چترال کی ثقافت حیا اور شرافت میں گندھی ہوئی ہے ، مولانا نقیب اللہ رازی

چترال کی ثقافت حیا اور شرافت میں گندھی ہوئی ہے ، مولانا نقیب اللہ رازی

کراچی، ایجو تربیہ ڈیسک ؛ چترال کی تہذیب و ثقافت حیا، پاکدامنی اور شرافت میں گندھی ہوئی ہے۔ چترال کی تہذیب و ثقافت اسلامی رنگ و مزاج رکھتی ہے جسے برقرار رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ان خیالات کا اظہار چترال کے معروف شاعر ،ادیب،دانش ور اور مصنف مولانا نقیب اللہ رازی نے جامعہ انوار العلوم ملیر کراچی میں منعقدہ محفل مشاعرے سے بہ طور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

کسی مخصوص طبقے کی ثقافت کو پورے علاقے کی ثقافت قرار دینا غیر منطقی ہے ،کراچی میں خطاب

مولانا نقیب اللہ رازی نے مزید کہا کہ آج کل مخلوط رقص و سرود اور صرف موسیقی کو کلی طور چترال کی ثقافت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، جو افسوسناک امر ہے۔ کسی بھی علاقے کی ثقافت وہ کہلاتی ہے جو اس کے اکثریتی لوگوں کے مزاج اور مجموعی ماحول کی عکاسی کرتی ہو، کسی مخصوص طبقے کے رجحانات اور رسم ورواج رواج کو پورے علاقے کی ثقافت کے طور پر پیش کرنا غیر منطقی رویہ ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ محکمہ لوک ورثہ میں آفیشلی چند کیلاش روایات کو پورے چترال کی ثقافت کے طور پر پیش کیا گیا ہے حالانکہ کیلاش ثقافت بجائے خود چترالی ثقافت کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے پورے چترال کی کل ثقافت ہر گز نہیں ہے ۔

نقیب اللہ رازی محفل مشاعرہ سے مخاطب ہیں
نقیب اللہ رازی

جامعہ انوار العلوم ملیر کے زیر اہتمام کھوار مقابلہ نعت اور غیر طرحی مشاعرے کا انعقاد

جامعہ انوار العلوم شادباغ ملیر کراچی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مشاعرے میں میں کراچی میں رہائش پذیر کھوار زبان بولنے والے مدارس، کالج، یونیورسٹی کے طلباء اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد نے بلاتفریق مذہب و مسلک شرکت کی۔
مشاعرہ دو حصوں پر مشتمل تھا پہلے حصے میں نعت خوانی کا مقابلہ منعقد ہوا جس میں کراچی میں زیر تعلیم چترال اور گلگت کے کھوار بولنے والے پندرہ شرکاء نے حصہ لیا ۔مںصفی کے فرائض لطیف الرحمن لطف ،شہباز انور اور اسد الامین نے انجام دئے جبکہ نظامت کی ذمے داری عمر حیات راسخ اور فضل رحیم بابانےنبھائی۔

مولانا صادق اللہ کی پہلی ، مولانا شریف حسین کی دوسری اور حافظ سلمان کی تیسری پوزیشن

محفل کا آغاز تلاوت قرآن کے بعد مقابلہ نعت خوانی سے ہوا، جس میں مختلف مدارس کے طلباء نے بارگاہ رسالت میں گلہائے عقیدت پیش کئے۔ مقابلہ نعت خوانی میں مولانا صادق اللہ، مفتی شریف حسین مخمور اور حافظ سلمان الرحمن بالترتیب اول دوم اور سوم پوزیشن کے حقدار ٹھہرے۔ جامعہ انوار العلوم شادباغ کراچی کے مدیر و صدر مجلس نے پوزیشن ہولڈرز کو انعامی شیلڈ سے نوازا۔

چترال اور گلگت کے لوگ امن پسند اور ادب دوست ہیں ، مولانا شفیق الرحمن گلگتی

نعت کے سیشن کے اختتام پر جامعہ انوار العلوم کے مدیر مولانا شفیق الرحمن گلگتی نے مختصر خطاب کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ چترال اور گلگت کے لوگ پر امن اور ادب دوست لوگ ہیں یہاں سنی اور اسماعیلی صدیوں سے آپس میں امن و محبت کے ساتھ رہ رہے ہیں ، خود ان کے قریبی رشتے دار اسماعیلی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ قرآن نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا قیامت تک کا معجزہ ہے جو ایسے وقت میں نازل ہوا جب عرب کی سرزمین پر شعر وادب اپنے عروج پر تھا اس دور میں اچھا شاعر اور اچھا ادیب ہونا بڑے انسان ہونے کی نشانی تھی اس کے باوجود اس دور کا کوئی شاعر وادیب قرآن جیسا کلام پیش کر سکا نہ قیامت تک کوئی ایسا کر سکتا ہے

کھوار مشاعرہ
مولانا شفیق الرحمن گلگتی معروف گلوکار منصور شباب کو شیلڈ پیش کر رہے ہیں

۔

غیر طرحی مشاعرے میں معروف گلوکار منصور علی شباب،لطیف الرحمن لطف ویگر نے کلام پیش کیا

دوسرے سیشن میں آزاد مشاعرہ منعقد ہوا جس میں لطیف الرحمن لطف، اقبال الدین ہمدرد، شریف حسین مخمور، حسین ولی شاہ ، عبدالجمیل بے تاب ، شہباز انور ، علی عباس قشقاری سمیت مختلف نو جوان شعراء نے کلام پیش کیا۔ اس نشست میں عالمی شہرت یافتہ کھوار گلوکار منصور علی شباب نے بھی اپنی پرسوز آواز میں میوزک کے بغیر غزل پیش کی۔

منصور علی شباب
منصور علی شباب کلام سناتے ہوئے

رواداری کے فروغ میں علماء کا اہم کردار ہے ،وکیل سپریم کورٹ صمصام علی ایڈووکیٹ

کراچی میں مقیم معروف قانون دان اور سپریم کورٹ کے وکیل صمصام علی رضا ایڈووکیٹ نے تقریب کے انعقاد پر مدیر جامعہ کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ چترال میں محبت امن اور رواداری کے فروغ میں انہی روشن دماغ و عالی فکر علماء صلحاء کا ناقابل فراموش کردار ہے۔ نوجوان علماء سے اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ ورثۃ الانبیاء ہیں، آپ کا یہ منصب اور مقام ہے کہ عوام آپکی تقلید کرتے ہیں، آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ امن محبت روادی کی زبان بولیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرہ میں کوئی خیر پھیلے گی تو وہ آپکی کاوش ہوگی اور اگر کوئ بدی، برائی اور عدم توازن پیدا ہوا تو اس کی ذمہ داری بھی آپ پر عائد ہوگی اسلئے کہ آپ ہمارے مقتدا ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ وہ بھی اپنی طرف سے اسی طرح کی تقریب منعقد کریں گے جس میں تمام کھوار بولنے والے محبت اور امن کی زبان کے ساتھ شریک ہوں گے۔

صمصام علی رضا ایڈوکیٹ
صمصام علی رضا ایڈوکیٹ

کھوار اپنی فطری وسعت کے باعث ہر طرح کی تفریق کو مٹا دیتی ہے ، مولانا شفیع چترالی

معروف قلم کار، سینئر صحافی و مصنف مولانا محمد شفیع شاہد چترالی نے کھوار زبان وادب پر اپنی گفتگو میں کہا کہ اگر محبت کی کوئی مخصوص زبان ہوتی تو وہ چترالی یعنی کھوار زبان ہوتی۔ انہوں نے کہا یہ کھوار اپنی فطری وسعت کی بدولت ہر طرح کی تفریق کو مٹادیتی ہے، یہی وجہ ہے دنیا میں جہاں بھی کھوار بولنے والے ہوتے ہیں باہم شیر و شکر ہوتے ہیں۔ چترال میں زبانوں کے تنوع کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چترال میں بولی جانے والی 14 زبانوں میں کھوار واحد زبان ہے جسے ہم اپنی قومی زبان کہہ سکتے ہیں، مولانا شفیع چترالی نے کھوار ادب کے اسلامی تشخص پر بھی پرمغز گفتگو کی۔

ادبی تقریب میں مولانا قاری حبیب اللہ چترالی ،میجر محب الرحمن ،قاری شمس الدین ویگر کی شرکت

محفل مشاعرہ میں شرکت کرنے والے دیگر معزز مہمانوں میں جامعہ دارالعلوم کراچی کے سینئر استاد ، چترال کی معروف دینی شخصیت مولانا قاری حبیب اللہ چترالی، مولانا اکبر گلگتی، مفتی صباح الدین غذری، مفتی ولی اللہ چترالی، مفتی شیر محمد، میجر محب الرحمن، فاتحہ خوان مزار قائد قاری شمس الدین، گلگت سے تعلق رکھنے والی معروف سماجی شخصیت رستم علی خان،ڈاکٹر حمزہ خان،رحمت علی صفدر، رحمت ولی و دیگر شامل تھے۔

مجلس کے آخر میں اپنے اختتامی کلمات میں مولانا شفیق الرحمن گلگتی المعروف خطیب صاحب نے تمام مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور امن و محبت اور رواداری کو پھیلانے کا پیغام دیا، انہوں نے کہ یہ پروگرام ایک عرصہ سے منعقد ہوتا آرہا ہے آئندہ بھی ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ تقریب دار العلوم کراچی کے بزرگ استاد مولانا قاری حبیب اللہ چترالی کے دعائیہ کلمات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

یہ بھی پڑھئیے

 

2 thoughts on “چترال کی ثقافت حیا اور شرافت میں گندھی ہوئی ہے ، مولانا نقیب اللہ رازی”

  1. Sher Wali Khan Aseer

    ایسی تقریبات کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جن سے بھائی چارے کا فروع مقصود ہو۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں اخوت کے جذبے کو اجاگر کرنا علمائے دین کا فرض ہے اور اسی میں آنے مسلمہ کی بقا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top