Friday, December 6, 2024
HomeColumnsمتحدہ عرب امارات میں ساڑھے سات دن

متحدہ عرب امارات میں ساڑھے سات دن

متحدہ عرب امارات میں ساڑھے سات دن

عبد الخالق ہمدرد

آج کا دن اس لحاظ سے دلچسپ تھا کہ میں ایک سیاحتی سفر پر روانہ ہونے والا تھا۔ کیونکہ اس سے قبل کے اسفار کسی کام سے ہوتے رہے ہیں اور ان کے اوپر سیاحت کا رنگ چڑھ جاتا رہا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مزاجاً جب بھی کوئی سفر درپیش ہوا، اسے خندہ پیشانی سے قبول کیا اور اس کو ایک نعمت جانا اور جاننا چاہئے۔

اس کے باوجود معمول کے کام بھی کرنا پڑے۔ اول دفتر میں معمول کے مطابق حاضری دی اور معمول کے مطابق کام کیا مگر اتفاق سے چھٹی معمول سے ذرا جلدی ہو گئی تو سفر کی کچھ تیاری کی۔ بلیو ایریا میں ہی نماز جمعہ ادا کی اور اس کے بعد خود اپنی خدمت کرتے ہوئے کھانا کھایا اور پھر جمعہ بازار سے سودا سلف لے کر گھر پہنچا تو تین بج رہے تھے۔

رات کو گھر میں کچھ مہمان آ گئے تو کچھ گہما گہمی سی بھی ہو گئی۔ گپ شپ ہوئی اور دستر خوان لگا۔ اس کے بعد قہوہ آ گیا اور پھر چائے والوں کے لئے چائے بھی۔ اس کے بعد اجتماعی دعا ہوئی اور امی جان نے اپنی دعاؤں کی چھاؤں میں الوداع کیا۔

 

 بچوں کی ضد، لاڈ اور اسوہ رسولﷺ

 

اس موقع پر سب سے زیادہ گڑیا نے متاثر کیا۔ پہلے وہ بابا کے ساتھ دبئی جانے کے لئے تیار ہوئی اور دلیل یہ دی کہ بابا آپ مجھے پھولاوئی بھی نہیں لے کر گئے تھے۔ اب میں دبئی ضرور “جاؤں گا”. اس کو بڑی مشکل سے منایا اور پیار کر کے گردن سے اتارا۔ بچوں کی ایسی ضد جتنی عجیب اور جس قدر طاقتور ہوتی ہے، اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو بفضل خدا صاحب اولاد ہیں۔ یہ ضد دل کے تاروں سے جڑی ہوتی ہے جن کو توڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو بچوں سے بڑا پیار تھا۔ ایک بار آپ علیہ السلام مجلس میں تشریف فرما تھے۔ آپ کے نواسے حضرت حسین یا حسن رضی اللہ عنہ آپ کی گود میں آ کر بیٹھ گئے۔ آپ نے ان کو پیار کیا اور ان کی دلجوئی فرمائی تو اس پر پاس بیٹھے ایک نو مسلم صحابی کو حیرت ہوئی کہ اللہ کا نبی اور بچوں سے یہ سلوک!

وہ کہنے لگا کہ حضور میرے تو اتنے بچے ہیں لیکن میں نے کبھی ان کو نہیں چوما۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ بھئی اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحمت وشفقت کا جذبہ نکال دیا ہو تو میں کیا کر سکتا ہوں۔

آپ علیہ السلام کی سنت مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ جب آپ سفر پر جاتے یا سفر سے واپس تشریف لاتے تو الوداع یا استقبال کرنے والے بچوں میں سے کسی کو اپنی مبارک سواری پر آگے اور کسی کو پیچھے بٹھا لیتے تھے۔ بچوں سے ایسا سلوک جہاں ایک طرف ان سے محبت اور شفقت کا اظہار ہے، وہیں سنت ہونے کی وجہ سے کار ثواب اور باعث محبت بھی ہے۔

ویسے بھی اللہ تعالیٰ نے بچوں کے دل ایسے بنائے ہیں کہ وہ اسی کے پاس جاتے ہیں جو ان کو چاہتا ہو۔ ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ گھوڑا اور بچہ آدمی سے اس کے دل کی حالت کے مطابق سلوک کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

قانون معاشرے میں مساوات لاتا ہے

بہر حال، رات دس بجے گھر سے نکلے۔ “ماموں” غنی گاڑی چلا رہے تھے اور چھوٹا بھائی عبد القادر، بیٹا احمد ہمدرد اور داماد ثاقب ریاض ہمراہ تھے۔ ہوائی اڈے پہنچ کر مخصوص جگہ پر گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہ ملی تو ماموں نے گاڑی غلط جگہ کھڑی کی۔ اتنے میں گاڑیاں اٹھانے والی مشین پہنچ گئی اور ایک بڑی اور سبز تختی والی گاڑی کو اٹھا کر لے گئی۔

تو ان کو آگے جگہ تلاش کرنے میں عافیت نظر آئی جبکہ پیچھے سے آنے والی ایک اور گاڑی وہیں سے الٹے پاؤں واپس چلی گئی۔ قانون اگر درست طریقے سے کام کر رہا ہو تو یوں اصلاح ہوتی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ تالے شریفوں کے لئے ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ قانون معاشرے میں مساوات لاتا ہے اور سب کو درست اور یکساں مواقع فراہم کرتا ہے جبکہ قانون شکنی روایت بن جائے تو معاشرے میں بگاڑ کو روکنے کا کوئی رستہ نہیں۔

رات ساڑھے گیارہ بجے کے بعد الوداع کرنے والوں کے ساتھ “جدید دور کی روایت” کے مطابق الوداعی تصویر بنا کر ہوائی اڈے میں داخل ہو گیا اور وہ لوگ بھی تھوڑی ہی دیر میں بھیڑ میں غائب ہو گئے۔ پھاٹک پر معمول کے مطابق پاسپورٹ اور ٹکٹ وغیرہ دیکھا گیا۔ اس کے بعد اگلے مرحلے میں سامان کو اندر سے دیکھنے والی مشین اور ہمیں مشینی دروازے سے گزارا گیا۔

اللہ کا شکر کہ اس بار کورونا کی کوئی بات نہیں تھی۔ اس مرحلے سے گزر کر جہاز پر سامان رکھوانے اور خود سوار ہونے کا کارڈ لینے کے لئے قطار میں لگا۔ قطار پیچھے مسلسل طول پکڑ رہی تھی کیونکہ لوگ باہر سے آ رہے تھے مگر آگے سے کم نہیں ہو رہی تھی اس لئے کافی انتظار کرنا پڑا۔

ہوٹل بکنگ کے بغیر جہاز میں سفر

جب میرا نمبر آیا تو خاتون اہلکار نے پاسپورٹ اور ٹکٹ وغیرہ دیکھنے کے بعد یہ اعتراض لگا دیا کہ آپ نے ہوٹل میں جگہ نہیں رکھوائی اور اس کے بغیر میں آپ کو آگے جانے کی اجازت نہیں دے سکتی، البتہ آپ ہوٹل کی بکنگ منگوا کر بغیر قطار کے آگے آ سکتے ہیں۔ ان سے مزید بحث فضول تھی اس لئے پیچھے ہٹ گیا اور اپنے دوست مولانا امین اللہ مندوخیل سے رابطہ کیا۔ اللہ بھلا کرے وہ مسلسل رابطے میں تھے۔ انہوں نے تھوڑی ہی دیر میں بکنگ بھیج دی اور مجھے جہاز پر چڑھنے کا کارڈ مل گیا۔

اب باری آئی سامان کی۔ میرے پاس ایک چھوٹا سا صندوق تھا۔ اس کا وزن ہاتھ والے سامان سے زیادہ تھا جبکہ حجم اس کے مطابق۔ خاتون کہنے لگیں کہ یہ آپ کو جہاز میں رکھوانا پڑے گا مگر اس کا لمبا دستہ بند نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے کہا کہ یہ اوپر والے خانے میں آ سکتا ہے۔ یہاں رکھوانے سے ٹوٹ جائے گا تو وہ مان گئیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ مشکل بھی آسان فرما دی۔ اس سے میرے دل میں یہ نیک شگون پیدا ہوا کہ آگے بھی ان شاء اللہ آسانی ہوگی اور دبئی پہنچ کر اندازہ ہوا کہ اگر سامان جہاز میں رکھواتا تو میرے لئے کتنی مشکل ہوتی۔

مشینی آنکھ اور انسانی آنکھ کا فرق

یہ مرحلہ طے کر کے آگے روانہ ہوا تو سامان کا تفصیلی معائنہ کیا گیا اور شاید پہلی بار مجھے بستہ کھول کر دکھانے کا کہا گیا۔ تالا تو تھا نہیں، میں نے بستہ آگے کر دیا تو اہلکار نے اس میں سے دو چیزیں بر آمد کیں ایک چائے کا پیکٹ اور ایک اچار کا اور پھر اطمینان کر کے اسے بند کر دیا۔ یہ میرے دوستوں کی فرمائش تھی۔

جدید دور ہے، مشین جس طرح آدمی کے جسم کے اندر دیکھ سکتی ہے، ایسے ہی سامان کی جانچ بھی کر سکتی ہے لیکن خدا کی شان کی آخری فیصلہ پھر بھی انسانی آنکھ اور انسانی دماغ ہی کرتا ہے حالانکہ وہ کسی شے کے اندر جھانک سکتا ہے اور نہ پردے کے پار دیکھ سکتا ہے۔

اسی طرح میرے بعد آنے والے ایک مسافر کے ہاتھ میں اٹھائے ایک تھیلے کی بھی تلاشی لی گئی۔ اس میں سے سرسوں کا پکا ہوا ساگ برآمد ہوا۔ سبحان اللہ، یہ کسی ماں نے اپنے جگر گوشے کے لئے پاکستان سے دبئی بھیجا ہوگا۔ گویا :

چند تصویر بتاں، چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا

زندگی کے ہر محلے کی ضروریات الگ ہیں

اس وقت تاریخ بدل چکی تھی۔ اگلے مرحلے میں ٹکٹ، ویزہ اور پاسپورٹ کسی نے نہیں دیکھا۔ بس جہاز پر چڑھنے کا کارڈ دیکھا گیا اور کچھ انتظار کے بعد جہاز میں بیٹھنے کا اعلان ہو گیا۔ میں سوچنے لگا کہ کس طرح ہر مرحلے میں ایک ایک سوال کم ہوتا چلا گیا اور ایک ایک چیز پیچھے رہتی چلی گئی۔ یہی حال انسان کی زندگی کا بھی ہے کہ ایک مرحلے میں جس چیز کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔

دوسرے مرحلے میں اس کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ یعنی ہر مرحلے کی اپنی شان اور اپنی ضروریات ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ انسان ان مراحل کی رعایت رکھتے ہوئے زندگی کا زینہ چڑھتا چلا جائے اور آخری مرحلے میں اس کے پاس وہ متاع عزیز موجود ہو، جو ابدی کامیابی کی کنجی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق بخشے۔

 

یہ بھی پڑھئیے:

بچپن لوٹا دو

RELATED ARTICLES

2 COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی