سرقہ علمی کا بڑھتا رجحان
تحریر ، لطیف الرحمن لطف
چند سال قبل ایک جاننے والے صاحب نے اپنی ایک تازہ کتاب تھما دی جو کامیاب زندگی گزارنے کے حوالے سے رہنماكتاب تھی کتاب کے عنوانات اور چیدہ چیدہ مقامات دیکھنے سے اندازہ ہواکہ یہ اسٹیفن۔ آر۔کویStephen R. Covey)) کی کتاب The 7 Habits of Highly Effective People کا چربہ ہے بس ترتیب کچھ الٹ پلٹ تھی اور سات عادات پر مزید دو کا اضافہ کردیا گیا تھا اس لئے یہ کتاب میرے دل میں صاحب کتاب کی عظمت بڑھانے کے بجائےاسے مز ید گھٹا نے کا سبب بنی البتہ اس کتاب کے شروع میں ”عرض مرتب” خاصے کی چیز تھا جس کی مقصدیت،تحریر کی روانی اور اسلوب کی چاشنی نے مجھے اس ساتھی کو خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور کیا، مجھے بالکل توقع نہیں تھی کہ وہ اس طر ح عمدہ لکھ سکتاہے۔ کچھ عرصہ بعد اسی ”سیون ہیبٹس” کا اردو ترجمہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔شروع کا ”عرض مترجم” پڑھ کر میں چونک گیا مجھے لگا کہ یہی تحریر میں نے کسی اور کتاب کے شروع میں پڑھی ہوئی ہے ،کچھ دیر سوچ،بیچار کے بعد شک گزرا کہ یہ تحریر اس ساتھی کی کتاب کے شروع میں پڑھی تھی پھر جب دونوں کتابوں کو سامنے رکھ کر موازنہ کیا تو شک یقین میں بدل گیا یہ ہو بہو وہی تحریر تھی فرق بس اتنا تھا کہ یہاں ”عرض مترجم” لکھا تھا اور وہاں ”عرض مرتب”۔ اب آپ اس سرقہ کااندازہ لگائیں نہ صرف کتاب کے تمام مضامین دوسری کتاب سےچوری شدہ ہیں جن کے ماخذ کا حوالہ تک نہیں دیا گیا ہے بلکہ عرض مرتب بھی پورا کے پورا دوسرے شخص کا اٹھا کر لگایا گیاہے ۔
تقریظ لکھنے میں بے احتیاطی
غور کی بات ہے کہ جب ایک شخص ا یک ،دو صفحے کا عرض مرتب خود نہیں لکھ سکتا تو اسے میدان تصیف و تالیف میں قدم رکھنے کا کیا حق حاصل ہے؟ کیا ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے جو دوسری کی سالوں کی محنت کا نچوڑ اپنے نام سے چھاپ دیتے ہیں؟ یہ سوال میرے ذہن میں اس لئے آ رہا ہے کہ آج کل نام وری کے شوق میں جہاں سرقہ علمی کا رجحان زور پکڑ رہا ہے وہیں ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں بھی احتیاط سے کام نہیں لیا جاتا ، اچھے اچھے لوگ ایسی کتابوں پر بے دھڑک تقاریظ لکھ رہے ہیں جو یا تو مکمل چوری شدہ ہوتی ہیں یا پھر ان پر سرقہ غالب ہوتا ہے ۔
اقتباس نقل کرنے میں احتیاط
سرقہ جس طرح عام چیزوں کا معیوب ہے اسی طرح علم کی دنیا میں بھی اسے عیب شمار کیا جاتا ہے بلکہ آج کل تو اس کی روک تھام کے لئے کاپی رائٹ کے قوانین بنے ہوئے ہیں ، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تو اس کا معیار بھی بڑا سخت ہے، ہمارے ہاں کسی دوسرے کی کتاب کا حوالہ اسی وقت دیا جاتا ہے جب اس سے ہو بہو اقتباس نقل کیا جائے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس وقت بھی صاحب کتاب کا حوالہ ضروری سمجھا جاتا ہے جب کسی کتاب کی عبارت اپنے الفاظ میں بیان کی جاتی ہے ۔
سرقہ اور توارد
علمی اور ادبی دنیا میں کسی دوسرے کا مضمون جان بوجھ کر اپنے الفاظ میں ڈھالنا بھی سرقہ کہلاتا ہے ، ادبی لحاظ سے کسی کے خیال کو اچک لینا بھی سرقہ ہے، مثلاً کسی شاعر نے کسی شعر میں کوئی خیال پیش کیا ہے ،دوسرا شاعر اسی خیال کو اپنے الفاظ میں ڈھالے تو یہ بھی سرقہ ہی کہلاتا ہے اور یہ تخیل کا سرقہ ہے ۔ بسا اوقات کوئی شاعر جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتا بلکہ اتفاقاً ایسا ہوجاتا ہے کہ اس خیال اور کسی دوسرے شاعر کے خیال میں مماثلت پیدا ہو جاتی ہے ، کبھی کبھار دونوں کے الفاظ بھی ملتے جلتے ہیں ، یہ صورت معیوب نہیں ہے کیونکہ اس میں سرقہ کا قصد اور ارادہ نہیں پایا جاتا ، اسی طرح کبھی کوئی شاعر اور ادیب کسی کتاب کا مطالعہ کرتا ہے مدت گزرنے کے بعد اس کے ذہن میں کوئی خیال وارد ہوتا ہے جس کا اصل منبع اس کا پرانا مطالعہ ہوتا ہے لیکن اسے یاد نہیں رہتا وہ اسے اپنا خیال سمجھ کر شعر یا نثر کے قالب میں ڈھالتا ہے یہ بھی معیوب نہیں ہے کیونکہ اس میں سرقہ کا قصد نہیں کیا جاتا اصطلاح میں اسے “توارد” کہا جاتا ہے ۔
بغیر کچھ کئے تعریف کے طلب گار
سرقہ علمی جس شکل میں بھی ہو یہ درحقیقت کچھ کئے بغیر کسی کام اور کارنامےکا کریڈٹ لینے کی کوشش ہوتی ہے ، جس کو نہ عقل درست تسلیم کرتی ہے نہ شریعت میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔قرآن کریم کے سورہ آل عمران میں ایک ناپسندیدہ طبقے کی یہ سرشت بیان کی گئی ہے ”ویحبون ان یحمدوا بما لم یفعلوا” (یہ لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ کسی ایسے کام میں ان کی تعریف کی جائے جو انہوں نے کیا ہی نہیں)
دوسروں کے علمی اور ادبی کاموں کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرنے والوں کا رویہ اور مائنڈ سیٹ بھی یہی ہے ۔
انٹرنیٹ سرقہ کا سہولت کار
انٹرنیٹ نے سرقہ علمی کو اور بھی آسان بنا دیا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ آج کے دور میں انٹرنیٹ سرقہ علمی کا بڑا سہولت کار بن چکا ہے، پہلے تو لوگ دوسروں کی کتابوں میں سے مواد بغیر حوالے کے اپنی کتابوں میں چھاپ دیتے تھے جس میں کچھ نہ کچھ محنت ہوتی تھی اب انٹرنیٹ سے چند منٹوں میں کاپی پیسٹ کر لیتے ہیں ، علم اگرچہ بانٹنے کی چیز ہے کسی کے علمی کام سے دوسروں کو فائدہ پہنچے تو اسے خوشی محسوس ہوتی ہے لیکن بانٹنے کا مطلب یہ نہیں کہ خیانت کا ارتکاب کیا جائے ، علم منتقل کرنے میں واسطہ بننا بھی علم کی خدمت ہے لیکن واسطے کو واسطہ ہی رہنا چاہیے اصل بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ورنہ یہ دھوکا دہی بھی کہلائے گی خیانت اور چوری بھی شمار ہوگی ۔
اخلاص کی آڑ میں سرقہ
بہت سے لوگ سرقہ علمی کا مضحکہ خیز دفاع کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ لکھا کس نے ہے اس چکر میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے ،اگر کسی کا حوالہ دئے بغیر اس کا علم دوسروں تک پہنچایا جائے تو یہ بھی اچھی بات ہے کیونکہ بہت سے اہل علم ایسے مخلص ہوتے ہیں کہ ان کو نام کی پروا نہیں ہوتی ان کا مقصد بس یہ ہوتا ہے کہ ان کے علمی کام سے لوگ فائدہ اٹھائیں ۔
منفی رجحان کی حوصلہ شکنی ضروری ہے
مانا کہ مخلص لوگ نام کے چکروں میں نہیں پڑتے وہ صرف کام کے دھنی ہوتے ہیں۔ یہ بھی تسلیم! کہ ماضی میں ایسے مخلص اہل علم بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنی گراں قدر علمی تخلیقات پر اپنا نام تک نہیں لکھا لیکن کیا ان لوگوں کے اخلاص کو دیکھ کر اهل سرقه کو یہ کھلی چھوٹ دينى چاہئیے کہ وہ ان گم نام مخلصین کی کتابوں کو اپنے نام سے چھاپنا شروع کر دیں؟ یقینا ایسا کرنا غیر دانش مندی اور بغیر صلاحیت کے خود کو تیس مار خان ثابت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے اخلاص کی ترغیب ضرور دینی چاہیئے تاہم غیر مخلص اور کچھ کیے بغیر شہرت حاصل کرنے کے مرض میں مبتلا افراد کو پنپنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہیئے کیونکہ یہ لوگ اخلاص نامی جنس کے لئے سب سے زیادہ زہر قاتل ہیں۔