Saturday, November 9, 2024
HomeEmotions & Behaviorاختلافات کی حقیقت اور اقسام کا جائزہ

اختلافات کی حقیقت اور اقسام کا جائزہ

اختلاف کیا ہوتا ہے؟

اختلاف کا مطلب یہ ہے  کہ کسی بھی مسئلے میں دوسرے کی رائے سے انحراف کرکے دلیل کی بنیاد پر اپنی الگ رائے قائم کی جائے۔ یعنی رائے اور نکتہ نظر میںفرق اور تفاوت کو اختلاف کہا جاتاہے۔

 اختلاف کا مادہ (خلف) ہے ، اسی سے خلاف اور مخالفت  کے الفاظ بھی آتے ہیں۔ لیکن خلاف اور مخالفت دلیل کے بغیر رائے قائم کرنے کا نام ہے۔ جبکہ اختلاف دلیل کی بنیاد پر  الگ رائے قائم کرنے کا نام ہے۔

ایک اور لفظ تنازع بمعنی لڑائی  بھی آتاہے۔ یہ بھی اختلاف کے خاندان کا لفظ ہے۔ اور اختلاف کے بعد اگلامرحلہ تنازع ہی کا ہوتاہے۔ چنانچہ عام طورپر  اختلافات وتنازعات کو ایک ساتھ بولاجاتاہے۔ لیکن تنازع خلاف  اور مخالف کے زیادہ قریب لفظ ہے ۔ کیونکہ تنازع بھی بغیر دلیل الگ رائے قائم کرکے اس پر اصرار کرنے کا نام ہے جس  کے نتیجے میں لڑائی بھی چھڑ سکتی ہے۔

اسی سے ملتا جلتا ایک اور لفظ افتراق بھی  ہے۔ جو فرق سے نکلاہے۔ لغت میں فرق دوچیزوں میں امتیاز پیدا کرنے ، جداکرنے اور الگ کرنے کے آتے ہیں۔ اسی لفظ سے فرقہ نکلا ہے جو انسانوں کے گروہ ،جماعت یا گروپ کو کہتے ہیں۔

جب انسانوں کا گروہ تعصب ، جہالت یا حسد کی بنیا د پر کسی بھی معاملے میں اپنی رائے قائم کرکے اس پر اصرار کرتا ہے۔ اور اسی کو حتمی قرار دیتا ہے تو نیا فرقہ وجود میں آجاتاہے۔

جب اس فرقے کے پیرو افراد اپنے مزعومات کو حتمی اور آخری حق قرار دے کر اس پر اصرار کرنے لگتے ہیں۔ اور مدمقابل کو باطل اور قابل گردن زدنی قراردیتے ہیں۔اور اس پوزیشن میں وہ مرنے مارنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں تو اسی کو فرقہ واریت یا فرقہ پرستی کہتے ہیں۔

امام راغب اصفہانی کے مطابق اختلاف کی صورت یہ ہے۔ کہ دویا زیادہ فریق کسی بھی معاملے میں اپنا اپنا الگ راستہ ، نظریہ یا رائے اختیار کریں۔ لیکن ان کے درمیان کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہ ہو۔ یعنی اختلاف میں فریقین لڑائی کے بغیر اپنے اپنے نظرئے کو اپنا سکتے ہیں۔

کشاف اصطلاحات الفنون میں لکھا ہے کہ اختلاف ، اتحاد کی ضد ہے۔ لیکن خلاف یا مخالفت سے الگ چیز ہے۔ کیونکہ اختلاف میں الگ رائے کسی دلیل کی بنیاد پر قائم کی جاتی ہے۔ جبکہ خلاف ، مخالفت میں الگ رائے دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ تعصب ، جذباتیت  ، حسد یاجہالت کی بنیاد قائم کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بچوں کو معاشرتی تنوع اور اختلاف سمجھانا

اتحاد قائم رکھنے اور اختلاف سے بچنے کی تاکید

یہ بات ہر ذی شعور انسان کو معلوم ہے کہ اتفاق واتحاد مفید چیز ہے۔ کیوں کہ اس کی وجہ سے انسان کی صلاحیتیں مثبت سمت میں کام کر نے لگتی ہیں۔ اور اختلاف چاہے دلیل کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو کوئی پسندیدہ چیز نہیں۔ کیونکہ اس سے انسان کی سوچ منفی سمت میں کام کرنا شروع کردیتی ہے۔

قرآن وسنت میں مسلم امہ کو  بار بار اتحاد واتفاق  اپنانے پرزور دیا گیا ہے ۔ جبکہ اختلاف اور تنازعات سے بچنے کی باربار تاکید کی گئی ہے۔ کیونکہ اختلافات وتنازعات کی  وجہ سے انسا ن کی سوچ اور صلاحیتیں مثبت جگہ مرتکز نہیں  رہتیں۔ بلکہ تنازعات کا شکار ہوکر   تحلیل ہوجاتی ہیں  ۔  نہ  صرف تحلیل  ہوجاتی ہیں بلکہ منفی سمت میں کام کرکے مزید بگاڑ کا باعث بنتی ہیں۔

قرآن کریم میں مسلمانوں کے درمیان اتفاق واتحاد کو فروغ دینے کیلئے کئی آیات نازل ہوئیں۔ چنانچہ فرمایا:

  • انما المومنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم ( الحجرات) تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پس تم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو۔

اس آیت میں مسلمانوں کے درمیان بھائی بندی کے  جذباتی تعلق کی نشاندہی فرمائی ہے ۔ اور ساتھ میں یہ حکم دیا گیاکہ خدانخواستہ  دومسلمان بھائیوں میں کبھی اختلاف پیداہوجائے۔ تو دوسرے مسلمانوں کو چاہیے کہ ان میں صلح صفائی کرانے کی کوشش کریں۔

  • واعتصمو بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا (آل عمران) مومنو! تم  سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ پیدا مت کرنا۔

اس آیت کے پہلے ٹکڑے میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے یعنی اتحاد قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ۔ جبکہ دوسرے حصے میں اختلاف اور تفرقہ  بازی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔

  • ولاتکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ماجائتھم البینت۔ والئک لھم عذاب عظیم (آل عمران)

اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہونا جنہوں نے آپس میں تفرقہ بازی کی ، جب کہ ان کے پاس واضح دلائل آچکے تھے۔ ان لوگوں کیلئے تو بہت بڑا عذاب تیار ہے۔

اس  آیت میں مسلمانوں کو واضح الفاظ میں مثال دے کر اختلاف وافتراق سے منع کیا گیا ہے۔کہ تم اس طرح کے کردار کے حامل لوگوں کی طرح مت ہونا۔ ورنہ عذاب عظیم  تمہارے لیے بھی تیار ہوگا۔

ہم یہاں پر نہایت اختصار سے کام لے رہے ہیں ورنہ اس طرح کی بے شمار آیات اور احادیث  موجود ہیں ۔ جو صراحتا مسلمانوں کو باہمی اختلاف وافتراق سے منع کررہی ہیں۔

کیا ہراختلاف براہوتا ہے؟

ہراختلاف برانہیں ہوتا ، بلکہ نفس اختلاف تو انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہرانسان دوسرے انسان سے قد کاٹھ، رنگت، زبان اور مزاج ومذاق میں بہت زیادہ مختلف  ہوتاہے۔ یہی فرق ان میں سے ہرایک کے سوچنے کے انداز میں بھی ہوتاہے۔چنانچہ مختلف زاویہ نگاہ اور سوچنے کے مختلف انداز کی وجہ سے انسانوں میں اختلافا ت رونما ہوتے ہیں۔

یہ اختلافات اگر حدود کے اندر ہوں،اور آداب اختلاف کے پابند ہوں ۔ تو یہ نہ صرف نقصان دہ نہیں ہوتے بلکہ بذات خو د مفید بن جاتے ہیں۔ ان جیسے اختلافات سے انسانوں میں تنوع پید اہوتاہے۔ اور مختلف نکتہائے نظر سامنے آنے کی وجہ سےانسانی ارتقا اور معاشرتی ترقی میں مدد ملتی ہے۔

لیکن وہ اختلافات جو حدود کے پابند نہ ہوں اور ان میں آداب اختلاف کی رعایت بھی  نہ رکھی گئی ہو۔ یقینا ایسے اختلافات نقصان  دہ ثابت  ہوتے ہیں۔ اختلافات کی یہی اقسام ہیں، جن سے منع کیا گیا ہے۔ اور حدود وآداب کی رعایت نہ رکھنے سے اختلافات نزاعات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔  ان شااللہ  ہم اس آرٹیکل میں  اختلافات کی مختلف اقسام کا جائزہ لیں گے۔

اختلاف کی اقسام

مسلم امہ میں اختلافات کا جائزہ پیش کرنے کیلئے جب ہم ان کی طرف سرسری نظر سے  دیکھتے ہیں۔ تو اختلافات کی بے شمار اقسام ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ہم یہاں پر ان تمام اختلافات کی نوعیت  کو نہایت مختصر انداز میں بتانے کی کوشش کریں گے۔  چنانچہ بنایدی طور پر اختلاف کی  دو قسمیں ہیں۔

اختلاف مذموم

اختلاف جائز

اختلافِ مذموم:

اختلاف مذموم اس  اختلاف کا نام ہے ، جو دلیل کے واضح ہوجانے کے بعد محض تعصب، جہالت یا بغض ا ورحسد کی بنا پر کیا جائے۔  یہ اختلاف چونکہ دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ قومی، لسانی، علاقائی او رمذہبی یا مسلکی تعصب کی بنا پر کیا جاتاہے۔ یا محض دشمنی اور حسد کی بنا پر کیا جاتاہے۔ چنانچہ یہ حقیقت میں اختلاف نہیں بلکہ افتراق کہلائے گا۔

کیونکہ ہم نے اس سے پہلے یہ واضح کیا تھا کہ اختلاف ہوتا ہی دلیل کی بنیاد پر ہے۔ اور جو اختلاف دلیل کے بغیر ان مذکو رہ جذبات کی بنیاد پر کیا جائے تو وہ اختلاف نہیں بلکہ افتراق یا مذموم اختلاف کہلائے گا۔

اس اختلاف کی مزید بے شمار ذیلی قسمیں ہیں۔  مثلا کفار مکہ اور یہود ونصارا کا  دین اسلام سے اختلاف کرنا۔ ان لوگوں کے پاس اللہ کے آخری پیغمبر بذات خود تشریف لائے ، ان کے اعتراض کا جواب دیا۔

انہوں نے تمام علامات اور معجزات کے ذریعے آپ ﷺ کے بارے میں جان لیا تھا کہ یہ واقعی اللہ کے آخری نبی ہیں۔ لیکن اس کے باوجودمحض تعصب اور حسد کی بنا پر ایمان نہیں لائے اور دین اسلام سے اختلافْ کیا۔

ان کا یہ اختلاف مذموم اور ناجائز تھا ۔بلکہ اختلاف سے بڑھ کر افتراق تھا کہ اللہ کے آخری نبی کو اور ان کے توسط سے لائے گئے دین اسلام کو ذاتی عناد اور حسد کی بناپر مسترد کردیا۔ قرآن کریم نے اس طرح کے اختلاف  کو بغی یا سرکشی قراردیا ہے۔

چنانچہ فرمایا: وماتفرقوا الا من بعد ماجائھم البینات بغیا بینھم (سورۃ الشوری) اور ان لوگوں نے تفرقہ اس وقت کیا جبکہ ان کے پاس واضح دلائل آچکے تھے ۔ اور یہ اختلاف آپس کی سرکشی کی وجہ سے تھا۔

سورۃ البقرہ میں ایک اور جگہ بھی اسی طرح فرمایا: ومااختلف فیہ الا الذین اوتوہ من بعد ماجائتھم البینت بغیا بینھم ( سورۃ البقرہ)

اور ان لوگوں نے اختلاف اس وقت کیا جب کہ ان کے پاس واضح دلائل آچکے تھے، محض سرکشی کی بنا پر ۔

ان آیات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دلائل واضح ہوجانے کے بعد بھی اختلاف کرنا نہ صرف مذموم ہے  بلکہ اس کی وجہ سرکشی ہے۔

اختلافِ مباح

مسلم امہ میں یہ دوسری قسم کا اختلاف ہے۔ کہ مجتہد فیہ معاملات میں اختلاف کیا جائے۔ یہ اختلافِ مباح یا جائز اس لئے ہے کہ اس میں کسی نکتہ نظر کو واضح کرنے کیلئے یا تو سرے سے دلیل ہی موجود نہیں یا دلیل میں ایک سے زائد احتمال موجود ہوتے  ہیں۔ مثلا چار ائمہ کے مسالک کا اختلاف جائز اور مباح اختلاف ہے۔

ان اختلافات کا مقصد شارع کے مقصد کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہے۔ نہ کہ پہلے اختلاف کی طرح شرکشی اختیار کرنا ہے۔ یعنی چاروں ائمہ فقہا اپنی تحقیق کے ذریعے یہ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کا نکتہ نظر دین اور شریعت کے ذیادہ قریب کیوں ہے۔ اور اس کی دلیل کیا ہے۔

چنانچہ ان فقہاکرام نے امت کیلئے شریعت کو سمجھنا آسان کردیا ہے۔ ورنہ ہر فرد کو الگ الگ کوشش کرنی پڑتی۔ اس طرح کے اختلافا ت کو امت کیلئے باعث رحمت قراردیا گیا ہے۔ کہ ان سے امت کیلئے آسانیاں پیداہوئیں جو شریعت کا مقصود ہے۔ ورنہ شریعت میں ہر جزیہ کو   بیان کیا جاسکتا تھا۔ اس سے امت ان خاص حکم کے منصوص ہونے کی وجہ سے پابند ہوتی۔

یہ بھی پڑھیے!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتحاد امت کی ضرورت اور دائرہ کار

RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی