عید ا لا ضحی عظیم قربا نی کا دن
دنیا کی ہر قوم خوشی کے تہوار مناتی ہے، تہواروں کے پیچھے کوئی نہ کوئی فلسفہ ضرورہوتا ہے جس طرح مسلمان ایک سنجیدہ امت ہے اسی طرح مسلمانوں کے تہوار بھی سنجیدہ ہیں ، سنجیدہ کیوں نہ ہوں جس امت کو لوگوں کی اصلاح کے لئے اُٹھایا گیا ہو وہ بردبار، پُروقار اور سنجیدہ ہوتی ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ”اور اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امّتِ وَسَط بنایا ہے۔تا کہ تم دنیا پر گواہ ہو اور رسول ؐ تم پر گواہ ہو“۔البقرا(۳۴۱)۔ دوسری جگہ فرمایا گیا ”تم دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔“
اتحاد امت کا پیغام
امت وسط سے کیا مراد ہے ؟
امتِ وَسَط سے مراد یہ ہے کہ جب آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت پر گواہی دیں گے کہ اے ربّ میں نے تیرا پیغام امتِ مسلمہ تک پہنچا دیا تھا۔ اَب نے اس امت کو امتِ َ وسَط بنایا تھا یہ اِن کا رہتی دنیا تک کام تھا کے وہ دنیا کی قوموں تک تیرا پیغام پہنچائیں۔ یہ اعزاز کہ نبی ؐ کے بعد اس امت نے نبی ؐ کے قائم مقام کی ڈیو ٹی ادا کر کے دنیا کی قوموں کے سامنے نبی ؐ کی شر یعت کو نافذ کرنا تھا کیا اس امت نے یہ کام کیا؟ یہ ہے امتِ وَسَط کا مفہوم۔
مزید پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کیجئے۔
عیدالاضحی قربانی اور شایان شان خوشی کا دن ۔
اس امت کے سارے خوشی کے تہوار اس کے شایان شان ہیں۔عیدالفطر میں مسلمان 30 دن کے روزے رکھتے ہیں، تراویح پڑھتے ہیں، شب بیداری کا اہتمام کرتے ہیں ،تہجد ادا کرتے ہیں، اللہ سے رو روکے اپنے گناہوں کی بخشش کے دعائیں مانگتے ہیں ، اپنی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، فطرانہ ادا کرتے ہیں، اس کے بعد شکرانے کے طور پر عید الفطر کی دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں پھر خوشی مناتے ہیں۔
اسی طرح عید الضحیٰ سے پہلے پوری دنیا سے مسلمان اللہ کے گھر خانہ کعبہ میں جمع ہوتے ہیں ، سخت گرمی اور سخت سردی میں سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں ، خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں ، صفاء ، مروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں ، قربانی کرتے ہیں ،منی میں خیموں کی بستی آباد کرتے ہیں، مدینے میں مسجد نبوی میں نمازیں ادا کرتے ہیں،اور سارے مناسک حج کی ادائیگی کے بعد عیدالضحیٰ مناتے ہیں۔
اس سارے پروسس کے اندر جو فلسفہ پوشیدہ ہے وہ قربانی کا فلسفہ ہے، امتِ مسلمہ ہر سال عیدُالا ضحیٰ پر سنتِ ابرا ہیم علیہ السلام پر عمل کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور یہ عمل پوری دنیا میں جہا ں جہاں مسلمان آباد ہیں تسلسل سے ہو رہا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے دعا مانگی تھی کہ اے پروردگار مجھے ایک بیٹا عطا فرما جو صالحوں میں سے ہو۔اس دعا کے بدلے میں اللہ نے ان کو ا یک حلیم، برُدبار لڑکے کی بشارت دی۔اورحضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے بہ طور امتحان اسی بیٹے کو قربان کرنے کا حکم دیا ،قرآن کریم نے اس صورت حال کی یوں منظر کشی کی ہے
”وہ لڑکا جب اِس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم نے اس سے کہا، بیٹا ! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے؟۔ اس پر نبی زادے نے کہا؛ ابّا جان جو کچھ آپ کو حکم دیاجارہا ہے وہ کر ڈالیے آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
اس کے بعد کے واقعے کو قرآن کریم یوں بیان کرتا ہے” آخر کار ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کو ماتھے کے بَل گرِ ا دیا۔ اور ہم نے ندا دِی کہ اَے ابراہیم ! تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اِس بچے کو چھڑا لیا۔ اوراُسکی تعریف اور توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی سلام ہے ابراہیم پر۔ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں (الصفٰت۱۰۱تا۳۱۱)
عیدقربان کا پیغام
قربانی کس چیز کا نام ہے ؟
قارئین! مسلمان عیدُا لا ضحیٰ کے دن قربانی کرتے ہیں اورقربانی نام ہے خوشی کے موقع پر اللہ کے راستے میں اپنی عزیز ترین چیز کو قربان کرنے کا۔یہی سبق ہمیں سنتِ ابراہیمی سے ملتا ہے کہ کس طرح باپ ؑبیٹے ؑنے اللہ کے حکم کے سامنے سرِ تسلیمِ خم کر دیا۔ کس طرح باپ ؑ نے اللہ کا حکم بجا لاتے ہوئے اپنے بیٹے ؑ کو منہ کے بل گرا دیا اور قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔
پھر جب اللہ انسان سے راضی ہو جاتا ہے تو سارے عالم میں اپنے پسندیدہ بندے کا نام سربلند کرتا ہے آج دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان اللہ کے حکم کے مطابق اُس وقت(دور ابراھیم) سے لے کر آج تک اور قیامت تک ہر سال اس عظیم سنتِ کو جاری وساری کئے ہوئے اور کرتے رہیں گے ا ن شا اللہ۔ پھر اللہ اپنے ایسے نیک بندوں پر آخرت میں جو انعامات کی بارش کرےگا ،ان انعامات کا احاطہ انسانی ذہن کے لیے ممکن ہی نہیں۔ اللہ مسلمانوں کو اپنی راہ میں بہتریں چیزیں قربان کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔عیدُالاضحیٰ منانے کا یہی فلسفہ ہے۔