متحدہ عرب امارات(دوسری قسط)

متحدہ عرب امارات میں ساڑھے سات دن

عبد الخالق ہمدرد

(تیسری قسط)

عربی لفظ “شارقہ” سے شارجہ کیسے بنا؟

صبح سکون کے ساتھ ناشتہ واشتہ کر کے شارجہ کتاب میلہ دیکھنے روانہ ہوئے۔ یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ اردو اور انگریزی میں اس امارت کا نام شارجہ ہے لیکن عربی میں شارقہ ہے۔ میں اس کی وجہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ فرق کیوں ہے تو حسن اتفاق سے ایک اماراتی سے طویل گفتگو کے بعد معلوم ہوا کہ شارقہ کے لوگ بہت سے الفاظ میں ق کو ج سے بدلتے ہیں۔ ان میں سے ایک لفظ یہ بھی ہے۔ یہ میرے لئے نئی بات تھی کیونکہ میں نے ایرانیوں کو ق کو غ، مصریوں کو ق کو ہمزہ، سعودیوں اور قطریوں کو ق کو گ بولتے تو سنا تھا مگر ق کو ج پڑھنا پہلی بار سنا۔

شارجہ میں ہفتہ وار تین چھٹیاں ہوتی ہیں

یہاں ان دنوں بین الاقوامی کتاب میلہ جاری ہے اور میرے اس سفر کا بنیادی مقصد بھی یہ میلہ دیکھنا تھا۔ متحدہ عرب امارات سات چھوٹی چھوٹی امارتوں کا مجموعہ ہے اور ہر امارت کی اپنی حدود اور حکمراں خاندان ہیں۔ دفاع، خارجہ پالیسی اور کرنسی پورے ملک میں ایک ہے لیکن اپنی حدود کے اندر ہر امارت میں کچھ نہ کچھ مخصوص قوانین ضرور ہیں۔ اسی ضمن میں یہ بھی ہے کہ جب مرکزی حکومت نے ہفتہ وار تعطیل ہفتے اتوار کی کر دی تو شارجہ نے جمعہ بھی ساتھ ملا لیا۔ یوں اب شارجہ میں سرکاری اداروں میں ہفتے میں چار دن کام ہوتا ہے۔

مغرب کی دو رکعتی نماز

اسی طرح ابو ظبی میں ایک مرکزی اذان ہوتی ہے اور باقی مساجد کے مؤذن صرف بٹن کھول کر وہ اذان اپنی مساجد سے نشر کرتے ہیں لیکن دبئی میں ہر مسجد میں اذان دی جاتی ہے۔ اس بارے میں شرعی نقطہء نگاہ سے بھی کلام کی گنجائش ہے۔ اس پر ایک بات یاد آئی کہ ہم نے پہلے دن سٹی واک میں ایک مصلے میں مغرب کی نماز پڑھی تو امام نے دو رکعت جہری پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ نہ جانے یہ کونسی نماز تھی، اس لئے ہم نے اپنی نماز دہرا لی۔

شارجہ کا بین الاقوامی کتب میلہ

کتاب میلے کے حوالے سے یہ بھی بتاتا چلوں کہ کتابوں کی نمائشیں ہر ملک میں ہوتی رہتی ہیں۔ خود پاکستان میں بھی یہ رواج تھا جو کورونا کے بعد بری طرح متاثر ہوا لیکن شارجہ کی یہ خوبی ہے کہ یہاں باقاعدہ ایک کتاب اٹھارٹی ہے جو سارا سال علمی اور ثقادفتی سرگرمیاں انجام دیتی رہتی ہے۔ یہ واقعی بہت بڑی بات ہے۔ ویسے بھی لوگوں نے بتایا کہ شارجہ کے شیخ ایک علمی خاندان کے چشم وچراغ ہیں اور وہ اپنے اسلاف کی علم پسندی کی روایت کو اسی طرح زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔

یہ کتاب میلہ ایک چھت تلے بیسیوں ممالک سے لا کر کتابیں بیچنے کا نام نہیں بلکہ سینکڑوں قسم کی علمی اور ثقافتی سرگرمیوں کا ایک سلسلہ ہے جو اس سال بارہ دن پر مشتمل تھا۔ ان میں کتاب خوانی، شعر خوانی، تصویر کشی، سماجی ذرائع ابلاغ اور دیگر کئی موضوعات پر ورکشاپوں، مختلف موضوعات پر تقاریر اور مذاکروں کے علاوہ بچوں اور بڑوں کے لئے مختلف النوع سرگرمیاں شامل تھیں۔ اس سال کے کتاب میلے کی سرگرمیوں کا خلاصہ اٹھتہر صفحات کے ایک کتابچے میں بیان کیا گیا تھا جو عربی اور انگریزی میں ایک ساتھ چھاپا گیا تھا۔

دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے ،کوئی ادھر گرا کوئی ادھر گرا

میں اپنے دوست معین خان کے ہمراہ کتاب میلے میں داخل ہوا تو دل باغ باغ ہو گیا اور ساتھ ہی اس کی وسعت کو دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا اور دیوانہ وار گھومنا شروع کیا مگر عربی کتابوں کا ہر اسٹال چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ ’’جا اینجا ست‘‘۔ ادھر قدیم دینی اور مذہبی کتابوں کا بازار سجا ہے، ادھر سائینسی اور جدید علوم کی کتابیں فروخت ہو رہی ہیں، ایک طرف ناولوں اور قصے کہانیوں کا بازار ہے اور دوسری طرف خالص تحقیقی کتب کی دکانیں ہیں۔ یہاں کچھ فروخت ہو رہا ہے، وہاں کچھ۔۔ یہ مصری کتب خانے ہیں، سامنے شامی کتب خانوں کی قطار ہے، ادھر بیروت کا بازار سجا ہے اور ادھر الجزائر کے کتب خانے ہیں۔ ایک جانب مراکش اور تونس کے کتب خانے ہیں تو آگے سعودی عرب کا کتب بازار شروع ہو رہا ہے۔ الغرض دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی ادھر گرا کوئی ادھر گرا۔

مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بازار کی سیر کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں کیونکہ یہ ایک ہال کا حال تھا، آگے اس طرح کے مزید کئی ہال اور تھے۔ سرسری طور پر اس بازار سے گزرتے گزرتے بھی ظہر کا وقت ہو گیا تو وہیں نماز پڑھ کر باہر نکلے۔ اگرچہ میں اس دن کوئی خریداری تو نہیں کر سکا لیکن مجھے سرشار کرنے کے لئے یہی بات کافی تھی کہ میں نے یہ نمائش دیکھ لی۔

عالمی نمائش میں صرف ایک پاکستانی اسٹال

اس نمائش میں بیسیوں ممالک شریک تھے۔ اتفاق سے وہاں پاکستان سے صرف ’’قدرت اللہ‘‘ کا اسٹال نظر آیا۔ یہ قرآن کریم چھاپنے کی کمپنی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی نظر نہیں آیا حالانکہ عرب امارات میں اردو خوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان کے کئی اسٹال لگے تھے۔ جن میں ہندی، ملیالم، تامل اور انگریزی زبان میں کتابیں تھیں اور وہاں بھارتی شہریوں کی بھیڑ بھی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی ہم سے زیادہ کتابیں پڑھتے ہیں۔

بارہ ہزار روپے کا دیوان حافظ

گزرتے گزرتے ایک جگہ ایک ایرانی اسٹال بھی نظر آ گیا تو وہاں رکے اور ایرانی دوست کے ساتھ فارسی میں تبادلہٗ خیال کیا۔ میں خط شکستہ میں کوئی کتاب خریدنا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس نہیں تھی البتہ اس نے نستعلیق میں چھپا دیوان حافظ سامنے کر دیا۔ دیوان کا کاغذ چکنا اور اعلٰی تھا، جلد مضبوط اور خوبصورت، خط اپنی مثال آپ اور ہر صفحہ گلکاری سے آراستہ۔ جی میں آیا کہ خوبصورت کتاب ہے لے لینی چاہئے اگرچہ گھر میں اس کا ایک نسخہ پہلے سے موجود ہے مگر اس نے قیمت پورے دو سو درہم لگائی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے کاغذ سے لے کر چھپائی تک ہر شے کی قیمت ہوش ربا ہے۔ اس لئے اس سے کم میں نہیں بیچ سکتا۔ ہم نے روپے میں اس کا حساب لگایا تو درہم کی قیمت فروخت کے حساب سے صرف بارہ ہزار روپے سکہ رائج الوقت پاکستانی بن رہی تھی۔ اس لئے ہم نے بھی معذرت کر لی۔

امارات اور پاکستان میں مہنگائی کا تناسب

یہاں یہ بات بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگی کہ اگر آپ کسی ایسے ملک کا سفر کریں جہاں کی کرنسی آپ کے ملک کی کرنسی سے مہنگی ہے (افسوس کہ اس وقت پاکستان کی کرنسی صرف ان چند ممالک کی کرنسی سے زیادہ قیمتی رہ گئی ہے جہاں کوئی بھی نہیں جاتا) تو وہاں کوئی بھی چیز خریدتے وقت جمع تفریق آپ کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے، یہاں تک کہ زیادہ سوچنے والا آدمی تو شاید پانی کا گھونٹ بھی نہ پی سکے۔ امارات میں اشیاء صرف کی قیمتوں کے مقابلے میں پاکستان میں چیزیں ان حالات میں بھی بہت سستی ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ الحمد للہ ہمارے ہاں بہت سی چیزیں مقامی پیداوار ہیں جبکہ وہاں اکثر چیزیں باہر سے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر 500 ملی لیٹر پانی کی بوتل پاکستان میں پچیس سے تیس روپے میں مل جاتی ہے جبکہ امارات میں اس کی قیمت ایک درہم سے تین درہم کے درمیان ہے یعنی ساٹھ روپے سے ایک سو اسی روپے تک۔ اس لئے ضرورت کے وقت حساب کتاب سے گریز ہی اچھا ہے۔

امارات کا بحری عجائب گھر

کتاب میلے سے نکلے تو معین خان کے مشورے کے مطابق قریب ہی واقع بحری عجائب گھر دیکھنے گئے۔ شارجہ نمائش مرکز کے سامنے کے علاقے میں سمندر سے ایک نہر لائی گئی ہے اور یہاں اس کو ایک جھیل کی شکل دے کر اس کے تین اطراف میں ہوتل وغیرہ بنائے گئے ہیں اور ساتھ ہی جھیل کے کنارے سیر وتفریح کے لئے گھومنے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ پھر سڑک کے کنارے کھجور کے درخت بھی ہیں۔ اس سے منظر اور بھی خوبصورت ہو گیا ہے۔ ہم جھیل کے گرد چکر کاٹ کر عجائب گھر پہنچے جہاں استقبالیہ پر بیٹھے عربی نے بڑی خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہا۔ اس کے بعد رستے میں کھڑے عکاس نے تصویریں بنائیں۔ یہ تصاویر آپ ان کو رقم دے کر حاصل کر سکتے ہیں۔

عجائب گھر کے اندر داخل ہوئے تو منظر بہت عجیب تھا۔ کیفیت تو وہی دبئی مال والی تھی لیکن یہاں اس کے اندر آپ چل پھر سکتے تھے۔ پرانے طرز کی اس عمارت میں شیشے کے اندر مختلف سمندری مخلوق تیر رہی تھی جس میں مچھلی کی کئی اقسام کے علاوہ کچھوے اور مچھلی نما دوسری مخلوقات بھی تھیں۔ آدمی کو یہ آبی جانور دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کیونکہ ان میں سے سے بعض کی شکلیں اور رنگ اس قدر خوبصورت، انوکھے اور اس قدر رنگین ہیں کہ اول وہلہ میں ان کے اصلی ہونے پر شک ہونے لگتا ہے۔ اس عجائب کا گھر کا عجیب موڑ اس وقت آتا ہے جب آپ شیشے کی ایک سرنگ سے گزرتے ہیں اور وہاں یہ ساری چیزیں دائیں بائیں اور اوپر سے گزرتی نظر آتی ہیں۔ یہ منظر بہت ہی عجیب ہے۔

عجائب گھر کی سب سے اوپر والی منزل پر پہنچیں تو کھلی جھیل کا منظر بنا ہوا ہے۔ وہ تمام آبی مخلوقات جو آپ کو شیشے کے اندر نظر آرہی تھیں اب پانی میں نظر آتی ہیں اور مچھلیاں اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی آپ کے پاس سے گزرتی ہیں۔ یہاں کھڑے نیپالی ملازم نے بتایا کہ یہ مخلوقات شیشے کے بڑے بڑے ٹینکوں کے اندر ہیں۔ ان ٹینکوں کے پیچھے پانی کی تبدیلی کا ایک مکمل خود کار نظام ہے جس کے ذریعے ضرورت کے مطابق پانی تبدیل کیا جاتا ہے۔

اس عجیب وغریب نظارے کے بعد عجائب گھر کے دوسرے حصے میں داخل ہوئے جہاں کچھ کشتیاں وغیرہ رکھی ہیں اور شارجہ کے ساحل کی زندگی کا نمونہ پیش کیا گیا ہے کہ کس طرح مچھیرے مچھلیوں کا شکار کرتے تھے اور غوطہ خور سمندر کی تہہ سے موتی نکالا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کاموں کے لئے استعمال ہونے والے مختلف آلات اور اوزار اور مختلف قسم کی کشتیاں بھی اصلی حالت میں رکھی گئی ہیں۔ یہاں ایک بالکل نیا اور چمکتا دمکتا اصطرلاب بھی رکھا گیا ہے۔ یہ آلہ بحری سفر کے لئے بنیادی حیثٰت رکھتا ہے۔ میں ماہی خانہ کی طرح اس عجائب گھر کی سیر سے بھی بہت محظوظ ہوا۔ پاکستان میں کلفٹن میں کسی زمانے میں آبی مخلوقات کا ایک عجائب گھر ہوتا تھا۔ اگرچہ وہ اس ماہی خانے کے مقابلے میں بہت چھوٹا تھا لیکن اس میں تنوع بہت تھا۔ نہ جانے اب ہے یا نہیں کیونکہ میں نے اس کی سیر اس زمانے میں کی تھی جب وہاں قریب ہی واقع خیموں میں دو روپے کا ٹکٹ لے کر ’’اللہ محمد والی بلی، چار سینگوں والا بکرا اور چھ ٹانگوں والا بچھڑا‘‘ بھی دکھایا جاتا تھا۔ میں نے یہ چیزیں بھی دیکھی تھیں۔

فلک بوس عمارتوں کے سائے تلے ہرے بھرے درخت

عجائب گھر سے نکل کر شہر کے مرکز میں ایک جگہ کھانے کے لئے رکے۔ یہاں پھلوں کا تازہ رس بھی دستیاب تھا اور ایک پورے کمرے کو فریج میں بدل کر وہاں پھل بڑی ترتیب سے لٹکائے گئے تھے۔ لوگ ان پھلوں کے ساتھ تصویریں بنا رہے تھے۔ ہم بھی پیچھے نہیں رہے۔ شہر سے گزرتے ہوئے جہاں ہر طرف فلک بوس عمارتیں نظر آئیں وہیں سڑک کے کنارے ہرے بھرے درخت بھی دیکھے۔ ایک مسجد میں نماز عصر کے لئے رکے تو میں نے دیکھا کہ دیوار میں لگے ایئر کنڈینشنر کے پائپ سے رسنے والے پانی کی جگہ بھی کسی نے موتیا کے دو پودے لگا دئے ہیں۔

یہاں کے صحرائی ماحول میں ہر ہر پودے تک پانی پہنچانا کارے دارد اور پھر مٹی بھی نہیں لیکن بلدیہ اور حکومت پھر بھی شجرکاری اور پودوں کی حفاظت میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی۔ میں سوچنے لگا کہ ہمارے پاس قدرت کا دیا کیا نہیں ہے، لیکن ہم اس سے مستفید ہونے کی بجائے اسے تباہ کرنے میں ہی اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ پاکستان کا کتنا حصہ ایسا ہے جہاں پودے خود نہیں اگ سکتے؟ لیکن ساتھ ہی یہ اس سے بھی بڑا سوال ہے کہ ان علاقوں میں شجرکاری کتنی ہوتی ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بطور قوم سوچنے کا سوال ہے۔

ہمارے دوست امین اللہ مندوخیل اسی علاقے میں رہتے ہیں۔ ان کو بھی ساتھ لیا اور دبئی میں ’’عالمی گاؤں‘‘ کی سیر کو چلے۔ دبئی اور شارجہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی طرح جڑواں شہر ہیں۔ اس لئے یہاں بھی صبح وشام ٹریفک کے وہ مسائل موجود ہیں جن سے ہم پاکستان میں دو چار ہوتے ہیں کیونکہ صبح کے وقت ٹریفک کا بہاؤ دبئی کی جانب اور شام کو شارجہ کی جانب ہوتا ہے۔ ہر ملک اپنے حالات کے مطابق اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں اس کا حل کشادہ سڑکوں سے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کا آسان حل

میں 2013 میں ترکی گیا تھا۔ وہاں استنبول شہر میں اس مسئلے کا ایک دلچسپ حل دیکھا۔ استنبول کا یورپی علاقہ صنعتی اور ایشیائی علاقہ زیادہ تر رہائشی ہے۔ اس لئے یہاں صبح کے وقت ٹریفک کا بہاؤ مغرب کی جانب اور شام کو مشرق کے جانب ہوتا ہے۔ اس زمانے میں باسفورس پر بنی زیر سمندر گزرگاہ کا افتتاح نہیں ہوا تھا اس لئے سارا ٹریفک اوپر والے پل سے گزرتا تھا۔ وقت بچانے کے لئے صبح کے وقت تین تہائی سڑک جانے والی اور چوتھائی رستہ آنے والی ٹریفک کے لئے مختص کیا جاتا تھا اور شام کو یہ ترتیب الٹی کر دی جاتی تھی۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ذرا سی عقل استعمال کر کے کتنی بڑی مشکل کو آسان کیا جا سکتا ہے۔

عالمی گاؤں کی سیر

خیر، مختلف موضوعات پر گپ شپ لگاتے غروب آفتاب سے ذرا پہلے ’’عالمی گاؤں‘‘ پہنچ گئے۔ یہاں بھیڑ بہت تھی اور گاڑیاں کھڑی کرنے کے لئے وسیع وعریض میدان مختص تھے جہاں زمین پر باقاعدہ نمبر لگے ہوئے تھے کیونکہ واپسی پر نمبر کے بغیر اپنی گاڑی تک پہنچنا ناممکن نہ ہو تو بھی بہت مشکل ضرور ہوتا ہے۔ نمبروں میں ہندسوں اور حروف کے گرڈ (مربعے) استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے ایم 123 وغیرہ۔ ان میں سے کچھ جگہوں پر گاڑی کھڑی کرنے کی بھاری فیس ہے اور عوامی جگہ پر مفت میں گاڑی کھڑی کی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد لوگ پیدل یا برقی ریل پر عالمی گاؤں کے پھاٹک تک جاتے ہیں۔ یہ خدمت مفت ہے جبکہ عالمی گاؤں کا ٹکٹ شاید 25 درہم ہے جو انٹرنیٹ اور براہ راست پھاٹک سے خریدا جا سکتا ہے اور اندر جاتے ہوئے اس کا کوڈ سکین کیا جاتا ہے۔

عالمی گاؤں کا پھاٹک ماسکو کے ’’سرخ چوک‘‘ یعنی ریڈ سکوائر کا منظر پیش کرتا ہے کیونکہ اس کی ہو بہو نقل یہاں تیار کی گئی ہے۔ اندر داخل ہوتے ہیں تو لندن گھڑیال مینار، ایفل مینار اور مجسمہء آزادی آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایک طرف تاج محل نظر آتا ہے۔ عالمی گاؤں میں در اصل پوری دنیا کی مشہور عمارتوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ہر ملک کے لئے ایک گوشہ مخصوص ہے جہاں اس ملک کی مصنوعات اور کھابے پیش کئے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر ملکوں کے بازار میں اسی ملک کے لوگ کاروبار کرتے اور وہاں کی زبان بولتے نظر آتے ہیں لیکن عربی ممالک کے بازاروں میں عربی زبان اور عربی لوگ خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
کنج پاکستان کا پھاٹک شاہی قلعہ لاہور کی نقل ہے اور اندر بازار کا اکثر حصہ چمڑے اور کپڑے کی مصنوعات پر مشتمل ہے اور لوگ بھی اپنے ہیں جن میں سے کوئی پنجابی اور کوئی اردو بولتا ہے اور گاہکوں کو اسی طرح آوازیں دی جاتی ہیں کہ ’’آئیں باجی، دیکھ لیں نئے ڈیزائین ہیں اور قیمت بھی مناسب ہے۔ بھائی جان ذرا دیکھ لیں اچھی چیز ہے۔ ایک نمبر ہے۔ قیمت کی گارنٹی ہے۔‘‘ یہ آوازیں سن کر مجھے راولپنڈی کے ایک دکاندار کی بات یاد آ گئی۔ کہنے لگا کہ یہ صرف ہمارے ہاں ہوتا ہے کہ ہم لکھتے ہیں ایک نمبر چیز ہے، دودھ بالکل خالص ہے، یورپ میں ایسا کہیں نہیں لکھا ہوتا کیونکہ جب چیز ایک نمبر ہوگی تو آپ کو لکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟

گزشتہ اقساط پڑھنے کے  لئے

دوسری قسط
پہلی قسط

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top