بابائے تاریخ ہیرو ڈوٹس کا قبل مسیح کا سفر نامہ
شیر ولی خان اسیر
جب اس کتاب کا اشتہار پڑھا تو جٹ سے آرڈر کر دیا۔ کتاب پہنچ گئی تو کتاب کے حجم اور قیمت میں بڑا سا فرق نظر آیا۔ کتاب پتلی اور قیمت موٹی۔اگرچہ علمی ذخیرے کی کوئی قیمت لگائی نہیں جا سکتی تاہم ملک میں گنتی کے چند افراد ہی کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا جنون پالتے ہیں ان کی مفلک الحال جیبیں خالی کرنا کوئی انصاف نہیں۔ ہو سکے تو ڈاکٹر فیضی، مشتاق حسین بخاری، پروفیسر ممتاز اور اس قبیل کے سینکڑوں دوسرے عاشقانِ کتب کو مفت کی کتابیں بھیجی جائیں۔
کتاب بیچنے والوں کا دھوکا
خیر ایک سو تئیس صفحات کی کتاب کی قیمت 700 روپے نہیں ہو سکتی۔ اس لیے میں نے کتاب کے شروع میں متعلقہ صفحے میں قیمت کا اندراج دیکھا تو جگہہ خالی تھی۔ غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ قیمت مٹائی گئی تھی۔ کھرچ کر مٹائی گئی تھی۔ اس قسم کی حرکتیں عام دکانداروں سے بعید نہیں البتہ کتاب بیچنے والوں کو ہر گز زیب نہیں دیتا کہ وہ مصنف، پبلشر اور خریدار کے ساتھ دھوکہ کرے۔
ہیروڈوٹس بابائے تاریخ کے لقب سے ملقب ہیں جسے Cicero نے اسے دیا تھا۔ لہٰذا اسے پڑھنے کا شوق عہد قدیم کو کھوجنے کی آرزو رکھنے والوں کے لیے انہونی بات نہیں ہے۔ کتاب کا اردو ترجمہ شیخ ریاض احمد نے اور اشاعت بک فورڈ لاہور نے کیا ہے۔ کتابت کی غلطیوں کی بھر مار ہے۔
پانچ سو قبل مسیح کے وسط میں لکھی گئی کتاب
پانج سو قبل مسیح کے وسط میں لکھی گئی یہ کتاب ہیروڈوٹس کی سیاحت کی روداد ہے جس میں جغرافیہ اور انسانوں اور ان کی ثقافت کی جزیات تک کا بیان ہے۔ ہیروڈوٹس اناطولیہ کے علاقہ ہیلیکرناسس کا باشندہ تھا جہاں سے حکمران وقت کے خلاف بغاوت کی پاداش میں اس کے خاندان کو ملک بدر کیا گیا تھا۔ اس ملک بدری کے دوران اس نے مصر، بابل، لیبیا، ایران، ہندوستان اور عرب ممالک کا دورہ کیا۔ جو کچھ اس کے مشاہدے میں آیا اور جو کہانیاں مقامی باشندوں سے سنیں ان کا تذکرہ کیا ہے جس میں بہت سارے واقعات عقل سلیم کے خلاف ہیں۔
مصر ،یونان اور چترال کی ثقافت میں مماثلت
مصر والوں کی تہذیب و تمدن کے تذکرے میں اس نے لکھا ہے کہ مصریوں میں بڑوں کا احترام یونانیوں سے مشابہ ہے۔ گلی کوچوں میں جوانوں کا بزرگوں سے آمنا سامنا ہوتا ہے تو وہ ایک طرف ہٹ کر ان کو راستہ دیتے ہیں۔ جب وہ باہر سے گھر کے اندر داخل ہوتے ہیں تو اپنی نشست سےاٹھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ آپس میں ملتے ہوئے نام سے نہیں پکارتے بلکہ جھک کر ایک ہاتھ گھٹنے تک لے جاتے ہیں۔ ان کا لباس پیٹی والے بڑے چغے پر مشتمل ہوتا ہے ۔ گویا قدیم یونانیوں اور اہل مصر اور اہل چترال کی ثقافتوں میں مماثلت تھی۔ بزرگوں کا احترام کرنا، پکارتے یا مخاطب ہوتے وقت ایک دوسرے کا نام نہ لینا (اہل چترال ایک دوسرے کو نام سے پکارنا، خاص کرکے بڑوں کو، اچھا نہیں سمجھتے۔ اس کے بجائے رشتوں کے ناموں سے پکارتے ہیں) اور لمبا چغہ کھو ثقافت کی خوبصورت خصوصیات ہیں۔
قبل مسیح میں مصر میں ہر بیماری کے لئے الگ ڈاکٹر موجود تھا
مصر والوں کی طبی میدان میں ترقی بھی حیران کن تھی۔ ہیروڈوٹس کے مطابق مصر میں ہر بیماری کے لیے الگ ڈاکٹر موجود تھا۔ پاکستان کے دیہاتیوں کو ڈھائی ہزار سال بعد بھی یہ سہولت میسر نہیں ہے۔
ہندوستان میں لومڑی کی جسامت کی چیونٹیوں کا ذکر
ہندوستان کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہاں ایک پدائی نام کا خانہ بدوشوں کا قبیلہ ہے جو کچا گوشت کھاتے ہیں۔ ان میں جو بیمار پڑ جائے اس کے قریبی ساتھی اسے مارتے ہیں اور اس کا گوشت کھاتے ہیں۔ اسی طرح ایک ریگستان کا بیان ہے جہاں لومڑیوں جتنی بڑی چونٹیاں ہیں جو ریت کھود کر سونا نکالتے ہیں۔
عرب میں اڑنے والے سانپ ہوتے ہیں ،ایرانی شراب پی کر اہم مسائل پر بحث کرتے ہیں
عرب کے بارے میں کہتا ہے کہ یہاں اڑنے والے سانپ ہوتے ہیں۔ ایرانیوں کے بارے کہتا ہے کہ وہ اپنے یوم پیدائش کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق بڑی دعوت کرتا ہے۔ امیر آدمی ایک سالم گھوڑا، گدھا، بیل یا اونٹ سالم تندور میں پکا کر لوگوں کو کھلاتے ہیں۔ کسی اہم مسلے پر غور کرتے وقت شراب پی کر بحث کرتے ہیں ۔ اگلے دن سنجیدہ حالت میں دوبارہ اس فیصلے کو زیر بحث لاتے ہیں۔ جب ہوش کے عالم میں بھی اس فیصلے کی توثیق کرتے ہیں تب اس پر عمل درآمد کرتے ہیں ورنہ نہیں۔ ہیروڈوٹس کا کہنا ہے کہ ایرانیوں نے اغلام بازی یونانیوں سے سیکھی ہیں۔ ان کی ایک خوبی یہ بتائی ہے کہ وہ جھوٹ کو سب سے بڑا جرم مانتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر قرض کو معیوب سمجھتے ہیں۔
بابل میں شادی کی عمر کو پہنچنے والی خوب صورت لڑکیوں کی بولی لگائی جاتی ہے
بابل کے بارے میں اس نے لکھا ہے کہ یہاں گندم اور جو کے خوشے تین تین انچ چوڑے ہوتے ہیں۔ بابل والوں کی ایک رسم کا ذکر کرتے ہیں جس کے مطابق شادی کی عمر کو پہنچنے والی لڑکیوں کو ایک جگہ جمع کرتے ہیں اور مرد ان کے گرد دائرہ بناکر کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک نیلام کرنے والا باری باری خوبصورت ترین لڑکیوں کو کھڑا کر دیتا ہے۔ جب درجہ بہ درجہ حسین لڑکیوں کی بولی لگتی ہے تو حاصل شدہ رقم سے بد صورت لڑکیوں کی شادیاں کی جاتی ہیں یعنی لڑکی کے ساتھ حسب صورت رقم بھی دی جاتی ہے۔اپنی مرضی کی شادی غیر قانونی ہوتی ہے۔
بابلیوں کی ایک قبیح رسم
بابلیوں کی ایک قبیح رسم کا ذکر کرتا ہے جس کے مطابق ایک عورت کو اپنی زندگی میں ایفروڈائٹ کی مندر میں جا کر اپنے آپ کو مباشرت کے لیے پیش کرنا ہوتا ہے۔ جب تک کوئی مرد اس کے ساتھ ہم بستری نہیں کرتا تب تک اسے وہاں ٹھہرنا پڑتا تھا۔ مرد صرف ایک شادی کرتا ہے البتہ انہیں دوسروں کی بیویوں کے ساتھ سونے کی آزادی ہے۔
لیبیا میں لڑکیوں کو شادی سے پہلے بادشاہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے
لیبیا کے قبائل میں ایڈرمچائڈ کے بارے ہیرو ڈوٹس نے لکھا ہے کہ اپنی بالغ لڑکیوں کی شادی سے پہلے بادشاہ کے پاس لے جاتے ہیں۔ کوئی لڑکی اسے پسند آجائے تو اسے کنواری رہنے نہیں دیتا۔ ایک دوسرے قبیلے کے بارے بتاتا ہے کہ وہ کثیرالازدواج ہیں جنہیں وہ مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور قبیلے کی رسم میں کوئی شادی شدہ جوڑا اکھٹے نہی رہتا۔ حیوانوں کی طرح جنسی ملاپ کرتے ہیں۔ جب بچہ جوان ہوتا ہے تو مرد آپس میں بیٹھ کر غور کرتے ہیں۔ جس کے ساتھ اس بچے کی شکل و صورت ملتی ہے اسے اس شخص کی ملکیت قرار دیتے ہیں۔ اس طرح بہت ساری عجیب و غریب رسموں کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مذہبی عقائد پر بھی تفصیلی گفتگو کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
مضمون کو زینت بخشنے کا شکریہ لطف صاحب!