ٹین ایجراوروالدین کے جھگڑے
ٹین ایجر بچوں سے ماں باپ کا جھگڑا ایک حد تک تو فطری عمل ہے۔ جس طرح چھوٹے بچوں کی پرورش کے دوران بھی یہ چیز پیش آتی رہتی ہے۔ اوراس کی وجہ ظاہر ہے۔ کہ یہ بچے اب بالغ ہوکرخود مختاری کی جانب محوسفر ہوتے ہیں۔ لہذا وہ والدین کے مقابلے میں اپنا الگ نکتہ نظر ظاہر کرسکتے ہیں۔
جس کی وجہ سے والدین سے ان بن ہونا معمول کی بات ہے۔ مثلا بچہ اپنے دوستوں کی پارٹی میں جاناچاہتا ہے۔جبکہ والدین اسے منع کررہے ہیں۔ اورپابندی عائد کردیتے ہیں۔ تو نتیجے میں بحث ومباحثہ اور سخت ماحول کا سامناکرنا پڑسکتاہے۔
بلکہ اس سے بھی چھوٹی چیزلڑائی کاسبب بن سکتی ہے۔ مثلابچہ موبائل چلانا چاہتاہے۔ یا کوئی ٹی وی پروگرام دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن والدین اسے منع کررہے ہیں ۔ یہ اختلاف والدین اور بچے کے نکتہ نظر کے الگ ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ کہ دونوں کی سوچ کی سمت اور ڈائرکشن مختلف ہے ۔
اوریہیں سے بچہ بلوغت، خودانحصاری اوراپنی مستقل رائے رکھنے کی جانب گامزن ہوجاتا ہے۔ جو یقینافطری امرہے۔ لیکن والدین کے لئے یہ سب حیران کن ہوسکتاہے۔ تاہم یہ کیفیت عارضی ہوتی ہے۔ جو کچھ ہی عرصے بعد خود درست ہوجاتی ہے۔
ذیل میں ٹین ایجر بچوں سے بحث ومباحثہ یاجھگڑے کو کس طرح سے نارمل کیا جائے؟ اس حوالے سے کچھ ٹپس پیش خدمت ہیں۔
:جھگڑے کی بنیادی وجہ معلوم کرنا
اگروالدین اور ان کے ٹین ایجرز بچوں میں کسی وجہ سے لڑائی ہوئی ہے۔ تو اس کے حل کی طرف جانے سے پہلے اس کی بنیادی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کریں۔ کہ وہ کیا سبب ہے جو اس لڑائی کامحرک بنا ؟
مثلا آپ نے گھر کے لئے اور سب کے لئے یہ اصول بنایا ہے۔ کہ مغرب کی اذان کے بعد کوئی بھی باہر نہیں رہے گا ۔ لیکن آپ کا ٹین ایجربچہ اس کے بعد بھی لیٹ گھر پہنچتا ہے۔ اب لڑائی اس بات پر ہوئی ہے، کہ لیٹ کیوں پہنچے؟ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے دوستوں نے اس دن پلان بنایاتھا کہ وہ سب مل کر سورج ڈوبتے وقت کا نظارہ کریں گے۔
جس کی وجہ سے بچے کو آنے میں تاخیرہوئی۔ یہاں جھگڑے کو حل کرنے سے پہلے دیکھنےوالی بات یہ ہے۔ کہ یہ جو اصول بنایاگیا ہے۔ کیا یہ ٹین ایجر بچوں کے لئے بھی پوری طرح موثرہے؟ کہیں ایسا تونہیں کہ یہ بارہ سال کی عمر تک کے بچوں کے لئے ہی مناسب ہو۔
اور ٹین ایجر بچے اپنی فطری خودانحصاری کے سفرپر ہونے کی وجہ سے مزید آسانی چا ہتے ہوں۔ اگرایسا ہو تولڑائی کا حل یہاں بھی ڈھونڈا جاسکتاہے۔ کہ ٹین ایجرزکے لئے اس ٹائم میں کچھ وقت کا اضافہ کیا جائے۔ اس طرح سےلڑائی کی بنیاد معلوم کرکےاسے آسانی سے حل کیا جاسکتاہے۔
:بچے پر بھرپوردھیان دیں
اگر بچے کے ساتھ لڑائی کی کوئی خاص بنیاد نہیں ۔ بس اچانک لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ اور پھروہ طول پکڑتی ہے۔ بچہ اچانک بدمزاجی پراترآتا ہے اورایک دم سے پھٹ پڑنا اس کا معمول ہے۔ اگریہ کیفیت ہے، تو سمجھ لیجئے کہ آپ کا بچہ آپ کی توجہ چاہتا ہے۔
اپنے بارے میں احساس اور توجہ کامتقاضی ہے۔ اگرچہ وہ اس کیفیت میں والدین سے بظاہر بے زاری کا اظہارکررہا ہوگا ۔ لیکن پھر بھی اسے والدین کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اس سے پہلے تھی۔ وہ اپنے تقاضوں کے بارے میں والدین کو احساس دلانا چاہتا ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ والدین اپنے اس ٹین ایجر بچے کو بھرپوراحساس کا تاثر دیں۔ اوراس کی باتوں پردھیان دینا شروع کردیں۔ تو لڑائیوں کا سلسلہ بھی کم ہوجائے گا۔
:مزاج ٹھنڈا ہونے کا انتظارکریں
اگر والدین اور ٹین ایجر بچے میں لڑائی ہوجائے، تو فورا حل کی طرف جانے کی کوشش نہ کریں۔ کیونکہ جب دماغ گرم ہوتا ہے، تو وہ کچھ اچھا سوچنے کے قابل نہیں رہتا ۔ اس لئے فریقین پہلے دماغ کو ٹھنڈا کرنے کے طریقے ڈھونڈیں۔ اور اس وقت ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔
لڑائی کا مقام چھوڑدیں۔ جسمانی پوزیشن تبدیل کریں۔ ٹھنڈاپانی پئیں۔ کوئی خوشگوارمنظر اپنے ذہن میں لائیں۔ اسلامی طریقے کے مطابق لاحول ولاقو ۃ الا باللہ پڑھیں وغیرہ۔ اس طرح جب دماغ ایک مرتبہ ٹھنڈاہوجائے۔ تو پھر حل کے لئے مل کر بیٹھیں اورسوچیں کہ مسئلے کا ممکنہ حل کیا نکل سکتا ہے؟
:مناسب موقع پر ڈسکشن کیا کریں
یہ بات اٹل ہے کہ بات چیت ،مکالمہ اور ڈسکشن سے ہی مسائل کا حل نکلتاہے۔ اپنے بچے سے ڈسکشن کریں۔۔اور بات چیت کریں۔ مثلا اتوار کے دن کسی بھی کھانے کے بعد جب دماغ پرسکون ہو ۔ اسی طرح نماز کے لئے مسجد جاتے ہوئے، یا لمبی ڈرائیو پرجاتے ہوئے، یا کسی پرفضا مقام پر چائے اور کھانے کے ٹیبل پر اپنے بچے سے ڈسکشن کریں۔
یہ ڈسکن یا مکالمہ دوطرفہ بات چیت پر مشتمل ہونا چاہیے۔ یک طرفہ لیکچر نہ ہو ۔ چنانچہ اس طرح کا مکالمہ کئی الجھنوں کو دور کردے گا۔ اوراس دوران خود بولنے سے زیادہ اپنے بچے کو سننے کی کوشش کریں۔ جب زیادہ سنا جائے اور کم بولاجائے۔ تو مسائل بہتر حل ہوتے ہیں۔
:ضرورت پڑنےپر باہر سے مدد حاصل کریں
اگر ان وسائل کو اختیارکرنے کے باجود بھی بچے کے ساتھ اختلاف میں کمی نہیں آتی۔ بلکہ اس کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ لڑائی جھگڑے اور توتومیں میں اضافہ ہی ہوتا جارہاہے ۔ ایسے میں باہرسے کسی کی مدد بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
اس کے لئے کسی نفسیاتی ماہر، لائف کوچ، اسکول ٹیچر یا کونسلر،یا کوئی ایساعالم فاضل شخص جس پر دونوں کا اعتماد ہو، سے کسی کی بھی قسم کی مدد لی جاسکتی ہے۔ تاکہ بات مزید بگڑنے سے رک جائے۔
اور آوٹ سورس کا فائدہ یہ بھی ہوگا۔ کہ وہ فریقین کا جائزہ لے سکتاہے۔ کہ اصل غلطی کی بنیاد کہاں ہے؟ کیا بچے میں ہے یا والدین میں؟ بعض اوقات والدین خود غلطی کررہے ہوتے ہیں۔ اوربچہ ردعمل دیتاہے ۔ یوں باہر سے مدد لے کر بھی ان مسائل کو حل کیا جاسکتاہے۔