کامیابی کیا ہے؟
ڈاکٹر محمد یونس خالد
(یہ آرٹیکل ایجو تربیہ ڈاٹ کام کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر محمد یونس خالد کی زیر طبع کتاب ” کامیاب شخصیت کی تعمیر ” سے ماخوذ ہے)
دنیا کا ہرانسان کامیابی کا متلاشی ہے ، ہرانسان چاہتا ہے کہ وہ کامیاب ہو، چنانچہ وہ کامیابی کا ایک خاص تصور اپنے ذہن میں بناتا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لئے اپنا تن من دھن لگاتا ہے۔ کبھی وہ اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور کبھی ناکام بھی ہوجاتا ہے۔ اگرہم کامیابی کی تعریف معلوم کرناچاہیں توکوئی ایک جامع تعریف ہمیں نہیں مل سکتی۔ کیونکہ کسی کے نزدیک کامیابی زیادہ پیسہ کمانے کا نام ہے،کسی کے نزدیک شہرت حاصل کرنے کا نام ہے، کسی کے نزدیک طاقت اورکسی کے نزدیک سیاسی اثرورسوخ حاصل کرنے کا نام کامیابی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ شاندار بزنس، بڑا گھر اور بڑی گاڑی کا مل جانا کامیابی ہے اور کوئی کہتا ہے کہ اچھی نوکری اور پھر ترقی کرکے اچھے گریڈ تک پہنچ جانا کامیابی ہے۔ کوئی کہے گا کہ اللہ کو راضی کرنا ، جنت کاحصول اور جہنم سے خلاصی پانا کامیابی ہے اور کوئی کہے گا کہ زندگی میں ذہنی سکون، خوشی اور قلبی اطمینان کا مل جانا کامیابی ہے،درحقیقت یہ سب کامیابی کے مختلف مظاہر ہیں۔
سقراط سے کامیابی کے بارے میں سوال
ایک مرتبہ سقراط سے کسی نے سوال کیا کہ کامیابی کیا ہے؟سقراط نے اس سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو میں تمہیں اس کا جواب بتاتا ہوں۔ چنانچہ سقراط اس سوال کرنے والے کو لے کر ایک ندی کے کنارے پہنچا، اس کا ہاتھ پکڑ کر ندی کے اندراترا اور آگے بڑھتا گیا ۔ جب پانی گلے تک آنے لگا تو سقراط نے اس شخص کی گردن پکڑ کراسے پانی کے اندر غوطہ دیا اور کافی دیر تک اسے پانی کے اندر دبا کے رکھا ۔ جب اس کے سانس اکھڑنے لگے اور اس نے جان بچانے کے لئے ہاتھ پیر مارنا شروع کیے تو اسے پکڑ کر کھڑاکردیا، جب اس کے ہوش وحواس بحال ہوئے۔ تب سقراط نے اس سے پوچھا کہ تم ہاتھ پیر کیوں مار رہے تھے اور کیا مانگ رہے تھے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ میراسانس رک گیا تھا ، میں زندگی بچانے اور ہوامیں سانس لینے کے لئے ایسا کررہا تھا ۔ ا س وقت سقراط نے کہا کہ یہی تو کامیابی ہے کہ تم جب اپنی شدید ضرورت یا شدیدخواہش کی چیز کو حاصل کرسکو خواہ وہ کچھ بھی ہو۔ سقراط کی تعریف کے مطابق انسان جس چیز کی طرف شدید احتیاج یاشدید خواہش رکھتا ہے اس کا حصول اس کے لئے کامیابی ہے۔
چنانچہ کامیابی کسی کے لئے امتحان میں اچھے نمبروں سے پا س ہونا ہوسکتی ہے، کسی کے لئے اچھی صحت کا حصول ہوسکتا ہے اور کسی دوسرے انسان کے لئے ان سے ہٹ کر کوئی چیز ہوسکتی ہے۔
کامیابی کے مختلف تصورات
دلچسپ بات یہ ہے کہ کامیابی کے حوالے سے مختلف تصورات رکھنے والے لوگ بھی کامیابی کے مفہوم سے متعلق ایک دوسرے کی نفی کررہے ہوتے ہیں۔ بعض کے نزدیک دنیا میں مادی چیزوں کا حصول ہی حقیقی کامیابی ہے جبکہ دوسرے بعض لوگوں کے نزدیک مادی چیزوں کے حصول سے زیادہ ذہنی سکون اور خوشی کاحصول کامیابی ہے ، اگر مادی چیزوں سے ذہنی سکون اور خوشی مل جائے تو کامیابی کہلائے گی ورنہ دنیا کی بہت ساری چیزوں کا محض حاصل ہوجانا بھی کامیابی نہیں۔اسلامی نکتہ نظر جاننے کے لئے اگرہم قرآن کریم سے پوچھیں کہ کامیابی کیا ہے؟تو قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ روز محشر جہنم سے خلاصی پانا اور جنت میں داخل ہونا کامیابی ہے، چنانچہ قرآ ن کریم اس بات کو یوں بیان کرتا ہے۔
“فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقدفاز
(پس جسے جہنم سے خلاصی دی گئی اور جنت میں داخل کیا گیا حقیقت میں وہی کامیاب ہے)
عارضی اور دائمی کامیابی میں تطبیق
ہم یہاں پر کامیابی کے اسلامی تصور اور کامیابی کے دیگر مختلف مظاہر اور تصورات کے درمیان یہ تطبیق دے سکتے ہیں کہ اچھی صحت و طاقت۔خاندانی خوشحالی واستحکام، اچھی ملازمت ، اچھا بزنس، روپیہ ، پیسہ و مالی استحکام۔ منصب وسیاسی اثرورسوخ۔ اچھے تعلقات، بہترین تعلیمی کیرئیر وغیرہ یہ سب دنیا کی زندگی میں کامیابی کے مختلف مظاہر ہیں جو دنیا کی محدود اور مختصر زندگی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ دنیا میں رہتے ہوئے ان کامیابیوں کی ضرورت انسان کو پڑتی ہے۔ لیکن آخرت کی دائمی زندگی میں حقیقی ، دائمی اورابدی کامیابی وہی ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی کا ماسٹرپلان تیار کرکے دنیا کی ان چھوٹی چھوٹی اور عارضی کامیابیوں کو آخرت کی اس حقیقی اور ابدی کامیابی کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو دنیا کی یہ ساری کامیابیاں آخرت کی بڑی اور حتمی کامیابی کے لئے زینہ کا کردار ادا کریں گی۔ لہذا ہمیں اپنی زندگی کی سرگرمیوں اور یہاں حاصل ہونے والی کامیابیو ں کوآخرت کی لازوال کامیابی کے ساتھ نہ صرف ہم آہنگ کرنا پڑے گا بلکہ اس نہ ختم ہونے والی کامیابی کے لئے بنیاداور زینہ بنانا پڑے گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا کی کامیابیوں کو ضرور حاصل کرنے کی کوشش کریں لیکن ان کو حتمی کامیابی سمجھنے سے گریز کریں بلکہ دنیا میں حاصل ہونے والی ان چھوٹی چھوٹی عارضی کامیابیوں کو یوم آخرت کی بڑی کامیابی یعنی جنت کے حصول اور جہنم سے خلاصی کے لئے سنگ میل بنائیں۔
جسمانی فٹنس پر توجہ
(Physical Development)
تعمیر شخصیت کا پہلا اور اہم مرحلہ اپنی جسمانی فٹنس پر توجہ دینا ہے۔ظاہر ہے جسم ہی وہ پیکر ہے جس میں تمام انسانی خصوصیات پروان چڑھ سکتی ہیں جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کردیتی ہیں اور ان تمام خصوصیات کا حامل جسم ہوتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ صحت مند دماغ صحت مند جسم میں پایا جاتا ہے تو سب سے پہلے انسانی جسم کو بیماریوں سے پاک، صحت مند، متناسب، متوازن اور تہذیب یافتہ ہونا ضروری ہے۔ اگر تربیت کے معاملے میں انسانی جسم کو نظر انداز کیا جائے اور صرف عقل وشعور کو بڑھانے پر ہی توجہ مرکوز کی جائے تو یہ جامع تربیت یا شخصیت سازی کے خلاف ہوگا۔