Friday, November 15, 2024
HomeColumnsوالدینیت ( پیرنٹگ ) کے زعم میں والدین کی چند کوتاہیاں

والدینیت ( پیرنٹگ ) کے زعم میں والدین کی چند کوتاہیاں

والدینیت (Parenting) کے زعم میں والدین کی چند کوتاہیاں

ڈاکٹر عرفان شہزاد

بچوں کی تربیت سے پہلے والدین کی تربیت ضروری ہے۔ والدین، والدینیت (parenting)کے زعم میں بعض اوقات اولاد کے معاملے میں اپنی کوتاہیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔
بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ والدین کا ہوتا ہے، اس کی درخواست پر وہ اسے دنیا میں نہیں لاتے، اس لیے بچے کو دنیا میں لانا ان پر کوئی احسان نہیں ہے۔

بچوں سے مکالمے کا فقدان

ہمارے ہاں بالعموم والدین کا اپنے بچوں سے گفتگو اور مکالمے کا رواج نہیں ہوتا۔ بچہ کیا سوچتا ہے، اکثر والدین اس سے بے خبر رہتے ہیں۔ بچہ اگر اپنے اندر اٹھنے والے سوالات، اپنے عجیب و غریب خیالات، اپنے خوف و خدشا ت، مشاہدات و تاثرات کے غلط اور درست نتائج کا ذکر اپنے والدین سے نہیں کرتا تو یہ والدین کی ناکامی ہے۔ اور اگروہ اس بارے میں کچھ بات کرنے کی کوشش کرے اور اس کو سنجیدہ لینے کی بجائے اس کی بچگانہ سوچوں کا مذاق اڑایا جائے یا نظر انداز کر دیا جائے تو یہ والدین کی مجرمانہ غفلت ہے جس کے برے اور بہت برے نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔

بچوں سے جذباتیت میں سرزد غلطی پر والدین کا رویہ کیا ہونا چاہیے ؟

بلوغت کے قریب بچہ اپنے اندر جسمانی، ذہنی اور مزاجی تبدیلیوں میں اگر والدین کی رہنمائی اور ان کے تحمل سے محروم رہتا ہے، تو یہ والدین کی ناکامی ہے۔ بچوں سے جذبات کی رو میں بہ کر کوئی غلطی ہو جائے، وہ ضمیر کی خلش کا شکار ہو جائیں، اور وہ اس گھٹن سے نجات پانے کے لیے آپ کو مطلع بھی نہ کر سکیں، انھیں اعتماد نہ ہوکہ ان کی غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ کے بعد، بلکہ مار پیٹ کے بعد بھی، ان سے قطع تعلق نہیں کر لیا جائے گا، ہمیشہ کے لیے انھیں نظروں سے گرا نہیں دیا جائے گا، تو یہ والدین کی ناکامی ہے۔

بچہ ماں باپ سے دل کی بات کرسکے تو کن مسائل کا سامنا نہیں ہوتا ؟

بچے کا والدین سے دل کی بات کرنے کا راستہ اگر استوار رہے تو وہ کبھی خود کشی نہیں کرے گا، نشے کا شکار نہیں ہوگا، ہسٹیریا کے دورے نہیں پڑیں گے، اسے کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔

دوسروں کے توسط سے بچوں کو کوئی بات سمجھانے کا نقصان

کچھ والدین کا یہ وتیرہ ہوتا ہے کہ بچے کو کوئی بات سمجھانا ہو تو اس کے دوستوں یا رشتہ داروں کے توسط سے بات اپنی اولاد کو پہنچاتےہیں۔ وہ دراصل یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو خود سمجھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یوں بچہ دوسروں کی نظر میں بھی چھوٹا پڑ جاتا ہے۔

ایسے اہم رشتے میں بات چیت کچھ ہدایات اور چند فرمائشوں تک محدود کیوں ؟

ہمارے ہاں والدین اور بچوں کے درمیان بالعموم بات چیت چند مخصوص ہدایات، احکامات اور فرمائشوں تک محدود رہتی ہے۔ سارا دن میں بچوں کے ساتھ بات چیت کا جائزہ لیجیے۔ یہ کھانا کھانے، کپڑے پہننے، دانت برش کرنے، نہانے، ہوم ورک کرنے، وقت پر سونے وغیرہ سے متعلق ہوتی ہیں۔ان کو والدینیت (parenting)کی معراج سمجھا جاتا ہے۔ مگر بچوں کو وقت دینا اس میں شامل نہیں جس سے ذاتی اور جذباتی تعلق استوار ہوتا ہے۔

بچوں کی حد سے زیادہ مصروفیت اور اس کے نقصانات

بچے سکول سے آتے ہیں تو ٹیوشن پڑھنے چلے جاتے ہیں ،وہاں سے لوٹتے ہیں، تو قاری صاحب سے ناظرہ پڑھنے کا وقت ہو جاتا ہے، ان سے چھوٹتےہیں تو ٹی وی یا انٹرنیٹ پرکچھ دیر کوئی پروگرام، گیم یا چیٹنگ میں وقت گزارتے ہیں اور ادھر سونے کا وقت آ جاتا ہے۔ بچوں کو ایسا مصروف کر دیا گیا ہے کہ ان کے پاس والدین کے لیے وقت نہیں رہتا اور والدین بھی یہی چاہتے ہیں۔
یہی بچے والدین سے بات چیت کی روایت اور عادت نہ ہونے کے ساتھ جب بڑے ہو جاتے ہیں تو ان کے لیے بھی والدین کا وجود ایک ضرورت یا بچپن کی ایک یادگار سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاتا۔

والدین سے جذباتی وابستگی کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی بھی ضروری ہے

والدین سے جذباتی وابستگی تو ہوتی ہے مگر ذہنی قرب اس درجے کا نہیں ہوتا جو آخری عمر میں والدین کو ان سے درکار ہوتا ہے۔ عمر کے آخری دور میں جب ماں کچن اور باپ ملازمت سے فارغ ہو جاتےہیں، دوست، یار، رشتہ دار یا تو دنیا سے رخصت ہو چکے ہوتے ہیں یا میسر نہیں ہوتے، تو اس وقت وہ اپنے دل کی باتیں کرنے کے لیے اپنے بچوں کی طرف پلٹتے ہیں، لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ دونوں کے درمیان گفتگو کی بنیاد ہی موجود نہیں ہوتی اور مکالماتی خلا Communication Gap کی گہری خلیج کو پاٹنے کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔

بڑھاپے میں والدین کسی سے دل کی بات کہنے کو کیوں ترس جاتے ہیں ؟

ماں باپ کو دل کی باتیں بتانے کے لیے ترسنے والا چھوٹا سا بچہ،جو کبھی خود سے باتیں کر کے دل ہلکا کر لیتا تھا، یا دو بول بولنے کے لیے کسی ہم عمر، ہم جماعت کو تلاش کرتا تھا، اب بڑا ہو چکا ہوتا ہے۔ بات چیت کے لیے اس نے دوسرے محرم تلاش کر لیے ہوتے ہیں۔ اب والدین سے اس کا تعلق بھی چند ہدایات تک محدودہو جاتا ہے:” آپ نے کھانا کھا لیا؟” “دوا وقت پر لے لی؟ “مارکیٹ جا رہا ہوں، آپ کو کچھ منگوانا ہو تو بتایے”۔ دل سے دل تک کا راستہ ماہ و سال کی ریت میں پٹ چکا ہوتا ہے، اس کی بازیافت اب ممکن نہیں رہتی۔
یہ اولاد والدین کی تکلیف پر رو سکتے ہیں، ان کے علاج پر اپنا سب کچھ قربان کر سکتے ہیں، ان کے لیے لڑ مر بھی سکتے ہیں، لیکن بے بسی کا عالَم یہ ہوتا ہے کہ چاہ کر بھی وہ ان کے پاس دلجمعی سے دو گھڑی بیٹھ کر بات نہیں کر سکتے۔ ان کے الفاظ، محاورے، گفتگو کے مقدمات اور اسالیب، اذواق اور دلچسپی کے موضوعات سب والدین سے مختلف اور ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوتے ہیں۔

ایک بوڑھے اور کوے کی کہانی ، جس کا اہم حصہ نہیں سنایا جاتا

بہت سہولت سے اولاد کو مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے کہ وہ بڑھاپےکی عمر میں والدین سے بات نہیں کرتے۔ پھر وہ کہانی سنائی جاتی ہے کہ ایک بوڑھا ایک کوّے کو دیکھ کر بیٹے سے پوچھتا ہے کہ وہ کیا ہے؟ بیٹا جواب دیتا ہے کہ کوّا ہے، باپ چند بار مزید پوچھتا ہے۔ بیٹا تنگ آ جاتا ہے۔ اس پر باپ اپنی ڈائری لے کر آتا ہے کہ تم نے اپنے بچپن میں بیس مرتبہ کوّے کے بارے میں پوچھا تھا اور میں نے ہر بار لطف لیتے ہوئے تمہیں بتایا تھا کہ وہ کوّا ہے۔
اس کہانی میں لڑکے کے بچپن سے جوانی کی طرف یک دم چھلانگ لگا دی گئی ہے، اور بیچ میں یہ بتایا نہیں گیا کہ لڑکا جب کچھ بڑا ہوا تھا تو باپ نے اس کے ساتھ پیار تو کیا تھا، کھانا کپڑا اور دیگر ضرورتیں اور خواہشیں بھی پوری کی تھیں، لیکن اس کے ساتھ باتیں کرنا اور اس کی باتیں سننا چھوڑ دیا تھا۔ باپ سے کچھ کہنے کے لیے اسے ماں، یا بہن بھائیوں میں سے باپ کے کسی فیورٹ سے کہلوانا پڑتا تھا۔ پھر یہ ہوا تھا کہ والدین سے گفتگو کی ضرورت ہی ختم ہو گئی تھی۔ اس نے اپنے دوستوں یا بہن بھائیوں میں سے کسی کو اپنا محرم راز بنا لیا تھا، چنانچہ اس کے دوست، اور اس کے بہن بھائی جن سے اس کا گفتگو کا تعلق ہوتا ہے وہ جب ان سے ملتا ہے تو گھنٹوں باتیں کرتا ہے۔ اسے اکتاہٹ نہیں ہوتی۔ یہی وہ والدین کے ساتھ بھی کر سکتا تھا، اگر گفتگو کا تعلق توڑ نہ لیا گیا ہوتا۔

کیا بیٹے بیٹوں کے مقابلے میں کم محبت کرتے ہیں ؟

ہمارے ہاں ایک خام خیالی یہ بھی ہے کہ بیٹے بیٹیوں کے مقابلے میں کم محبت کرتے ہیں۔ اس کلیےمیں کوئی صداقت نہیں۔بیٹےاوربیٹی کےرویوں میں محبت کے اظہار میں جو فرق نظر آتا ہے، وہ درحقیقت والدین کے رویے سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ والدین بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں سے زیادہ پیار جتاتے ہیں اور خود ہی باور کر لیتے ہیں کہ بیٹوں سے پیار جتانے کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی، پھر یہ کہ بیٹوں پر رعب قائم رکھنے کے لیے بھی ان سے پیار کم جتایا جاتا ہے۔

بچے محبت کے اظہار کے رویے کس سے سیکھتے ہیں ؟

محبت کے اظہار کے رویے بھی بچے اپنے بڑوں سے سیکھتےہیں۔ پیار کا اظہار جس طرح ان کے ساتھ کیا جاتا ہے وہ بے ساختہ وہی طریقہ اپنانے پر مجبور ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیٹے بھی والدین، خاص طور پر والد سے اپنی محبت کے اظہار میں ایسے ہی کم آمیز ہوتے ہیں جیسے وہ ان کے ساتھ پیار کے اظہار میں کم آمیز ہوتے ہیں۔

والدین کے سامنے زبان نہ کھولنے پر اظہار تفاخر

ہمارے معاشرے میں فخر سے بتایا جاتا ہے کہ ہم نے آج تک والد کے سامنے زبان نہیں کھولی۔ والد صاحب کے گھر آتے ہیں پورے گھر پر سناٹا طاری ہو جاتا ہے۔ والد صاحب اپنی اس آمرانہ حاکمیت کا لطف لیتے لیتے جب ریٹائرڈ ہو کر چارپائی سے لگ جاتے ہیں تو ان کی خدمت کرنے والے تو بہت ہو سکتے ہیں، لیکن ان سے باتیں کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ دل کی بات آپ کسی سے نہ کر سکیں، اس
سے بڑھ کر کیا اذیت ہو سکتی ہے!
بچوں کا والدین سے دوری اختیار کرنے میں قصور سراسر نہیں تو اکثر والدین کا ہوتا ہے۔ آج اپنے بچوں کے دل، زبان اور کان سے رابطہ قائم یجیے، کل وہ بھی آپ کی باتیں سن سکیں گے۔ ورنہ ناصر کاظمی کا یہ شعر زیرِ لب پڑھتے ہوئے وقت گزاریے:

منہ لپیٹے پڑے رہو ناصر
ہجر کی رات ڈھل ہی جائے گی

یہ بھی پڑھیں

 

پیرنٹنگ کے چار انداز

RELATED ARTICLES

3 COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی