ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے ہاں تشریف لائے تو ان کے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مطابق یہ لڑکیاں پیشہ ور گانے والیاں نہیں تھیں ایسے ہی گا رہی تھیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ منظر دیکھ کر فرمایا
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں یہ شیطانی باجے؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس دن عید کا دن تھا حضرت ابوبکر کا سوال سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سے فرمایا
“ان لکل قوم عیدا وھذا عیدنا”
ترجمہ؛ اے ابوبکر! بے شک ہر قوم کی کوئی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔
خوشی منانا اور اس کے لئے دن مقرر کرنا انسانی حق ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ” بے شک ہر قوم کے لئے خوشی مناتے کا کوئی دن ہوتا ہے اور ہماری خوشی کا دن یہ ہے” صاف بتا رہا ہے کہ عید منانا نہ صرف ایک اسلامی حق ہے بلکہ ایک انسانی حق بھی ہے۔
دین اسلام انسانوں کے انسانی جذبات کو کچلنے اور جڑ سے مٹانے کا حکم نہیں دیتا ان کو ایک ضابطہ کار کے تحت لانے کا کہتا ہے۔ انسان کی جبلت تقاضاکرتی ہے کہ سال میں کچھ مخصوص دن ایسے ہوں جن میں روز مرہ کے معمولات زندگی کو ایک سائڈ پر رکھا جائے، مصروفیات کے بکھیڑوں سے جان چھڑائی جائے اور صرف خوشی منائی جائے، رشتے داروں اور دوست احباب کے ساتھ مل بیٹھا جائے،گھوما پھرا جائے، سیر سپاٹے سے دل و دماغ کی تھکان اتاری جائے۔
اسلامی عیدوں کا پس منظر
بنی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس انسانی فطرت کی تسکین کے لئے اہل اسلام کو دو عیدوں کا تحفہ عطا فرمایا۔ روایات بتاتی ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے تو وہاں کے لوگوں کو بعض دنوں میں خوشی مناتے پایا۔
چنانچہ مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ کے لیے دو دن کھیل کود کے لیے مقرر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایاکہ یہ دو دن کیاہیں؟ صحابہ نے عرض کیا “یا رسول اﷲ !ہم ان دو دنوں میں ایامِ جاہلیت میں کھیلتے کودتے(اور خوشی مناتے) تھے۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے تمہیں ان کی جگہ ان سے بہتر دو دن( عید الفطر اور عید الاضحی) مرحمت فرمائے ہیں۔
اسلام سے قبل اہل مدینہ کے دو تہوار
مورخین کے مطابق خوشی کے یہ دو تہوار جو اہل مدینہ مناتے تھے “نوروز” اور “مہرجان” تھے۔ ظاہر ہے ہر قوم خوشی بھی اپنے انداز میں مناتی ہے اس قسم کے تہواریں قوموں کی تہذیبی اور سماجی رنگ لئے ہوتی ہیں۔ نوروز اور مہرجان چونکہ پارسیوں کے تہوار تھے اس لئے ان میں ان کی تہذیب اور روایات کی آمیزش تھی۔
مدینہ (اس وقت کے یثرب) میں در آنے والے یہ تہوار اپنے ساتھ اہل فارس کی تہذیب کا عکس بھی ساتھ لائے ہوں گے،خود اہل مدینہ کی روایات اور تہذیب کا چربہ بھی ان تہواروں پر ہوگا۔ بہرحال نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان مروج تہواروں کو برقرار نہیں رکھا،ان کو ہی اصلاحات کے ساتھ جاری رکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ سال میں دو متبادل تہوار عطا کئے تاکہ ان پر ہر لحاظ سے اسلامی رنگ غالب ہو۔
اگرچہ خوشی منانا انسانوں کی مشترکہ ضرورت ہے لیکن ایک مسلمان کو خوشی مناتے ہوئے بھی کچھ آداب اور اصولوں کا پابند ہونا چاہیے بہ قول شاعر مشرق
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
عیدوں کے لئے دوسرے دنوں کا انتخاب کیوں نہیں کیا گیا؟
اسلام نے خوشی منانے کے لئے جو دن مقرر کئے ہیں وہ بھی حکمت پر مبنی ہیں۔اسلام نے اپنے پیرو کاروں کو خوشی کے تہوار تو دئے لیکن مواقع ایسے چنے جو عملیت پسندی کا سبق دیتے ہیں۔ یہ بھی ممکن تھا کہ مسلمانوں کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے دن کو عید کا دن قرار دیا جائے، یہ بھی ہو سکتا تھا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام پر جس دن وحی اترنے کا آغاز ہوا اسے عید ڈکلیئر کیا جائے۔
یہ بھی کیا جا سکتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس تاریخ کو مدینے کی طرف ہجرت فرمائی وہ اہل اسلام کی عید کا دن بنے۔ یہ دو چار نہیں درجنوں ایسے مواقع تھے جو مسلمانوں کے لئے اہم بھی تھے اور خوشی منانے کے قابل بھی، لیکن اسلام نے اس کے لئے شوال کی پہلی اور ذوالحجۃ کی دس تاریخ مقرر کی اور اپنے ماننے والوں کو واضح پیغام دیا کہ خوشی منانا اور اس کے لئے دن مقرر کرنا تمہارا انسانی حقوق ہے مگر یہ یاد رکھنا کہ خوشی تم اپنی کارکردگی پر مناؤ!
یکم شوال اور دس ذوالحجہ کی تعیین میں پوشیدہ حکمت
یکم شوال کو دنیا بھر کے اہل ایمان رمضان المبارک کے روزوں کا فریضہ انجام دے چکے ہوتے ہیں، پوار مہینہ عبادات کی مشقت اٹھا چکے ہوتے ہیں،اس لئے ان کو کہا گیا کہ آج تم دل کھول کر خوشی مناؤ کیونکہ تم اس کی اہلیت ثابت کر چکے ہو۔
دس ذوالحجہ کو چونکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ مکرمہ میں فریضہ حج سے سبکدوش ہوجاتی ہے اور باقی تمام مسلمان قربانی کی عبادت انجام دینے کی تیاری کر چکے ہوتے ہیں لہذا انہیں اپنی اس کارکردگی پر خوشی منانے کی اجازت دی گئی۔
عید کے دن دوسروں میں خوشی بانٹنا
اسلام اپنے مان لیواؤں کو صرف خود خوشی منانے کا نہیں کہتا بلکہ دوسروں میں خوشی بانٹنے کی تلقین بھی کرتا ہے۔ عیدالفطر میں صدقہ فطر کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی اپنی خوشی میں شامل کیا جائے جو اپنی تنگ دستی اور غربت کی وجہ سے خوشیوں سے محروم ہیں۔عید قرباں کے موقع پر قربانی کے گوشت میں محروم اور نادار لوگوں شامل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
ایک دفعہ مدینہ میں قحط کی صورت حال تھی جس کے پیشِ نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ ذخیرہ کرنے سے منع فرمایا ۔اگلے سال صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بابت دریافت کیا تو آپ نے فرمایا
“کلوا واطعموا وادخروا فان ذالک العام کان بالناس جھد فاردت ان تعینوا فیھا”
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کا حاصل یہ ہے کہ اپنی قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ،اوروں کو بھی کھلاؤ اور ذخیرہ بھی کرو! گزشتہ سال چونکہ لوگ معاشی طور پر پریشانی کا شکار تھے اس لئے میں نے تین دن سے زیادہ ذخیرہ کرنے سے منع کیا میرا مقصد یہ تھا کہ تم قربانی کے گوشت کے ذریعے ان پریشان حال لوگوں کی مدد کرو۔
عید پر اہل و عیال کو خوشی کا موقع فراہم کرنا
عید کے موقع پر حسب گنجائش اپنے اہل و عیال کے لئے کھانے پینے میں بھی فروانی کرنی چاہیے اور ان کو خوشی مہیا کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے حضرت عائشہ کی ایک حدیث ہم مضمون کے شروع میں بیان کر چکے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ عید کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ۔وسلم کے گھر میں دو لڑکیاں گا رہی تھیں،
حضرت ابوبکر نے ان کو ٹوکنے کی کوشش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے کہا “ہر قوم کی خوشی کا کوئی دن ہوتا ہے اور یہ ہماری خوشی کا دن ہے” بعض روایات میں ہے کہ آپ نے حضرت ابوبکر صدیق سے کہا ” رہنے دیں ان کو”
ایک اور روایت میں ہے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عید کے دن حبشی لوگ آئے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھیل کود رہے تھے، آپ نے مجھے بلایا، تو میں انہیں آپ کے کندھے کے اوپر سے دیکھ رہی تھی میں برابر دیکھتی رہی یہاں تک کہ میں (خود) ہی لوٹ آئی۔ یہ دونوں احادیث اس حوالے سے واضح رہنمائی کرتی ہیں کہ عید کے موقع پر اپنے اہل خانہ کو شرعی حدود میں رہ کر خوشی مہیا کرنی کی کوشش کرنی چاہیے۔
عزیز و اقارب سے میل،ملاقات
عید کے موقع پر رشتے داروں اور عزیز و اقارب سے ملاقات بھی عید کے آداب میں سے ہے۔ عید کے دن عیدگاہ آتے جاتے مختلف راستے اختیار کرنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں اور عزیزوں سے ملاقات ممکن ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ رشتے داروں سے ملے بغیر عید کی خوشی ہی ادھوری لگتی ہے بہ قول کسے
عید آئی تم نہ آئے، کیا مزا عید کا
عید ہی تو نام ہےاک دوسرے کی دید کا
ایک شاعر نے تو یہاں تک کہا ہے
جہاں نہ اپنے عزیزوں کی دید ہوتی ہے
زمین _ ہجر پہ بھی کوئی عید ہوتی ہے؟
رشتے جب بد اعتمادی کا شکار ہوں تو نہ صرف رشتوں کی مٹھاس کڑواہٹ میں بدل جاتی ہے بلکہ عید جیسی خوشی بھی پھیکی ہوجاتی ہے ،کسی کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے
مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی،دیوالی بھی
اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں
عید ہو اور گرم جوشی سے گلے باہم نہ ملیں تو کہاں کی عید؟ قمر بدایونی تو اسے عید کا لازمہ اور دستور قرار دیتے ہیں
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم!
رسم دنیا بھی ہے،موقع بھی ہے،دستور بھی ہے
ظفر اقبال نے تو پیاروں سے ملے بغیر عید کو نامکمل اور ایک قسم کی رسمی عید سے تعبیر کیا ہے وہ کیا خوب کہتے ہیں
تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی
عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی