قدرتی آفات، اسلام اور سائنس
تحریر ؛ مولانا عبدالکریم شاکر
وقتاً فوقتاً قدرتی آفات زلزلہ، سیلاب، طوفان اور وبائی امراض وغیرہ کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔اس وقت ملک کے اکثر علاقے سیلاب سے متاثر ہیں بلوچستان سے لے کر جنوبی پنجاب ، سندھ کے اکثر علاقے ،خیبر پختونخوا کے بہت سے اضلاع ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے کئی اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، مجموعی صورت حال کو دیکھ کر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پورا پاکستان سیلاب کی زد میں ہے ،اب تک سینکڑوں مرد وخواتین ، جوان اوربچے اس کے نذر ہوچکے ہیں لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں ،ہزاروں لوگوں کے گھر تباہ اور لاکھوں کی تعداد میں مال مویشی ہلاک ہو چکے ہیں ۔
قدرتی آفات میں فطری قوانین کا کردار
ان حالات میں ہر ایک اپنا نقطہ نظر آرٹیکلز ، بیانات اور آڈیو،ویڈیو پیغامات کے ذریعے پیش کررہاہے، اس قسم کی آفات کے حالات واقعات کے حوالے سے سائنس بھی اپنا ایک خاص نقطہ نظر رکھتی ہے۔ یقینا سائنسی علم اپنے معیار اور کسوٹی کے مطابق اپنے نقطہ نظر کو درست سمجھتا ہے۔مجھے اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بعض دانشوروں کی طرف سے کھلے عام یہ کہا جا رہا ہے کہ اس زلزلہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ یا سزا سمجھنے کی بجائے فطری قوانین اور نیچرل سورسز کی کارروائی سمجھا جائے کہ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور نیچرل سورسز کے حوالے سے یہ معمول کی کارروائی ہےاگر فطری قوانین خودمختار اور خودکار ہیں تو اسے کسی حد تک قبول کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر فطری قوانین اور نیچرل سورسز کے پیچھے کوئی کنٹرولر اور نگران موجود ہے تواس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اس کے پیچھے ایسی طاقت ہےجو ان فطری قوانین کوکنٹرول کرتاہے وہ پروردگار کی واحد ہ لاشریک ذات ہے جس نے قرآن کریم میں جابجاوقوع قیامت کے حالات کوذکرفرمایا ہم مسلمان اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ کائنات میں کسی درخت کا ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرتا۔ اس لیے ہم سب اس کو نیچرل سورسز کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن نہیں بیٹھ سکتے۔
آفات میں انسانی اعمال کا کردار
ظاہر ہے کہ ان کے کچھ ظاہری اسباب بھی ہوں گے۔ ہمارے سائنس دان اور ماہرین ان اسباب کا ذکر کرتے ہیں اور ان کی نشاندہی بھی کرتے ہیں، ہمیں ان میں سے کسی بات سے انکار نہیں ہے۔ اسباب کے درجے میں ہم ہر معقول بات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے گزشتہ اقوام پر آنے والی ان آفتوں، زلزلوں، آندھیوں، طوفانوں، وباؤں، اور سیلابوں کا ذکر ان اقوام پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے اظہار کے طور پر کیا ہے اور ان قدرتی آفتوں کو ان قوموں کے لیے خدا کا عذاب قرار دیا ہے۔ اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے اپنی امت میں آنے والی قدرتی آفتوں کا پیش گوئی کے طور پر تذکرہ فرمایا ہے۔
اس قسم کی آفات کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ایک مسلمان کی حیثیت سے کیا اس کے صرف سائنسی پہلو پر نظر رکھنی چاہئے یا اس کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال کی اصلاح اور رب کی طرف رغبت کا مزید اظہار اور رجوع الی اللہ کا اہتمام کرنا چاہیے ؟
حق تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ
یہ بات ذہن نشین رہے کہ زلزلہ، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات وغیرہ کا وقوع پذیر ہونا اللہ رب العزت کی طرف سے بندوں کے اعمال پر اظہار ناراضگی ہے۔ اللہ تعالیٰ بسا اوقات دنیوی زندگی میں بھی لوگوں کو اپنے غیظ و غضب کے ذریعے نیک اعمال کی طرف متوجہ اور برائیوں کے انجام سے متنبہ کرتا رہتا ہے تاکہ لوگ رجوع الی اللہ کی اپنی اصل منزل کو بھول نہ جائیں۔ وہ دنیا میں آکر دنیا کے نہ ہوجائیں بلکہ اپنے کریم رب کو ہمیشہ یاد رکھیں۔
جب اللہ رب العزت انسانوں کی نافرمانیوں اور سرکشیوں پر نظر کرتا ہے، جب وہ لوگوں میں دنیا طلبی کو زیادہ اور خدا طلبی کو کم دیکھتا ہے، جب انسان زندگی کے ہر شعبے میں ظلم و بغاوت کو اختیار کرلیتا ہے۔ جب انسانیت ظالم انسانوں کا اللہ کی بارگاہ میں شکوہ کرتی نظر آتی ہے۔جب انسان اللہ کے حرام کو خود ہی حلال کرنے لگتا ہے۔ جب انسان اپنے ظلم کو عدل اور اپنے گناہ کو نیکی سمجھنے لگتا ہے۔جب اپنی نافرمانی اور سرکشی کو اپنی دینداری و خوبی جاننے لگتا ہے۔
جب انسان اپنی بدکرداری کو اپنی برتری تصور کرنے لگتا ہے۔جب معاشرے کا طاقت ور طبقہ کمزوروں کا خون چوسنا اورضعیف لوگوں کا مال کو ہڑپ کرنا اپنا صوابدیدی اختیار جاننے لگتا ہے۔جب خیر کی قدریں کمزور اور شر کی اقدار فروغ پانے لگتی ہیں۔جب نیکی کے بجائے گناہ اور طاعت کے بجائے معصیت اپنے سائے دراز کرنے لگتی ہےاور جب معاشرے میں عبادت اور بندگی کو عار سمجھا جانے لگتا ہے تو اللہ کا غضب زلزلہ، سیلاب، وبائی امراض ودیگر آفات کی صورت میں زمین پر نازل ہوتا ہے۔
ہمارا قومی و ملی کردار مسخ ہو چکا ہے۔ ہماری قومی اقدار مٹ رہی ہیں۔ ہم اسلام کی روشن تعلیمات کے بجائے زمانہ جاہلیت کے طور طریقوں کی طرف بڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں آج پھر سے اس ذات کی طرف پلٹنا ہوگاجس کی پیروی کا رب نے ہمیں حکم دیا ہے اور جس کی پیروی میں کامیابی، نجات، ہدایت اور بندگی کا کمال ہے۔
قدرتی آفات آنے پر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
توبہ واستغفار کی ضرورت
اس طرح کے حالات میں ہمارا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ ہم توبہ و استغفار کریں، اپنے جرائم اور بداعمالیوں کا احساس اجاگر کریں، اپنی زندگیوں کو بدلنے کی کوشش کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کریں، معاشرے میں برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی محنت کریں، اور دین کی طرف عمومی رجوع کا ماحول پیدا کریں۔
آفت زدہ لوگوں کی مدد
اس کے بعد ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کریں، ان کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑیں کہ یہ ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ میں خود سیلاب زدہ متعدد علاقوں سے ہو کر آیا ہوں اور تباہی کے خوفناک مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، ہزاروں خاندان اور لاکھوں افراد ہماری مدد اور توجہ کے منتظر ہیں۔ اگرچہ امدادی سرگرمیاں وسیع پیمانے پر جاری ہیں لیکن اصل ضرورت سے بہت کم ہیں اور ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے غیر معمولی محنت اور قربانی کی ضرورت ہوگی۔
جاں بحق ہوئے والوں کے لئے دعا
اس کے ساتھ ہی اس سلسلہ میں جاں بحق ہونے والے خواتین و حضرات کے لیے دعائے مغفرت کا اہتمام ضروری ہے۔ چونکہ وہ لوگ اچانک اور حادثاتی موت کا شکار ہوئے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق وہ شہداء میں شامل ہیں۔ ان کے لیے مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا بھی ہم پر ان کا حق ہے اور ہمیں اپنی دعاؤں میں انہیں یاد رکھنا چاہیے۔