Friday, December 6, 2024
HomeColumnsمغل عہد سلطنت کا نظام تعلیم ، لائبریریاں اور سائنسی ایجادات

مغل عہد سلطنت کا نظام تعلیم ، لائبریریاں اور سائنسی ایجادات

مغل عہد سلطنت کا نظام تعلیم ، لائبریریاں اور سائنسی ایجادات

جبران عباسی

مغلوں کے بارے میں تاریخ دانوں ، قارئین اور عصر حاضر کے دانشوروں کی رائے شدید تلخ ہے۔ مغل حکمرانوں کو محض عیاش پرست اور دولت لٹانے والے جابر حکمران سمجھا جاتا ہے۔

مغلوں پر لگنے والے سنگین الزامات

الزامات کا یہ ایک طویل سلسلہ ہے جو ان پر لگایا گیا ہے۔ مغل حکمرانوں پر الزام ہے کہ وہ یورپین طرز پر ہندوستان میں مادیت پرستی یا جدیدیت نہ پیدا کر سکے ، تمام تر وسائل رکھنے کے باوجود مغل دور حکومت میں ہندوستان میں کوئی انڈسٹری قائم ہوئی نہ ہی تعلیم کا جدید معیار قائم ہوا۔

مغلوں کی ناعاقبت اندیشیوں کی وجہ سے ہندوستان کو دو سو سال تک برطانیہ کی غلام کالونی رہنا پڑا۔ مغلوں کے پاس وہ سب وسائل موجود تھے جو ہندوستان کو جدید دنیا کے سامراج کا تاج پہنا سکتے تھے مگر یہ وسائل مغلوں نے تاج محل بنانے ، شکار کرنے ، دربار سجانے ، جنگیں کرنے اور خوشامدی درباریوں کو خوش کرنے میں جھونک دیے۔

عوام کے حصے میں صرف افلاس و غلامی آئی۔ ڈاکٹر ششی تھرور لکھتے ہیں “انگریز تاجر جو صرف مصالحے لینے آئے تھے مغلوں کی کسمپرسی سے بھرپور فائدہ اٹھا کر 45 ٹریلین ڈالر لوٹ کر لے گے ہیں۔

کیا یہ الزامات درست ہیں؟

ان تمام الزامات میں سچائی کا ایک حصہ موجود ہے مگر یہ الزامات مکمل سچ نہیں ہیں۔ سچ تو یہ ہے مغل حکمران تعلیم و صنعت میں بھی بھرپور دلچپسی رکھتے تھے۔ ان کی شاہی لائبریریاں و نظام تعلیم اس کی واضح مثالیں ہیں۔
اس مضمون میں ہم مغلوں کی لائبریریوں اور ان کے ہاں رائج تعلیمی نظام اور ان کی سائنسی ایجادات کا جائزہ لیں گے اور اس الزام کی حقیقت سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ مغل حکمران کس حد تک ہندوستان کے زوال کے ذمہ دار ہیں۔

1526 سے لے کر 1857 تک مغل حکمرانوں کا اقتدار برصغیر پر قائم رہا ہے۔ اگرچہ اصل اقتدار کا دورانیہ 1526 سے لے کر 1706 تک کا ہے۔

بادشاہ بابر اور تزک بابری

مغل سامراج کے بانی بادشاہ بابر نہ صرف لکھنا پڑھنا جانتے تھے بلکہ ہندوستان کی فتح کے بعد انھوں نے تزک بابری بھی تصنیف کی۔ تزک بابری میں ہندوستان کا انسائکلوپیڈیا اور اور اس وقت کے سیاسی حالات کے بارے میں تفصیلی معلومات ملتی ہیں۔

پہلی مغل لائبریری

بابر نے جب لودھی سلطنت کے گورنر کو شکست دے کر لاہور پر قبضہ کیا تو یہاں اس کے ہاتھ بےشمار کتابیں آئیں۔ بابر وسط ایشیا کے مردم خیز علاقے فرغانہ میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی والدہ تعلیم یافتہ تھیں۔ بابر کے پاس ثمر قند و بخارا کی منگولوں کے ہاتھوں تباہ شدہ لائبریریوں کے کچھ کتابیں تھیں۔ ابراہم لودھی کو شکست دے کر جب بابر نے دہلی کا تخت سنبھالا تو اپنا ایک شاندار محل تعمیر کیا اور اس میں پہلی لائبریری قائم کی۔اس لائبریری کے لائبریرین کا نام خواجہ محمد علی تھا۔

محکمہ تعلیم کا قیام

اگرچہ بابر کا ہندوستان پر کل اقتدار کا دورانیہ محض چار برس ہے مگر بابر نے دہلی میں ایک مدرسہ قائم کیا جہاں دینیات ، ریاضی ، فلکیات اور جغرافیہ کے مضامین سکھائے جاتے تھے۔ یہ مدرسہ کئی صدیوں تک تدریسی فرائض انجام دیتا رہا۔

مغل بادشاہ ہمایوں کی چلتی پھرتی لائبریری

1530 میں بابر کی وفات کے بعد ہمایوں تخت نشین ہوا۔ ہمایوں بابر سے بھی زیادہ کتب بینی کا شوقین تھا۔ آگرہ کے شاہی قلعہ میں اس کا ذاتی کتب خانہ موجود تھا۔
دہلی کے پرانے قلعے میں ہمایوں نے منڈل شاہی نام کی بہت بڑی لائبریری قائم کی جس کی دوسری منزل کی چھت پر وہ بیٹھ کر مطالعہ کرتا تھا۔ گجرات اور بنگال کی مہم کے دوران اس کا ذاتی کتب خانہ شاہی لشکر کے ساتھ حرکت کرتا تھا۔ یہ ایک چلتی پھرتی لائبریری تھی۔

آگرہ کی شاہی لائبریری کو طلسم خانہ کہا جاتا تھا۔ اس طلسم خانہ میں ایک اور عمارت “خانہ سعادت” تعمیر کی گئی جس کے اندر کتابیں ، تصویری خاکے اور اہم دستاویزات موجود ہوتی تھیں۔ اگرچہ ہمایوں خود کوئی کتاب تصنیف نہ کر سکا کیونکہ اسے شدید سیاسی پریشانیوں کا سامنا رہا ہے تاہم اس نے قانون فطرت پر چند اسباق ضرور تحریر کئے تھے۔

سولہویں صدی کی دنیا کی سب سے بڑی لائبریری

تاریخ اسے ان پڑھ مگر دور اندیش بادشاہ کے نام سے جانتی ہے۔ جلال الدین محمد اکبر لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے کیونکہ اکبر کی پیدائش ہمایوں کی جلاوطنی میں ہوئی اور پرورش افغانستان کے شہر کابل میں ہمایوں کے بھائی مرزا کامران کے گھر میں ہوئی۔ مرزا کامران نے جان بوجھ کر جلال الدین کو تعلیم سے دور رکھا۔
جلال الدین اکبر جب دہلی کا تخت نشین ہوا تو اس کو ہمایوں کے ترکے میں ایک نایاب شاہی لائبریری ملی۔ اکبر نے اس لائبریری کی ذمہ داری فیضی برادران کو سونپی جو عظیم سکالر تھے۔
فیضی برادران نے دنیا بھر سے نایاب و قیمتی کتابیں اس لائبریری میں جمع کیں ۔ بادشاہ اکبر کو ہر کتاب پڑھ کر سنائی جاتی تھی۔ اکبر نے اس لائبریری میں دارالترجمہ قائم کیا جس میں مہابھارت ، رامائن ، ارتھ شاستر اور ویدوں کا فارسی میں ترجمہ کیا گیا۔

عبدالرحیم خان خاناں کی لائبریری

یہ اکبر بادشاہ کے وزیر تھے ، کہا جاتا ہے ان کی لائبریری میں 95 افراد تنخواہ دار ملازم تھے۔ 4600 کے قریب نایاب مخطوطات محفوظ تھے۔

مغل بادشاہ جہانگیر کی لائبریری

بابر نے محکمہ تعلیم کا قیام عمل میں لایا مگر وہ منصوبہ اپنے تسلسل کے ساتھ جاری نہ رہ سکا۔ تاہم جب جہانگیر اقتدار میں آیا تو اس نے وراثت کا قانون تبدیل کر کے حکم صادر کیا کہ اگر کوئی امیر شخص لاولد مر جاتا ہے تو اس کی تمام دولت تعلیمی اداروں اور مدرسوں کو منتقل ہو جائے گی۔

جہانگیر نے لاہور میں اپنا ذاتی کتب خانہ قائم کیا بلکہ ایک پیکچر گیلری بھی بنوائی جو آج بھی والڈ سٹی لاہور کے اندر موجود ہے۔ جہانگیر بھی شہنشاہ ہمایوں کی طرح اپنی خاص کتابیں لشکر کے ساتھ لے کر جاتا تھا۔

ہندوستان کا پہلا کالج : شاہجہان کا کارنامہ

یہ ایک عام تاثر ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان میں پہلا کالج فورٹ ولیم میں بنایا مگر تاریخی لحاظ سے یہ درست نہیں ہے۔
ہندوستان کا پہلا کالج شہنشاہ شاہجہان نے دہلی میں قائم کیا تھا۔ اس کالج کا نام دارالبقاء تھا۔ شہنشاہ نے اس کے عہدیداران اور اساتذہ کا انتخاب ذاتی حثیت میں کیا تھا۔ یہاں دینیات ، سائنس اور سماجی سائنس کے مضامین پر تعلیم فراہم کی جاتی تھی۔ اگرچہ یہ کالج کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ دے سکا جیسے یورپین اداروں آکسفورڈ یا کیمبرج نے دیا ہے تاہم اس بات کا ثبوت ضرور ہے کہ مغل شہنشاہوں نے گاہے بگاہے تعلیمی نظام کی بہتری کےلئے کوششیں ضرور کی ہیں۔

شاہی لائبریری

شہنشاہ شاہجہان کے پاس ذاتی لائبریری موجود تھی جس کے ہیڈ لائبریرین کو داروغہ کتاب خانہ کہا جاتا تھا۔

دارا شکوہ: عظمت کیادھوری داستان

دارا شکوہ شاہجہان کے سب سے بڑے بیٹے اور ولی عہد سلطنت تھے ، تاہم بعد میں اورنگزیب کے ساتھ لڑائی میں قتل کر دئے گئے ۔
دارا شکوہ کو امن کا سفیر اور مغل خاندان کا سب سے ذہین مفکر و دانشور سمجھا جاتا تھا۔ ان کی سب سے مقبول کتابیں سفینۃ الاولیاء اور سکینۃ الاولیاء ہیں۔ اس کے علاؤہ انھوں نے کئی سنسکرتی کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کیا۔
مفکرین کے مطابق دارا صوفیانہ اور سیکولر رحجانات رکھتے تھے۔ اگر وہ اقتدار کے مسند پر براجمان ہو جاتے تو عین ممکن تھا ہندوستان میں ایک سائنسی دور کا آغاز ہو جاتا مگر سیاسی ستم ظریفی نے یہ موقع ان کو نہ ملنے دیا۔

مغل بادشاہ اورنگزیب کی شاہی لائبریری

اورنگزیب اسلامی تصوف کو اہمیت دیتے تھے۔ ان کی شاہی لائبریری میں تفسیر قران، فقہ کی کتابیں اور ان کے ہاتھوں سے لکھے قرآن کے نسخے موجود تھے۔ لائبریرین کا عہدہ ناظم کہلاتا تھا۔
اورنگزیب کی بہن جہاں آرا اور بیٹی زیب النساء دونوں عمدہ شاعرہ تھیں۔ اورنگزیب اور ان کی بہن اور بیٹی نے شاہی لائبریریوں کو عروج کی نئی جہتیں بخشی ہیں۔

شاہ عالم دوم کی ایک کوشش

نادر شاہ درانی اور جاٹوں کے حملے میں دہلی کی نایاب شاہی لائبریری لوٹ لی گئی تھی۔ قیمتی مخطوطات چوری کر کے ایران لے جائے گے۔ شاہ عالم دوم نے شاہی کتب خانہ بحال کرنے کی ایک کوشش ضرور کی ۔ انھوں نے پھر سے شاہی لائبریری کی از سر نو تعمیر کی تاہم دہلی اب اجڑ چکا تھا۔ شاہ عالم دوم تمام تو کوششوں کے باوجود شاہی کتب خانے کی پرانی رونقیں بحال نہ کر سکے۔

مغلوں کا پبلک نظام تعلیم

مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر اگرچہ خود پڑھ لکھ نہ سکے لیکن تعلیم سے انھیں خاص لگاؤ تھا۔ آپ نے دہلی اور تقریباً تمام صوبوں میں سرکاری سرپرستی میں چلنے والے سکول کھولے۔
ان سکولوں میں ہندو اور مسلمان زیر تعلیم رہتے تھے۔ ان سکولوں کا نصاب ، اخلاقیات ، حساب ، گرائمر ،فلکیات اور تاریخ پر مشتمل تھا۔ تعلیمی نظام کی سرپرستی کرنا مغلوں کے پبلک ورک ڈیپارٹمنٹ کی ذمہ داری تھی جسے شورہ عام کہا جاتا تھا۔

مغلوں کے نظام تعلیم دو ادارے

موجودہ دور میں جیسے سکول اور پھر کالج آتا ہے۔ مغلوں کے نظام تعلیم میں دو ادارے آتے تھے۔

مکتب

یہ چھوٹے تعلیمی ادارے ہوتے تھے جن میں چھوٹے بچوں کو داخل کیا جاتا تھا۔ بچے مکتب گاہ میں آداب سیکھتے ، بنیادی گنتی سیکھتے ، لکھائی سیکھتے اور پڑھنا سیکھتے تھے۔ بچہ جب قدرے بڑا ہو جاتا تو مکتب میں اس کا ٹیسٹ لیا جاتا تھا۔ اگر بچہ وہ ٹیسٹ پاس کر لیتا تو وہ مدرسہ میں داخل کر دیا جاتا تھا۔

مدرسہ

بڑے اسکولوں کو مدرسہ کہا جاتا تھا ، ہر مدرسے کے ساتھ کچھ جاگیر وقف تھی جو اس مدرسے کے اخراجات اٹھاتی تھی۔ اس کے علاؤہ شہنشاہ جہانگیر نے قانون بنا دیا تھا جو امیر شخص لاولد مرے گا اس کی دولت ان مدرسوں میں تقسیم کر دی جائے گی۔

اکبر کے زمانے میں ہندو اور مسلمانوں کےلئے الگ الگ مدارس قائم کئے گے۔ فارسی و سنسکرت مدارس کی زبان تھی۔ ان مدرسوں سے فارغ التحصیل طلباء مغل ایڈمنسٹریشن کا حصہ بنتے تھے۔

اورنگزیب کے زمانے میں اگرچہ ریاست کی یکساں نظام تعلیم کی پالیسی میں تبدیلی آئی۔ اورنگزیب نے ہندو مدرسے مسمار کروا دیے اور مسلمانوں کے مدرسوں میں نصاب تبدیل کروا کر صرف تصوف ، فقہ اور مذہبی علوم برقرار رکھے۔

1707 میں جب اورنگزیب کی وفات ہوئی تو پوری مغلیہ سلطنت میں مکتب اور مدرسے پھیلے ہوئے تھے مگر اورنگزیب کے بعد مغل حکومت زوال و پستی کی طرف بڑھنے لگی اور یہ مکاتب و مدرسے ایک ایک کر کے بند ہوتے گئے۔

آخری مغل تاجدار بادشاہ شاہ ظفر کے زمانے میں صرف ایک مدرسہ دہلی میں فعال تھا جو زبوں حالی کا شکار تھا۔

مغلوں کے دور کی سائنسی ایجادات و اختراعات:

گریوٹی فلو واٹر کینالز

مغل سنٹرل ایشیا کے ذرخیز ترین علاقوں سے آئے تھے ، وہاں چاروں طرف سر سبز وادیاں اور ہریالی تھی۔ مغلوں نے انھی کی یاد میں ہندوستان میں بڑے بڑے باغات تعمیر کروائے ہیں۔

اکبر نے فتح پور سیکری میں ایک عالیشان باغ آباد کرایا جس میں پانی کی مصنوعی جھیل بنائی گئی۔ اس جھیل کا پانی بہت دور سے لایا جاتا اور میکینکل انجینئرنگ کے ذریعے اٹھا کر باغ کے اندر چھوڑا جاتا۔

پورے مغل باغ میں پانی بغیر کسی بجلی کی موٹر کے چوبیس گھنٹے بہہ رہا ہوتا۔ یہ گریویٹی فلو تکنیک کی وجہ سے بہتا تھا۔ آج بھی یہ تکنیک اکثر پہاڑی علاقوں میں پانی کو گھروں تک پہنچانے کےلئے استعمال ہوتی ہے۔

2) سب مشین گن

مغلوں کا انحصار بندوق پر بہت زیادہ تھا۔ بابر نے ہندوستان میں فتح صرف توپ کی وجہ سے حاصل کی تھی۔ ابوالفضل لکھتے ہیں شہنشاہ اکبر نے ایک ایسا میکانزم بنایا کہ 17 بندوقوں کو جوڑ کر ایک شخص ایک ساتھ ایک ہی بٹن دبا کر فائر کر سکتا تھا۔ یعنی ایک شخص ایک جھٹکے میں 17 فائر کر سکتا تھا۔

توپ سازی

جے گڑھ قلعے میں توپ کی ایک ایسی بھٹی بنائی گئی تھی جہاں 2400 ڈگری فارن ہائیٹ ٹمپریچر پر لوہا اور تانبا پگھلا کر توپیں بنائی جاتی تھی۔ اتنا زیادہ ٹمپریچر موجودہ دور میں ایٹمی انرجی سے ہی ممکن ہے۔

راکٹ

راکٹ کی ابتدا بھی اکبر کے زمانے میں ہوئی اور ٹیپو سلطان نے راکٹ کی تکنیک کو بہتر بنایا۔ اکبر نے 1657 میں بیدار کے محاصرے کے دوران آتشی مصالحے کو آگ لگا کر بھانس کے ڈنڈوں میں بھر کر مخالفین کی طرف پھینکوائے جس سے قلعے میں اگ بھڑک اٹھی۔

پرفیوم

گلاب کی خوشبو کا عرق نکال کر پرفیوم تیار کرنے کا سہرا جہانگیر کو جاتا ہے۔

فلکیات گاہیں

مغلوں کو فلکیات سے بھی دلچپسی تھی۔ دہلی ، جے پور ، اجین ، متھرا اور بنارس میں فلکیات گاہیں قائم تھیں جہاں علم نجوم کے ماہر تحقیقات میں مصروف رہتے تھے۔ اکبر کے ایک ماہر نجوم نے نئے قمری کیلنڈر کا اجرا بھی کیا تھا۔

شیمپو

شیخ دین محمد نے alkali اور soap میں کچھ کیمکل ملا کر دنیا کا پہلا شیمپو تیار کیا ہے۔ یہ شاہ عالم دوم کے معالج تھے ۔ بعد ازاں انھوں نے اپنی خدمات کنگ جارج چہارم اور ولیم چہارم کو بھی پیش کیں۔

آخر ہندوستان یورپ سے پیچھے کیوں رہ گیا؟

اس کی بنیادی وجہ یورپ کی نئی سرزمینوں کی کامیاب دریافت تھی۔ امریکہ دریافت ہونے کے بعد یورپ کے پاس دولت کے انبار لگ گے۔ انھوں نے انسانی غلامی کی تجارت سے اربوں کھربوں کمائے۔ امریکہ و افریقہ سے دولت آنے کے بعد یورپ میں سائنسی ایجادات میں بےپناہ اضافہ ہوا۔ چرچ کا زور کم ہونے لگا۔ یورپ نے طاقتور بحری بیڑے تیار کیے اور ان طاقتور بحری بیڑوں سے دنیا کی آبی تجارت پر قبضہ کر لیا۔

دوسری طرف مغلیہ سلطنت ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا شکار ہو کر بکھرنے لگی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے ساحلی علاقوں سے جہاں ریشم و پارچہ جات کی قیمتی صنعتیں تھیں انھیں یکسر ختم کر دیا۔

مغلوں کا سب سے بڑا قصور شاید یہ ہے جب انگریز ساحلی علاقوں پر قابض ہو رہے تھے تو مغل آنکھیں بند کئے خاموشی سے یہ سب دیکھتے رہے۔ اگر وہ مزاحمت کرتے تو انگریز ساحلی علاقوں سورت ، بمبئی اور مدراس میں کبھی قدم نہ جما پاتے۔ جہانگیر نے صرف ایک یورپین ڈاکٹر کی خواہش پر اہم ترین تجارتی علاقوں میں انگریزوں کو کاروبار کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

سہولویں صدی کے مغلیہ ہندوستان کا عالمی معشیت میں حصہ 25 فیصد تھا ، 1901 میں عالمی معیشت میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.1 فیصد رہ گیا تھا۔
انگریزوں نے ہندوستان سے ایکسپورٹ کو یکسر ختم کر کے اسے امپورٹ کرنے والا ملک بنایا یہی وجہ ہے آج بھی برصغیر میں مینوفیکچرنگ کلچر نہ ہونے کے برابر ہے۔

یہ بھی پڑھیئے:

سر سید احمد خان کا علی گڑھ کالج

RELATED ARTICLES

4 COMMENTS

  1. ماشا اللہ جناب محترم بہت اچھی تحریر ہے لیکن ان باتوں کے اگر آپ مستند حوالہ جات پیش کر دیں کو بہت میربانی ہوگی

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی