تربیت کیا ہے؟ تربیت عربی کا زبان لفظ ہے۔ اہل لغت کے نزدیک تربیت کے کئی معانی ہیں مثلا پرورش کرنا، پالناپوسنا، بڑھانا ،ڈسپلن سکھانا،کسی کا بھرپور خیال رکھنا، تربیت کرناا ور کسی چیزکو تدریجاً نشو ونما دے کر حد ِکمال تک پہنچانے میں مددکرناوغیرہ یہ سب معانی تربیت کے مفہوم میں شامل ہیں۔
- اسلامی اصطلاح میں تربیت کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تربیت رجحان سازی، شخصیت سازی یا تناظرسازی کا عمل ہے۔ جس کا مقصد کسی فرد، معاشرہ یا گروہ کی ایسی نشوونما کرنا ہے۔ کہ وہ اپنے مقصد تخلیق سے وابستہ ہوکرخدا کی بندگی کے اعلی مرتبے کو حاصل کر سکے۔ اورجدید اسکلز سیکھ کرمعاشرے کے لئے مفید اور کار آمد فرد بن سکے۔
- دوسرے الفاظ میں تربیہ یہ ہے کہ انسان کے مقصد تخلیق کو پیش نظر رکھ کر اس کی درست رجحان سازی کی جائے ۔اس کی فطری صلاحیتوں کو نکھارنے اورجلا بخشنے میں اس کی مدد کی جائے۔ اور اعلی انسانی صفات کے حصول کے ساتھ زندگی کی مہارتوں میں حد کمال کو پہنچنے میں اس کی مدد کی جائے۔
تربیت میں والدین واساتذہ کا کردار
تربیت کیا ہے؟ اس کے جواب کے بعد ذہن میں دوسرا اہم سوال یہ آتا ہے کہ تربیت کے عمل میں والدین اور اساتذہ کا کردار کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس حوالے والدین واساتذہ کا کردار نہایت کلیدی ہے۔ کہ وہ بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت پر بھرپورکام کریں۔ ان کی اچھی جسمانی، جذباتی، سماجی اور شعوری نشوونما کے ساتھ ان کی بہترین کردار سازی پرکام کریں۔ بچوں کی شخصیت سازی پر بھرپورکام کیلئے نہ صرف فکرمند ہوں بلکہ اس کیلئے عملی اقدامات کریں۔
والدین واساتذہ کوچاہیے کہ اس اہم کام کیلئے ایک دوسرے سے رابطے میں رہیں۔اس راہ میں پیش آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کییلئے خود کو ذہنی اور شعوری طور پر تیار کریں ۔ اور عملی اقدام کے ذریعے اس عمل کی انجام دہی کی بھرپورکوشش کریں۔ تربیت کیا ہے؟ یہ جاننے کے بعد اب ہم تربیت کے مقاصد کی طرف آتے ہیں۔
تربیت کے مقاصد
تربیت کے کم از کم تین اہم مقاصد کی یہاں نشاندہی کی جاتی ہے۔
۔تربیت کا پہلا مقصد انسان کی نیتوں میں پاکیزگی، جذبات میں نفاست اور رویوں میں خوب صورتی لانا ہے۔
انسا ن دو ہی کام کرتا ہے ۔ وہ سوچتا ہے محسوس کرتا ہے۔ اور اس سوچ کو رویے اور عمل کی شکل میں ظاہر کرتا ہے۔ پہلے سوچ ہوتی ہے اس کے ساتھ ہی اندرسے جذبات واحساسات جنم لیتے ہیں ۔ ان دونوں کے ملاپ سے ذہن میں ایک خاص کیفیت یا اسٹیٹ آف مائنڈ وجود میں آتا ہے ۔ اور وہ کیفیت عمل کی شکل میں ڈھل کر جب سامنے آتی ہے تو اسے رویہ اور عمل کا نام دیا جاتاہے۔
چنانچہ تربیت میں پہلے انسانی سوچوں پر کام کیا جاتاہے۔ پھراس سوچ سے وجود میں آنے والے رویے کو بہتر بنانے پر کام کیا جاتاہے۔ سوچ اور اسٹیٹ آف مائنڈمیں میں بہتری لانے کی کوشش کو رجحان سازی سے بھی تعبیر کیا جاتاہے جو تربیہ کی روح ہے۔
2۔ تربیت کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ وجہ تخلیق کو پیش نظر رکھ کر اپنے اختیار کا درست وذمہ دارانہ استعمال کرنا۔
انسا ن کو اللہ تعالی نے کچھ اختیار عطاکرکے بہت بڑی ذمہ داری سونپی ہے۔ یہ بات خود قرآن کریم میں مذکور ہے کہ جب ذمہ داری کائنات کی دیگر مخلوقات پر پیش کی گئی تو سب نے اٹھانے سے معذرت کرلی۔ لیکن انسان نے وہ ذمہ داری اٹھالی۔
اسی لیے قرآن میں انسان کو ظلوم اور جہول قراردیا گیا۔ وہ ذمہ داری یہ تھی کہ انسان اپنے مقصد تخلیق کو پہلےسمجھے۔ اورپھر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرکے اس مقصد تخلیق کی تکمیل کی کوشش کرے۔ ایسا کرنے پر اس کو جنت کی صورت میں جزا دی جائے گی۔
اسی احساس ذمہ داری کو اپنی نسل کی طرف منتقل کرنے کا نام اولاد کی تربیت ہے۔ کہ اسے مقصد تخلیق بتادیا جائے اورپھر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر اسے دل سے آمادہ کرکے مقصد تخلیق کو پورا کرنے میں اس کی مدد کی جائے۔
3۔تربیت کا تیسرااہم مقصد یہ ہے کہ پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارنے کیلئے بچوں کو مناسب ماحول اور رہنمائی فراہم کی جائے ۔
انسان کو اللہ تعالی نے اپنی قدرت خاص سے تخلیق فرمایا، اور اس کے اندر بے شمار امکانی صلاحیتیں رکھ دی ہیں۔ تاکہ انسان جب اپنے مقصد تخلیق کو حاصل کرنے کی کوشش میں نکلے تو یہ امکانی صلاحیتیں اس کے کام آسکیں۔
چنانچہ تربیہ کا بہت بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ والدین واساتذہ اس حوالے سے بچے کی مدد کریں کہ وہ اپنی پوشیدہ امکانی صلاحیتوں کو تلاش کرسکے ۔ ان کو نکھارسکے اور کام میں لاسکے۔ ظاہر ہے اس کیلئے بچے کو مناسب ماحول اور رہنمائی فراہم کرنا بھی تربیہ کے اہم مقاصد میں سے ایک ہے۔
تربیت کے بارے میں غلط فہمی
تربیت کیا ہے؟ اور تربیت کی حقیقت کیا ہے؟ اسے سمجھنا والدین واساتذہ کیلئے نہایت ضروری ہے۔ اس کو نہ سمجھنے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان بعض اوقات تربیت کے نام پر ایسی چیزوں کے درپے ہوجاتا ہے جو حقیقت میں تربیت کے عمل کیلئے مفید ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ لیکن غلط فہمی کی وجہ سے انسان تربیت سمجھ کر انہی کو باربار دہرارہاہوتاہے جس کے منفی نتائج پھر سامنے آتے ہیں۔ یہاں تربیت کے نام پر ان غلط رویوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
پاکستان میں پیرنٹنگ اینڈ تربیہ پر اتھارٹی کا درجہ رکھنے والے جناب سلمان آصف صدیقی صاحب اپنے مختلف ویڈیو لیکچرز کے ذریعے اس موضوع پر گفتگو فرماتے ہیں۔ ہم یہاں پر ان کے شکریے کے ساتھ ان کی گفتگو کا خلاصہ ذکر کردیتے ہیں۔ چنانچہ تربیت کیا ہے؟ اور کیا نہیں ہے۔ اس پر گفتگو کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ
بچے کو سخت کنٹرول میں رکھنا اور ہروقت اس کی نگرانی کرتے رہنا تربیت کا درست طریقہ نہیں ہے۔
یہ بات بہت عام ہے کہ گھروں اور تعلیمی اداروں میں جب کسی انسان کو اپنے بچوں کی تربیت کی فکر لگ جاتی ہے۔ تواس کا طریقہ یہ نکالا جاتا ہے کہ بچے کی خوب نگرانی شروع کی جاتی ہے ۔ اور اس کے ہرہر عمل پر سخت کنٹرول رکھا جاتاہے۔ یہ بات یا د رکھیے کہ ایسا کرنے سے بچوں کی تربیت نہیں ہوتی ۔ اس طرز عمل یا طریقہ تربیت کا نقصان یہ ہوگا کہ بچے میں خدانخواستہ منافقت پیداہوناشروع ہوجائے گی۔
کیونکہ سخت کنٹرول اور نگرانی میں بچہ مجبورا وہ کام کرے گا لیکن اسے دل سے ناپسند کررہا ہوگا۔ اور جیسے ہی یہ نگرانی یا سختی ہٹ جائے گی بچہ فورا اس عمل سے کنارہ کش ہوجائےگا ۔ اور پھراس کام سے اتنا دور ہوگا کہ دوبارہ اس کے قریب بھی نہیں جائے گا۔ لہذا یہ بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ زیادہ سختی اور نگرانی سے تربیت نہیں ہوسکتی۔
- Tarbiyah for growth and development of individual
بچے کو خوف ، لالچ دلا کر یا کسی بھی طرح زور زبردستی سے کسی کام کرنے کا پابند بنادینا تربیت کا درست طریقہ نہیں ہے۔
یہ عمل بھی تربیت کا ذریعہ نہیں بن سکتا کہ بچے کو کسی خوف یا لالچ سے کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے پر مجبور کیا جائے۔مثلا کسی نیک عمل کی عادت ڈالنے کیلئے بہت بڑا انعام رکھاجائے۔ یا کسی کام سے روکنے کیلئے ڈرادھمکا کر خوف دلایاجائے۔ایسا کرنے سے نقصان یہ ہوگا۔ کہ بچہ انعام کے لالچ سے وہ کام کرے گا۔ جیسے ہی لالچ ختم ہوجائے بچہ اس کام کو ترک کردے گا۔ یا خوف کی وجہ سے کسی غلط کام سے رکے گا لیکن جیسے ہی وہ خوف ٹل جائے تو اسے کرنے پر آمادہ ہوجائے گا۔ لہذا یہ طریقہ تربیت بھی درست نہیں۔
تربیت یا کرداز سازی کی حقیقت کیا ہے؟
تربیت کیا ہے؟ اسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں عام طور غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ تربیت کے نام پر کچھ چیزیں بچوں کو رٹوائی جاتی ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ قرآن حفظ کرنے کیلئے اسے رٹنا پڑتا ہے۔ اور دین کی بہت ساری چیزیں ہمیں رٹ کر یاد کرنی پڑتی ہیں۔ اس طرح سے رٹنے کے اپنے فوائد سے انکارنہیں۔ لیکن یہ تربیت نہیں ۔ اگر کوئی چیزیں رٹنے کو تربیت سمجھتا ہے اسے اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ چیزیں رٹنے اور زبانی یاد کرنے سے تربیت نہیں ہوتی بلکہ تربیت کیلئے کچھ اور کام کرنے پڑتے ہیں۔
کیونکہ رٹوانے سے وہ چیز ذہن، شعور اور یادداشت کا حصہ بن جائے گی۔ جبکہ تربیت محض شعور اور یاد داشت کا ڈومین نہیں۔ بلکہ لاشعور اور قلب کا ڈومین ہے احساسات اور جذبات کا ڈومین ہے۔انسان کے لاشعور، اس کے احساسات یا اس کے قلب تک رسائی کیلئے اس سے مضبوط تعلق بنا نا پڑے گا۔ اور پھر اس تعلق کو بنیاد بناکر اس بچے سے گفتگو اور بات چیت ہوگی۔ اس بات چیت کے ذریعے تربیت کی مطلوب کیفیت اس کے دل وماغ میں پہنچائی جاسکتی ہے۔
تربیت کا درست طریقہ کا ر یہ ہے۔ کہ
- سب سے پہلے تربیت کا ماحول بنایاجائے۔ پھراپنے زیر تربیت بچوں سے مضبوط تعلق قائم کیا جائے۔اس کے بعد رول ماڈلنگ کے ذریعے بچے کی ایسی رجحان سازی کی جائے ۔کہ وہ مقصد تخلیق کی تکمیل کیلئے خود سے فکرمند ہوجائے۔ اور مفید انسان بننے کیلئے اپنی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کیلئے دل سے آمادہ ہو۔
- بچے کی نیتوں میں پاکیزگی اور اس کی آرزوں میں نفاست پیداکرنے کی کوشش کی جائے۔
- بچے میں خوداحتسابی کے جذبے کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔
اس آرٹیکل کا بنیادی مقصد اس سوال کا جواب حاصل کرنا تھا کہ تربیت کیا ہے؟ کہ تربیت کی حقیقت سمجھ میں آجائے۔ اور ساتھ ہی ان غلط فہمیوں کی نشاندہی ہو جائے جو تربیت کے نام پر ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ اب تربیت کا درست طریقہ کار کیا ہوسکتا ہے اس پر مستقل آرٹیکل انشاللہ پیش کیاجائے گا۔ آگر آپ کو اس طرح کا آرٹیکل پڑھنے کا ارادہ ہو تو نیچے کمنٹ باکس میں ہمیں ضرور بتائیے۔ شکریہ