خودکشی

خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان-موثر حل کیاہے؟

ضلع چترال کے دل دہلا دینے والے خودکشی کے واقعات نے پوری قوم کو ایک مرتبہ پھر سوچنے پر مجبورکردیا  ہے۔ چترال ٹائمز کے مطابق، گزشتہ   تین دنوں کے اندر چترال میں  چار افراد نے خودکشی کی، جن میں تین خواتین اور ایک مرد شامل ہیں۔ یہ اعدادوشمار محض عددی حقیقت نہیں، بلکہ ہر موت کے پیچھے ایک لمبی  داستان اور پوری کہانی ہے۔مایوسی، ناکامی، تنہائی، دباؤ، اور بے بسی کی داستان۔ یہ واقعات کسی ایک گھر کے المیے نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے اجتماعی زوال کا آئینہ ہیں۔

اسلامی اور انسانی نقطہ نظر سے خودکشی کرنا نہ صرف حرام ہے بلکہ زندگی کی عظمت سے انکار کے مترادف ہے۔ مگر کیا ہم نے کبھی سنجیدگی سے سوچا کہ یہ خودکشیاں  آخر کیوں ہورہی ہیں؟کیوں ایک انسان اتنا مایوس ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے روشن  چراغ کو خود ہی اپنے ہاتھوں سے گل کر دیتا ہے؟ گزشتہ تین دنوں میں  خودکشی کے چار اندوہناک  واقعات ہم سب سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم  اس مسئلے کی جڑ  کوتلاش کرنے کے ساتھ اس  مسئلے کا   مستقل حل  تلاش کرنے میں بھی دیر نہ کریں۔

یوں تو خودکشی کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ نفسیاتی ماہرین بتاتے ہیں  کہ خود کشی زیادہ تر ڈپریشن، ذہنی دباؤ، معاشی مشکلات، ناموافق حالات، محبت میں ناکامی، معاشرتی دباؤ اورسماجی خوف،شدید  مایوسی، جذباتی ذہانت کی کمی اور کمی ہمتی وغیرہ کی وجہ سے   ہوتی ہے۔ خود کشی کی  یہ سب وجوہات  اپنی جگہ اہم   ہیں۔ چنانچہ ان سب مسائل  کے حل کیلئے ہمیں تدابیر ہمیں اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم یہاں پر آپ کے سامنے  ایک اور  اہم وجہ  کی نشاندہی کررہے ہیں ۔  اور وہ وجہ  دورحاضر کے تمام چیلنجز کے باوجود والدین  کے پاس ان سے نمٹنے کیلئے موثر پیرنٹنگ  اور  تربیت   کا  علم   نہ ہونا ہے۔  یہ سب سے   اہم   وجہ ہے کہ ہم بحیثیت والدین  وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے  نئی نسل  کی تربیت نہیں کرپارہے ۔

والدین آج کی نسل کو  اپنے بچپن  پر قیاس کرکے پیرنٹنگ کی کوشش  کررہے ہیں ۔ جبکہ آج کے بچے الفا جنریشن اور زی جنریشن  سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے  والدین سے مزاج ، عادات  اور رویوں میں بالکل مختلف ہیں۔ جب تک والدین اس جنریشن گیپ کو سمجھ پیرنٹنگ کا مکمل علم حاصل نہیں کریں گے  اس طرح کے واقعات میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

حضرت علیؓ  المرتضی کا  قول مشہور  ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت اپنے زمانے کے مطابق مت کرو، کیونکہ وہ تمہارے زمانے کے لیے نہیں، بلکہ اپنے زمانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔

اب ہم اس مسئلے  کے شعوری حل کیلئے چند تجاویز پیش کرتے ہیں:

  والدین  خود پیرنٹنگ  وتربیہ کی ٹریننگ حاصل کریں۔

 پہلی تجویز کے طور پر اس مسئلے کا سب  سے موثر حل ہماری نظر میں  یہ ہے کہ خود والدین  پیرنٹنگ کی تربیت حاصل کریں۔ آج اسپیشلائزیشن کا دور ہے  دنیا کا ہرکام سیکھ کر کیا جاتاہے سیکھے بغیر  کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام  بھی نہیں کیا جاتا ۔ بچوں کی تربیت دنیا کے  مشکل ترین  کاموں میں سے ایک  ہے کیونکہ یہاں ایک جیتے جاگتے انسان یعنی بچے کو ڈیل کرنا ہوتا ہے۔ اس بچے  کی پرورش ونگہداشت کے علاوہ   اس کی شخصیت سازی اور کردار سازی بھی    کرنی ہوتی ہے۔  بچے کی جسمانی ، ذہنی، جذباتی، روحانی اور سماجی تربیت والدین کی ذمہ داری  ہوتی ہے جو حقیقت میں دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔

جدید ٹیکنالوجی اور دورحاضر کے چیلنجز نے اس کام کو مزید مشکل تر بنادیا ہے۔ ان تمام چیلنجز کے باوجود ہم والدین بچوں کی تربیت  کو ایک عام سا  گھریلواور آسان  کام سمجھ کر ڈیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم سے بسااوقات غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ پیرنٹنگ کی چار اقسام میں سے  اکثر  غلط انداز تربیت  اختیار کرکے ہم سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی تربیت بہت اچھی ہوجائے گی۔ اس کا  غیر متوقع خراب  نتیجہ اس وقت ہمارے سامنے آتاہے جب ہمارے بچوں کی عمر پندرہ سال کی  ہوچکی  ہوتی ہے۔  اب اس  کام کو دوبارہ سنبھالنے اور بہتر کرنے کا کوئی راستہ بھی ہمارے پاس نہیں بچا ہوتا۔ پھروالدین افسوس کرتے پھرتے ہیں اور پریشان ہوتے نظر آتے ہیں۔

 یاد رکھیے، بچوں کی پہلی درسگاہ ماں کی گود اور باپ کا رویہ ہوتا ہے۔ اگر یہ دونوں خدانخواستہ  محبت، شفقت، اور شعور سے خالی ہوں تو بچے قریب رہتے ہوئے بھی  ٹوٹ جاتے  ہیں۔ ذہنی اور جذباتی بے راہ روی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔  بہترین والدین وہ ہوتے ہیں جو اپنے بچے کو سنتے ہیں، اس کے مزاج کو نہ صرف سمجھنے کی کوشش  کرتے ہیں بلکہ بچپن سے ہی اس کی مزاج سازی پر شعوری کام کرتے ہیں۔ اس کی جذباتی ضروریات کو سمجھتے ہیں اور اس کی غلطیوں پر پیار ، محبت اور نرمی سے  اصلاح کرتے ہیں۔ انہیں عزت ، پیار اور احترام دیتے ہیں۔  جب والدین کا یہ رویہ ہوتا ہے تو بچے اپنے والدین سے مضبوط تعلق بناتے ہیں پھر اپنی ہربات والدین سے شئیر کرتے ہیں ۔ اپنی ہر بات کا مشورہ اپنے والدین سے لیتے ہیں۔

ورنہ  وہ والدین سے دور بھاگتے ہیں  او ر بے راہ روی کا شکار ہوکر  بعض اوقات اس سطح تک پہنچ جاتے ہیں کہ  اپنی زندگی کا خاتمہ  کرنے  کا سوچتے ہیں۔ جن  کا آج ہمیں سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

 روحانی تربیت اور دین سے تعلق۔

جب بچوں کو اللہ سے جُڑنے مقصد حیات کو سمجھنے، ہرمشکل میں اللہ سے  دعا مانگنے، اور مصیبت کو  سزا کے بجائے آزمائش سمجھنے کی تربیت دی جائے، تو  زندگی کے طوفانوں میں بھی وہ  استقامت دکھاتے ہیں۔ دینی  وروحانی تربیت کے نتیجے میں خودکشی جیسے افعال قبیحہ سے بچتے ہیں۔ ان میں صبر، شکر، اور رضا بالقضاء  کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔ وہ اندرونی سکون اور امید کی زندگی جینا شروع کرتے ہیں چاہے حالات کتنے ہی کٹھن اور غیر موافق  کیوں نہ ہوں۔ یہ ساری کیفیت دینی اور روحانی تربیت سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ لہذا ہم اپنے بچوں کو صرف اسکول کی تعلیم دینا کافی نہ سمجھیں بلکہ انہیں دین سے جوڑنے کیلئے موثر تدابیر اختیار کریں۔

اسکولوں اور دینی اداروں کا کردار

 ہمارے تعلیمی نظام  کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ محض نصاب کی تکمیل اور امتحان لے کر پاس یافیل کرنے  کی حد تک خو دکو ذمہ دار اسمجھتا ہے ۔ انسان سازی اور شخصیت سازی کیلئے خود کو ذمہ دار نہیں سمجھتا ۔ ہمارے اسکولوں اور دینی اداروں کو چاہیے کہ وہاں کے  اساتذہ محض نصاب پڑھانے والے نہ ہوں، بلکہ بچوں کے احساسات، شخصیت، اور کردار کو بھی سنوارنے والے ہوں۔

اس سلسلے میں ضروری ہے کہ  تعلیمی اداروں میں  کونسلنگ سیل قائم ہوں۔ جہاں بچوں کے جذباتی مسائل کو ڈیل کرنے کا انتظام ہو۔ روحانی تربیت، سیرت طیبہ، اخلاقیات، اور کردار سازی  کے مضامین مستقل مضمون کے طورپر ہمارے تعلیمی نظام کا حصہ  ہوں یہ محض ذیلی مضامین کے طور پر نہ ہوں۔ اس کے علاوہ  اساتذہ اور والدین کی مستقل تربیت کا بھی  باقاعدہ نظام موجود ہو۔ ہمارے تعلیمی ادارے  اور گھرانے  دونوں بچوں کی تربیت  کے سلسلے میں ایک پیج پر موجود ہوں۔

 علماء کرام اور دانشوروں کا کردار

علماء کرام کے پاس منبرومحراب کی طاقت موجود ہوتی ہے  جبکہ اہل علم ودانش کے پاس زبان وقلم کی طاقت ہوتی ہے۔ ان دونوں  کوچاہیے کہ اس اہم معاشرتی  مسئلے کے درست حل کی طرف نئی نسل اور خود والدین کو بھی   رہنمائی  فراہم کریں۔ اس اہم ترین مسئلے کو یہ کہہ کرنظرانداز نہ کریں کہ یہ خودکشی کرنے  والے کا ذاتی فعل ہے۔

کسی کا اضطرار ی حال   دیکھ کر خاموش  نہ رہیں،بلکہ پوچھیں اورسنیں۔

اکثر لوگ کسی کے غم، جذبات    یا رویے کی ناہمواری  کو  دیکھ کر  اسے نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں  کہ یہ اس کا ذاتی  مسئلہ ہے ہمارا مسئلہ نہیں اسے خود کو ٹھیک کرنا چاہیے ۔ یہ بات درست ہے کہ ہرانسان کوچاہیے کہ وہ  خود کو ٹھیک کرے لیکن  یہی بےحسی بعض اوقات پورے معاشرے کیلئے خطرناک ہوجاتی ہے۔

چاہے والدین ایسا کریں کہ  اپنے بچوں کی کسی بات کو خاطر میں نہ لائیں ، ان کی پریشانی   کے احساسات  اور رویوں  کو  نظرانداز کریں یااساتذہ اپنے شاگردوں کے  رویوں کو اہمیت نہ دیں اور ان کے  احساسات کو نظرانداز کریں یا کوئی بھی ذمہ دارشخص اپنے سے جڑے لوگوں کی بات سننے سے کترائے ، ان کے جذبات اور احساسات کو خاطر میں نہ لائے تو یہ بذات خود خطرناک رویہ ہوسکتا ہے۔  اور یہی وہ چیز ہوتی ہے جو مایوسی اور ناکامی کی شکل اختیار کرکے  کمپاؤنڈ ایفیکٹ بن کر بعض اوقات انسان کو خودکشی کی طرف لے جاتی ہے۔

لہذا ہمیں سیکھنا ہوگا کہ بعض اوقات کسی کی خاموشی چیخ چیخ کر بول رہی ہوتی ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم  کسی کی خاموشی کو سنیں، کسی کی آنکھوں کی نمی کو پہچانیں، تم کیسا محسوس کر رہے ہو تم پریشان کیوں ہو؟ تم حوصلہ رکھوہم تمہارے ساتھ ہیں،  جیسے جملے استعمال کرکے اس کی اشک شوئی کی کوشش  کی جاسکتی ہے  تاکہ اسے کسی بڑے اقدام سے  روک سکیں۔

والدین کو کیا کرناچاہیے؟

  • والدین کو چاہیے کہ وہ   پیرنٹنگ ، تربیت  پر پہلی فرصت میں   ایک  اچھا سا کورس لازمی  کریں ۔ اس سے دورحاضر کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے درست پیرنٹنگ کے  موضوع کو سمجھنا آسان ہوجاے گا۔  اور اس موضو ع کے بکھرے مواد (خواہ وہ کتابوں، آرٹیکلز  یا ویڈیوز کی شکل میں ہوں) کوسمجھنا اور اس  سے فائد ہ اٹھانا آسان ہوجائے گا۔ یہ کورسز والدین کو دورحاضر میں بچوں کی  تربیت، اپنے  رویے کی درستگی کے ساتھ بچوں کے رویوں کو سمجھنے اور ان سے ڈیل کرنے کی صلاحیت اور جذباتی انٹیلیجنس سکھاتے ہیں۔  کورسز کیلئے بہتر ہے کہ  فزیکل کلاسز  کے ذریعے لیں ورنہ آن لائن کی شکل میں بھی آپ  لے سکتے ہیں۔
  • والدین اپنے بچوں سے دوستانہ مراسم رکھیں اور روزانہ کم از کم 20 منٹ تک  جذباتی تعلق کے ساتھ گفتگوکریں۔ اس وقت کو ہم اصطلاحی طور پر فیملی ٹائم کہہ سکتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے  کہ فیملی ٹائم کے دوران  والدین بچوں کو کسی چیز  کے کرنے کا نہ کرنے کا کوئی حکم نہ دیں  اور نہ زیادہ سمجھانے والا رویہ اپنائیں۔ بس بات چیت کریں بچوں سے اپنا تعلق مضبوط کریں  ۔    ان سے دل کی باتیں، پسندو ناپسند، خوف وامید اور ان کے  خواب وغیرہ ، یہ  سب موضوعات گفتگو میں شامل ہونے چاہییں۔
  • گھر میں بچوں کیلئے اچھا ماحول فراہم کرکے اور اچھی رول ماڈلنگ کے ذریعے  دین سکھائیں ، انہیں مقصدحیات بتائیں۔ انہیں اللہ ، اللہ کے رسول ﷺ اور قرآنی تعلیمات سے جوڑدیں، گھر میں اس چیز کا ماحول بنائیں۔بچوں کویہ  سکھائیں کہ اللہ سن رہا ہے ، اللہ دیکھ رہا ہے، آزمائش میں صبر کرنا عظمت ہے، اور زندگی نعمت ہے۔جب بچہ اس حوالے سے باخبر ہوجاتاہے تواپنے جذبات کو کنٹرول کرنا اسکے لئے آسان ہوجاتاہے۔  لیکن یاد رکھیے یہ  سب کام  پیار محبت سے کیجئے سختی اور ڈانٹ ڈپٹ سے نہیں ۔ ورنہ بچوں کے مزید دور ہونے کا خطرہ ہوسکتاہے۔
  • اپنے محلے، اسکول، اور مسجد میں پیرنٹنگ، اور تربیت کے  سیشن رکھوائیں۔ والدین، اساتذہ، علماء، اور نوجوانوں کو ایک جگہ بلا کر مشترکہ طور پر گفتگو، تربیت، اور رہنمائی کی جائے۔ جو ہمارے معاشرے میں تقریبا ناپید ہیں۔ہم ہرچیز پر گفتگو کرتے ہیں ، سیکھتے ہیں لیکن پیرنٹنگ ، تربیت پر کوئی گفتگو نہیں ہوتی  اور نہ اسے سیکھنے سکھانے کا کوئی خاص رجحان پایاجاتا ہے ہمیں اس طرف آنا ہوگا۔
  • اپنے بچوں اور طلبا ء سےخودکشی کے رجحانات اور اس کے اسباب و نتائج  پر کھل کر بات کریں۔یہ موضوع اب ممنوع نہیں رہا اس کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ اسکولوں، مساجد، اور گھروں میں اس پر کھل کر بات ہونی چاہیے تاکہ نوجوانوں کو معلوم ہوسکےکہ زندگی کا ہر مسئلہ عارضی ہوتا ہے، مگر مایوسی کفر جبکہ  خودکشی  حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ نیز یہ بات بھی بچوں کو بتانے کی ضرورت  ہے کہ جذبات و  احساسات دل و دماغ میں پیداہونے والے بلبلے یا سایے ہوتے ہیں جو کنٹرول کرنے پر بہت جلد کنٹرول میں آسکتے ہیں ، ورنہ وہ آپ کی زندگی ڈرائیوکرکے خطرناک موڑ تک پہنچاسکتے ہیں۔ زندگی اللہ کی  نعمت اور امانت  ہے اس کی قدر  کیجئے اور  اپنے جذبات کو کنٹرول کیجئے ۔

ڈاکٹرمحمدیونس خالد

ڈائریکٹر ایجوتربیہ، تربیت کار، ٹرینر اور لائف کوچ

Check Also

تحفہ والدین برائے تربیت اولاد (دور جدید میں بچوں کی تربیت کے مسائل اور ان کا حل)

تربیت کے اسلامی اور نفسیاتی اصولوں پر مبنی والدین کیلئے موثر رہنما کتاب  از ڈاکٹر …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے