Saturday, December 7, 2024
HomeSelf developmentسیلف ڈویلپمنٹ کی ضرورت واہمیت

سیلف ڈویلپمنٹ کی ضرورت واہمیت

سیلف ڈویلپمنٹ دراصل خود  اپنی ترقی اپنی زات  کے ارتقاء اور اپنے آپ کو بہتر بنانے کا نام ہے یہی وجہ ہے کہ سیلف ڈویلپمنٹ اہمیت سےانکار ممکن  نہیں ہمارے آج کے اس معاشرے میں سیلف ڈویلپمنٹ کی بڑی ضرورت ہے ۔ سیلف ڈویلپمنٹ کو ہم  اپنے لفظوں میں تعمیرشخصیت کہتے ہیں ہمارادین اسلام ہمیں تعمیرشخصیت یاسیلف ڈویلپمنٹ کا حکم دیتاہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں سیلف ڈویلپمنٹ کا نام سنتے ہی ذہن میں یہ تاثر ابھرتا ہے۔ کہ شاید یہ کوئی مغربی فلسفہ، سوچ وفکر ہے ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق یا ہمیں شاید اس کی کوئی ضرورت نہیں۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جب انسان نے خلاء میں اڑانیں بھریں۔ زیر زمیں خزانوں کو کھوج نکالا  خلائوں کو تسخیر کیا۔ اور اب  سیاروں پر کمندیں ڈ النے چل نکلا ہے۔

اتنا سب کچھ کرنے والا انسان اگرکچھ  نہ کر پایا تو وہ ہےاس کی اپنی شخصیت کی تعمیر  اور اپنے دل دماغ یا جسم کی  دنیا کی تسخیرہے ، جسے  سیلف ڈویلپمنٹ کہا جاتا ہے۔ قبل اس کے کہ سیلف ڈویلپمنٹ کی ضرورت واہمیت پر بات کی جائے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ سیلف ڈویلپمنٹ درحقیقت ہے کیا؟

سیلف ڈویلپمنٹ کیا ہے ؟

سیلف ڈویلپمنٹ اپنی ذات، شخصیت اور دل ودماغ پر کام کرکےان کو بہتر اور اصلاح کرنے کا عمل ہے۔ انسان اپنی پیدائش سے لے کر موت تک مختلف مراحل سے گز رتا ہے جن میں بچپن .لڑکپن .جوانی اور بڑھاپا آتے ہیں ان تمام مراحل سے گزرتے ہوے انسان کی شخصیت میں جو تبدیلیاں یا بگاڑ پیدا ہو جاتے ہیں ان کو دور کرنے کا عمل سیلف ڈولپمنٹ ہے۔ہمارے آج کے اس معاشرے کو سیلف ڈویلپمنٹ کی بڑی ضرورت ہے اور سیلف ڈویلپمنٹ کی اہمیت کے پیش نظر ہر شخص کا سیلف ڈویلپمنٹ کو جاننا بہت ضروری ہے

آج کے اس موجودہ ترقی یافتہ دور  میں سیلف ڈویلپمنٹ کی ضرورت واہمیت سے کسی طور انکار ممکن نہیں۔ جو چیلنجز آج ہمیں درپیش ہیں۔ اور جو بگاڑ آج ہمارے معاشرے میں پیدا ہو چکے ہیں ان کی ایک بڑی وجہ سیلف ڈویلپمنٹ کی کمی ہے۔ چاہے وہ شعوری سطح پر ہو یا لاشعوری سطح پر۔ اگر ہم نے موجودہ مسائل کو حل کرنا ہے تو  ہمیں اپنی سیلف ڈویلپمنٹ پر توجہ دینی ہوگی ۔ اس کے بغیر  مسائل حل نہیں ہونے والے۔ جب تک ہم سیلف ڈویلپمنٹ کو اہمیت نہیں دیں گے اور اس کی ضرورت کو نہیں سمجھیں گے تب تک ہم کامیاب نہیں ہو سکتے ہمیں عملی طور پر کام کرنا ہو گا ۔علامہ اقبال فر ماتے ہیں

دنیا کو پھر ہےمعرکہ روح وبدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا

اللہ کو ہے پامردی مومن پہ بھروسا

ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر

کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا

ہمارا وجود اور سیلف ڈویلپمنٹ

ہمارے اندرکئی وجود کام کررہے ہیں۔ مثلا ہمارا جسمانی وجود، ہمارا ذہنی وجود، ہمارا نفسیاتی وجود اور ہمارا روحانی وجود۔ ہمیں بیک وقت اپنے وجود کے ان تمام پہلووں پر کام کرنا ہوگا۔ تاکہ ہمارے وجود کے یہ تمام پہلو ایک دوسرے پر مثبت اثر ڈال سکیں۔ اگر ہم نے اپنے وجود کے ان پہلووں میں سے کسی ایک پر بہت کام کیا لیکن دیگر کو نظر انداز کیا تو ہمارا وجود ناقص رہے گا۔ وجود کے ان تمام پہلووں پر بیک وقت مناسب کرنے کو ہی ہم سیلف ڈویلپمنٹ یا تعمیر شخصیت سے تعبیرکرتے ہیں۔

ہمارے وجود کے ان  تمام پہلووں کا آپس میں ربط ہونا اورصحیح حالت میں ہونا اس بات کی دلیل بن سکتی ہے کہ  سیلف ڈویلپمنٹ کے تقاضو ں کو پورا کیا گیا ہے۔اقبال فر ماتے ہیں

زندگی کیا ہے عنا صر کی ظہور ترتیب

 موت کیا ہے انہی اجزاء کا پریشاں ہو نا

ہمارا جسمانی وجود

جسمانی وجود ہمارا وہ وجود ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں اور چھوسکتے ہیں۔ اور زندگی بھر ہماری توجہ اسی جسم کو بنانے میں لگی رہتی ہے۔ اگر یہی توجہ ہم اپنی ذات کے دیگر پہلووں پر بھی صرف کریں تو بات بن جائے۔ لیکن ہمارے وجود کے دیگر ظا ہری آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ اس لئے ہم ان کی طر ف خاطر خواہ توجہ نہیں دینے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی ۔ اسی مسئلے کے حل کیلئے سیلف ڈویلپمنٹ کی اہمیت ہمارے سامنے آتی ہے۔

 جسمانی وجودکی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک صحت مند اور جسمانی لحاظ  سےایک مضبوط وتوانا انسان  ہوں۔ اپنے جسمانی وجود کو بہتر بنانے کیلئے ہمیں روزانہ ورزش کرنی چاہیے۔ کھانے پینے میں اعتدال ہو۔ متوازن، صحت بخش اور معیاری اشیاء ہی جن کی ضرورت ہمارے جسم کو ہے ہمیں اپنی غذامیں شامل رکھنی چاہیئیں ۔ اوران اشیاء سے پرہیز کرنا چاہئے۔ جو ہمارے جسمانی وجود کو نقصان پہنچاتی ہیں یا ہماری صحت کے لئے مضر ہوں۔

ہمارا شعوری وجود

ہمارے شعوری وجود کا تعلق عقل سے ہے اسی لئے ہمارا یہ وجود بڑی اہمیت کا حامل ہے عقل دو دھاری تلوار ہے ۔انسان اگر اس کو دھوکہ دہی اور مکاری کے لئے استعمال کرے گا تویہ خود اسی انسان کو قتل کر دالے گی

عقل آمد دین ودنیا شد خراب

عشق آمد دین ودنیا کامیاب

اسی عقل کو اگر ہم درست سمت میں صحیح سوچوں کے ساتھ تخلیقی کام میں لگا ئیں گے تو ہم ستاروں سے اگلے جہانوں کو بھی کھوج لیں گے لہذا جب بھی سیلف ڈویلپمنٹ کی  بات کی جائیگی تو اسمیں ایک پہلو عقل انسانی کا کامل واکمل ہونا بھی ہے۔اور اسیعقل کی اہمیت کے پیش نظر ہم نے اسے سنوارنا ہے  کو ہم نے سنوارنا ہے۔

عقل کامل ہے تو پانی کو  پیتے ہوئے دیکھے گا اور عقل کامل نہیں تو کسی  بھی نالی میں جانور کی طرح منہ ڈال دے گا  ۔دیکھ کر پانی پینے  والا جب پانیوں میں تمیز رکھے گا تو بات اگے چل کر آب زم زم تک جائے گی جو کے اس کے جنت میں داخلے کا سبب بن جائے گی۔

اگر بنا تمیز کے  ہر مشروب کو حلق میں اتارا لیا تو یہ روش جہنم میں لے جائے گی جہاںاس کا استقبال جہنمیوں کے خون اور پیپ سے ہو گا ۔علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ

گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور

چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے

ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ

فطرت کو خرد کے روبرو کر

تسخیر مقام رنگ وبو کر

تو ثابت ہوا کہ عقل کو سنوارنا اور اس سے کام لینا اور اسے صحیح راستے پر  ڈالناہمارے شعوری وجود کی  سیلف ڈویلپمنٹ یہی ہے کہ  اپنی خواہشات پر عقل کے پھندے ڈال کر ان  کو شریعت کے کھو نٹے سے باندھ کر رکھا جائے۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سیلف ڈویلپمنٹ کی ضرورت واہمیت کا ہمارے شعوری وجود کے حو الے سے کیا مقام ہے۔

ہمارا روحانی وجود

سیلف ڈویلپمنٹ کی  بات ہو تو ہم اپنے روحانی وجود کو کیسے فراموش کر سکتےہیں۔یہی تو وہ وجود ہے کہ جس کی ضرورت اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں روحانی وجود ایک ایسا تعلق ہے  جو بندے کو اپنے رب سے جوڑے رکھتا ہےالروح من امر ربی(روح میرے رب کے حکم سے ہے)اب اس روح کو پاکیزہ رکھنا ہی وجود روحانی کی سیلف ڈویلپمنٹ ہے۔

 ہمارے اس روحانی وجود کا تعلق اگر ہمارے رب  سے جڑا ہوا اور مضبوط ہے تو ہم اولئک ہم المفلحون(فلاح پانے والوں میں سےہیں)اور اگر خدانخواستہ ہمارایہ تعلق رب  سے کمزور ہے یا اس میں دراڑیں پڑ چکی ہیں یا ہمارا یہ تعلق ٹوٹا ہوا  ہے اور ہم نے اسے استوار کرنے کی کبھی ضرورت محسوس  نہیں کی تو ہمارا شمارغیر المغضوب علیہم ولضالین ( وہ جن لوگوں پر اللہ کا غضب ہوا اور وہ گمراہ ہوے) میں ہو گا۔اقبال فرماتے ہیں

دنیا کو پھر ہے معرکہ روح وبدن  پیش

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا

اللہ کو ہے پامردی مومن پہ بھروسہ

ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

سیلف ڈویلپمنٹ کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اپنی روح کو بھی پاکیزہ رکھا جائے جس طرح یہ ہمیں اللہ تعالی نے  پاکیزہ سونپی تھی۔آج ہمارا طبقہ اپنے ظاہری وجود کو سنوارنے کے لئے پلاسٹک سر جری  تک کروالیتا ہے لیکن وہ اپنے باطن کو سنوارنے کے لئے  جھوٹ اور حسد کو نہیں چھوڑتا۔ہمارے ظاہری وجود کی عزت ہمارے باطنی وجود کی وجہ سے ہے۔

گھرآئے مہمان کو خالی گلاس دیں گلاس کی عزت بھی جائے گی اور آپ کی بھی گلاس کو شربت سے بھر کر پیش کریں آپ کی عزت بھی ہو گی گلاس کی بھی۔ تو اندر والی چیز کی بنا پر باہر والی چیز کی عزت ہوا کرتی ہے۔ تو اپنی روح یعنی اپنے اندر کی دنیا کو خوبصورت بنائیں انشاءاللہ پلاسٹک سرجری کی ضرورت  نہیں رہے گی۔

ہمارا نفسیاتی وجود

نفسیاتی وجود کا تعلق ہماری سوچوں سے ہوتا ہے۔ سوچوں کے بگاڑ سے انسان کی شخصیت میں ایک طلاطم برپا ہو جاتا ہے جسکے نتیجے میں بعض  اوقات انسان نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے لئے بھی  خطرے کا باعث بن جاتا ہے۔اس طرح انسان جب سیلف ڈویلپمنٹ کو اہمیت دے گا تو اسے اپنی سوچوں پر بھی کام کرنا پڑے گا۔سوچوں کو پاکیزہ بنانا پڑے گاانہیں درست سمت میں لگانا ہو گا اور انہیں  ادھرادھر بھٹکنے سے بچانا ہو گا کیونکہ جب سوچیں بھٹک جائیں تو تباہی وبربادی انسان کا مقدر بن جاتی ہے ۔

ہمارا جذباتی وجود

ہمارے جذ باتی وجود کا منبع ومرکز ہمارے احساسات ہوا کرتے ہیں یہ احسا سات بڑی اہمیت کے حامل ہوا کرتے ہیں ۔ایک وقت تھا جب ہر چیز کو عقل کے پیمانے میں تولا جاتا تھا۔خود انسان کے وجود کو بھی عقل کے پیمانے تولا  جاتا تھا خود انسان کے وجودکوبھی عقل کےترازو میں رکھ کر اسکی قیمت متعین ہوا کرتی تھی لیکن آج زمانے نے نئی کروٹ لے لی ہے ۔

آج آئی کیو  کے بجائے ای کیو کو اہمیت دی جارہی ہے۔ نئی ریسرچ نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ انسان کی ترقی کا دارومدار عقل سےزیادہ جذبات پر ہے ۔ سیلف ڈویلپمنٹ سے ہمیں اپنے جذبات  کو قابو میں رکھنے میں مدد ملتی ہے آج دنیا میں وہی لوگ  کامیاب ہیں جنہیں اپنے جذبات پرکنٹرول ہوتا ہے

حرف آخر

آج کے اس ترقی  یافتہ دور میں سیلف ڈویلپمنٹ کی ضرورت واہمیت سے انکار ممکن نہیں  ۔ہمارے تمام موجودہ مسائل کا حل صرف اور صرف سیلف ڈویلپمنٹ کی اہمیت کو سمجنے اور اس کو اختیار کرنے میں اور اپنے آپ کو سنوارنے میں ہے آج ہم اگر سیلف ڈویلپمنٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے اختیار کرتے ہیں تو ہم ہر لحاظ سے کامیاب ہوسکتے ہیں  ۔جو قومیں اپنے آپ کو سنوارتی نہیں وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جایا کرتی ہیں۔علامہ اقبال فرماتے ہیں

وہ قوم نہیں لائق ہنگامہ فردا

جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے

۔مزید پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کیجئے۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی