سوچ کو بدلیں خود کو بدلیں

انسان اور سوچ کا زندگی بھر کا ساتھ ہے۔سوچیں انسان کے ساتھ ساری زندگی رہتی ہیں اگر ہم سوچ کو بدلیں تو بڑی حد تک ہماری بھی بدل جائے گی اسی سوچ  کا انسان کی ترقی وتنزلی میں بڑا کردار ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی سوچ کو بدلیں تو ہم خود کو بھی بدل سکتے ہیں سوچ ہمارے زہن کی پیداوار ہوتی ہے اور بعض اوقات یہ خود بخود پیدا ہوجاتی ہیں بعض اوقات یہی سوچ  انسان کوکردار عزت قدر  کے لحاظ سےعظمت کی بلندیوں پرپہنچا دیتی ہیں تو کبھی کبھی ہم  اسی سوچ  کی بناء پر انسان( خسر ان اور اسفل السافلین)کے درجے تک پہنچ جاتا ہے  جب ہم سوچ کو بدلیں گے تو زندگی بدلے گی اور جب زندگی  بدلتی ہے تو انسان  خود بھی بدل جاتا ہی تعمیری سوچ  انسان میں کامیابی ،ہمت،خوشی،پیار ومحبت،عظمت،بلندی ،خوبصورتی اورکردار کی پختگی اور خود اعتمادی  جیسی صفات کا باعث بنتی ہے  تو بری سوچ کم ہمتی ،بغض،حسد،کینہ،ضد،غم وغصہ،ناکامی،نفرت،کردار کی خرابی کا باعث ہوا کرتی ہیں۔سوچ کی تبدیلی سے انسان ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے سوچ کو بدل کر انسان خود کو بدل سکتا ہے اور بعض اوقات یہی سوچ  انسان کے لئے عذاب بھی بن جاتی ہیں َ۔بقول شاعر

یاد ماضی   عذاب ہے یا رب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

انسانی ذہن اور سوچ

انسانی ذہن سوچوں کی آماجگاہ  ہے ۔جہاں دن بھر میں کڑوڑوں سوچیں آتی جاتی اورسماتی رہتی ہیں۔اس ذہن کو اگر آزاد چھوڑ دیا جائے تو یہ شتر بے مہار کی طرح جس سمت منہ اٹھائے چلا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ کسی ایسی گھاٹی کے دہانے پر پہنچ جائے جہاں سے گرنے کے بعد اٹھنا ممکن نہ ہوسکے

سوچ تیری اب مجھے جینے نہیں دیتی

کیسے اکھاڑ پھینکوں اسے اپنے زہن سے

 

 اگر اس ذہن اور سوچ کو مقید کر دیا گیا تو عین ممکن ہے کہ انسان  کنویں کامینڈک بن جائےاور یونہی لکیر کا فقیر بنا زندگی کو بتا دے۔لہذا یہ دونوں ہی کام غلط ہیں اور دونوں ہی کا خمیازہ ناکامی ہے۔بھلا اب کیا کیا  جاسکتا ہے ؟یہ تو کچھ ایسی صورت پیش آگئی جیسی شاید کبھی غالب کو پیش آئی تو انہوں نے کہا کہ:

ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ میرےپیچھے توکلیسا میرے آگے

لہذااب کرنے کا کام یہ ہے کہ اپنے ذہناور سوچ  پر مذہب کا پھندا ڈال کر اسے شریعت کے کھونٹے سے باندھ کر رکھا جائے۔کہ نہ تو وہ شتر بے مہار کی طرح ادھر ادھر بھٹکتا پھرےاور نہ ہی کنویں کا مینڈک  بن جائے یا لکیر کا فقیر بنا پھرے۔اس کے پر کاٹ کر رکھنے چاہیئں۔بقول شاعر:

پر کاٹ کے صیاد نے جب باب قفس کھول دیا

مجھ کو اڑنے کے بہت یاد زمانے آئے

سوچیں اور تبدیلی

آج ساری دنیا میں اک شور برپا ہے کہ  تبدیلی کیسے آئے گی؟ہم کیسے اس دنیا کو بدل  سکتے ہیں؟ کیا ہم ان بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں کچھ ایسا کر سکتے ہیں کہ ہم اپنے ماحول اور حالات کو بدلیں ؟ ہم اپنے ماحول کو کیسے بدلیں اور خود سے محرومیوں اور ناکامیوں کے اثرات کو ذائل کرکےدنیا میں حقیقی خوشی اور کامرانی کیسے حاصل کریں ؟ ان تمام  سوالوں کا ایک ہی جواب ہے صرف سوچ کو بدلیں زندگی خود بدل جائے گی  ۔ سوچ کو بدلیں اک یہی وہ تبدیلی جو دنیا میں  انقلاب لاسکتی ہے کہ جس کی آج ہم سب کو ضرورت ہے باہر سے آکر کوئی ہمارے  دکھوں اور محرومیوں کا مدا وا  نہیں کرے گا۔بدلتے ہوئے حالات کے تناظرمیں ہم اپنی سوچ کو بد لیں تو خود ہماری زندگی بدل سکتی ہے  ایک یہی طریقہ ہے کہ ہم اس  قابل ہو سکیں گے کہ بیرونی دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چل سکیں ۔

سو چوں کی اقسام

سوچ   کی دو بڑی اقسام ہیں ۔پہلی مثبت سوچ دوسری منفی سوچ اپنے نام کی طرح یہ سوچیں  انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں اور انسان میں مثبت یامنفی تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں۔سوچ کے منفی یا مثبت اثرات خود ہماری زندگی پر پڑتے ہیں اور سوچ کے پڑنےوالے انہی اثرات کی بدولت ہماری زندگی میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو یا تو ہماری کامیابیوں کو ناکامیوں سے بدلیں گی اور یا پھر ہماری ناکامیوں کو کامیابیوں سے بدلیں گی

مثبت سوچ

مثبت سوچ  انسان میں  مثبت تبدیلیاں لے کر آتی ہے  ۔انساں جب مثبت انداز سے سوچتا ہے  تو یہ مثبت سوچ  اس کی کارکردگی کو تبدیل کردیتی  ہے یوں جب کارکردگی   تبدیل ہوتی ہے تو انسان ہدف کی جانب رواں دواں ہونے لگتا ہے۔ یوں وہ نئی نئی منزلوں کی تلاش  میں رہتا ہے۔ پھر آخر اس کا یہ خود سے  مثبت  انداز میں سو چنا اسے کامیابیوں سے ہمکنار کرتا ہے۔مثبت سوچ رکھنے والا انسا ن کبھی ناکامیوں سے دو چار نہیں ہوتا  کیونکہ وہ نا کا می سے کبھی دلبرداشتہ نہیں ہوتا۔اسے ہر ناکامی کے بعد ملنے والی مثبت سوچ  کامیابی کی راہ پر ڈال دیتی ہے۔اس طرح سے سوچ کی تبدیلی انسان پر کامیابیوں کے دروازے کھول دیتی ہے۔

منفی سوچ

منفی سوچ  انسان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوا کرتی ہے ۔انسانی ذہن  خود سے منفی سوچ  کو لے کر اسی پس وپیش میں مبتلا رہتا ہے کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا قدرت کے اس کارخانے میں ایک میں ہی رہ گیا تھاجس پر یہ مصیبت آنی تھی؟ کچھ ایسی ہی قسم کی سوچ  اس کے ذہنں اور روح کے  ساتھ زندگی بھر چمٹی رہتی ہیں اور اس کے ذہن ودل کو اسقدر کمزور کر  دیتی ہیں کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں  سے محروم ہو جاتا ہے اس طرح منفی سوچ اس کی کامیابی کی راہ میں  رکاوٹ بن جاتی ہیںَ۔اور یہی سوچ کی تبدیلی اسے زندگی بھر ناکامیوں سےدوچار کئے رکھتی  ہے۔

سوچیں اور ہماری ترقی وتنزلی

مولانا الظاف حسین حالی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ صرف دو سوچیں ہیں کہ جنہوں نے دنیا کی ترقی وتنزلی پر  بڑا اثر ڈالا پہلی سوچ یہ کہ(ہم خود کچھ نہیں کر سکتے) دوسری سوچ یہ کہ(ہم سب کچھ  خود کر سکتے ہیں) مولانا فرماتے ہیں کہ پہلی سوچ کا اثر یہ ہوا کہ انسان نے اپنیااسی  سوچ  کے ساتھ بناء کچھ کئے زندگی بتا دی اور کوئی کامیابی نہ حاصل کر سکا اسے اس کی  منفی سوچ نے کچھ کرنے ہی نہ دیا۔ جبکہ دوسری سوچ کا اثر یہ ہوا کہ انسان نے  خود پر ترقیوں کے دروازے  کھول لئے اس نے چاند تک رسائی حاصل کر لی اور ستاروں پر کمندیں ڈالنی شروع کر دیں۔سوچ یا تو ہمیں ترقیوں سے ہمکنار کرتی ہیں  یا پھر تنزلیوں سے دوچار کرتی ہیں۔سوچ کی تبدیلی ہی ہماری کامیابی وناکامی کا  اصل ذریعہ ہے۔

ایک واقعہ دو سوچیں

مثال کے طور پر تین دوست ہیں ان میں سے ایک کو دل کا دورہ پڑ جاتا ہے دونوں دوست اسے لے کر دل کے ہسپتال پہنچتے ہیں  ڈاکٹر معائنے کے بعد کہتا ہے کہ انہیں زیادہ چکنائی کھانے اور باہر کے کھانے.کھانے سے دل کا دورہ پڑا اب اس کے دونوں دوستوں میں سے ایک نے یہ سوچ رکھی  کہ میں چکنائی اور باہر کے کھانے استعمال نہیں کرونگا جبکہ دوسرے  کی سوچ یہ تھی  کہ میں بھی چکنائی اور باہر کے کھانے کھاتا ہوں یقینا میرے ساتھ بہی ایسا ہی ہوگا۔اب پہلا دوست اپنی مثبت سوچ کی بناء پر صحت کے مسائل کا شکار نہ ہوگا جبکہ دوسرا ایک نہ ایک دن دل کے ہسپتال ضرور جا   پہنچے گا۔یہی سوچ کی تبدیلی(سوچوں کا منفی یا مثبت ہونا) زندگی کے ہر معاملے میں ہماری ترقی وتنزلی یاکامیابی وناکامی کا باعث ہوتی ہے۔حاصل کلام یہ کہ اگر ہم سوچ کو بدلیں گے تو ہماری زندگی بدل جائے گی

دو دوست ایک سوچ

بل اور ایلن دو دوست تھے۔ دونوں ایک ہی جیسی سوچ رکھتے  تھے۔بل سے اساتذہ نالاں رہتے تھے کہ وہ  کسی کام کا نہ تھا۔یونیورسٹی کا آخری دن تھا جب استاد نے بل سے کہا کہ وہ صرف ٹرک ڈرائیور بن سکتا ہے اور بس….!اب یہ دونوں دوست ایک جھیل کے کنارے بیٹھے اپنی اس منفرد سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا سوچ رہے تھے کہ جس سے ان کے علاوہ دنیا کا کوئی دوسرا   شخص آگاہ نہ تھا اپنی اس سوچ  کو جب ان دونوں نے مل کر عملی جامہ پہنایا تو یوں ہوا کہ دنیا ان میں سے آج ایک دوست کو بل گیٹس کے نام سے جانتی ہے۔جی ہاں..! وہی بل گیٹس جسے ہاورڈ یو نیورسٹی کے استاد نے یہ کہ کر رخصت کیا تھا کہ  وہ صرف ڈرائیور بن سکتا ہے۔ آج وہ بل گیٹس دنیا کی سب سے بڑی مائیکرو سوفٹ کمپنی کا مالک ہے۔اور آج اس کا نام ہاورڈ  یونیورسٹی  میں ٹاپ آف دی لسٹ ہےکہ یہ ہونہار ہمارا طالبعلم تھا ۔سوچ کی تبدیلی کی بناء پر ہی بل گیٹس نے آج دنیا میں وہ مقام پایا کہ دنیا میں وہ مقام کوئی دوسرا نہ حاصل کر سکا۔

جاپان کی مثال

جاپان کے دو بڑے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے۔ اگر جاپانی بھی منفی سوچ رکھتے ہوئے انتقامی کاروائی کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نےایسا نہیں کیا ۔انہوں نے سوچ کی تبدیلی سے وہ انقلاب برپا کیا کہ ان کا دشمن آج تک ان کا محتاج ہے۔انہوں نے انتقامی کاروائی  کی منفی سوچ کوتخلیقی صلاحیتوں کےحصول کی مثبت سوچ سے بدل ڈالا پھر یہی سوچ کی تبدیلی دشمن کو ان کے قدموں میں لے آئی۔

 مایوسی کفر ہے

مایوسی کفر ہے ۔اپنی سوچ کو بدلیں آپ کامیابیاں حاسل کرسکتے ہیں۔ ناکامیوں سے کامیابی کی منزل تک کا سفر صرف سوچ کی تبدیلی پر منحصر ہے۔اگر ہم غالب کی طرح  تصور جاناں سے نہ نکلے تو کامیابی سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گی

دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن

بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے

ایک مایو سانہ سوچ ی  یہ بھی ہے کہ اگر یوں ہوتا تو ایسے ہوجاتا اگر ایسے ہوتا تو کیسا ہوتا۔ایسی سوچ  کے حامل افراد سے گذارش ہے کہ وہ  سوچ کی تبدیلی کے  زیور سے خود کو آراستہ کریں۔ حضرت غآلب بھی یہی کہتے کہتے  گزر گئے

مر گیا غالب مگر اب یاد آتا ہے

 وہ ہر بات پہ کہنا کہ  یوں ہوتا تو کیا ہوتا

حرف آخر

بحیثیت قوم  یا فرد ہمارے جتنے بھی مسائل ہیں ان سب کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے سوچ کی تبدیلی اپنی سوچوں کو تبدیل کیجئے بڑی بڑی کامیابیاں اور منزلیں آپ کی منتظر ہیں۔آئے آج ہی سے ہم سوچ کی تبدیلی کے ساتھ اپنے کامیابی کے سفر کاآغاز کریں۔

مزید پڑھیں کامیابی میں سوچ اور رویوں کا کردار

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top