کتابیں اپنے آباء کی جو صدیوں یورپ میں روشنی کا مینارہ بنی رہیں

کتابیں اپنے آباء کی جو صدیوں یورپ میں روشنی کا مینارہ بنی رہیں

جبران عباسی

امریکہ میں موجود ناسا اسپیس ریسرچ اسٹیشن کی مرکزی عمارت میں ایک کلر پینٹگ آویزاں ہے جس میں اینگلو میسور جنگ کی منظر کشی کی گئی ہے کہ کیسے ٹیپو سلطان کے ایجاد کردہ راکٹوں نے اینگلو میسور جنگ میں انگریزوں کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ ٹیپو نے راکٹ بنانے کا بنیادی وژن اپنی لائبریری میں موجود سائنسی کتابوں سے اخذ کیا تھا۔
سرنگا پٹنم فتح ہوا تو انگریزوں کے ہاتھ بےشمار دولت اور ہتھیار آئے مگر سب سے زیادہ خوشی انھیں ٹیپو سلطان کی شہادت اور ان کی ذاتی لائبریری کے قبضے میں آنے کی تھی۔
ٹیپو سلطان محض تیر و تفنگ میں ماہر نہ تھے بلکہ ایک اعلی پایہ مصنف تھے۔ ان کے ذاتی کتب خانے میں 2000 سے زائد قدیم و جدید علوم پر مشتمل مسودات تھے جن سے وہ بھرپور استفادہ حاصل کرتے تھے۔
ٹیپو سلطان کے ذاتی کتب خانے میں مذہب سے لے کر سائنس تک ہر موضوع پر کتابیں موجود تھیں۔ ان 2000 کتابوں میں سے اب بھی 28 کتابیں محفوظ ہیں۔ یہ ساری کتابیں انگریز لوٹ کر یورپ لے گے تھے۔ اقبال نے جب میوزم میں ٹیپو کے کچھ مسودے دیکھے تو یوں کہا!

مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

مسلمانوں نے جب تک سائنس اور کتاب کا دامن تھامے رکھا دنیا نے انھیں عظمت کا تاج پہنائے رکھا۔ جیسے ہی دامن چھوٹا ، عظمت جاتی رہی۔
ایسے بےشمار مسلمان سائنس دان اور فلاسفر گزرے ہیں جن کا علمی اور سائنسی کام یورپ کی یونیورسٹیوں میں کئی سو سال تک باقائدہ نصاب کا حصہ رہا تاوقتیکہ نئے سائنسی نظریات و تحقیقات نے ان کی جگہ لے لی۔ مثال کے طور پر ابن سینا کی کتاب “طب” کم و بیش ساڑھے چار سو سال آکسفورڈ کے طب شعبہ میں بطور مضمون پڑھائی جاتی رہی ہے۔
اس مضمون میں ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں وہ کون سی کتابیں تھیں جن کے مصنفین مسلمان تھے مگر وہ کتابیں یورپ کی درس گاہوں میں بطور مضمون پڑھائی جاتی رہیں ۔

قانون طب : the Canon of medicine

ابن سینا گیارہویں صدی کے مشہور مسلمان کیمیا دان گزرے ہیں۔ ابن سینا نے فلسفہ اور طب کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ آپ وہ پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے انسان کا اناٹومی کا مطالعہ کیا۔
آپ نے یہ نظریہ بھی پیش کیا کہ روشنی آواز سے زیادہ تیز سفر کرتی ہے۔ اچھوت بیماریوں اور وباؤں کےلئے قرنطینہ کا تصور بھی آپ نے پیش کیا تھا۔
ابن سینا نے “قانون طب” کی عہد ساز کتاب تحریر کی جو تیرھویں صدی سے سترھویں صدی تک باقائدہ یورپ کی میڈیکل کالجز میں بطور ٹکسٹ بک نصاب کا حصہ رہی۔ ابن سینا کو اس کتاب کی وجہ سے ماڈرن میڈیکل کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ قانون طب کی یہ ضحمیم کتاب پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔
یہ انسانی طب کی تاریخ میں کسی مقدس صحیفے سے کم کا درجہ نہیں رکھتی ۔ ایک مختصر اقتباس ملاحضہ کریں؛
” طب ایک مکمل سائنس ہے جس میں ہم انسانی اجسام کے اندرونی عضلات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس سائنس کا مقصد ہے کہ جب انسانی صحت خراب ہو تو اسے تندرست رکھنے میں معاونت کی جائے۔ ادوایات کو موسم کے تغیر سے محفوظ کریں ، انھیں صاف ماحول میں رکھیں۔” یاد رہے اس وقت تک جراثیم دریافت نہیں ہوئے تھے۔
اس کتاب میں ہر بیماری ، اس کے اثرات اور علاج پر تفصیلات مہیا کی گئی ہیں۔ جیسے دماغ میں خون کا لوتھڑا جمع ہو جائے تو انسان کی فوری موت کو روکنے کےلئے آپریشن کیا جائے۔
قانون طب میں سر درد کی پندرہ اقسام بیان کی گئی ہیں اور ان سے نجات کےلئے تین طریقے بتائے گے ہیں۔ 1) لائف سٹائل تبدیل کریں 2) سادہ جڑی بوٹیوں کا استعمال کریں 3) اور اگر یہ دونوں طریقے ناکام ہو جائیں تو تب کیمکل اجزا پر مشتمل ادوایات کا استعمال کریں۔
آج ہم جو بھی ٹیبلیٹ یا دوائی پیتے ہیں یہ کیمکل فارمولے پر مبنی ہوتی ہیں۔ کیمکل فارمولے کا ماخذ بھی قانون طب ہے۔ قانون طب کی پانچویں اور آخری جلد میں 650 مختلف ادوایات کے کیمکل فارمولے درج تھے۔

2: تہافت التہافت

پندرہویں صدی میں مشہور اٹالین مصور رافیل نے انسانی تاریخ کے پانچ عظیم فلسفیوں کی ایک خیالی پورٹریٹ بنائی تھی۔ چار فلسفیوں کا تعلق قدیم یونان سے تھا اور پانچواں خاکہ عظیم مسلم دانشور ابن رشد کا تھا۔
یورپ کی ترقی کا دور بارھویں صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ کے دانشوروں ، فلسفیوں ، سائنس دانوں اور معماروں نے چرچ کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کےلئے علمی مزاحمتی تحریکیں شروع کی تھیں۔
چرچ کے مذہبی راسخ عقائد کو پسماندہ ثابت کرنے کےلئے سیکولر اور لبرل خیالات کا سہارا لیا جانے لگا۔ ایسے میں ابن سینا کی تصنیف تہافتہ الفلاسفہ ان کےلئے نعمت ثابت ہوئی۔ کیونکہ اس کتاب میں ابن رشد نے ارسطو کے فلسفے کو از سو نو زندہ کر دیا تھا جس میں شخصی آزادی ، ریشنل اپروچ اور قانون فطرت پر دلائل دیے گے تھے۔
ارسطو کے افکار جب یورپ میں مقبول ہوئے تو چرچ کی Divine تھیوری کو محض ٹیکس جمع کرنے اور کسانوں کے استحصال کےلئے استعمال کرنے سے تعبیر کیا گیا اور یورپ تاریکی کے دور سے ” ایج آف ڈسکوری” میں داخل ہوا۔ اس کتاب کے کئی باب یورپی یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ تھے۔ تہافتہ الفلاسفہ کی شرحیں لاطینی ، جرمن اور فرانسیسی میں لکھی گئی ہیں۔

3: آل کلیات فی طب:

یہ کتاب بھی ابن رشد نے تحریر کی تھی ، یہ کتاب طب کے عنوانات پر مشتمل تھی۔ اناٹومی ، دماغ وغیرہ کے امراض کی تفصیلات درج تھیں۔ نایاب بیماری Parkinson’s کے اوپر کی گئی تحقیقات بھی اس کتاب میں درج ہیں۔
اس کتاب کی اشاعت کے نوے برس بعد اسے لاطینی میں ترجمہ کیا گیا اور اس کا نام Hebrew رکھا گیا۔ یہ کتاب اٹھارویں صدی کے وسط تک یورپین میڈیکل کالجز کے مضامین کا نصابی حصہ رہی ہے۔

كتاب المختصر في حساب الجبر والمقابلة

ابن مسلم الخوارزمی مسلمانوں کے زریں سائنسی دور کے عظیم ریاضی دان گزرے ہیں جنھیں الجبرا کا بانی کہا جاتا ہے۔ آپ نے “في حساب الجبر والمقابلة” نامی مشہور ترین کتاب تحریر کی ہے اس میں الجبرا کے قوانین و ضوابط متعارف کئے گے تھے۔ اس کتاب کو یورپ میں The Compendious Book on Calculation by Completion and Balancing کے نام سے جانا جاتا ہے۔ الخوارزمی کی یہ کتاب تیرھویں صدی میں فیبونکی نے یورپ میں متعارف کروا دی تھی۔ اس کتاب کے کئی اہم اسباق آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کے نصاب کا حصہ تھے۔

جابر بن حیان کی تصانیف

جابر بن حیان کو جدید کیمسٹری کا بانی کہا جاتا ہے۔ یورپ میں انھیں Geber پڑھا اور لکھا جاتا ہے۔
کیمسٹری کے شعبے میں جابر بن حیان نے وسیع تحقیقات کیں اور چھ سو سے زائد مسودات تصنیف کئے تھے۔ آرگینک کیمسٹری ، سلفر مرکری تھیوری آف میٹل ، بیلنس تھیوری ، گندھک اور شورے کا تیزاب وغیرہ انھی کی دریافت ہیں۔
یوں تو جابر بن حیان نے 600 کتابیں تصنیف کی ہیں مگر ان کی مشہور تصانیف یہ ہیں۔

کتاب الملک، کتاب الرحمہ ، کتاب التجمیع ، زیبق الشرقی، کتاب الموازین الصغیر وغیرہ۔

ان کتابوں کے کئی اسباق جو تجربات، کیمکل فارمولوں اور کیمیائ مادوں پر مشتمل تھے یورپ کی قرون وسطیٰ کی یونیورسٹیوں کے نہ صرف نصاب کا حصہ تھے بلکہ ان پر شروح لکھے اور تجربات بھی کئے جاتے تھے۔
جابر بن حیان کے دو کارنامے ہیں، اول انھوں نے ثابت کیا کہ سائنس میں سب سے اہم تجربات ہیں نہ کہ نظریات۔ سائنسی نظریات تجربات سے بدلتے رہتے ہیں اور دوسرا سائنسی تجربات کو فروغ دینے کےلئے انھوں نے سائنس کی لیبارٹری متعارف کروائی۔ کئی آلات تیار کئے جو لیب میں آج بھی ہمارے کام آتے ہیں۔
یورپ نے جابر بن حیان کے سائنسی کام سے بھرپور انصاف کیا اور جدید سائنسی لیبز کی بنیاد رکھی اور اسکول ٹیکسٹ بک کی تشکیل میں جابر بن حیان کے کام سے خوب فائدہ اٹھایا۔

کتاب المناظر

کیمرہ 1816 میں ایک فرانسیسی شخص جوزف نیکفور نیپس نے ایجاد کیا ہے۔ کیمرے کی وجہ سے کھربوں ڈالر کی میڈیا انڈسٹری وجود میں آئی ہے۔ ایک مشینی آنکھ کا تصور بھی سب سے پہلے ایک مسلم سائنس دان ابن الہیثم نے دیا تھا۔ مغرب میں ان کا نام الہسین پکارا جاتا ہے۔
ان کا سب سے بڑا کارنامہ مشہور یونانی فلاسفر ارشمیدس کے چھوڑے ہوئے حسابی سوالات کا ایک تہائی حصہ حل کرنا ہے۔ ابن الہیثم نے آپٹیکل تھیوری دی جس میں بتایا گیا کہ انسانی آنکھ کے اندر ریٹنا سیلز ہوتے ہیں جو دیکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ اس سے پہلے سمجھا جاتا ہے آنکھ سے کوئی روشنی نکلتی ہے جس سے ہمیں نظر آتا ہے۔ ابن الہیثم نے ثابت کیا کہ روشنی آنکھ سے نہیں نکلتی ہے بلکہ آنکھ میں داخل ہوتی ہے۔ ابن الہیثم نے سوئی چھید کیمرہ بھی بنایا تھا۔
یوں تو ابن الہثم نے 237 کے قریب کتابیں تصنیف کی ہیں مگر ان کی سب سے زیادہ شہرہ آفاق کتاب “کتاب المناظر” ہے جس کا انگریزی ترجمہ on optics , لاطینی ترجمہ De Aspectibus اور اطالوی ترجمہ Deli Aspecti کے نام سے ہے۔ یہ کتاب 7 جلدوں پر مشتمل ہے جو تقریباً تیرھویں صدی سے سترہویں صدی تک یورپ کی تمام اہم زبانوں میں یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ رہی ہے۔
اس کتاب میں وژن تھیوری ، لائٹ اینڈ کلر تھیوری ، آنکھ کی اناٹومی درج ہیں ۔ یہ تمام تھیوریز معمولی ردو بدل کے ساتھ آج بھی فعال ہیں۔
کتاب کا پہلا والیم لائٹ ، کلر اور وژن ، دوسرا والیم تھیوری آف ریفلیکشن ، تیسرے اور چوتھے والیم میں visual perception پر معلومات درج ہیں۔ پانچویں اور چھٹے والیم میں ابن الہیثم کے انسانی آنکھ پر کئے گے ابن الہیثم کے تجربات درج ہیں جبکہ ساتویں والیم میں تھیوری آف refraction جا نظریہ اور اس کی تشریحات ہیں۔
یہ کتاب 1572 میں فریڈرک رینز نے بطور پبلک بک بھی شائع کی تھی۔ ابن الہیثم کے نظریات ، تجربات اور ایجادات کی یورپین سائنس دان آج بھی قدر کرتے ہیں۔

کتاب آلزج: Al-Zij

ناسا آج جتنے بھی مشن خلا میں بھیجتا ہے اس میں کیلکولیشن انتہائی ناگزیر ہے۔ جابر بن سنان بتانی آٹھویں صدی میں وہ پہلے مسلم فلکیات دان تھے جنہوں نے ریاضی کا استعمال فلکیات میں متعارف کروایا اور مثلثیات یا ٹریگنومیٹری کے اصول وضع کیے۔
اٹلی میں یونیورسٹی آف پادووا میں سائنس کی اہم ترین کتاب موجود ہے جو نکولس کوپرنیکس نے تحریر کی تھی۔ اس کتاب میں سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ زمین ساکن نہیں ہے بلکہ زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔
آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ کوپرنیکس نےبطور ریفرنس یا دلیل جابر بن سنان بتانی کے نظریات کا حوالہ دیا۔ آج ساری دنیا کے سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ زمین اور دوسرے سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ بتانی نے شمسی سال کا دورانیہ بھی ماپا تھا جو جدید ترین شمسی سال سے صرف 22 منٹ 22 سیکنڈ پیچھے ہے۔
ان کی دو کتابیں یورپ میں De Scienta Stellarum اور De Numeris Stellarum کے عنوان سے نصاب کا حصہ رہی ہیں۔
اس کے علاؤہ درجنوں دوسری کتب بھی یورپین یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ بارہویں صدی سے سولہویں صدی تک رہی ہیں جن میں مشہور علی بن عیسی بغدادی کی ophthalmology ، الدینوری کی Encyclopaedia Botanica شیخ عبدالرحمن الصوفی کی کتاب صورُالکواکب وغیرہ شامل ہیں۔
موجودہ دور میں مسلمان اگرچہ ان عظیم سائنس دانوں اور ان کی تصانیف سے بےاعتںانئ برتتے ہیں اور یورپ والے حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ سچ ہے مسلمانوں کا زریں سائنسی عہد آٹھویں صدی سے بارھویں صدی تک تھا اور اس کے بعد بارھویں صدی سے سترہویں صدی تک ان کی کتابوں کے یورپ کی یونیورسٹیوں میں لاکھوں طالب علموں کی پیاس بجھائی ہے۔ انھی طالب علموں میں نیوٹن ، شکسپیر ، گلیلو جیسے عظیم سائنس دان بھی شامل تھے جنہوں نے آج کی ترقی یافتہ دنیا کی بنیاد رکھی ہے۔

یہ بھی پڑھئیے:

اسلام اور سائنس، مسلمانوں کے سائنسی زوال کے اسباب

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top