دبئی جو میں نے دیکھا

دبئی جو میں نے دیکھا

عبدالخالق ہمدرد

(دوسری قسط)

اس بار جہاز ذرا چھوٹا تھا جس کی ایک قطار میں آٹھ نشستیں تھیں اور تھا بھی روسی اگرچہ چلا رہی تھی ایئر بلیو۔ یہ بہت سادہ سا جہاز تھا۔ رات کے دو بج کر بیس منٹ پر جہاز کو حرکت ہوئی اور مسافر آہستہ آہستہ سونے لگے۔ کپتان کے اعلان کے مطابق جہاز چونتیس ہزار فٹ کی بلندی پر نو سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑ رہا تھا حالانکہ اس سے قبل عام طور پر چھتیس ہزار فٹ کی بلندی بتائی جاتی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کی وجہ کیا تھی۔ شاید جہاز کی اقسام کی وجہ سے بلندی پر فرق پڑتا ہو البتہ یہ بات سوچ کر ہی آدمی انگشت بدنداں رہ جاتا ہے کہ اس قدر بلندی پر نو سو کلو میٹر کی رفتار سے چلنے والا جہاز ہوا میں سے گزرتا کیسے ہے۔ زمین پر اگر ہوا کی رفتار ساٹھ کلو میٹر بھی ہو جائے تو تباہی مچ جاتی ہے۔

اسلام آباد سے دبئی کا سفر تین گھنٹے سے کچھ زائد ہے۔ اس لئے جیسے ہی جہاز اپنی معمول کی بلندی پر اڑنے لگا، فضائی میزبانوں نے اپنا کام بھی شروع کر دیا۔ پہلے پانی اور کچھ وقفے کے بعد کھانا پیش کیا گیا۔ رات کے اس پہر یہ کھانا سحری جیسا لگا کیونکہ رات کو آنکھ جھپکانے کا موقع نہ مل سکا تھا۔ فضائی میزبانوں میں اس بار صرف خواتین تھیں لیکن کرونا کا بھدا لباس پہنا کر زبردستی ان کی ظاہری ہیئت بگاڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔

عورت کی آزادی

میں سوچنے لگا کہ جدید تہذیب نے بھی انسان کو کیا سے کیا بنا دیا یے۔ جن لوگوں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ ایک عورت کیونکر ایک چار دیواری کے اندر رہ کر اپنے خاندان کی خدمت کر سکتی ہے کیونکہ یہ اس کی آزادی پر قدغن یے، ان کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ ایک عورت نصف شب کے بعد بھی چار سو سے زائد مہمانوں کی خدمت کر رہی ہے کیونکہ یہ اس کی آزادی یے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے دین نے عورت کی کفالت ہی مرد کے ذمے ڈال دی ہے اور عورت کی خدمت اس کا احسان نہیں بلکہ فرض ہے جس میں کوتاہی پر اس سے پوچھ گچھ ہوگی اور عورت کو صرف بامر مجبوری کمانے کے لئے گھر سے نکلنے کی اجازت دی ہے۔

جہاز میں میرے ساتھ ایک نوجوان بیٹھا تھا۔ وہ باتیں تو بہت بڑی بڑی کر رہا تھا لیکن مجھے لگا کہ بے پر کی اڑا رہا ہے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ دبئی میں ہمارے اپنے دو ہوٹل ہیں اور حالت یہ تھی کہ پہلے اس کو واپس بھیجا گیا اور اب پھر آزاد ویزے پہ آ رہا تھا۔ تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ کوٹلی کا ہے۔ میں نے اپنا بتایا کہ نیلم سے ہوں تو کہنے لگا کہ آپ نیلم کے لگتے نہیں کیونکہ زبان نیلم کی نہیں۔ میں نے کہا کہ میں ارود بول رہا تھا، تو وہ کہنے لگا نیلم والے اردو ایسی نہیں بولتے۔ گویا “مجھے نہیں اعتبار اپنا، تمہیں نہیں اعتبار میرا”.

اس گفتگو کے بعد میں نے کچھ ذکر وتلاوت کی کوشش کی اور جہاز اپنے وقت پر ساڑھے پانچ بجے دبئی ہوائی اڈے پر اتر گیا لیکن بڑی دیر زمین پر رینگتا اور چلتا رہا اور آخر کار ایک عمارت کے سامنے رک گیا۔ اس کے بازو میں ایتھوپیا کا ایک طیارہ کھڑا تھا۔ میں نے کہا “ٹکر کے لوگ ملے ہیں”.

قافلے سے پیچھے رہ جانے کا انجام

جیسے ہی جہاز سے باہر آیا تو فجر کی اذان شروع ہو گئی اور ہوائی اڈے کی عمارت میں داخل ہوتے ہی، ایک نئی دنیا میں پہنچنے کا احساس ہونے لگا۔ رستے میں مسجد آگئی تو نماز کے لئے رک گیا اور وہاں سے باہر نکلا تو ساتھ آنے والوں میں سے کوئی ایک بھی آدمی نظر نہیں آ رہا تھا۔ تب خیال آیا کہ ایک لمحے کے لئے قافلے سے پیچھے رہ جانے کا انجام کیا ہوتا ہے؎

رفتم کہ خار از پا کشم، محمل نہاں شد از نظر

 یک لحظہ را غافل شدم صد سال راہم دور شد

دبئی ہوائی اڈہ

دبئی کا ہوائی اڈہ ایک جہان ہے۔ چلتے چلتے میں تھک گیا اور رستہ سامنے سے بند ہو گیا تو پتہ چلا کہ یہاں سے آگے ٹرین میں ٹرمینل پر جانا ہے۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ کچھ انتظار کے بعد ٹرین آ گئی۔ یہاں کی ہر چیز کی طرح اس کا دروازہ بھی خود کار طریقے سے کھلا اور میں سوار ہو گیا لیکن تا حد نگاہ اس میں بندہ حقیر فقیر کے علاوہ کوئی اور سواری نہ تھی۔ یہ اچھا ہوا کہ مجھے پٹے سے سامان نہیں لینا تھا، ورنہ کہانی اور بھی طویل ہو جاتی۔ ٹرین سے اتر کر ایک بڑے ہال میں پہنچا تو اکا دکا لوگ کھڑے تھے۔ یہ امیگریشن کی جگہ تھی اور یہاں عربی اپنے پورے لباس میں موجود تھے اور یہی ان کی وردی ہے۔

“خوشی کی وزارت”

لطف کی بات یہ کہ یہاں دو مسافروں کے درمیان انتظار کا وقفہ صرف دو منٹ تھا اور اسی رفتار سے کام بھی ہو رہا تھا۔ ورنہ کئی جگہ دس دس منٹ بھی لگ جاتے ہیں اور امیگریشن والے چائے پی رہے ہوں تو اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ میرے پاسپورٹ پر بھی فوراً ٹھپہ لگایا گیا اور اس میں فون کی ایک سم بھی رکھ کر واپس کر دیا۔ سم کے اوپر کے غلاف پر “مرحباً بکم فی امارۃ السعادۃ دبئی” لکھا تھا۔ یہ جملہ اچھا لگا۔ ویسے یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ امارات شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں خوشی کی باقاعدہ ایک وزارت ہے جس کا نام “وزارۃ السعادۃ” ہے۔

چھوٹے نوٹ کی مشینی سہولت

ہوائی اڈے سے ہی مولانا سیف اللہ حقانی صاحب سے رابطہ ہو گیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سنٹر پوائنٹ سے مجھے لے لیں گے۔ وہاں تک مجھے میٹرو میں جانا تھا۔ میٹرو تک پہنچنے میں کچھ دقت پیش آئی لیکن سڑک پر ایک پاکستانی حافظ صاحب نے اچھی رہنمائی کر دی تو مطلوبہ مقام پر پہنچ گیا۔ اب ایک نیا مسئلہ پیش آ گیا کہ ٹکٹ والے کے پاس ریزگاری نہیں تھی۔ اس نے ایک مشین دکھائی کہ وہاں سے ریزگاری لے ائیں۔ یہ بھی ایک نیا تجربہ تھا۔ اے ٹی ایم کی طرح کی اس مشین میں ایک طرف سے بڑا نوٹ ڈالا تو دوسری جانب سے چھوٹے نوٹ نکل آئے۔

ٹکٹ دینے والا کینیا کا باشندہ تھا اور اس کا نام بونو تھا۔ جب میں نے اس کو بتایا کہ میں نے کتابیں لکھی ہیں تو بہت حیران ہو کر کہنے لگا کہ زندگی میں پہلی بار کسی کتاب لکھنے والے سے مل رہا ہوں۔ اس کے بعد رستہ بھی اچھی طرح سمجھا دیا۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دبئی ہوائی اڈے میں امیگریشن کے چند عربیوں کے سوا کہیں سے بھی ایسا نہیں لگتا کہ یہ کوئی عرب ملک ہے۔ یہاں ہر زبان، ہر نسل، ہر رنگ اور ہر لباس کے لوگ موجود ہیں جن میں پاکستانی، ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کی تعداد زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے اردو سے ہر جگہ کام چل سکتا ہے۔

سنٹر پوائنٹ پہنچا تو سٹیشن سے باہر نکلنے میں ذرا مشکل پیش آئی تو ایک پولیس والے نے بڑے خلوص اور محبت سے رہنمائی کر دی۔ وہ اپنی شکل وصورت اور چال ڈھال سے کسی بھی طرح پولیس والا نہیں لگتا تھا یا پھر ہمارا پاکستانی پولیس کا تجربہ اس کو مختلف دکھا رہا تھا۔ ویسے اس طرح کے مقامات پر پاکستانی پولیس بھی عام طور پر اچھے روئیے کا مظاہرہ کرتی ہے۔

یہاں سیف اللہ صاحب نے استقبال کیا اور اپنی جگہ “مردف” لے گئے۔ حقانی صاحب کا تعلق ہنگو سے ہے اور ہمارے بے تکلف دوست ہیں۔ ایک طویل عرصے سے یہاں مقیم ہیں اور اب ما شاء اللہ ان کے بال بچے بھی یہاں رہائش پزیر ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی کی شادی میں شرکت کے لئے ہم نے پہلی بار ہنگو کا سفر کیا تھا۔ وہ سفر اور شادی بھی ایک یادگار واقعہ تھی۔

چونکہ میں رات بھر نہیں سویا تھا، اس لئے کمرے میں پہنچتے ہی آرام کر لیا اور تین گھنٹے بعد آٹھ کر ناشتہ کیا۔ اس سے تھکاوٹ کچھ کم ہو گئی اور طبیعت میں بشاشت بھی آ گئی۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ رات کی نیند کا کوئی متبادل نہیں کیونکہ رات ہے ہی آرام کے لئے۔

اسی دوران شارجہ سے ہمارے دوست جناب امین اللہ مندوخیل صاحب نے رابطہ کر کے بتایا کہ آج اور کل ان کی چھٹی ہے اس لئے وہ وقت دے سکتے ہیں۔ بعد میں ہفتے کے دوران ملاقات مشکل ہو جائے گی۔ اس لئے وہ ملاقات کے لئے آ رہے ہیں۔ مندوخیل صاحب کا تعلق ژوب سے ہے اور یہاں اچھی ملازمت کرتے ہیں اور بچوں سمیت شارجہ میں مقیم ہیں۔ وہ ہمارے مدرسے کے زمانے کے ساتھی ہیں لیکن تعلق گزشتہ چند برسوں کے دوران سماجی ذرائع ابلاغ کے ذریعے مضبوط ہوا ہے۔

ظہر کے وقت وہ پہنچ گئے تو دبئی کی سیر کو نکلے۔ سب سے پہلے برج خلیفہ کو باہر سے دیکھا۔ یہ اس وقت تک دنیا کی سب سے بلند ترین عمارت ہے اور دبئی میں جگہ جگہ سے نظر آتی ہے۔ دبئی بلکہ متحدہ عرب امارات کے تمام علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ بہت اچھا ہے۔ کشادہ اور ستھری سڑکیں، میٹرو، عوامی بسیں اور ٹیکسی گاڑیاں ہر جگہ دستیاب ہیں البتہ اس کے باوجود بعض سڑکوں پر صبح وشام بھیڑ ہو جاتی ہے۔

سڑکوں پر انسانوں کے لئے سگنل اور چالان

سڑک پر گاڑیوں کی طرح انسانوں کے گزرنے کے لئے بھی اشارے لگے ہوئے ہیں۔ اگر زیادہ بھیڑ ہو تو لوگ بٹن دبا دیتے ہیں۔ اس سے گاڑیاں رک جاتی ہیں اور پیدل لوگ گزر جاتے ہیں۔ ویسے بھی یہاں یہ قانون ہے کہ پیدل آدمی زیبرا کراسنگ پر پاؤں رکھ دے تو گاڑیاں رک کر اس کو رستہ دیتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہاں بعض اوقات غلط جگہ سے سڑک پار کرنے پر آدمیوں کا بھی چالان ہو جاتا ہے اور چالان بھرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ لوگ جا بجا ایک دوسرے کو قانون کی پابندی کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔

ایک یہودی سے غیر ارادی ملاقات

برج خلیفہ کے پاس ایک شخص ہم سے رستہ پوچھنے لگا۔ مندوخیل صاحب نے اسے تفصیل سے سمجھایا۔ اس نے بتایا کہ وہ ازبکستان کا باشندہ تھا مگر اب اسرائیل میں رہتا ہے۔ یوں ہم نے بھی غیر ارادی طور پر ایک یہودی سے ملاقات کر لی۔

برج خلیفہ کے پہلو میں دبئی اوپیرا کی عمارت ہے۔ یہ کشتی کی شکل میں بنائی گئی ہے اور خوبصورت ہے۔ یہاں قدرتی گھاس کے قطعوں کے ساتھ ساتھ مصنوعی گھاس کے قطعے بھی ہیں۔ اس کے ساتھ جھیل نما تالاب بنا ہوا ہے جس کے اندر لگے فواروں سے رات کو مختلف رنگ کی روشنیوں میں چھوٹنے والے پانی سے بہت دلچسپ منظر بنتا ہے لیکن ہم یہ منظر نہیں دیکھ سکے۔

جو چیز عادت بن جائے اس کی برائی کا احساس جاتا رہتا ہے

برج خلیفہ کے بعد دبئی مال میں داخل ہوئے۔ یہ ایک عمارت کے اندر بنا ہوا بہت بڑا بازار ہے جہاں دنیا کے ہر مارکے کی دکانیں ہیں اور سننے میں آیا کہ یہاں کی ہوش ربا گرانی کے باوجود خریداری کرنے والوں میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جن کو پیسے خرچ کرنے کا کوئی موقع چاہئے ہوتا یے۔ یہاں ہم نے ہر رنگ، ہر نسل، ہر زبان اور ہر لباس کے لوگ دیکھے۔ مرد تو اکثر پورے لباس یا شرٹ اور نیکر پہنے تھے لیکن صنف نازک نے وہ وہ لباس پہن رکھے تھے کہ توبہ بھلی۔ انواع واقسام اور بھانت بھانت کے ان لباسوں میں ایسے لباس بھی تھے جن کو لباس کہنا لباس کی توہین ہے۔ جہاں ایک طرف سر تا پا برقع پوش خواتین نظر ائیں، وہیں وہ بھی دیکھنے کو ملیں جن کے جسم پر چند لیروں کے سوا کچھ نہ تھا۔

اس سے بھی اگلی بات یہ کہ اس سارے ہنگامے میں کسی کو کسی سے کوئی غرض نہ تھی کیونکہ جو چیز عادت بن جائے، اس کی برائی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے خواہ وہ کتنی ہی بیہودہ اور غلط کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کی تیزی اور غلط چیزوں کی مسلسل نمائش اور بلا روک ٹوک ترویج نے ان کے غلط ہونے کے تصور کو ہی غلط کر ڈالا ہے ورنہ ڈیڑھ صدی قبل تک مسلمان کیا، غیر مسلم بھی انسانوں والا لباس پہنا کرتے تھے۔

پانچ کروڑ سال پرانے ڈائنو سار کا اصلی ڈھانچہ

دبئی مال میں ایک دلچسپ چیز ڈائینوسارس کا اصلی ڈھانچہ ہے۔ جس کے بارے میں لکھا تھا کہ اس کی عمر ساڑھے پانچ کروڑ برس ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس کی عمر کتنی ہوگی لیکن یہ سائنس کا اندازہ ہے جس کے درست اور غلط ہونے کا احتمال اپنی جگہ موجود ہے۔ جس زمانے میں ہم سکول پڑھتے تھے، ڈائنوسارس کے ساتھ ساتھ بلوچی تھیریم کا بھی پڑھا تھا لیکن جب سے سکول چھوڑا، دوبارہ اس کا نام کبھی نہیں سنا۔ پاکستانیوں کو دنیا کے سامنے بلوچی تھیریم کو بھی بڑھا چڑھا کر تذکرہ کرنا چاہئے۔ کیا پتہ ڈائنوسارس کے عاشق اس کی تلاش میں بھی سرگرداں ہو جائیں اور اس کے نتیجے میں کچھ اور لوگوں کو بھی روزگار مل جائے۔

دبئی مال کا مچھلی گھر

دبئی مال میں دوسری قابل دید چیز مچھلی گھر ہے۔ عمارت کے اندر ہی شیشے کی ایک اور عمارت کھڑی کی گئی ہے جس میں سمندری مخلوق رکھی گئی ہے۔ مچھلیوں کی مختلف اقسام کے علاوہ کچھوے اور دیگر کئی مخلوقات بھی ہیں جن کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کراچی کلفٹن میں اس طرح کا ایک مچھلی گھر ہوا کرتا تھا مگر وہ اس کے مقابلے میں بہت چھوٹا اور سادہ سا تھا۔

دبئی مال کے سامنے سوق البحار کے نام سے ایک اور بازار ہے۔ یہ اپنے طرز تعمیر میں پرانے ثقافتی انداز کی عکاسی کرتا ہے لیکن مال یہاں بھی نیا ہی بکتا ہے۔ خوشبو بیچنے والے جگہ جگہ آپ کو روک کر اپنی مصنوعات کا تجربہ کراتے ہیں جبکہ بیچنے والوں میں صنف نازک، صنف سخت اور وہ صنف بھی شامل ہے جس کو لباس پوشاک سے ان دونوں اصناف میں شامل کرنا مشکل لگتا ہے۔

بازار میں داخل ہونے سے پہلے بازار کا گمان نہیں ہوتا

یہاں سے نکلے تو سیٹی واک چلے گئے۔ یہ پیدل گھومنے پھرنے کا مخصوص علاقہ ہے۔ لوگ بال بچوں کے ہمراہ مٹر گشت کرنے آتے ہیں۔ یہاں بھی بازار ہے لیکن امارات میں بازار ہمارے پاکستان کے بازاروں سے بالکل مختلف ہیں۔ یہاں بازار میں داخل ہونے سے پہلے بازار ہونے کا گمان بھی نہیں ہوتا کیونکہ یہاں دکاندار فٹ بیریوں پر قبضہ کر سکتے ہیں اور نہ دکان کی حدود سے باہر سامان کی نمائش اور نہ ہی دکانوں کے سامنے تھڑے لگانے کی اجازت ہے۔ اس لئے ہر بازار پر سکون اور کشادہ کشادہ معلوم ہوتا ہے۔

سیٹی واک سے نکلتے نکلتے عشاء ہو گئی۔ میرے ایبٹ آباد کے ایک دوست معین خان سے رابطہ ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میں اتوار کا دن آپ کو دے سکتا ہوں۔ چنانچہ ان کے ساتھ طے ہوا کہ رات کو ہم ان کے پاس شارجہ (شارقہ) جائیں گے۔ دبئی اور شارقہ اگرچہ دو الگ ریاستیں ہیں لیکن ان کے درمیان فاصلہ کچھ زیادہ نہیں۔ اس لئے رات نو بجے کے بعد معین خان کے پہنچے۔ وہ بھی یہاں اپنے بچوں کے ہمراہ رہائش پزیر ہیں اور ما شاء اللہ اچھی ملازمت کر رہے ہیں۔ ان سے ہماری واقفیت ایبٹ آباد کے اس زمانے سے ہے جب ان کی والدہ مرحومہ معین خان کی طرح ہمیں بھی چولہے کے پاس “تلاوڑے” پر بٹھا کر گھی میں چپڑی خمیری روٹی گرم گرم چائے کے ساتھ کھلایا کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی کامل مغفرت فرمائے۔

ان کے گھر پہنچے تو بڑے تپاک سے استقبال کیا۔ کھانے کے بعد مندوخیل صاحب اپنے گھر چلے گئے اور ہم نے پرانی یادیں تازہ کیں۔ ایک دوسرے سے حال احوال پوچھا۔ گپ شپ کی اور کافی دیر سے آرام کر لیا۔ یہ امارات میں میری پہلی رات تھی۔

پہلی قسط پڑھنے کے لئے

متحدہ عرب امارات میں ساڑھے سات دن

 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top