Friday, December 20, 2024
HomeArticlesدنیا اور اس کی حقیقت قرآن وحدیث کی روشنی میں

دنیا اور اس کی حقیقت قرآن وحدیث کی روشنی میں

انسان کو باری تعالی نے اس دنیا میں بھیجا تو اس کے ساتھ ساتھ اس کے دنیا میں بھیجے جانے کے مقصد کو بھی قرآن کریم ذکر حکیم  میں بڑے واضح طور پر ذکر فرمادیا خود رسولﷺ نے بھی اپنی حدیث اور عمل  کی روشنی میں ہمارے لئے وہ  حقیقی گوہر چھوڑے ہیں کہ اگر دنیا دار انساں ان کو سمجھ لے تو وہ کبھی دنیا کی جانب راغب نہ ہوگا قرآن کریم نے تخلیق انسانی کا مقصد یہ بیان فرمایا کہ انسان کو خداوند قدوس نے اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے چناچہ ارشاد باری تعالی ہے کہ

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(56)

ترجمہ: کنزالایمان

اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی(اسی لئے)بنائے کہ میری بندگی کریں

قرآن کریم نے ایک جانب جہاں حضرت انسان کو اس کی تخلیق کا مقصد بتایا وہیں کئی مقامات پر دنیا کی زندگی کی حقیقت کو کھول کر بھی بیاں فرمادیا  قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے

یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ(88)اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍﭤ(89)

ترجمہ: کنزالایمان

جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹےمگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر

اوراس دنیا کی حقیقت اس فرمان الہی کے بعد انسان پر آشکار ہو جاتی ہے انسان دنیا نیں جن چیزوں پر ناز اور گھمنڈ کرتا ہے وہ یہی دو چیزیں ہیں ایک مال اور ایک اولاد لہذا یہ فرمادیا گیا کہ ان کے گھمنڈ میں نہ رہنا یہ بالکل بھی کام آنے والی نہیں ہیں بلکہ ایک جگہ تو قرآن کریم نے ان دونوں کو فتنہ کہا ہے چناچہ ارشاد باری تعالی ہے

اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌؕ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(15)

ترجمہ: کنزالعرفان

تمہارے مال اور تمہاری اولادایک آزمائش ہی ہیں اور اللہ کے پاس بہت بڑا ثواب ہے

مال اور اولاد کو اسی بنا پر فتنہ کہا گیا کہ انسان انہی کی محبت میں گناہ کرتا ہے اور آخر وقت میں یہ دونوں ہی اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ان کی اسی وجہ سے مذمت بیان کی گئی کہ

کہیں حضرت انسان انہی کا ہوکر نہ رہ جائے اور اپنے مقصدحیات کو ہی بھول جائے دنیاوی زندگی میں انسان کو ہر لمحہ مقصد حیات کا استحضار رہے اس کے لئے قرآن وحدیث میں جابجا ہماری رہنمائی فرمائی گئی ہے اور دنیا اور اسکی مذمت بھی قرآن وحدیث میں بیان کی گئی تاکہ مسلمان کہیں اسی کا ہو کر نہ رہ جائے اور اپنے مقصد حیات کو فراموش نہ کر ڈالے اسلئے قرآن مجید نے کہا کہ

وَ  مَا  الْحَیٰوةُ  الدُّنْیَاۤ  اِلَّا  مَتَاعُ  الْغُرُوْرِ)

ترجمہ: کنزالایمان

تر جمہ اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے

اور اسے دھوکے کا مال اسی لئے قرار دیا گیا کہ اس کے چکر میں پڑ کر انسان اپنی آخرت کو بھول جاتا ہےاور اس کاتعلق مع اللہ کمزور پڑ جاتا ہے

دل ایسا لگایا دنیا میں

مرنے کو مسلماں بھول گئے

یہی وہ دنیا ہے کہ جس کی بنا پر وہ انسان جنت سے دور اور جہنم سے نزدیک ہو جاتا ہے اک تعلق مع اللہ ہی ہے جو اس دنیا کی حقیقت ہے باقی تو ساری چیزیں فانی ہو جانے والی ہیں جس نے اپنے رب کے ساتھ اپنے تعلق کو بچا لیا تو وہی کامیاب ہوا اور جس نے اس تعلق کو ہی خراب کرلیا تو اس نے اپنی دنیا وآخرت دونوں کو خراب کرلیا  جو اس دنیا کے پیچھے پڑا وہ دن بدن اپنی منزل حقیقی سے دور ہوتا چلا گیا حدیث رسولﷺ ہے کہ انسان کو اگر دو وادیاں سونے کی مل جائیں تو وہ تیسری کی تمنا کرنے لگے گا اور اس کے پیٹ کو قبر کی مٹی ہی بھرے گی ایک اور حدیث رسول ﷺہے کہ

حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ کا اصحاب کے ساتھ ایک بکری کے مردہ بچے کے پاس سے گزر ہوا آپ ﷺ نے فرمایا کہ کون ہے جو اس بچے کو ایک درہم کے عوض سے خریدے صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم اسے کیونکر خریدیں گے یہ تو کسی کام کا نہیں اور یہ تو مردار ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم دنیا اللہ تعالی کے نزدیک اس سے بھی حقیر ہے

یہ حقیقت ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نظر میں اس دنیا کی اور آج کا مسلماں اس پر گرا چلا جارہا ہے وہ ہر سمت سے اس کو سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہے کہ کہیں یہ مجھ سے رہ جائے جبکہ درحقیقت یہ تو آخر کار اس سے رہ ہی جانی ہے

خواجہ حسن بصری فرماتے ہیں کہ دنیا گندگی کا ڈھیر ہے اور اس کی طرف لپکنے والے کتے ہیں بلکہ کتے سے بھی بدتر ہیں کیونکہ کتا تو گندگی کے ڈھیر سے سیر ہونے کے بعد اس کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے لیکن دنیا کا حریص مرتے دم تک اس کے ساتھ چپکا رہتا ہے نظیر اکبر آبادی فرماتے ہیں کہ

ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا

قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا

کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گونیں پلا سر بھارا

کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری رہ جاوے گی

اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی

یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی

دھی پوت جنوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آوے گی

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زر

جب پونجی باٹ میں بکھرے گی ہر آن بنے گی جان اوپر

نوبت نقارے بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر

کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھتر

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

کیوں جی پر بوجھ اٹھاتا ہے ان گونوں بھاری بھاری کے

ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن

ٹک غافل دل میں سوچ ذرا ہے ساتھ لگا تیرے دشمن

کیا لونڈی باندی دائی دوا کیا بندا چیلا نیک چلن

کیا مندر مسجد تال کنواں کیا کھیتی باڑی پھول چمن

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی