Thursday, November 21, 2024
HomeColumnsبچوں کےلئے کتب بینی کیوں ضروری ہے؟ نوجوانوں کے لئے کچھ اہم...

بچوں کےلئے کتب بینی کیوں ضروری ہے؟ نوجوانوں کے لئے کچھ اہم کتابیں

بچوں کےلئے کتب بینی کیوں ضروری ہے؟ نوجوانوں کے لئے کچھ اہم کتابیں

جبران عباسی

کا غذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

انٹرنیٹ سے پہلے عمران سیریز، ماہنامہ پھول، تعلیم و تربیت اور جاسوسی ناولوں کا مطالعہ ہمارا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ نوجوانوں میں مستنصر حسین تارڑ، اشفاق حسین ، خدیجہ مستور ، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب اور دیگر ادیبوں کی تخلیقات مقبول عام تھیں۔ عالمی تراجم بھی بڑے ذوق و شوق سے پڑھے جاتے تھے ، سبط حسین کے عالمی تراجم ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے تھے۔

انٹرنیٹ سے پہلے کا دور

انٹرنیٹ سے پہلے تک کتب بینی نہ صرف ایک ذوق تھا بلکہ یہ علم کی وسعتوں میں کھونے کا سب سے سے بہترین ذریعہ تھا۔ ذاتی کتب خانہ رکھنا متوسط گھرانوں میں فیشن سمجھا جاتا تھا۔
زمانہ نے کروٹ لی، انٹرنیٹ نے قارئین کی توجہ کتابوں سے منتشر کر دی۔ اب بہت کم بچوں کو معلوم ہے کہ ماہنامہ پھول اور تعلیم و تربیت جیسے رسالے چھپتے ہیں جن میں مزیدار کہانیاں ہوتی ہیں۔ بچوں کی انٹرٹینمنٹ کا مرکز اب یوٹیوب ہے۔

کتب بینی کے چند اہم فوائد

سب سے پہلے ہمیں سماجی اور سائنسی نقظہ نظر سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ہے کہ کیا بچوں کےلئے واقعی کتب بینی ضروری ہے یا پھر یہ صرف ہمارا اپنا ناسٹلجیا ہے جو ہم اپنے بچوں پر بھی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

بچوں کےلئے کتب بینی ان کا ذہن کھولنے کےلئے انتہائی اہم ہے۔ کتب بینی کے کئی فوائد ہیں۔

توجہ بہتر ہوتی ہے

کتب بینی سے بچوں کے اندر چیزوں پر توجہ دینے کی بنیادی عادت پیدا ہوتی ہے۔ بچے ایک ہی کہانی کو جب کئی کرداروں اور مناظر کے ساتھ پڑھتے ہیں تو ان کا فوکس بہتر ہوتا ہے اور ان میں مستقل مزاجی پنپتی ہے۔ جو بچہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرتا ہے وہ کبھی بھی فوکس نہیں کر پاتا ہے۔

یاداشت بہتر ہوتی ہے

یاداشت لرننگ کا اہم ترین حصہ ہے۔ مطالعے سے بچوں کی یاداشت اور ذہانت بہتر ہوتی ہے۔ اگر آپ کا بچہ یاداشت میں کمزور ہے تو اسے چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتابیں لا کر دیں۔ آپ خود ہی کچھ ماہ بعد اس کی بہتری کو محسوس کر سکیں گے۔

تنقیدی سوچ پیدا ہوتی ہے

کتب بینی سے بچوں کے اندر ایک تخلیقی و تنقیدی سوچ پیدا ہوتی ہے۔ وہ عام بچوں کے برعکس کسی مسلے کو زیادہ گہرائی سے سمجھتے ہیں اور اس کا مناسب حل نکال سکتے ہیں۔ ایسے بچے لکیر کا فقیر نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ ہر چیز کے کئی پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

زبان بہتر ہوتی ہے

کوشش کریں اردو کے ساتھ بچوں کو انگلش کی کہانیاں بھی دیں۔ کتب بینی سے زبان پر تحریری طور پر گرفت مضبوط ہوتی ہے۔ جو بچے کتب بینی کرتے ہیں وہ بہترین مضمون نگار ہوتے ہیں۔

سکول پرفامنس

مطالعہ کرنے والے بچوں کی سکول پرفامنس بھی بہتر ہوتی ہے۔ وہ ہر چیز بآسانی یاد کر لیتے ہیں اور ان کے کنسپٹ بھی عام بچوں سے زیادہ کلئیر ہوتے ہیں۔

بچے تیزی سے سیکھتے ہیں

کتب بینی کرنے والے بچے نئی چیزوں کو ہمیشہ تیزی سے سیکھتے ہیں۔ ان کی ذہنی صلاحیت اس قدر پنپ چکی ہوتی ہے کہ ہر نئے علم اور سکل کو موثر طریقے سے سیکھ لیتے ہیں، ہر مسلے کا حل نکال لیتے ہیں۔
کتب بینی کرنے والے بچے اور کتب بینی نہ کرنے والے بچے کی ذہنی صلاحیت، قابلیت اور ذہانت میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ ان تمام دلائل سے یہ نتائج اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کتب بینی محض ہمارا ناسٹلجیا نہیں ہے بلکہ یہ بچوں کی اہک اہم ضرورت ہے۔

بچوں کےلئے کون سی کتابیں موزوں ہیں؟

کم عمر بچے ناول ، افسانے یا پیچیدہ کتابیں نہیں مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ان کو صرف کہانیوں وغیرہ میں دلچپسی ہوتی ہے۔ جیسے الف لیلی، سنڈریلا، علی بابا چالیس چور، ہیری پورٹر وغیرہ۔
کم عمر بچوں کےلئے ضروری ہے کہ ان کے اندر بچپن سے ہی کتب بینی کا شوق پیدا کیا جائے اس کےلئے کئی رسائل سے مدد لی جا سکتی ہے۔
آپ اخبار فروش کی وساطت سے اپنے گھر میں بچوں کے رسائل جاری کروا سکتے ہیں مثلاً ماہنامہ نونہال، ماہنامہ بچوں کا آشیانہ، ماہنامہ تعلیم و تربیت ، ماہنامہ پھول وغیرہ۔ یہ معیار اور جدت کے لحاظ سے کافی بہتر ہیں۔ ان رسائل میں چھپی کہانیاں، پہلیاں اور کھیل وغیرہ بچوں کی توجہ کا بآسانی مرکز بن جاتے ہیں۔ بچے بور نہیں ہوتے ہیں۔

نوجوانوں کےلئے لازمی مطالعہ کرنے والی کتابیں

1: شہاب نامہ

قدرت اللہ شہاب کی خودنوشت شہاب نامہ ہر دور کے نوجوانوں میں مقبول رہی ہے۔ سن 1987 میں شائع ہونے والی اس کتاب میں اقتدار کے ایوانوں کی سنسنی خیز آنکھوں دیکھی کہانیاں ہیں۔ قدرت اللہ شہاب ایک سنئیر بیوروکریٹ اور ادیب تھے۔ وہ سابق ڈکٹیٹر ایوب خان کے پرنسپل سیکرٹری تعینات رہے تھے۔ یہ اردو کی اب تک کی بیسٹ سیلر بک ہے۔ شہاب نامہ میں قدرت اللہ شہاب نے گورنر جنرل غلام محمد ، سکندر مرزا اور ایوب خان کے ساتھ کام کرنے کے اپنے تجربے کو تحریر کیا ہے۔ اس کتاب میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے یہی وجہ ہے یہ کتاب ان کی وفات کے بعد شائع کی گئی تھی۔

2: پطرس کے مضامین

یقیناً کتابیں حس مزاح پیدا کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ حس مزاح نوجوانوں کے اندر ذوق پیدا کرتا ہے اور ان کا ڈپریشن کم کرتا ہے۔ پطرس کے مضامین اس ضمن میں نوجوانوں کی کافی مدد گار ہے۔ بقول رشید احمد صدیقی ”ہنس ہنس کے مار ڈالنے کا گُر پطرس کو خوب آتا ہے۔“
یہ کتاب اپنی فن لطافت کی وجہ سے انتہائی مقبول رہی ہے۔ ہر دور کے نوجوانوں کی پسندیدہ کتاب ہے۔ اس کے گیارہ مضامین ہیں اور ہر مضمون انتہائ مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب بور کرنا تو دور کی کتاب ، آپ کو افسوس ہونے لگتا ہے اتنی جلدی کیسے پڑھ لی ہے۔ یہ آج کے دور کے ہر نوجوان کو لازماً پڑھنی چاہیے۔

3-بندہ بشر

اگر آپ انسانی تاریخ ، مذہب کے فلسفے اور تاریخ کے بارے میں تنقیدی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو تو Sapiens: A Brief History of Humankind سب سے بہترین انتخاب ہو گا۔
یہ کتاب یوال نوح ہریری نے تصنیف کی ہے۔ اس میں انسان کے ادراک، ارتقاء، زرعی انقلاب، تاریخ اور مستقبل کے بارے میں دلچسپ نظریات تحریر کئے ہیں۔ اس کتاب کی کروڑوں کاپیاں اب تک فروخت ہو چکی ہیں۔
اس کتاب کے پڑھنے کے بعد آپ سماج کی کئی مشکل گتھیاں سلجھا سکتے ہیں۔ مادہ پرستی کے دور میں اپنے آپ کو متوازن رکھنے کےلئے یہ کتاب انتہائ معاون ثابت ہوتی ہے۔

4: الکیمسٹ

یہ ناول دنیا بھر میں لاکھوں نوجوانوں کو ڈپریشن سے آزاد کر چکا ہے۔ یہ ناول نوجوانوں کا مسیحا سمجھا جاتا ہے۔
اس ناول کی کہانی اٹھارہ سالا چرواہے کے گرد گھومتی ہے جسے ایک خزانے کا خواب آتا ہے اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سپین سے اہرام مصر کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ راستے میں اسے ایک دو سو سالہ کیمیاگر کا ساتھ حاصل ہو جاتا ہے جو اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ تاہم مصر پہنچنے کے بعد اسے معلوم ہوتا ہے خزانہ اس کے آبائی گھر سپین میں ہے۔
یعنی کبھی کبھی قسمت اور موقع آپ کی مٹھی میں ہوتا ہے مگر آپ اسے پہچان نہیں پاتے ہیں یوں یہ دونوں چیزیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
مصنف پاہلو کوہلو نے پیغام دیا ہے کہ ہمیں اپنے دلوں سے ناکامی کا خوف ختم کرنا چایئے، کیونکہ یہی خوف ہمیں تباہی سے دو چار کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ہمارے من میں کوئی خواہش سر اٹھاتی ہے تو تمام کائنات اس سازش میں شریک ہوجاتی ہے کہ ہماری یہ خواہش پوری ہو۔ خود پر بھروسہ رکھیں۔

5: سلیمان عالیشان

اگر آپ تاریخ کا ذوق رکھتے ہیں تو عظیم عثمانی سلطنت کے بادشاہ سلیمان عالیشان کی سوانح حیات سلیمان عالیشان کا مطالعہ ضرور کریںیں۔ یہ کتاب مغربی مؤرخ ہیرالڈہم نے تصنیف کی ہے۔
سلطان سلیمان 46 برس تک خلیفہ رہے اور انھوں نے یورپ ، ایشیاء اور افریقہ میں وسیع فتوحات کی تھیں۔ قانون ساز ہونے کی وجہ سے انھیں سلیمان قانونی بھی کہا جاتا ہے۔
اس کتاب میں ان کی زندگی کی تمام سوانح، جنگی فتوحات ، ان کی ملکہ حرم سلطان کی محلاتی سازشیں، وزیر ابراہیم پاشا کا عروج و زوال، قابل ولی عہد شہزادہ مصطفی کا سلیمان کے ہاتھوں قتل ، امیر البحر خیر الدین باربروسا کی پانیوں پر عظیم فتوحات کا تفصیلی ذکر شامل ہے۔ یقیناً اس کتاب کا مطالعہ آپ کا نیا نقظہ نظر تبدیل کر دے گا۔

6: دولت اقوام

اگر آپ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ دنیا میں اکثریت لوگ غریب کیوں ہیں اور صرف چند لوگوں ہی کیوں امیر ہیں یا پھر کچھ ملک غریب اور کچھ ملک امیر کیوں بن جاتے ہیں۔ آدم سمتھ کی اس شہرہ آفاق کتاب کا مطالعہ کیجیے۔
سمتھ کے بقول موجودہ صنعتی دور میں تعلیم یافتہ، محنتی اور ہنر مند افراد محض ایک بیل کی مانند ہیں جو کولہو ( فیکٹری) سے بندھے ہوئے گھوم رہے ہیں۔ پیدوار ساری یہ لوگ پیدا کرتے ہیں مگر ان کی محنت کا ثمر صرف ان کا مالک کھاتا ہے۔ سمتھ کا ماننا تھا کہ اگر برابری کا نظام قائم کیا جائے تو پوری دنیا سے غربت رخصت ہو سکتی ہے کیونکہ یوں سب مل کر زیاد پیداوار کریں گے۔
یاد رہے اس کی یہ کتاب آج نہیں بلکہ 1776 میں شائع ہوئی تھی مگر اس کے نظریات اب بھی قائم ہیں۔

7: ماں

یہ روسی ناول ہے جو روس کے عہد ساز مصنف اور بولشیوک انقلاب کے حامی میکسم گورکی نے تصنیف کیا تھا۔
ناول انقلاب روس سے پہلے کے حالات، جدوجہد اور انقلاب میں عوامی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ناول انقلاب روس میں عورتوں کی جدوجہد کو اجاگر کرتا ہے۔
اس ناول کی کہانی ایک انقلابی فیکٹری مزدور اور اس کی ماں کے گرد گھومتی ہے۔ ماں ان پڑھ ہوتی ہے اور اس کا بیٹا ریاست کا چاغی ہوتا ہے۔ بیٹے کی گرفتاری کے بعد ماں خود بھی ایک انقلابی بن جاتی ہے اور گرفتار ہو کر خوب تشدد سہتی ہے۔
اس ناول کے مطالعے کے بعد آپ کو سمجھ آئے گی انقلاب محض ایک نعرہ لگانے سے نہیں آتا بلکہ ماں جیسے کرداروں کو بھی اس کا حصہ بننا پڑتا ہے۔

8: مقدمہ ابن خلدون

ابن خلدون کو جدید سوشیالوجی کا بانی کہا جاتا ہے۔ مقدمہ ابن خلدون 1377 میں پہلی بار شائع ہوئی تھی اور اب تک پڑھی جاتی ہے۔
اس کتاب میں ابن خلدون نے تاریخ، جغرافیہ، علم فلکیات اور فلسفہ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ یقیناً یہ کتاب قرون وسطی کے عظیم مسلمانوں کی ایک عظیم نشانی ہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ مسلمانوں کی فکری سوچ قرون وسطی کے عہد میں کس قدر عروج پر تھی اور وہ سلسلہ ا کیوں موقوف ہو گیا ہے۔
ایسی بےشمار منصفین ہیں جن کی کتابیں نوجوانوں کی ذہنی بالیدگی اور شعور کےلئے گراں قدر ہیں مثلاً منٹو، اشفاق حسین ، ممتاز مفتی ، بانو قدسیہ ، نوم چومسکی ، ہیرالڈیم اور مخلتف عظیم لوگوں کی سوانخ حیات۔
بالخصوص عظیم لوگوں کی سوانح حیات کا ضرور مطالعہ کریں۔ میری پسندیدہ سوانخ حیات ابراہم لنکن پر لکھی گئی تصنیف ہے جو آپ کو اںسپائریشن دیتی ہے کہ کیسے ایک لکڑہارا آمریکی صدر منتخب ہوا اور پھر دنیا کا عظیم ترین سیاسی رہنما بنا۔

 

یہ بھی پڑھیں:

مہکتی کتابیں اور خوشبو جیسے لوگ

RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی