ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زنگی مبارک ہمارے لیے نمونہ عمل ہے، فرمان خداوندی ہے ترجمہ”تمہارے لیے رسول کی زندگی پہترین نمونہ حیات ہے”۔
اس کائنات رنگ وبو کو جب خالق کائنات نے خلق کیا تو انسانوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے ہادیوں کے سلسلے کو بھی جاری فرمایا جس کی پہلی کڑی حضرت آدم علیہ السلام اور آخری کڑی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں ۔
جس اللہ نے چیونٹیوں کو بھی بغیر ہادی کے نہیں چھوڑا (یعسوب) چیونٹیوں کا بادی و ان کی قطار کو لے کر آگے چلتا ہے اور ہمیشہ آگے رہتا ہے) وہ بنی آدم کو کیسے بغیر بادی کے چھوڑ سکتا ہے ۔
انسان کی تخلیق پر تو فرشتوں کو بھی اعتراض تھا کہ زمین پر فساد مچائے گا اور خون بہائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے ، دراصل اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت اور اصلاح کے لئے ہادیوں کے سلسلے تو جاری کرنا تھا جس سے فرشتے باخبر نہ تھے لیکن وہ یہ جانتے تھے کہ انسان کو نفس امارہ کے ساتھ پیدا کیا جائے گا اور نفس اماره برائیوں پر اکساتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مسلمان کو رسول اللہ سے شعوری محبت ہونی چاہیے ،ڈاکٹر سید عزیز الرحمن
انسانوں کے لئے ہادیوں کا سلسلہ جاری کرنے کی حکمت
ہادیوں کے سلسلے کو جاری کرنے کی حکمت یہی تھی کہ انسانیت کو معرفت الہیہ حاصل ہو جائے وہ کائنات کے سربستہ رازوں کو جاننے کے بعد سبحان ربی الا علی کا نعرہ بلند کرے اور رب کائنات کی تسبیح اور تقدیس کرتے ہوئے جنت میں داخل ہو۔
ہدایت کا یہ سلسلہ آدم علیہ السلام سے لیکر ختمی مرتبت الحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس تک جاری رہا آدم ملیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام کی نبوت کا دائرہ اپنے اپنے وقتوں میں کسی ایک وادی، کسی ایک بستی، کسی ایک قریہ اور کسی ایک قوم تک محدود تھا جیساکہ قرآن میں حق تعالیٰ نے فرمایا ” ولقد ارسلنا نوحا الی قومہ” “(اور ہم نے نوح ” کو ان ک قوم کی طرف بھیجا) “و اذقال عیسی لقومه”(اور عیسی نے کہا اپنی قوم سے)
دیگر آسمانی ادیان کے مقابلے میں اسلام کی آفاقیت
تمام انبیاء نے اپنے اپنے علاقوں میں اور اپنی اپنی قوم کو خدا کا پیغام پہنچایا، ان شریعتوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے ماننے والوں کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ شریعتین منسوخ ہو گئیں ان کی تعلیمات میں تحریف کردی گئی توریت ، زبور اور انجیل کا جو حال کیا گیا اسے دیکھتے ہوئے قدرت نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک جامع شریعت ، ایک مکمل نظام ہدایت اور ایک ابدی ہادی کو انسانیت کی ہدایت کے لئے بھیجا جائے جس کی بشارت یسوع مسیح نے دی تھی، پھر تاجدار ختم نبوت کے ظہور کے سامان ہونے لگے، کلیاں مسکرانے لگیں، پھول مہکنے لگے ، درود سلام کی بارش ہونے لگی، خطہ ارضی کا ماحول معطر ہو گیا، رحمت کی ہوائیں چلنے لگیں ، چہار سو “وہ آئے رحمتہ للعالمین ” کے نعرے بلند ہوئے اور سرکار دوعالم خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں تشریف لائے
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل اور نوید مسیحا
یہ بھی پڑھیں: رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا مقصد
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام محاسن کا مظہر بنا کر اس دنیا میں بھیجا گیا اور دین محمدی کو تمام ادیان پر غلبہ عطا کیا گیا چنانچہ قرآن نے فرمایا “ھو الذی ارسل رسولہ بالهدی و دین الحق ليظهره على الدين كله ولو کرہ المشرکون” (وہی ہے اللہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت و دین حق دے کر بھیجا تا کہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کردیں چاہے کافروں کو یہ ناگوار ہی گزرے)۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ دین غالب آیا اور انشاء الله غالب ہی رہے گا ۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عرب کے دور جاہلیت پر ہی اپنے اثرات نہ چھوڑے بلکہ آج بھی دین محمدی کے اثرات دنیا کے ہر کونے میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ایک مغربی مصنف جس نے “دنیا کے 100 عظیم انسان “(کتاب کا اردو ترجمہ) نام سے کتاب لکھی اس نے عیسائی ہونے کے باوجود پہلے نمبر پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو رکھا ،جب عیسائی حلقوں نے اس بابت سوال کیا تو مصنف کا یہی جواب تھا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دنیا پر بڑے گہرے اثرات ڈالے ہیں اسلئے میں نے ان کے ذکر کو کتاب میں پہلے نمبر پر رکھا ہے۔
تخلیق اول
حضرت جابرؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا ؛ اے اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے کس چیز کو تخلیق فرمایا ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ” اے جابر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا فرمایا” ایک حدیث مبارک میں آپ علیہ السلام نے فرمایا ” میں اسوقت بھی نبی تھا جب آدم پانی و مئی کے درمیان تھے یعنی ابھی آدم کا خمیر بھی تیار نہ ہوا تھا (نوٹ ؛ محدثین نے مذکورہ روایات کو سند کے لحاظ سے ضعیف قرار دیا ہے)
صاحب خلق عظیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
وہ حسن اخلاق کا پیکر ، تسلیم و رضا کا خوگر جس کے اسوہ کو رہتی دنیا تک انسانیت کے لئے نمونہ قرار دیا گیا، اعلیٰ اخلاق کا ایسا ماہتاب کہ جس کی کرنوں نے اپنے بیگا نے، دوست دشمن، سبھی کو متاثر کیا۔ ایک اجنبی بڑھیا کا سامان اٹھا کر گھر پہنچاتا ہے وہ شکریہ ادا کرتی ہے اور کہتی ہے “بیٹا کس خاندان کے چشم و چراغ ہو؟ اس دور میں جب اپنی اولاد کسی کو نہیں پوچھتی تم نے میرا بوجھ اٹھا کر مجھے میرے گھر تک پہنچایا، اجرت تو میرے پاس ہے نہیں ہاں اک نصیحت کرتی ہوں شاید تمھارے کام آئے، وہ شخص جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے بس اس سے دور رھنا ، سنا ہے وہ لوگوں کو بے دین کر رہا ہے۔ نبی علیہ السلام اچھا کہہ کر آگے بڑھتے ہیں ، بڑھیا کہتی ہے” اپنا نام تو بتاتے جائیں! آپ فرماتے ہیں میں وہی محمد ہوں جس سے بچنے کا تو مجھے کہہ رہی ہے، بڑھیا بڑا سا منہ بنا کے کہتی ہے “مجھے میرا سامان اٹھانے کا کس نے کہا ..؟ آپ نے فرمایا؛ یہ میرے دین کا حکم ہے کہ بے کسوں کی مدد کی جائے ، بڑھیا کہتی ہے ” اتنا اچھا دین باطل نہیں ہو سکتا، بیٹا مجھے بھی اپنے دین میں داخل کرو، وہ کلمہ پڑھ کے اسلام کے زیر سایہ آجاتی ہے۔
خطا کار سے در گزر کرنے والا نبی
معرکہ بدر نے کفر و شرک کے دانت کھٹے کر ڈالے مشرکین انگاروں پر لوٹنے لگے، بدلہ لینے کی صدائیں گونجنے لگیں احد میں کفر و شرک دوبارہ آمنے سامنے ہوتے ہیں، مشرکین کی عورتیں اپنے مردوں کو ہمت بندھا رہی ہیں پھر یوں ہوتا ہے کہ احد میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ شہید ہو جاتے ہیں، ہندہ حضرت حمزہ کا کلیجہ نکال کر چبا جاتی ہے، فتح مکہ کے موقع پر یہی بندہ جب تاجدار دو عالم کے سامنے آکر کلمہ پڑھ لیتی ہے تو نبی رحمت اسے معاف فرما دیتے ہیں۔معافی اور معاف کردینے کی مثالیں تواتر سے آپ ﷺ کی مبارک زندگی میں ملتی ہیں
جان کے دشمنوں کو معاف کر نے اور عزت دینے والا
مکہ فتح ہو جاتا ہے جو کہ سرکار ﷺ کی زندگی مبارک کی سب سے بڑی فتح ہے سرکار دو عالم شہر مکہ میں داخل ہوتے ہیں ، آج صحابہ نعرے لگاتے ہیں کہ آج وہ دن ہے کہ بدلے لئے جائیں گے ، آج تلواریں چلیں گی، لیکن نبی رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں “آج تو معاف کرنے کا دن ہے ” پھر فرماتے ہیں “لا تثریب علیکم الیوم” (آج کے دن تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا)
ابو سفیاں جو نبی علیہ السلام کو تکالیف پنچانے میں پیش پیش رہتا تھا آج سر جھکائے بارگاہ نبوت میں کھڑا ہے ، ایسے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں “جو خانہ کعبہ میں پناہ لے اماں میں رہے گا، جو ہتھیار ڈال دے اماں میں رہے گا، جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرے امان میں رہے گا ،بجو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے اماں میں رہے گا ، یعنی آپ نے ابو سفیان کے گھر کو پناہ گاہ قرار دیا۔
برائی کرنے والوں کے ساتھ اچھائی کرنے والے
فتح مکہ ہی کے دن تمام مشرکین مکہ موجود ہیں ،آواز نبوت بلند ہوتی ہے “کلید بردار کعبہ عثمان بن طلحہ کہاں ہے؟ و بن طلحہ ڈرا سہما حاضر ہوتا ہے، اسے معلوم تھا کہ ہجرت والی رات حضور نے اس سے کہا تھا کہ بیت اللہ کا تالا کھولو میں جاتے جاتے خانہ خدا میں عبادت کرنا چاہتا ہوں لیکن اس نے انکار کیا تھا ، اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ” عثمان ایک دن تو یہ چابی خود اپنے ہاتھ سے میرے حوالے کرے گا” یہ سن کر عثمان بن طلحہ نے کہا تھا کہ قریش کے ہوتے ہوئے یہ کبھی ممکن نہیں ہے، پھر چشم فلک نے دیکھا کہ آج عثمان بن طلحہ کانپتے ہاتھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاپی تھما دیتے ہیں، قفل کھولا جاتا ہے ، کعبے کو کو بتوں سے پاک کیا جاتا ہے۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر نکلتے ہیں اور چابی عثمان بن طلحہ کے حوالے کرتے فرماتے ہیں ” آج سے ہمیشہ کے لئے یہ چابی تمیارے پاس رہے گی” آج بھی بیت اللہ کی کلید برداری انہی عثمان بن طلحہ کی اولاد کے پاس ہے۔
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
زندگی مبارک رسول ﷺ میں ایک غزوے میں فتح کے بعد بہت سے غلام اور لونڈیاں قید کر کے لائے جاتے ہیں اور ایک ایک کر کے بارگاہ نبوت میں پیش کئے جاتے ہیں، ایک لڑکی جو کافرہ ہے اور بادشاہ کی بیٹی ہے بارگاہ نبوت میں پیش کی جاتی ہے سر پر رداء نہیں ہے، سرکار علیہ السلام اپنی روائے مبارک اتار کر اس کے سر پر ڈال دیتے ہیں، صحابہ کہتے ہیں یا رسول اللہ! یہ کافر کی بیٹی ہے، آواز نبوت آتی ہے ” اے میرے صحابہ! بیٹی بیٹی ہوتی ہے خواہ کافر کی ہی کیوں نہ ہو”
کہاں ہیں آج کے حقوق نسواں کے علمبردار جو بنت حوا کو برہنہ و عریاں کر کے برابری اور حقوق نسوان کے نعرے لگاتے ہیں، یہ ہے وہ حقیقی عزت جو حوا کی بیٹیوں کو دین اسلام نے عطا کی ، سوائے آپﷺ کی زندگی مبارک کے تاریخ میں کیا ایسی کوئی مثال آج موجود ہے؟افسوس کہ موجودہ دور میں عورت کو محض نفسانی خواہشات کی تکمیل اور کاروباری تشہیر کا ذریعہ بنایا گیا ہے ، جو عورت کی کھلم کھلا تذلیل ہے۔
آنچه خوبان همه دارند تو تنہا داری
ہادیانِ حق کے سلسلے کے ساتھ خالق کائنات نے ہر ہادی برحق کو اس کا زندگی مبارک میں معجزات اور فضیلتیں عطا فرمائیں جیساکہ قرآن میں فرمایا گیا” تلك الرسول فضلنا بعضهم على بعض” (جو رسول ہم نے بھیجے ان میں بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی) دیگر انبیاء علیهم السلام کو جدا جدا فضیلتیں عطا کی گئیں لیکن جس طرح حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو نبوت کے حوالے سے دیگر تمام انبیاء پر فضیلت حاصل ہے بالکل اسی ظرحانبیاء کو ان کی زندگی مبارک عطا کئے جانے والے جانے والے تمام معجزات کو اکیلی ذات رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اکٹھا کر دیا گیا بہ قول شاعر
حسن یوسف، دم عیسی، بد بيضاء داری
آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
آج کفار بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زندگی کے روشن پہلوؤں پر غور و فکر کر رہے ہیں اور آپ کی مبارک زندگی کی روشنی میں زندگی گزارنے کے پیمانے ترتیب دے رہے ہیں ، افسوس جنہیں حکم تھا کہ رسول اللہ کی زندگی تمھارے لئے بہترین نمونہ حیات ہے وہ اغیار کے در پر جبیں چھکائے منتظر ہیں کہ زندگی بدلے گی ۔ نبی کا نام لیوا ہو کر مغربی فلسفے کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور اسی کو باعث نجات سمجھ رہے ہیں ۔
کائنات کے اس کامل ، اکمل بنی نے زندگی کے تمام شعبوں کے لئے اپنی مبارک زندگی سے عمل کی راہیں متعین کی ہیں ، سیرت کا مطالعہ کرتے جائیں اور ہدایت پاتے بچائیں، تاجروں کے لئے حضرت خدیچہ کا مال تجارت لے کر جانے کا نبوی عمل ہدایت ہے، لیڈروں کے لئے ریاست مدینہ کے لیڈر کی زندگی نمونہ ہدایت ہے، معلموں کے لئے اس معلم اعظم اور صفہ کے استاد کا طریقہ تدریس اور زندگی مبارک نمونہ ہدایت ہے، سپہ سالاروں کے لئے بدروحنین کے سپہ سالار کی زندگی کے واقعات ہدایت کا راستہ بتاتے ہیں ،شوہروں کے لئے خدیجہ ،عائشہ اور حفصہ کے خاوند کی زندگی سراپا ہدایت ہے، ناداروں کے لئے مالک کوئیں کی سادہ اور فاقہ مستی کی زندگی ہدایت ہے۔
آنکھ والا ہی تیرے جوبن کا تماشہ دیکھے
دیدہ کور کو کیا نظر آئے وہ کیا دیکھے
آئیے اپنی آنکھوں یہ بڑے مغربی دھول کے تہ بہ تہ پردوں کو ہٹائیں اور حیات محمدیﷺ میں اپنے لئے راہ نجات اور راہ عمل تلاش کریں جس سے نہ صرف یہ کہ ہماری موجودہ زندگی پر سکون ہوگی بلکہ ہماری آخرت کی ابدی زندگی بھی سنور جائے ہوگی ۔
انشاالله