح ایک عظیم عالمی شخصیت ہونے کے باوجود محض طلباء سے ملنے کے واسطے سڑک کے کنارے تک تشریف لے آئے۔([31])

مثال:۲

ایک اور واقعہ جو اُن کی طلبا کے معاملے میں رعایت رکھنے سے متعلق ہے۔یہ واقعہ جامعہ دارلعلوم کراچی کے حجام سے سے روایت ہے کہ ایک حضرت انہیں حضرت رحمہ اللہ کا ففون موصول ہوا اور دریافت فرمانے لگے کہ طلبہ کے بال کاٹتے وقت جو پانی استعمال کیا جاتا ہے وہ گرم ہوتا ہے یا سرد؟جواب میں حجام نے کہا کہ چونکہ گرم پانی کا انتظام کرنا مشکل ہے لہذا سرد پانی سے ہی طلباء کی ضرورت پوری کی جاتی ہے۔یہ سنتے ہی حضرت نے ان سے فرمایا کہ فوراًٍ میرے پاس آئیے اور پھر رقم اُن کے حوالے کی تاکہ اس سے طلباء کے لئے گرم پانی کا بندوبست کیا جاسکے۔اب دیکھا جائے تو بال کٹوانے وقت اگرچہ چند قطرے ہی پانی کے استعمال کئے جاتے ہیں مگر اس موقع پر بھی آپ کو طلباء کی رعایت کا خصوصی خیال تھا اور ان کے لئے زرا دیر کے لئے بھی کوئی تکلیف برداشت نہ کرسکتے تھے۔اسی طرح بسا اوقات دارالعلوم میں تعطیلات کے موقع پر ایک جمہ ارشاد فرماتے کہ ’’بیٹا! آپ طلباء کے بغیر دارالعلوم ویران سا لگتا ہے‘‘۔ یہ جملہ دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ایک والد کو جو تعلق اپنی اولاد سے ہوتا ہے اس سے بڑھ کر وہ اپنے شاگردوں کو چاہتے تھے اور انہیں اولاد کی طرح کی طرح عزیز رکھتے تھے۔([32])

مثال: ۳

ایک دن دورانِ درس آپ نے دیکھا کہ میں اپنے سر کو دبا رہا ہوں اور چہرے پر بھی کرب اور اضطراب کے آچار ہیں۔آپ دورانِ درس خاموش رہے۔درس کے بعد مجھے اپنے قریب آنے کا  اشارہ فرمایا۔میں قریب ہوا تو ارشاد فرمایا۔’’آج دوروس سے فراغت کے بعد میرے دفتر آجائیں‘‘ پڑھائی کے بعد  جب آپ کے سامنے ضاضری ہوئی  آپ نے دل آویز مسکراہٹ سے مجھے دیکھا اور فرمایا کہ آپ کو دورانِ درس دیکھتا رہا،آپ بار بار اپنے سر کو دبارہے تھے۔کیا وجہ ہے؟میں نے عرض کی کہ دو دن سے دردِ سر کا عارضہ ہے۔دوا وغیرہ لینے کے بوجود کمی نہیں آرہی اور آج تو زیادہ ہی درد ہورہا ہے۔آپ نے میری بات غورو انہماک سے سنی اور کچھ سوچنے کے بعد قاصد کو بلاکر کہا کہ باورچی فضل الرحمن صاحب اور ناظمِ مطبخ کو لے آئیں۔ وہ دونوں حضرات فوراً حاضر ہوگئے۔ؤپ نے دونوں حضرات سے مخاطب ہوکر فرمایا’’مولوی شیخ رحیم الدین صاحب کے سر میں  درد رہنے لگا ہے دوائی وغیرہ سے آرام نہیں آرہا۔میرا خیال ہے کہ ان کو ایک ماہ تک روزانہ ایک بکرے کا بھیجا دو پہر کے کھانے میں استعمال کرنا چاہئےاس سے انشاء اللہ افاقہ ہوگا۔آپ حجرات ان کے ذوق کے مطابق اس کا انتطام کریں‘‘۔دونوں حضرات نے حکم کے مطابق ایک ماہ تک دوپہر کے کھانے میں مجھے ایک بکرے کا بھیجا کھلایا،جس سے درد میں بہت ہی افاقہ ہوا۔

دارالعلوم کراچی کے قدیم اساتذہ کرام اور نچلے درجے کے کارکنان کی ضروریات غوروخوض کرتے تھے، اور طرح طرح سے ان کی دل جوئی،غم خواری اور سرپرستی فرماتے رہتے۔اس کی ایک شاندار مثال یہ ہے کہ آپ نے ان میں سے اکثر کے لئے جو اپنا مکان نہیں بنواسکتے تھے اس انداز سے مکان بنوادیا ک خود ان کو اس بات کا علم جب ہوا ،جب انہیں مکان کی چابیاں دی گئیں۔یہ جملہ کاروائی اس قدر راز داری سے کی گئی کسی دوسرے کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔جن حضرات کو مکان دئے گئے آپ نے خود ان میں سے اکثر کے گھر جاکر مبارک باد بھی دی۔میری اس بات کے گواہ حضرت مولانا کے فرزندِ رشید مولانا مفتی زبیر حفظہ اللہ ہیں۔([33]) 

خلاصہ بحث

اسلامی تاریخ کا کوئی قرن،کوئی دور اور کوئی عہد علمائے ربانی اور رجالِ حقانی سے خالی نہیں گزرا ،ہر دور اور ہر عہد میں اسلامی علوم و فنون کے نابغہ روز گار،اساطینِ علم و ادب،کبار علماء  اور رجالِ علم موجود رہے ہیں جنہوں نے آفتاب و ماہتاب بن کر ظلمت اور تاریکی میں امت کو راہ حق پر گامزن کیا اور صراطِ مستقیم پر ڈالا۔ اس اعتبار سے  مفتی محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ  ہم سب کے لیے رول ماڈل ہیں۔مفتی صاحب رحمہ اللہ کا یہ خلا کھبی پُر نہیں ہوگا اور اس کا دکھ ہر ذی شعور محسوس کرے گا۔کیونکہ حضرت رحمہ اللہ   کا حادثہ وفات ایک عظیم حادثہ ہے جو صحیح معنیٰ میں ’’موت العالمِ موت العَالم‘‘ اور وما کان قیس ھلکہ واحدولکنہ بنیان قوم تھدما کا مصداق ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں اور حسن نظم کی خوبی سے حظ و وافر عطاء فرمایا تھا،ان کا حسن نظم،عمدہ اور نفیس ذوق دارالعلوم کے ہر شعبہ سے واضح ہے،حضرت نے تمام عمر درس و تدریس،افتاء،تصنیف و تالیف کی کامیاب اور مفید خدمات سرانجام دیں، اور ساٹھ سال کا طویل عرصہ جامعہ دارالعلوم کراچی کو پروان چڑھانے میں صرف کیا اور اسے بین الاقوامی ادارہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،اللہ سبحانہ و تعالیٰ حضرت مفتی صاحب کے درجات بلند فرمائے ۔

[1] ۔ یادیں اور باتیں،گہوارہ علم و عمل،(شرکاء دورہ حدیث)،جامعہ دارالعلوم کراچی، ،فلک پرنٹنگ پریس  ناظم آباد کراچی،ص ۴۱

[2] ۔ محمد صدیق ارکانی،ماہنامہ الحق،بعنوان:مفتی اعظم محمد رفیع ؒ کی یاد میں،منظورعام  پریس پشاور،۱۴۴۴ھ۲۰۲۲،ص،۱۹

[3] ۔محمد اعجاز، مصطفیٰ،بیّنات،مصطفی شفیق پرنٹنگ پریس، ۱۴۴۴ھ ۴،۲۰۲۲ءص۸۶

[4] ۔ نوادر الفقہ،مفتی محمد رفیع عثمانی،تعارف بقلم: مفتی عصمت اللہ۲۰۰۳ء  ۱۴۲۴ھ مکتبہ دارالعلوم کراچی،ص ۱۲

[5] ۔ شرکائے دورہ حدیث، گلشنِ شفیع اور یادوں کے جھروکے،بعنوان: شفقتوں کا پیکر،القادر پریس پرنٹنگ کراچی،۱۴۲۹ھ ۲۰۰۸ء،ص ۶۴

[6] ۔ میرے والد ماجد  اور ان کے مجرب عملیات،مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ،ادارۃ المعارف کراچی،۱۴۲۴ھ 2005ءص،۱۲

[7] ۔ مادرِ علمی جامعہ دارلعلوم کراچی کی حسیں یادیں،شرکاء دورہ حدیث،۱۴۲۲ ھ ۲۰۰۱ء ابراء کمیوزنگ سبٹر،برمی کالونی،بالمقابل دارلعلوم کراچی،ص۴۸

[8] ۔ محمد صدیق ارکانی،ماہنامہ الحق ،منظور عام پریس پشاور،دسمبر ۲۰۲۲ءص ۲۳

[9] ۔ مدثر احمد ،مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ حیات و خدمات،رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد،۲۰۲۰ء ص ۱۲۷

[10] ۔ عزیز الرحمن ابنِ مفتی کلیم،اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ

[11] ۔ اصلاحی تقریریں، بیت العلوم انار کلی لاہور (س ن)محمد ناظم اشرف،ج۱ ص ۵

[12] ۔ حوالہ سابقہ

[13] ۔ درسِ بخاری،مفتی محمد رفیع عثمانی ،ابتدائیہ حضرت صاحبِ درس کے مختصر حالاتِ زندگی ،بقلم: ڈاکٹر مولانا اعجاز احمد صمدانی،ادارۃ المعارف کراچی،۱۴۴۰ھ ۲۰۱۹ء ص،۲۷۔۲۸

[14] ۔ حدیقۃ الشفیع ل و ذکریاتھاالعاطرۃ۱۴۳۱ھ ۲۰۱۰ء ص،۸۷

[15] ۔ مفتی محمد رفیع عثمانی،نوادر الفقہ،مکتبہ دارالعلوم کراچی،۱۴۲۴ھ۲۰۰۳ء  ص ۱۱

[16] ۔ مولانا اللہ وسایا،ہفت روزہ ختمِ نبوت، بعنوان:حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی رحمتہ اللہ علیہ اور تحفظ ختم نبوت،۱۴۴۴ھ چ     0۲۰0۳ء ص ۳۸

[17] ۔ مفتی محمد رفیع عثمانی، علاماتِ قیامت اور نزولِ مسیح،مکتبہ دارالعلوم کراچی ۱۴۲۹ھ ۲۰۰۸ء

[18] ۔ روز نامہ جنگ کراچی، انی خلیل الرحمن ،۱۳ شوال المکرم ۱۴۱۲ھ ۱۹۹۲ ء نمبر ۱۰۴

[19] ۔ نوادر الفقہ ص ۱۱ مکتبہ دارالعلوم کراچی ۱۴۲۴ھ ۲۰۰۳ء

[20] ۔ عدنان ضمیر مرزا،خطباتِ عثمانی، ادارۃ المعارف کراچی، ۱،۱۴۳۲ھ۲۰۱۱ء ج۱، ص ۱۸

[21] ۔ مشرکائے دورہ حدیث،مادر ِ علمی کی خوشگوار یادیں،۱۴۳۹ھ  ص ۲۴

[22] ۔ مفتی محمد رفیع عثمانی،درسِ مسلم، حضرت صاحبِ درس کے مختصر حالات بقلم ڈاکٹر اعجاز احمد صمدانی،ج۱،ص ۴۴

[23] ۔ ایضا، ص ۵۵

[24] ۔ ماہنامہ الفاروق ملک و ملت کا اندوہ نال سانحہ۔مولانا عزیز الرحمٰن۱۴۴۴ھ ص،۳۵

[25] ۔ ماہنامہ البلاغ،حضرت صدر صاحب! ایک عہد رخصت ہوگیا،مولانا اسماعیل ریحان،۲۰۲۳ء ،ص ۳۹

[26] ۔حوالہ سابقہ

[27] ۔ ماہنامہ البلاغ دارالعلوم کراچی مفتی اعظم پاکستان کی رحلت۔لقمان ہزاروی ،ص ۴۱۔۴۱۔۱۴۴۴ھ ۲۰۲۳ء

[28] ۔ ایضاً

[29] ۔ ماہنامہ الخیر مُلتان پاکستان جمادی الاولیٰ ۱۴۴۴ح دسمبر ۲۰۲۲ءناشر محمد حنیف جالندھری،کلمۃ الخیر محمد ازہر،ص،۵

[30] ۔ ماہنامہ الحقانیہ ص ۷ حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ کی رحلت۔۲۲۲۲ء حقانیہ ساہیوال سرگودھا جمادی الاولیٰ ۱۴۴۴ھ

[31] ۔ ماہنامہ نقیبِ ختم نبوت ملتان۔فروری سن ۲۰۲۳ء ص ۱۲

[32] ۔ ایضاً ص ۱۲

[33] ۔ ماہنامہ البلاغ، مولانا شیخ رحیم الدین،بعنوان آہ مفتی اعظم!۱۴۴۴ھ ص ۳۵

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی