رمضان اور عید سے وابستہ خوب صورت روایات دم توڑ رہی ہیں
تحریر ؛۔ جاوید ایاز خان
کہتے ہیں خوشی اور مسرت کا حصول انسانی فطرت کا خاصہ ہے انسان ہمیشہ خوشیوں کا خواہشمند رہا ہے ۔ خوشیاں کچھ انفرادی اور کچھ اجتماعی ہوتی ہیں۔ اجتماعی خوشیاں تہوار کہلاتی ہیں ۔
مسلمانوں کا خاص تہوار
عید الفطر مسلمانوں کا خاص تہوار ہے جو ساری دنیا کے مسلمان اجتماعی طور پر احکامات الہی ،سنت رسول کی روشنی میں اپنی اپنی علاقائی روایات کے مطابق مناتےہیں ۔عید الفطر رمضان کے روزوں کے مکمل ہوجانے کے بعد منائی جاتی ہے۔
فطر کے لغوی معنی ہیں کھولنا ۔اس لیے جب ماہ رمضان کے روزے ختم ہو جاتے ہیں تو شوال کی پہلی تاریخ کو روزے کھول دئیے جاتے ہیں اور مسلمان اس عید پر اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہیں کہ روزے بخریت انجام پائے، اور صدقہ فطر کی ادائیگی کے بعد دو رکعت نماز ادا کرکے اظہار شکر کرتے ہیں ۔
عید کے اجتماع کا مقصد
نماز عید جامع مسجد یا عید گاہ میں باجماعت پڑھنا واجب ہے اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ اس موقع پر زیادہ سے زیادہ مسلمان اکھٹے ہوکر باہمی اتحاد،یکجہتی اور الفت کا ثبوت دیتے ہیں ۔عید کی ان خوشیوں میں شامل ہونے کے لیے دور دراز سے لوگ اپنے آبائی گھروں کا رخ کرتے ہیں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ عید کی خوشیاں مناتے ہیں ۔چاند رات تک سب اکٹھے ہوکر گپ شپ کرتے ہیں خوشی کبھی تنہا نہیں منائی جا سکتی نہ ہی تہوار اکیلے گزارہ جاسکتا ہے ۔
تہوار وہی ہے جس میں دوسرے آپ کی خوشی میں شریک ہوں
میرے والد صاحب کہتے تھے خوشی اور تہوار وہی ہے جس میں دوسرے بھی تمہاری خوشی میں شریک ہوں۔تمام مذاہب اور اقوام اپنی خوشیاں اور تہوار اپنے مذہبی احکامات ،اپنی روایات و ثقافت کے مطابق مناتے ہیں اور خوشی منانے کا اپنا اپنا الگ طریقہ ہے ہماری اسلامی اور ثقافتی روایات ہماری خوشیوں کا ہمیشہ اہم حصہ رہی ہیں جس میں دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شامل کئے بغیر خوشی اور تہوار کا تصور نظر نہیں آتا لیکن ناجانے کیوں اب وقت کے ساتھ ساتھ یہ قدریں اور روایات ماند پڑتی جارہی ہیں ؟
رمضان کے آخری عشرے میں روٹھے ہوئے لوگوں کو منانے کی روایت
اسلامی تعلیمات کے مطابق عید خوشی ومسرت کے ساتھ ساتھ نفرتوں کو مٹانے اور محبتوں کو بڑھانے والا تہوار ہے یہ تہوار باہمی محبت ، بھائی چارے اور امن وآشتی کا پیغام دیتا ہے۔ ریا ست بہاولپور میں یہ روایت تھی کہ رمضان کے آخری عشرے میں لوگ اپنے سے ناراض اور روٹھے ہوے لوگوں کو مناتے اور عید سے پہلے ایک دوسرے سے معافی مانگ لیتے تھے آپس میں روٹھے لوگوں کی صلح کرانے میں سب لوگ خصوصی بزرگ اور خاندانوں کے بڑے اپنا کردار ادا کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ آپ کی عبادات اور روزے ناراضگی ختم کرنے سے ہی شرف قبولیت حاصل کرتے ہیں ۔
عید سے جڑی کچھ خوب صورت روایات جو دم توڑ رہی ہیں
بچے بچیاں پہلے سے ہی اپنے خوبصورت لباس تیار کرلیتیں اور ایک دوسرے کو دکھاتیں چاند رات میں عجب سماں ہوتا ، لوگ اپنی بیٹیوں ،رشتہ داروں ،دوستوں اور غریب عزیزوں کے گھر چوڑیاں ،مہندی سویاں ،چینی،دودھ اور میوہ تحفہ کے طور بھجواتے تاکہ عید کی صبح ہر گھر میں سویاں پک جائیں ۔ خواتین ایک دوسرے کے گھر جاکر مہندی لگانے کا اہتمام کرتیں(یہ کام اب بیوٹی پارلر کرتا ہے ) لوگ رات کے اندھیرے میں غریب اور مستحق لوگوں کے گھروں میں فطرانہ اور زکوۃ تقسیم کرتے تاکہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو پائے ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ کوئی مستحق رہ نہ جاے ُ تاکہ صبح ان کی عید نماز قبول ہو جاے ۔
بہاولپور کے ریاستی دور میں عید منانے کے نرالے طور طریقے
ڈیرہ نواب صاحب کی عید بہت شاندار ہوتی تھی جس کا اعلان سائرن بجا کر اور توپ کے گولے چلا کر کیا جاتا یہاں کی عید گاہ میں شامیانے لگ جاتے اور قالین بچھ جاتے تھے پورے شہر کو رنگ و نور سے جگمگ کر دیا جاتا سڑکیں پھولوں اور استقبالی جھنڈیوں سے سجا دی جاتیں تھیں کیونکہ نواب امیر آف بہاولپور یہاں نماز پڑھتے تھے اس لیے پوری ریاست کے لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے یہا ں پہنچتے اور عید گاہ کا وسیع ترین گراونڈ کھچاکھچ بھر جاتا۔ نواب صاحب کے استقبال پر انہیں شاندار گارڈ آف آنر پیش کیا جاتا جس میں گھڑ سوار دستے اور پیدل افواج شامل ہوتیں۔ شاہی فوجی بینڈ دھنیں بجا کر ایک عجب سماں باندھ دیتا تھا جس سے لوگوں کی خوشیاں اور بھی دوبالا ہو جاتی تھیں۔
نواب آف بہاولپور عید کی نماز پڑھ کر یتیم خانے پہنچتے
بازاروں میں بے پناہ رش ہوتا تھا ۔لیکن نواب بہاولپور عید نماز کے بعد یہاں کے یتیم خانے پہنچتے اور یتیم بچوں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شامل ہوتے انہیں مٹھائی اور تحائف دیے جاتے ۔ہمارے خاندان میں رواج تھا کہ عید کی نماز کے بعد سب اکھٹے ہوکر ان گھروں میں جاتے تھے جہاں کوئی شخص فوت ہوچکا ہو اور اس خاندان کی پہلی عید ہو۔ بڑے بزرگ ان کے دکھ کو کم کرنے کی کوشش کرتے۔ گھروالوں کو اپنے ساتھ بیٹھا کر تسلیاں دیتے اور انہیں اپنے ہاتھوں سے سویاں کھلائی جاتیں ۔ صاحب فراش بیماروں کی خصوصی خبر گیری کا اہتمام کیا جاتا اور ان کی دل جوئی کےلیے گھنٹوں ان کے پاس بیٹھ کر مزاج پرسی کی جاتی تاکہ وہ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں ۔
میرے دادا مرحوم ہر عید پر حوا لات اور جیل کے قیدیوں کو مٹھائی ، تحائف اور کپڑے دیکر آتے ۔اللہ کی نعمتوں کو ضرورت مندوں تک پہنچانے کے لیے ضرورت مندوں کی لسٹ بنائی جاتی تھی جہاں راشن اور ضرورت کی اشیاء عید سے قبل پہنچا دی جاتیں اور پھر غریب بچوں کو عیدی کے طور پر کچھ نہ کچھ نقد بھی دیا جاتا تھا اس موقعہ پر یتیم بچوں اور بچیوں کا خصوصی خیال رکھا جاتا تھا ۔
گھر کی خواتین باورچی خانے میں ڈیرے ڈال لیتیں، طرح طرح کے پکوان بناتیں، بچیاں نئے کپڑے پہن کر بزرگوں سے عیدی وصول کرتیں ۔نوجوان عیدی لیکر دوستوں کے ہمراہ گھومنے پھرنے چلے جاتے یا شہر کے سینما ہالوں کا رخ کرتے ۔
اکٹھے ہو کر اگلی عید تک شادیوں سمیت دیگر معاملات کی منصوبہ بندی کرتے
بڑی بوڑھیاں اور خاندان کے بزرگ اکھٹے ہوکر اگلی عید تک کے لیے پوری پلاننگ کرتے بچوں کی شادیاں اور رشتے طے کئے جاتے ،شادیوں اور دیگر خوشیوں کے لیے تاریخ مقرر کی جاتی اور خاندانی جھگڑے سلجھاےجاتے ۔ دلوں کو صاف کرکے پورے سال کی بد مزگیوں اور رنجشوں کو ختم کیا جاتا اور روٹھوں کو منایا جاتا تھا ۔دوپہر کو پورے خاندان کے لیے ایک بڑا سا دسترخوان سجایا جاتا جہاں سب ملکر عید کی خوشی کو دوبالا کرتے تھے،خوشیوں اور محبتوں کا یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہتا جب ہم بھائی عید کے بعد نوکری پر جانے لگتے تو سب اداس ہوجاتے اور اباجی بڑی حسرت سے کہتے لو جی آج میلہ بچھڑ گیا ہے پھر پتہ نہیں کب ملنا ہوتا ہے ؟اور پھر آبدیدہ نظروں سے دور تک ہمیں جاتا دیکھتے رہتے تھے ۔
رمضان تو اب بھی آتا ہے لیکن اس سے وابستہ رویات ماضی کا حصہ بن چکیں
رمضان شریف اب بھی ہر سال آتا ہےعیدیں بھی ہمیشہ مناتے ہیں ہم روزے بھی رکھتے ہیں نمازیں بھی پڑھتے ہیں خیرات وزکوۃ بھی ادا کرتے ہیں لیکن یہ سب روایات اب ماضی کا حصہ ہو چکی ہیں اور عید کی خوشیاں پھیکی پھیکی اور مصروف زندگی میں پرانی روایات دم توڑتی جارہی ہیں اور خوشی کی گہما گہمی اور رونق ماند پڑ تی جارہی ہیں ، وہ رونق اور خشوع وخضوع اور وہ آنسو پھر سے دیکھنے کو دل کرتا ہے ۔
نعت پڑھنے والوں کی ٹولیاں ، سحری میں جگانے والے ،صلح جو بزرگ نظر نہیں آتے
اب وہ نعتوں کی ٹولیاں ،جگانے والے لوگ ،روٹھوں کو منانےاور صلح کرانے والے بزرگ اور بڑے کہیں نظر نہیں آتے ۔دوسروں کو اپنی خوشی میں شریک کرنے والے کم ہوتے جارہے ہیں البتہ اشیا خوردونوش کی قیمتیں کم نہیں ہوتیں بلکہ بڑھ جاتی ہیں ۔چاند رات کو بازاروں میں تو رش ہوتا ہے مگر فطرانہ اور زکوۃ چپکے چپکے پہنچانے کا رواج ختم ہو تا جا رہا ہے ، عید نماز کے بعد اب بازاروں کی رونق کہیں کھو گئی ہے ۔
افسوس اب عید بھی ڈیجیٹل ہو چکی
اب سب کچھ ڈیجیٹل ہوتا چلا جارہا ہے رمضان اورعید پورا گھر ٹیلی وئژن اور موبائل پر یا سو کر گزارتا ہے۔تنہا تنہا رہنے سے ہماری روائتی اور حقیقی خوشیاں کہیں گم ہو گئی ہیں ۔ہمیں نئی نسل کو ان خوبصورت روایات کو متعارف کروانا چاہیے اس کے لیے ہمیں اپنی ان روایات کو ان کے سامنے خود دہرانا پڑے گا بلکہ یہ سب کر کے دکھانا پڑے گا تبھی یہ خوبصورت روایات اور ہمارا تہذیبی،و ثقافتی ورثہ ان تک منتقل ہو سکے گا ۔جو اس جدید ٹیکنالوجی اور زندگی کی دوڑ میں اس قدر مصروف ہو چکا ہے کہ وہ ان قیمتی لمحات سے چھوٹی چھوٹی خوشیاں کشید کرنا بھی بھول چکا ہے ۔