ضبطِ نفس، نفس کی خواہشات  پر کنٹرول  کامیاب زندگی کی بنیاد؟

ضبطِ نفس، نفس کی خواہشات  پر کنٹرول  کامیاب زندگی کی بنیاد؟

انسان کی اصل عظمت اس کی عقل میں نہیں، بلکہ اپنے نفس پر قابو رکھنے میں ہے۔ جس نے اپنے جذبات، خواہشات، اور غصے کو قابو میں کرلیا، وہی حقیقی کامیاب انسان ہے۔ دنیا کی زیادہ تر ناکامیاں اور گناہ اسی وقت ہوتے ہیں جب انسان ضبطِ نفس یعنی  نفس کی خواہشات پر کنٹرول  کھو دیتا ہے۔

ضبطِ نفس کیا ہے؟

ضبطِ نفس کا مطلب ہے اپنے جذبات، خواہشات، غصے اور لالچ کو حدود کے اندر  کنٹرول میں رکھنا۔ یعنی انسان اپنی ہر خواہش نفس  پوری کرنے کے بجائے یہ دیکھے کہ کیا یہ چیز میرے دین، میر ی  عقل اور ضمیر کے مطابق درست  ہے ؟

سورۃ النازعات میں فرمایا:اور جو شخص  اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اور اپنی خواہشات نفس  کو روکے، تو اس کا ٹھکانا جنت ہے۔(سورۃ النازعات: 40-41)

اس آیت کی رو سے  ضبطِ نفس یا نفس کی خواہشات پر کنٹرول  محض ایک اخلاقی خوبی نہیں بلکہ یہ  جنت کا راستہ اور رب کی رضا ہے۔

ضبطِ نفس کیوں ضروری ہے؟

  1. کردار کی حفاظت کیلئے:
    نفس کی خواہشات پر مبنی جذباتی فیصلے اکثر نقصان دیتے ہیں۔ ضبطِ نفس انسان کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی طاقت دیتا ہے۔ اور جب انسان نفس پر کنٹرول حاصل کرتا ہے تو درحقیقت  اس کا کردار بلند ہوجاتا ہے۔ اور بلند کردار سے انسان کامیابی حاصل کرلیتا ہے۔
  2. روحانی سکون کیلئے:
    جو شخص اپنی خواہشات نفس پر قابو پا لیتا ہے، وہ روحانی سکون اور قلبی اطیمنان  حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ نفسانی خواہشات انسانی وجود کے اندر ہروقت مچلتی رہتی ہیں۔ وہ کسی وقت میں تھمنے کا نام نہیں لیتیں ۔ ابھی ایک خواہش کو پورا کیا تو دوسری خواہش سامنے کھڑی ہوتی ہے ۔ اسے پورا کرلو تو تیسری خواہش سر اٹھالیتی ہے اور مچلنے کو تیار رہتی ہے۔

لہذا دنیا کی زندگی میں خواہشات کی تسکین کبھی پوری نہیں ہوسکتی ۔ روحانی سکون کا ایک ہی راستہ ہے کہ ان خواہشات کو کنٹرول کیا جائے۔

  1. رشتوں کی مضبوطی کیلئے:
    انسانی نفس رزائل کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔  یعنی بری اور غلط خواہشات کی طرف لپکتا ہے۔  اگر اس کی بات مان لی جائے تو انسانی رشتے بھی متاثر ہوجا تے ہیں ۔ اور انسان اکیلا رہ جاتاہے۔ مثلا غصہ، ضد، اناپرستی، حسد ، بغض اور کینہ وغیرہ ۔ یہ ساریےنفس کے مفاسد اور خرابیاں ہیں۔

جن کی وجہ  سے انسانی رشتے خراب اور ٹوپ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جب نفس پر کنٹرول حاصل کیا جائے تو یہ خرابیاں کمزور پڑ کر دب جاتی ہیں جس کے نتیجے میں انسانی تعلقات اور رشتے مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں۔

  1. دنیاوی کامیابی کیلئے بھی نفس پر کنٹر ول ضروری ہے:
    دنیا کے کامیاب لوگ بھی ہمیشہ  جذبات پر نہیں، بلکہ اصولوں پر چلتے ہیں۔ کیونکہ نفس کی خواہشات پر چلنے والا انسان دنیاوی کامیابی بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ نفس ہمیشہ  آرام پسندی، خودغرضی، لالچ اور خواہشات کی پیروی کی طرف انسان کو راغب کرتاہے۔  جس کے نتیجے میں ناکامی یقینی ہوجاتی ہے۔

اور نفس پر کنٹرول کے ذریعے  سے انسان کامیابی کےراستے پر چل سکتاہے۔ اور نفس کی خواہشات کو کنٹرول میں رکھ کر اصولوں کی پیروی  ہی سے دنیا وی اور اخروی کامیابی ملتی ہے۔ لہذا نفس پر کنٹرول ہر لحاظ سے نہایت ضروری ہے۔

قرآن و سنت کی روشنی میں ضبطِ نفس

سورۃ النازعات میں ارشاد باری تعالی ہے۔

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ” (النازعات: 40، 41)

اور جوشخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا  اور نفس کو خواہش سے روکا، تو بے شک جنت ہی اس کا ٹھکانہ ہے۔

 یہ آیت واضح کرتی ہے کہ نفس پر قابو پانے والا انسان جنت کا حق دار بنتا ہے۔

سورۃ الشمس میں ارشاد   فرمایا:

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا- (9،10)
یقیناً کامیاب وہ ہوا وہ شخص  جس نے اپنے نفس کو پاک کیا، اور ناکام ہوا جس نے اسے آلودہ کیا۔

یہاں کامیابی کا راز تزکیۂ نفس یعنی نفس کی پاکیزگی قرار دیا گیا ہے۔

سورۃ آل عمران میں فرمایا:

وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ- (آل عمران: 134)
جو غصے کو پی جاتے ہیں، لوگوں کو معاف کرتے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

غصے پر قابو رکھنا نفس پر کنٹرول کی عملی مثال ہے۔

حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: طاقتور وہ نہیں جو کشتی میں دوسرے کو گرا دے، بلکہ حقیقی طاقتور وہ شخص  ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔(صحیح بخاری)

ترمذی کی ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا:حقیقی مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے اللہ کی اطاعت میں جہاد کرے۔ (جامع ترمذی)
یہی ضبطِ نفس ہے ۔  یعنی جذبات کی شدت میں بھی خود پر قابو رکھنا۔

حدیث قدسی میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے فرمایا: میرا بندہ میرے قریب ہوتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس کا دل اپنی محبت سے بھر دیتا ہوں، پھر وہ اپنی خواہش کو میری رضا کے تابع کر دیتا ہے۔ (صحیح بخاری)

 خلاصہ یہ ہے کہ نفس پر کنٹرول ایمان کی علامت ہے۔ یہ انسان کو غصے، خواہشات، حسد، اور لالچ جیسے نفس کے جال سے بچاتا ہے۔
قرآن کریم  کے مطابق یہی تزکیہ  نفس ہے ۔اور خود پر قابو آخرت کی کامیابی کا راستہ ہے۔

ضبطِ نفس کیسے حاصل  کیا جائے؟

1۔ خود آگاہی اور کوشش سے

اپنے منفی جذبات کو پہچانیں۔ جب غصہ آئے، حسد ہوجائے  یا خواہش نفس بڑھنے لگے تو خود سے سوال کریں: میں کیوں ایسا محسوس کر رہا ہوں؟ اور اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ان خواہشات کے نقصان دہ نتائج کو رئیلائز کرکے خود کو روکنے کی کوشش کریں۔

2۔ فورا ردعمل دینے سے گریز کریں۔ کچھ دیر کیلئے رک جائیں۔

کسی جذباتی لمحے میں یا شدید غصے کی حالت میں  فوراً ردِعمل نہ دیں۔ 10 سیکنڈ خاموشی کبھی کبھی بڑے نقصان سے بچا لیتی ہے۔ اس دوران آپ اپنا ذہن کسی اور جانب مبذو ل کرسکتے ہیں۔ الٹی گنتی گن سکتے ہیں۔ اپنی پوزیشن یا جگہ  تبدیل کرسکتے ہیں۔ پانی پی کر خود ٹھنڈا کرسکتے ہیں۔  یا اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ کر شیطان سے خودکو محفوظ بناسکتے ہیں۔

3۔ عبادت اور اللہ سے  دعا:

نماز، ذکر، روزہ اور دعا انسان کے اندر ضبط  نفس پیدا کرتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:روزہ ڈھال ہے۔روزہ دراصل ضبطِ نفس کی تربیت ہے۔ اسی طرح اللہ سے یہ دعا بھی مانگنی چاہیے کہ اللہ ہمیں نفس کے شر سے بچائے۔

4۔ اچھا ماحول اچھا اور صاف ستھرا رکھیں:

جن لوگوں کی صحبت میں آپ رہتے ہیں، وہ صحبت آپ کے جذباتی کنٹرول پر اثر ڈالتی ہے۔ صالح دوست ضبط میں مدد دیتے ہیں، جبکہ جذباتی ماحول ضبط کو کمزور کرتا ہے۔ اور آپ نفس کے ہاتھوں بے قابوہوسکتے ہیں۔ لہذا دوست اور ماحول اچھا منتخب کریں۔

4۔ اپنے اہداف کو واضح رکھیں:

جو انسان زندگی میں  اپنے اہداف کو واضح اور متعین کرے۔ اپنی منزل پہچان  کر متعین کرکے اس کی طرف سفر کرنے لگے ، وہ خواہشات کے طوفان میں نہیں بہتا۔ بلکہ اہداف کے حصول میں خود کھپاتا ہے۔  جب مقصد واضح ہو تو ضبط نفس آسان ہوجاتا ہے۔

لہذا  زندگی میں اپنے اہداف کو متعین رکھیے۔

خلاصہ کلام۔

ضبطِ نفس دراصل زندگی کی اصل کامیابی ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو خود غرضی سے  دوسروں کی نفع رسانی کی  طرف لے جاتی ہے۔   غصے سے  صبروتحمل اور برداشت  کی طرف لے جاتی ہے۔ اور خواہش نفس کی پیروی   سے  اللہ کی عبادت اور رضا  کی طرف لے جاتی ہے۔  فرمایا جس نے اپنے نفس پر قابو پا لیا، گویا اس نے اپنی تقدیر خود بنالی۔

Check Also

تربیہ پیرنٹنگ میں مرر نیورونز کا اہم کردار

تربیہ پیرنٹنگ میں مرر نیورونز کا اہم کردار

  ڈاکٹرمحمدیونس خالد۔ تربیہ پیرنٹنگ کوچ / کاونسلر مرر نیورونز انسان دماغ کے وہ خاص …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے