امی جان الوداع

امی جان الوداع

محمد نعمان حیدر خانیوال

امی!
آپ ہم سے کیا روٹھیں ہم سے تو زمانہ ہی سچ مچ روٹھ گیا
دنیا ہم سے منہ پھیر گئی
سبھی اپنے پرائے رخ موڑ گئے
کچھ بھی تو اب اپنا نہیں لگتا
یہ گھر ، یہ رشتے اور یہ رنگینیاں
امی آپ کے بغیر تو اب یہ عیدیں بھی پھیکی پھیکی سی ہیں
امی اب ہم وہ خوشیاں کہاں سے لائیں ؟
امی وہ محبتیں کس سے سمیٹیں؟
امی کون ہوگا ہمارا آپ کے سوا اب ؟
اب تو آپ اپنے دکھوں اور تکلیفوں سے نجات پاگئیں
امی آپ نے تو اب غموں سے چھٹکارا حاصل کرلیا
آپ کو پتا ہے نا اب کبھی بھی آپ کو کہیں درد نہیں ہوگا
آپ کو اب کسی قسم کی مشقت نہیں ہوگی
آپ کو اب کوئی تکلیف نہیں ہوگی
اب آپ ہر دکھ سے راحت پاچکی ہیں
اب آپ آرام ہی آرام کریں گی
لیکن ہم کہاں جائیں کس کو اپنے دکھڑے سنائیں
اب ہم کس کے کاندھوں پہ سر رکھ کر اپنے غم غلط کریں گے
امی اب کس کی گود میں سر رکھ کر سوئیں گے
اور اب کون ہمارے بالوں میں ہاتھ پھیر کر ہماری سسکیاں سنبھالے گا
اور اب ہمارے زخموں پہ مرہم کون رکھے گا
اب ہمارے چھلکتے آنسو کون پونچھے گا
اب بھلا کرب میں ہمیں تسلیاں کون دے گا
ہماری پریشانیوں میں کون ہمیں دلاسے دلائے گا
اب ہماری فکر کون کرے گا
اور سفر پہ جانے سے پہلے آیت الکرسی پڑھ کر ہم پر دم کون کرے گا
اور کون ہمیں بار بار فون کرے گا اور
ہماری گھر واپسی کی راہیں تکتا رہے گا
امی آپ تو قبر کی پاتال میں اتر گئیں
آپ تو منوں مٹی تلے جا سوئیں
آپ تو جنت کے باغوں میں محو آرام ہوگئیں
امی آپ نے ہم چار بہن بھائیوں کو کتنی مشقتوں سے دین پڑھایا
ہماری مدرسہ روانگی کے وقت ہمیں مسکرا کر الوداع کیا
جب کہ خود تنہا بیٹھ کر ہماری جدائی میں بلک بلک روتی رہیں
امی بھلے ہم ساٹھ کلومیٹر دور مدرسے میں تھے یا پھر پندرہ کلومیٹر قریب مدرسے میں طلب علم میں مگن،مگر آپ نے ہمیشہ گرمی سردی کی پروا کیے بغیر بڑے اہتمام سے ناشتہ بھیجا
خود روکھی سوکھی کھا کر بھی ہماری ضروریات کا پورا خیال رکھا ہماری دینی تعلیم میں مکمل معاونت کرتی رہیں
کتنا شوق تھا آپ کو کہ میری بیٹیاں، بیٹے عالم بنیں حافظ بنیں
الحمدللہ تقریباً چھ بچے حافظ بنے
دو بیٹیوں اور ایک بیٹے نے وفاق المدارس سے سند فراغت حاصل کرکے آپ کے شوق کی آبیاری کی
جب بیٹے نے سر پہ دستاری فضیلت اور بیٹیوں نے ردائے فضیلت سجائی آپ نے کس قدر اہتمام کروایا اور کس قدر ماتھا چوما تھا آپ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک پڑے تھے
امی آپ کو کتنی سعادتیں نصیب ہوئیں
ملک کے کتنےجید علماء، شیوخ الحدیث اور مشائخ آپ کے مہمان بنتے آپ کا دسترخوان اللہ والوں کےلئے کس قدر کشادہ ہوا کرتا تھا
یہ ساری نسبتیں بھلا کیا کم ہیں ؟
اور کون کون سی سعادتیں بتاؤں
آپ کے جنازے میں خلقت کا ہجوم آپ کی نیک نامی اور قبولیت کا بین ثبوت تھا باوجود اس کے کہ ہم اتنے زیادہ لوگوں کو آپ کی وفات کی اطلاع بھی نہ دے پائے لیکن پھر بھی جنازہ گاہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی لوگوں کو چلتی سڑک پر صف بندی کرنا پڑی اور راہ چلتی ٹریفک کو آپ کے جنازہ کی چار تکبروں کی وجہ سے رکنا پڑا ایک ستر سالہ بزرگ کو کہنا پڑا کہ اس شہر میں میری زندگی کا یہ پہلا اتنا بڑا جنازہ ہے
امی آپ کے جنازہ میں علماء کا ایک جم غفیر آگیا تھا
حفاظ تھے قراء تھے نمازی تھے نیک اور صالح لوگ تھے
آپ کے جنازہ میں اسی فیصد تو فقط روزہ دار شریک تھے
امی! شہر کا شہر امڈ آیا تھا آپ کے جنازے میں
امی ! اپنے پرائے سبھی آگئے تھے آپ کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے
اور کون کون سی سعادتیں بتاؤں
چار بجے تو آپ کا جنازہ تھا نا
آپ کو لحد میں اترنے کی اتنی جلدی تھی کہ صرف چالیس منٹ میں آپ کو مرقد میں دفنا کر سبھی لوگ واپسی لوٹ چکے تھے
آپ نے ساری زندگی غربت کے باوجود شاہانہ انداز میں بسر کی لیکن اپنی عزت اور وقار کا اس قدر بھرم تھا کہ دشمن بھی گواہی دینے پر مجبور تھے
امی! آپ نے قرآن مجید سے صرف آٹھ سال کی عمر میں تعلق جوڑا تھااور چالیس سال تک کلام الٰہی سے وابستگی رہی
آپ نے عمر بھی تو کتنی پائی فقط باون سال!
امی! آپ نے سیکڑوں بچیوں کے سینوں کو قرآن کے نور سے معمور کیا آپ نے ایسی بچیوں کو بہترین قران پڑھنے والیاں بنائیں جن کو کوئی اور پڑھا نہیں سکتا تھا آپ نے کسی کو کند ذہن سمجھ کر دھتکارا نہیں دوسری جگہوں سے ٹھکرائی ہوئی طالبات کو کار آمد بنانے کے فن میں آپ یکتا تھیں بڑے بڑے مدارس آپ کی طالبات کا قرآن سن کر رشک کیا کرتے تھے
امی آپ نے تو کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا تھا
آپ نے کسی کو کبھی گالی نہ دی
کسی کو کبھی منہ پہ شرمندہ نہ کیا
ہمیشہ امیر اور غریب کو برابر عزت دی
کبھی بھی امیروں اور غریبوں میں فرق نہ کیا
آپ کے در پہ جو بھی عورت آئی ہمیشہ محبت اور عزت پا کر گئی اور وہ آپ کی گرویدہ ہوگئی
امی آپ کس مٹی کی بنی تھیں
آپ ہمیشہ ہی دکھوں اور غموں کے پہاڑ کے سامنے ہمت، جرآت اور استقامت کا کوہ گراں بن کر کھڑی رہیں
آپ نے کئی صدمات جھیلنے کے باوجود بھی چہرے سے مسکراہٹ غائب نہ ہونے دی
آپ نے پوری زندگی صبر کے ساتھ اور تسلیم و رضا کا پیکر بن کر گزاری
امی! آپ کے اخلاق کی گواہی آج پورا شہر دے رہا ہے
امی آپ کی پاکدامنی کی گواہی آج بچہ بچہ دے رہا ہے
امی! خلق خدا سے آپ کی محبتوں کی کہانیاں آج زبان زد عام ہیں
امی! آپ کی گرویدہ ہزاروں خواتین آج آپ کو یاد کرکر کے بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہی ہیں
آپ کی سیکڑوں شاگردائیں ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی ہیں
امی! اب ہم کس کو اپنا حال دل سنائیں
کس کے سامنے اپنے غموں کی پٹاری کھولیں
کس کے کندھوں پہ سر رکھ کر غم ہلکا کریں
اب تو بس تماشا دیکھنے والے ہی ہیں
اور ہم پر طنز کرنے والے ہیں
اور ہم پہ ہنسنے والے ہیں
اور ہمیں بےبس دیکھ کر مسکرانے والے ہیں

امی! پہلے قبرستان میں جاتے ہوئے ڈر سا لگتا تھا
لیکن آپ کی وجہ سے شہر خموشاں بھی مانوس سا لگتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میرے جسم کا کوئی حصہ وہاں پیوند خاک ہے اب تو قبرستان میرا دوسرا ٹھکانہ بن گیا ہے امی جان! کوشش کروں گا کہ آپ کی قدم بوسی کے لیے روز آیا کروں فاتحہ خوانی کروں آپ کے مرقد کو دیکھ کر اپنا غم غلط کروں
امی جان! میرا وعدہ ہے اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ سے ،
اپنے ٹوٹے پھوٹے اعمال سے ،آپ کو ہمیشہ راحت پہنچانے کی کوشش کروں گا آپ کی روح کو خوش کرنے کے لئے میرے بس میں جو ہوگا کروں گا

الوداع امی جان اور فی امان اللہ

میری ماں

2 thoughts on “امی جان الوداع”

  1. عنایت شمسی

    بہت اعلیٰ۔ ویب سائٹ کی کامیابی کیلئے دعا گو ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ ویب سائٹ بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں والدین اور سرپرستوں کو بہترین رہنمائی فراہم کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگی جو آج کے اس افراتفری کے دور کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top