تحریر: ڈاکٹرمحمدیونس خالد
جذبات، جذبہ کی جمع ہے۔ جذبہ ایک کیفیت ہوتی ہے جو انسان کے دل ودماغ میں پیدا ہوتی ہے۔ اور اس کے شعورکی سطح کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہےکہ جذبات کسی قانون کے ماتحت نہیں ہوتے۔ کیونکہ قانون کا تعلق شعور کی سطح سے ہے۔ دوسرے الفاظ میں جذبات اس کیفیت کو کہتے ہیں۔ جو انسان کے اعصابی نظام میں داخل ہوکر اس کے خیالات ، احساسات اور رویےکو متاثر کرتی ہے۔
جذبات اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی۔ جذباتی کیفیت جب کسی ارفع مقصد سے جڑ جائے توا یسے جذبات قابل تحسین ہوتے ہیں۔ مثلا ایمانی جذبے کےساتھ جہاد کرنا ایک قابل تحسین عمل ہے۔ لیکن انہی جذبات کے پیچھے محرکات اگر درست نہ ہوں، مثلا قومی یا لسابی عصبیت جذباتی انگیخت کیلئے محرک بن جائے تو یقینا ایسے جذبات قابل مذمت ہوتے ہوں۔ کیونکہ ایسے جذبات معاشرے کیلئے نقصان دہ اور برے ہوتے ہیں۔
جذبات کی قسمیں
جذبات دو طرح کے ہوسکتے ہیں۔ منفی جذبات اور مثبت جذبات۔ دوسرے لفظوں میں انہیں تعمیری اور تخریبی جذبات بھی کہہ سکتے ہیں۔ جب ہم جذبات کی حالت میں ہوتے ہوئے اپنا کوئی خاص رویہ ظاہر کرتے ہیں۔ تو اس کو جذباتی کیفیت کا نام دیا جاتا ہے۔ جذباتی کیفیت انسان کی برین کیمسٹری کو تبدیل کرتی ہے۔ اس سے انسانی دماغ اس سے مختلف ہارمونز کا اخراج کرتا ہے جوانسانی دماغ نارمل حالت میں خارج کرتا ہے۔ جذبات کی وجہ سےانسان کی جسمانی کیفیت بھی بدلتی ہے۔
مثلا جب انسان کو غصہ آجاتا ہے تو اس کی برین کیمسٹری متاثر ہوتی ہے۔ اور اس کے دماغ سے مختلف قسم کے ہارمونز کا اخراج شروع ہوجاتا ہے ۔ غصے کی وجہ سے اس کی جسمانی کیفیت بھی بدل جاتی ہے۔ اور انسان نارمل حالت سے ابنارمل حالت میں چلاجاتاہے۔
اسی طرح جب انسان کو خوف لاحق ہوجائے، تو اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ اسٹریس یا ذہنی دباو ہو تو دماغ پر بوجھ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ خوشی کی حالت میں اس کے تمام اعضاوجوارح نارمل کام کرنا شروع کرتے ہیں۔ یوں جذباتی کیفیت کی جھلک انسان کے چہرے اور رویے سے ظاہر ہوتی ہے ۔ یعنی انسان کے اسٹیٹ اف مائنڈ یا ذہنی کیفیت براہ راست اس کی جسمانی حالت یا رویے پر اثرانداز ہورہی ہوتی ہے۔
یہی جذبات بعد میں مستقل طورپر انسانی رویوں اور عادات کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانی جذبات کی تعداد اتنی ہی ہے جتنی انسان کے احساسات اور ان کے تحت ظاہر ہونے والے رویے ہیں۔ تاہم ایک ریسرچ کے مطابق بنیادی طور پر سات قسم کے جذبات انسا ن میں پائے جاتے ہیں۔ باقی سب ان کی فروع یا ان سے نکلنے والی شاخیں ہیں۔
یہ جذبات مندرجہ ذیل ہیں۔ خوشی، غم، غصہ ، نفرت، حیرت وتعجب، مایوسی اور خوف۔ ان کے علاوہ بھی کئی جذبات پائے جاتے ہیں۔ مثلا فخر، غرور وتکبر، شرمندگی، پرجوش ہونا، آرام وسکون محسوس کرنا اور اطمینا ن کی کیفیت وغیرہ ۔
جذباتی ذہانت یا ایموشنل انٹیلی جنس کیا ہوتی ہے؟
یہ جدید نفسیات کی ایک اصطلاح ہے جو آج کی سوسائٹی میں کا فی استعمال ہورہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ جب انسان کو اپنے جذبات پرمکمل کنٹرول حاصل ہوجاتا ہے۔ اور وہ اپنے جذبات کی لگام کو اپنے پاس رکھ کر اپنی مرضی کے مطابق ان کو استعمال کرنے پر قادر ہوجاتا ہے۔ تو اس کے رویے بھی مثبت رویوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اسی جذباتی کیفیت کو جذباتی ذہانت کانام دیا جاتاہے ۔ عام طورپر جذبات انسانی شعور کو ڈرایئو کررہے ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کا نام جذبات رکھا گیا، کہ وہ انسانی شعور کواپنے اندر جذب کررہے ہوتے ہیں۔
اگر جذبات انسان کے کنٹرول میں ہوں، تو اسے جذباتی ذہانت کا نام دیاجاتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ای کیولیول بہت بلند ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر جذبات اپنے کنٹرول میں نہ ہوں۔ بلکہ انسان خود اپنے جذبات کے کنٹرول میں ہو توا سے جذباتیت کا نام دیا جاتاہے۔
بچوں کی تربیت کے پانچ ایریاز
یہ حقیقت ہےکہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ ہمیں ان ننھے پودوں کا مالی کی طرح خیال رکھنا ہوتا ہے۔ بچوں کی تربیت میں ہمیں بنیادی طور پر پانچ جہتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ یعنی ان پانچوں ایریا ز میں بیک وقت تربیتی کام کرنا چاہیے۔ وہ پانچ ایریاز مندرجہ ذیل ہیں۔ 1۔ دینی تربیت، 2۔ جسمانی تربیت ،3۔ ذہنی تربیت، 4۔ سماجی تربیت ، 5۔ جذباتی تربیت
یہاں ہم صرف جذباتی تربیت کی کچھ تفصیلات ذکر کریں گے۔
بچوں کی جذباتی تربیت
بچوں کی جذباتی تربیت سے مراد بچوں کے خیالات ، احساسات، مزاج اور رویوں کی تربیت کرنا ہے۔ بچوں کی تربیت میں یہ اہم ترین ہونے کے ساتھ ساتھ عام طور پر انتہائی نظر انداز میدان بھی ہے۔ والدین اور اساتذہ عام طور پر بچوں کی جسمانی اور ذہنی تربیت پرکافی زور دیتے ہیں۔ اورکسی حد تک دینی تربیت پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔ لیکن سماجی وجذباتی تربیت عام طور پر نظر انداز ہوجاتی ہے۔
یہاں پرایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کہ تعلیم اور تربیت کے درمیان فرق کو عام طور پر ذہن میں نہیں رکھا جاتا۔ تعلیم ہی کو تربیت خیال کرکے تربیت کو بسااوقات کلی طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ابھی بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ بڑے ہونے کے بعد خود بخود ان کی تربیت بھی ہوجائے گی۔
حالانکہ یہ شدید غلط فہمی ہے، تعلیم پر کام کرنے سے تربیت قطعا نہیں ہوسکتی۔ یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں اور دونوں پر الگ الگ کام کرنا پڑتاہے۔ اگر ہم تعلیم اور تربیت میں فرق کو جاننا چاہیں تو تعلیم کا تعلق انسان کے فہم ، شعور اور ادراک سے ہے۔ تعلیم میں بچے کو معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے فہم وشعورکو بہتر کیا جاتا ہے اور بس۔
جبکہ تربیت میں بچے کے مزاج اورجذبات پر کام کیا جاتا ہے۔ یعنی تعلیم یہ ہے کہ متعلم شعوری طور پر اچھے کو اچھا سمجھے اور برے کو براسمجھے ۔ یا اچھے کو اچھا بتائے اوربرے کو برا بتائے ۔
جبکہ تربیت یہ ہے کہ اچھائی اس کوجذباتی طور پراچھی لگنے لگے۔ اور برائی سے جذبات نفرت ہو۔ صرف جاننا کافی نہیں بلکہ یہ اچھائی اس کے مزاج ومذاق کا حصہ بنے اوراسے وہ دل سے اچھی لگنے لگے۔ اسی طرح برائی اسے بری لگنے لگے اور وہ برائی سے بچنے کی ازخود کوشش کرنے لگے۔
جذبات اور عقل کا تعلق
جذبات ہمارے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو بہت متاثر کرتے ہیں۔ ہم اپنے شعوروعقل سے اس وقت تک درست کام نہیں لے سکتے۔ جب تک کہ ہم جذباتی طور پرمتوازن نہ ہوں۔ اسی طرح بچوں کے جذبات کی بات کی جائے، تو جب تک بچے جذباتی طور پر متوازن نہ ہوں۔ اس وقت تک تعلیم یا زندگی کے کسی بھی میدان میں ان سے اچھی کارکردگی کی توقع رکھنا مشکل ہے۔ جذبا ت وہ توانائی ہوتے ہیں جو ارادوں کےعمل میں ڈھلتے وقت ہماری مدد کرتے ہیں۔ چاہے وہ تعلیم وتعلم کا میدان ہو یا زندگی گزارنے کا کوئی بھی میدان ہو۔
کئی بچے تعلیمی میدان میں بڑی اچھی کارکردگی کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کے گریڈز اور رزلٹ بڑے اچھے ہوتے ہیں ۔ لیکن بعد میں گھریلو، خاندانی اورمعاشرتی زندگی میں وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔ اگر پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو اس کی بنیادی وجہ بھی یہی کہ وہ جذباتی عدم توازن کا شکارہوتے ہیں ۔ لہذ ا بچوں کو کامیاب مستقبل دینے کے لئے ضروری ہے۔ کہ ان کی جذباتی تربیت کا خوب اہتمام کیا جائے۔
good