اچھے استاد کی خصوصیات

خصوصیات جو کہ ایک اچھے استاد، ٹیچر یا معلم کی ہونی چاہیے ان میں اپنے مضمون میں مہارت، پڑھانے کا تجربہ، طالب علموں سے ہمدردی وشفقت، نرم مزاجی

تحریر ؛قرۃ العین کامران

استاد، ٹیچر یا معلم وہ مبارک شخصیت ہے جن کے ہاتھوں میں ملک کا مستقبل ہوتا ہے۔ ان کی انگلیاں مہارت سے مستقبل کے معماروں کی نقاشی کرتی ہیں۔ جو طلباء کو جہالت کے اندھیروں سے محفوظ رکھتا ہے۔ استاد کی رہنمائی کسی چراغ کی مانند طالب علموں کے راستے روشن کرتی جاتی ہے۔ ایک اچھے معلم کی صفات ، عادات اور نصیحتیں طلباء کی زندگی کے ہر موڑ اور ہر قدم پر بہترین راہیں متعین کرتی ہیں۔ ایک مثالی معلم کو کن کن اوصاف سےمزین ہونا چاہئے ذیل میں ہم بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

طالب علم کے ذہنی معیار کا علم

ایک استاد کو بچوں کے ذہنی معیار کا بخوبی علم ہونا چاہئے تاکہ وہ یہ جانچ سکے کہ جو کچھ انہوں نے اسباق کے ذریعے طالب علموں سکھانے کی کوشش کی ہےوہ انھوں نے کس حد تک سمجھا اور سیکھا ہے۔اچھے استاد کی خصوصیات وہ ہے جو تدریج کے ساتھ طلباء کو پڑھا سکتا ہو،نیز ہر قسم کے طلباء کو سکھانے اور ہر ایک کے ذہنی معیار کے مطابق اسباق کو آسان بنانے کا ہنر جانتا ہو۔

نرم مزاجی

برتاؤ میں نرمی اور آسانی کرنا بھی معلم کی خاص صفت ہے ۔ معلم کی تدریس کا طریقہ ایسا ہو جو طلباء کا دل موہ لے۔رویہ میں میں جھنجھلاہٹ نہ ہو۔غصّے کا اظہار نہ کرے اور نہ ہی طلباء سے نالاں ہو کر سختی کا برتاؤ کرے۔

مثالوں سے تفہیم

نظری تدریس ہو یا فنی تحقیق ، گفتگو کا ماحاصل تعلیم ہی ہو ۔موقع محل کی مناسبت سے تمثیل کے ذریعے مقاصد واضح کرے اس کا بہترین اسوہ رسول ﷺکی ذات گرامی سے ملے گا کچھ یہ ہوتی ہیں اچھے استاد کی خصوصیات۔
ایک دفعہ آپﷺ نے ایک ماں کو اپنے بچوں کے ساتھ محبت کرتے دیکھا تو صحابہ سے دریافت کیا “کیا یہ ماں اپنے بچے کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟ “۔صحابہ نے عرض کیا “نہیں” آپ ﷺنے فرمایا: ” اللّٰہ بھی اپنے بندے سے محبت کرتا ہے اور اس کی محبت ماں کی محبت سے ستر گنا زیادہ ہے “۔
اس طرح رسول کریم ﷺ نے رب اور اس کے بندے کی محبت کو تمثیل سے سمجھایا۔
صحابہ اگر کھانے پینے کی باتیں کررہے ہوتے تو آپﷺان کی باتوں میں شرکت فرماتے اور موقع محل کے مطابق گفتگو فرماتے۔

حسب ضرورت انداز تعلیم میں ردّ وبدل

کامیاب معلم وہ ہے جو ضرورت کے مطابق تعلیم اور تدریسی کا انداز تبدیل کر سکے،کبھی سبق کی تفہیم کہانیوں اور روزمرّہ کے واقعات کے ذریعے کرے ۔ کبھی تختہ سیاہ یا وائٹ بورڈ کا استعمال کرکے سبق سمجھائے ، کبھی اپنی کرسی پہ بیٹھ کر بچوں کے ہاتھ کاغذ اور قلم تھما کر پڑھائے۔

برین سٹورمینگ اور کانسیپٹ شیٹ کے ذریعے طلباء کی معلومات کا جائزہ لیا جائے۔معلم خود بھی پروجیکٹ بنائے اور طالب علموں سے بھی بنوائے تاکہ موضوع کی تفہیم دلچسپ ہو۔ کبھی کمرہ جماعت میں مختلف گروپ بنائے اور گروپ ورک کے ذریعے تدریسی منصوبے کو آگے بڑھائے ۔

نصابی مشقوں کی فعالیت

معلم کو چاہیے کہ بچوں کو نظری علم سکھانے کے لئے اور سکھائے گئے علم کی سمجھ جاننے کے لئے بچوں کو سبقی مشقیں کرائے۔ان مشقوں کے ذریعے معلم کو طلباء کے ریسپانس(تعلیمی رجہان)کا بہت اچھی طرح پتہ چل سکتا ہے۔بہترین معلم اپنی تدریس اور موثر تعلیمی جانچ کے طریقوں کے ذریعے بچوں میں رغبت پیدا کرتا ہے اور نظریات کو براہ ِراست سمجھنا ممکن بناتا ہے۔

رواداری

مثالی معلم رواداری کو فروغ دیتا ہے ۔اس کا مطمع نظرِ علم کی طاقت ہوتی ہے۔طلباء کے سامنے رنگ و نسل کے تفاخر اور قومیت کے غرور کو اہمیت نہ دے بلکہ ان امتیازات کو مٹا کر اپنے ملک کے حوالے سے قومیت پر فخر کرے اور طلباءکو اتحاد کی ایک لڑی میں پرونے کے عملی اقدامات کرے۔

تعلیمی عمل میں آسانیاں پیدا کرے

مثالی معلم طلباء کے لئے تعلیمی عمل آسان اور سہل بناتا ہے۔ اس با سہولت علمی سفر میں کمرہ جماعت اور تعلیمی ادارے میں طلباء کو پرسکون اور با اعتماد ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ایک مثالی معلم طلباء کو اپنے غیض و غضب سے نہیں ڈراتا بلکہ خیر بانٹتا ہے۔
رسول اللّٰہ نے فرمایا کہ “لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرو۔سختی نہ کرو ۔خوشی کی بات سناؤ ، نفرت نہ دلاؤ “(صحیح بخاری)

علم کا حریص

ایک مثالی معلم کو اپنے علم میں اضافے کےلئے ہر وقت کوشاں رہنا چاہیے ، یہ علم معلم اور اس کے شاگردوں کے لئے نفع بخش ہوگا ۔
ایک حدیث کے الفاظ ہیں کے “دو حریص کبھی قانع نہیں ہوسکتے ۔ایک طالب علم اور دوسرا طالب دنیا”(البیہقی)
استاد کی محنت کا دائرہ شاگردوں کو ڈگری تھما دینے تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کی علمی پیاس بجھانا بھی اس کا ہدف ہونا چاہئے۔

خوش طبع و خوش مزاج

ایک معلم کو ہشاش بشاش ہونا چاہیے۔تھکاوٹ سے دور ، خوش طبع اور خوش مزاج ہونا چاہیے۔اس کی صحبت طلباء کے لیے مسرت اور علمی کشش کا باعث ہو۔
حضرت علی کا قول ہے” دل کو آزاد بھی چھوڑ دیا کرو ، خوش کن نقطہ بھی سوچا کروکیوں کہ جسم کی طرح دل بھی گھل جاتا ہے”

اسی مقصد کے لئے ترقی یافتہ ممالک میں اساتذہ کو سرکاری طور پر سیر و سیاحت کےلئے بھیجا جاتا ہے تاکہ اساتذہ کے علم اور شخصیت میں توازن اور نکھار پیدا ہو۔ وہ قدرت کے نظاروں کو دیکھ کر لطیف نکات سوچیں اور علمی استعداد بڑھائیں۔

صبر اور شجاعت

ایک معلم کو صبر اور شجاعت کا پیکر ہونا چاہیے۔ ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اسے تیار رہنا چاہیے۔ اچانک آجانے والے حادثات جیسا کہ زلزلہ وغیرہ میں ہمت سے کام لیتے ہوئے اپنے حواس قائم رکھتے ہوئے ضروری اقدامات کرنا آنا چاہیے۔ طالب علموں کو حوصلہ دیتے ہوئے ان کی جان بچانے کا فوری بندوبست کرنا چاہیئے۔ معلم کو دفاعی تربیت یافتہ ہونے کے ساتھ بہادر بھی ہونا چاہیئے تاکہ پریشان حال طالب علموں کو پرسکون رکھتے ہوئے ان حالات سے نبرد آزما ہوا جاسکے۔
ایسے حالات میں صبر و ہمت کے ساتھ شجاعت اور بہادری بھی مثالی معلم کی اہم صفات ہیں ۔ بے صبری اور بزدلی ایک بدترین عیب ہے جس سے نبی محترم ﷺ بھی پناہ مانگتے تھے۔

خیر خواہی کا جذبہ

مزاج کے اعتبار سے ایک معلم کو سرتاپا خیر ہونا چاہیے۔دنیا میں دینے والا بن کر رہے نہ کہ لینے والا۔ دین اسلام کی رو سے ایک مثالی معلم مسلم معاشرے کا خیر خواہ ہوتا ہے۔دوسروں کے لیے خصوصا طالب علموں کے لیے نفع بخش ہونے کے ساتھ بے ضرر بھی ہو۔ سب سے قابل ستائش عمل خیر کی تعلیم دینا ہے۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ “عابد پر عالم کو فضیلت ہے۔ اللہ تعالی ، فرشتے، زمین و آسمان کا ایک ایک فرد یہاں تک کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلیاں سمندر میں اس معلم کے لیے دعا کرتی ہیں جو لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتا ہے(ترمذی)”

سوالات کی تشفی کرنے والا

اچھے استاد کی خصوصیات میں طلباء کی طرف سے آنے والے سوالات کا مکمل ، تسلی بخش اور سیر حاصل جواب دینے کا ہنر آنا چاہیے ۔ جواب ایسا دے جو طلباء کی تشنگی کو بجھائے اور ان کی تفہیم کو بڑھائے۔
حدیث شریف میں حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم لوگوں کے سامنے ایسی گفت گو کرو گے جو ان کی عقل کی رسائی سے باہر ہو تو وہ کچھ لوگوں کے لیے فتنہ بن جائے گی۔ (مسلم)
لہذا معلم کوئی ایسی بات نہ کرے جو طلباء کے عقل و فہم سے دور ہو اور جس کو وہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔

مطالعہ کا شوق

ایک مثالی معلم کو اپنے مضمون کے حوالے سے اپنی علمی قابلیت بڑھانے کے لیے معیاری اور نئی آنے والی تحقیقات کو اپنے مطالعہ میں شامل رکھنا چاہیے۔ نیز طالب علموں کے اندر بھی مطالعہ کا شوق پروان چڑھانا چاہیے۔
درسی کتب کے علاوہ نوٹس تیار کرنے کے لیے دوسری ریفرنس / معاون کتب کی مدد لینے کی عادت کا خوگر بنانے والا ہو۔

حب الوطنی

ایک مثالی معلم کو خدا اور اس کے رسول سے اور اپنے وطن سے نہ صرف خود محبت ہونی چاہیے بلکہ اپنے طالب علموں کے ذہنوں میں بھی اس محبت کو رچا بسا دینا چاہیے تاکہ ایک مسلمان کی حیثیت سے وہ ملک و قوم کا نام روشن کرنے والے ہوں۔
کسی بھی قوم کامستقبل اس کے اساتذہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ملک کے اساتذہ کی محنت ، ان کی قابلیت، ان کا جوش و جذبہ اور پیشے سے لگن اس ملک کے مستقبل کےتعین میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ایک معلم ایک فوجی کی طرح ہوتا ہے جو کہ ایک پل بھی اپنے فرض سے غافل نہیں ہوسکتا ۔ اس کو ہر وقت چوکنا اور ڈیوٹی پر موجود رہنا ہوتا ہے۔ معلمی کا پیشہ اختیار کرنے والوں کو اپنے احساس ذمہ داری سے نہ صرف واقف ہونا چاہیے بلکہ اسے احسن طریقہ سے نبھانے کی صلاحیت بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے۔

مزید پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کیجئے۔

قاری حبیب الرحمن ،اسلاف کا ایک نمونہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top