اسلام دین فطرت ہے،اسی وجہ سے اپنے پیرو کاروں کے فطری اور جبلی جذبات کا ہر موقع پر خیال رکھا ہے،غم کے موقع پر ہر انسان اپنے غم کو بانٹنا چاہتا ہے،غم ہلکا کرنے کی تدبیر سوچتا ہے،اسلام نے اس کے اس فطری جذبے کو نظر انداز نہیں کیا، غم کا سب سے کرب ناک موقع وہ ہوتا ہے جب کسی کا پیارا اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے ، اس مرحلے پر انسان جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے اس کی شفقت کی رگ پھڑک اٹھتی ہے اور وہ اپنے غم کو آنسوؤں کی زبان دینا چاہتا ہے۔
کسی کی فوتگی پر رونا خلاف اسلام نہیں
اسلام نے ایسے موقع پر رونے پر کوئی پابندی نہیں لگائی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بیٹے حضرت ابراہیم کے انتقال کے موقع پر روئے، بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺکے ساتھ ابو سیف لوہار کے پاس گئے۔ جو حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی دائی کے خاوند تھے۔رسول اللہﷺنے ابراہیم کو گود میں اٹھایا ان کو پیار کیا اور سونگھا ۔پھر اس کے بعد ہم (دوسرے موقع پر جب حضرت ابراہیم بیمار تھے) ابو سیف کے پاس گئے، دیکھا تو ابراہیم دم توڑ رہے ہیں، یہ دیکھ کر رسول اللہﷺ کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپﷺسے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! آپﷺ بھی(رو رہے ہیں)آپﷺ نے فرمایا: اے ابن عوف! یہ رحمت ہے (رحم دلی کا اثر ہے)پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسری بار روئے اور فرمایا: آنکھیں اشکبار ہیں اور دل رنجیدہ ہے لیکن زبان سے ہم وہی کہتے ہیں جو ہمارے رب کو پسند ہے بے ابراہیم! بے شک ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں۔
ایک اور حدیث میں حضرت اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ایک نواسے کی وفات پر روئے۔حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا “اے اللہ کے رسول! یہ کیا ہے؟ (انہوں نے اپنی دانست
میں اس کو شاید بے صبری سمجھا) اس پر آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا
“یہ رحمت اور نرم دلی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دل میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے رحم دل بندوں پر رحم کرتا ہے”
رونے سے غم ہلکا ہو جاتا ہے
رونے سے انسان کا غم ہلکا ہو جاتا ہے ، اہل حکمت کہتے ہیں ، آنسوؤں کے ذریعے صدمے کی شدت اور دل کا بوجھل پن باہر آجاتے ہیں، یہ ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ مشکل وقت میں تھوڑی دیر رو لینا صدمے کی شدت کو کم کر دیتا ہے اور انسان کی طبیعت سنبھل جاتی ہے۔ایک شاعر نے یہی بات کس سلیقے سے کہی ہے
اشک جب دیدہ تر سے نکلا
ایک کانٹا سا جگر سے نکلا
ایک اور شاعر نے نہ رونے کو غم میں اضافے کا باعث قرار دیا ہے چنانچہ گویا ہے
شبنم نے روکے جی ذرا ہلکا تو کر لیا
غم اس کا پوچھئیے جو نہ آنسو بہا سکے
اس ضمن میں فرحت عباس شاہ نے تو کمال ہی کر دیا ہے
میں رونا چاہتا ہوں،خوب رونا چاہتا ہوں
پھر اس کے بعد گہری نیند سونا چاہتا ہوں
اسی مضمون کا ایک شعر کسی زمانے میں ہم نے بھی کہا تھا
جب تری یاد میں پھوٹ کر روتا ہوں
تب کہیں جا کے میں چین سے سوتا ہوں
ایک شاعرہ نے تو شکوہ کیا ہے کہ انسان کے اندر کے درد وغم کی طغیانی کو راستہ دینے کے لئے دو آنکھیں ناکافی ہیں چنانچہ کہتی یے
اک سمندر ہے درد کا دل میں
اور رونے کو صرف دو آنکھیں
رونے ، بین اور ماتم میں فرق
بہت سے نادان قسم کے لوگ غم کے موقع پر رونے کو خلاف شرع سمجھتے ہیں،اس قسم کے بعض سطحی دین دار کسی صدمے سے نڈھال رونے والوں کو بھی زبردستی چپ کرا دیتے ہیں یہ سراسر نادانی اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے ناواقفیت کی دلیل ہے،اسلام نے رونے سے کہیں منع نہیں کیا،منع اگر کیا ہے تو ماتم ،نوحہ اور بین کرنے سے کیا ہے، ماتم کرنے،بین کرنے اور رونے میں زمین آسمان کا فرق ہے، ماتم اور بین میں سینہ کوبی ہوتی ہے، حدود صبر سے تجاوز پوتا ہے، اللہ کے فیصلے پر ایک قسم کا احتجاج ہوتا ہے، شور شرابہ ہوتا ہے، چیخ و پکار ہوتی بے، بےصبری کے مظاہرے ہوتے ہیں۔تصنع ہوتا ہے۔بسا اوقات پیشہ ور لوگوں سے یہ سب کچھ کرایا جاتا ہے، جبکہ رونا تو بس غم اور صدمے کی شدت کا مہذب مظاہرہ ہوتا ہے۔
اسلام میں تعزیت کی مشروعیت کا بنیادی فلسفہ بھی یہی ہے کہ صدمے سے دوچار لوگوں کا غم بانٹا جائے۔کسی پیارے کا بچھڑ جانا ہر انسان کےلئے باعث صدمہ ہوتا ہے۔بچھڑنے والے سے جتنا قریبی تعلق ہوتا ہے اس کی جدائی اتنی اذیت ناک ہوتی ہے۔ایسے موقع پر صدمہ زدہ شخص کو تسلی کی ضرورت ہوتی ہے،اسے گیدرنگ چاہئے ہوتا ہے کیونکہ تنہائی اور اکیلا پن غم کی شدت میں اضافہ کر دیتا ہے۔وحشت کو بڑھا دیتا ہے۔لوگ جب تعزیت کے لئے آتے ہیں تو غم زدہ انسان کو سہارا ملتا ہے، رنج کا بوجھ بٹ جاتا ہے۔تعزیت کرنے والوں میں بعض قریبی عزیز ہوتے ہیں جو اپنوں کی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، غم زدہ شخص تعزیت کے لئے آنے والے عزیزوں میں سے کچھ سے لپٹ کر روتا ہے،کوئں اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر غم بانٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ تعزیت کرنے والوں میں کچھ دیرینہ دوست ہوتے ہیں جن کی آمد رنجور دلوں کے لئے مرہم کا کام دیتی ہے۔ تعزیت کے لئے بسا اوقات ایسے لوگ بھی آتے ہیں جن کی متاثر کن گفت گو صدمہ زدہ انسان کی توجہ صدمے سے ہٹا دیتی ہے۔ بعض تعزیت کرنے والے اہل علم ہوتے ہیں جو پس ماندگان کو قرآن و حدیث کی روشنی میں صبر کی تلقین اور اس پر ثواب کی امید دلاتے ہیں ،ایک مسلمان جب کسی تکلیف اور مصیبت پر آخرت کے اجر و ثواب کا سنتا ہے تو خوش ہوجاتا ہے اخروی انعام کا تصور دنیاوی صدمہ کو قابل برداشت بنا دیتا ہے۔
تعزیت کے عمل کے فضائل
اسلام میں تعزیت کا نہ صرف تصور موجود ہے بلکہ اس کے فضائل بھی بیان ہوئے ہیں۔
ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” من عزى مصابا فله مثل أجره”
(ترجمہ )جس شخص نےکسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی تو اس کو مصیبت زدہ جتنا ثواب ملتا ہے۔
ابن ماجہ میں حضرت عمرو بن حزم سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
“ما من مؤمن يعزي أخاه بمصيبته إلا كساه الله من حلل الكرامة يوم القيامة”
(ترجمہ )جو مسلمان اپنے بھائی کی مصیبت کے وقت اس کی تعزیت کرے گا ، قیامت کے دن اللہ تعالٰیٰ اسے عزت وشرف کا لباس پہنائے گا۔
ایک اور روایت میں یہ منقول ہے “جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی اللہ تعالیٰ اسے جنت کے کپڑوں میں سے ایسے دو جوڑے پہنائے گا جن کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی۔
تعزیت کے موقع پر تسلی کے کلمات
جب کسی سے اظہار تعزیت کے لئے جایا جائے تو میت کی مغفرت اور لواحقین کے لئے صبر پر اجر ملنے کی دعا کرنی چاہیے۔ حدیث میں تعزیت کے موقع پر یہ دعا منقول ہے ” إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى فلتصبر ولتحتسب ” (ترجمہ) جو چیز اللہ نے لے لی وہ ہے بھی اسی کی، اور جو چیز ملی ہے وہ بھی اسی کی ہے۔اور ہر چیز اس ذات کے پاس وقت مقررہ کے مطابق لکھی ہوئی ہے۔لہذا صبر کیجئے اور ثواب کی امید رکھئے!
تعزیت کے کلمات اپنی زبان میں بھی ادا کئے جا سکتے ہیں کوئی بھی ایسا جملہ بولا جا سکتا ہے جس میں میت کے لئے دعا ہو اور لواحقین کے لئے تسلی، صبر اور اجر وثواب کا ذکر ہو ،،مثلا اردو میں ایسے موقع پر کہتے ہیں ،اللہ غریق رحمت کرے، اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے ، اللہ تعالیٰ آپ کو صبر جمیل عطا کرے وغیرہ ۔ایسے موقع پر میت کی خوبیوں کا تذکرہ بھی کیا جا سکتا ہے ،اگر کوئی قد آور شخصیت ہے تو اس کی خدمات کو ذکر کیا جا سکتا ہے کیونکہ ایسی باتوں سے لواحقین کو ایک گونہ تسلی ملتی ہے ۔
میت کے گھر والوں کی خدمت
یہ بھی تعزیت کی ایک صورت ہے کہ میت کے گھر والوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا جائے یا ان کو کسی اور قسم کی مدد کی ضرورت ہو وہ کی جائے، کیونکہ ایسے موقع پر میت کے ورثاء غم اور پریشانی کے عالم میں ہوتے ہیں ،کھانے پینے کا انتظام کرنا ان کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اپنے چچا حضرت جعفر بن ابی طالب کی جنگ موتہ میں شہادت کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنے گھر میں حکم دیا: ” اصنعوا لآل جعفر طعاما، فقد اتاھم ما يشغلهم
“جعفر کے اہل خانہ کے لیے کھانا تیار کرو، غم کے سبب ان کے اہل خانہ یہ نہیں کرسکتے”
ایک غلط رواج
افسوس!ہمارے ہاں اس کا الٹ ہوتا ہے،تعزیت کے لئے جانے والے میت کے گھر والوں کی خدمت کے بجائے ان سے اپنی خدمت کرواتے ہیں ،چائے پانی کا انتظار کرتے ہیں ،کھانے کا وقت ہو تو کھانے کی طمع رکھتے ہیں، ورنہ برا مناتے ہیں، تیسر ے دن سب رشتے داروں اور محلے والوں کو کھانا کھلانا گویا ورثاء کا فریضہ تصور کیا جاتا ہے بسا اوقات میت کے ورثاء قرض لے کر یہ سب کچھ کرتے ہیں کیونکہ ایسا نہ کرنے والے پر طعن کیا جاتا ہے سماج کے غلط رواج کے زیر اثر خود ورثاء بھی اس کو ناک کا مسئلہ بناتے ہیں کہ کھانا نہیں کھلائیں گے تو لوگ کیا کہیں گے ،حالانک یہ سراسر غیر اسلامی اور غیر اخلاقی حرکت ہے، اگر آللہ تعالیٰ نے کسی کو وسعت دی ہے اور وہ میت کے ایصال ثواب کے لئے لوگوں کو کھانا کھلائے تو کوئی حرج نہیں لیکن ہر کسی کے لیے اس کو لازم سمجھنا نہ صرف اسلامی تعلیمات سے روگردانی ہے بلکہ معاشرے کے غریب طبقے کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہے، اس غیر اسلامی رواج نے غریب شخص کےلئے مرنا بھی مشکل بنا دیا ہے۔
تعزیت کے موقع پر اذیت
ہمارے ہاں
[contact-form][contact-field label=”Name” type=”name” required=”true” /][contact-field label=”Email” type=”email” required=”true” /][contact-field label=”Website” type=”url” /][contact-field label=”Message” type=”textarea” /][/contact-form]
ایک اور غلط روش چل پڑی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جب کوئی معروف انسان فوت ہو جاتا ہے ،تو لوگ اس کی برائیاں کرنا شروع کر دیتے ہیں، آج کے سوشل میڈیا کا اس غلط چلن کو رواج دینے میں بنیادی کردار ہے، سوشل میڈیا پر فوت ہونے والے پر ایسے تبصرے ہوتے ہیں جن سے میت کے لواحقین کو تکلیف پہنچتی ہے ، بسا اوقات یہ تبصرے جنت اور جہنم کے فیصلوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو کسی مسلمان خاندان کے لئے مزید اذیت کا سبب بنتے ہیں ،یہ روش سراسر غیر اسلامی اور غیر انسانی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ہم ایک حوالے کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں ۔
عکرمہ بن ابی جہل کا واقعہ
عکرمہ بن ابی جہل فتح مکہ کے بعد بھاگ کر یمن کی طرف نکل گیا تھا جبکہ ان کی بیوی ام حکیم بنت حارث بن ہشام مشرف بہ اسلام ہوکر بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئی اور اپنے شوہر کےلئے امن کی درخواست کی جو رحمت عالم نے قبول فرمائی عکرمہ اس دوران یمن کے ساحل پر پہنچ چکا تھا اور کشتی میں سوار ہوگیا تھا کشتی کا چلنا ہی تھا کہ تند و تیز ہواوں نے اسے گھیر لیا عکرمہ نے لات و عزی کو مدد کےلئے پکارا ساتھ بیٹھے لوگوں نے کہا لات و عزی کو چھوڑو ایک خدا کو پکارو اس مشکل میں اسی کی مدد کام آئے گی
عکرمہ نے کہا!! خدا کی قسم اگر دریا میں خدا کے سوا کوئی اور کام نہیں آسکتا تو خشکی میں بھی کوئی دوسرا معبود کام نہیں آسکتا اس وقت عکرمہ نے دل ہی دل میں اللہ تعالی سےعہد کرلیا کہ اگر میں نے اس پریسانی سے نجات پالی تو ضرور محمد رسول اللہ کے پاس جاکر اس کا دین قبول کروں گا
اس اثنا میں عکرمہ کی بیوی پیچھے سے پہنچ گئی اور عکرمہ سے کہا
“عکرمہ!! تو خود کو ہلاکت میں مت ڈال!! میں رسول خدا سے تمہارے لئے امان حاصل کرکے آئی ہوں”
یہ سن کر عکرمہ بیوی کے ساتھ ہولیا اور دونوں بارگاہ نبوت کی طرف چل پڑے
رسول اللہ کو بہ ذریعہ وحی عکرمہ کے اسلام اور آمد کی خبر دی گئی آپ نے اس موقع پر صحابہ سے فرمایا
یاتیکم عکرمة مومنا فلا تسبوا اباہ فان سب المیت یوذی الحی”
” عکرمہ مسلمان ہوکر تمیارے پاس آرہا ہے لہذا اس کے باپ کو برا بھلا مت کہنا کیونکہ مردہ کو برا بھلا کہنے سے زندہ کو تکلیف ہوتی ہے۔
یہ واقعہ یہ بیان کرنے کے لئے کافی ہے کہ کسی مردہ شخص کا ایسا تذکرہ کرنا سراسر غیر اسلامی ہے جس سے اس کے رشتے داروں ،متعلقین اور متوسلین کو اذیت پہنچے۔ نبی رحمت تو مرنے کے بعد ابو جہل کو برا بھلا کہنے سے منع کر رہے ہیں جس کا کفر پر مرنا اور جہنمی ہونا یقینی ہے اس منع کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ورثاء اور متعلقین کو میت کی برائی ناگوار نہ گزرے، ان کو اس سے تکلیف نہ ہو۔
یہ بھی پڑھیں:<امت مسلمہ کی اصل ضرورت
فائدہ مند تحریر