Saturday, December 7, 2024
HomeColumnsمہکتی کتابیں اور خوشبو جیسے لوگ

مہکتی کتابیں اور خوشبو جیسے لوگ

مہکتی کتابیں اور خوشبو جیسے لوگ

محمد عامر خاکوانی

میری زندگی کی پہلی کتاب

میری زندگی میں پہلی کتاب کہانیوں کی تھی۔ سات یا آٹھ سال کی عمر میں دوسری، تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ اگرچہ شرارتی بچہ نہیں تھا، مگر کسی طرح ہمسائیے کی دیوار پھلانگتے ہوئے نیچے گِرا اور بازو فریکچر ہو گیا۔ چند ہفتوں کے لیے چھٹی مِلی اور گھر رہنا پڑا۔ بچہ خواہ کیسا ہی معصوم اور بھولا بھالا ہو، وہ کیسے دن بھر گھر میں سکون سے بیٹھ سکتا ہے؟

اب راز کھلا کہ بچپن میں امی کہانی سناتے ہوئے وقفہ کیوں لیا کرتی تھیں

ایک دن والد صاحب عدالت سے واپسی پر کہانیوں کی چند کتابیں لائے۔ ٹارزن، عمرو عیار وغیرہ کی چند صفحاتی کہانیاں تھیں۔ پرانی بات ہے، صحیح طرح سے یاد تو نہیں، اُردو اچھی ہو گی کہ ان کہانیوں کو رُک رُک کر سہی مگر پڑھنے لگا۔ ہماری دادی اور نانی بہت پہلے انتقال کر گئی تھیں۔ کہانیاں امی سنایا کرتی تھیں۔ اس وقت تو کبھی نہیں سوچا، اب خیال آتا ہے کہ وہ کہانی سناتے ہوئے وقفہ کیوں لیا کرتی تھیں؟ فوری کہانی گھڑنے اور اپنی مرضی کا موڑ دینے میں چند لمحے تو لگتے ہی ہیں۔

دن میں کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں

ان کہانیوں کے ساتھ مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ انگریزی محاورے کے مطابق بیڈ ٹائم سٹوریز تھیں۔ صرف رات کو سُنائی جاتیں کہ دن میں کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔ تب یہ خیال نہیں آیا کہ کہانی تو احمد پور شرقیہ کے محلّہ کٹرہ احمد خان کے گھر میں سنائی جا رہی ہے، دور کہیں سفر کرنے والے مسافر کیوں راستہ بھولیں گے؟

بازو ٹوٹنے کے باعث “جنگل کا ٹارزن” جیسی کہانیاں کیا پڑھیں کہ لت پڑ گئی

بازو ٹوٹنے کے باعث آرام کرنا پڑا، مگر مُفتے میں کہانیاں پڑھنے کو مِلیں تو ان کی لت پڑ گئی۔ ان کہانیوں نے کئی طرح کی دُنیاﺅں سے روشناس کرایا۔ جنگل کا ٹارزن، امیر حمزہ کا دوست عمرو عیار، سائنس دان کے دو بیٹے چلوسک ملوسک، لمبے قد اور بڑے سر والا آنگلو اور چھوٹے قد مگر مٹکے جیسے پیٹ والا اس کا بھائی بانگلو، پراسرار قوتوں والے بندر بابا اور چھ انگلیوں والا چھن چھنگلو، قسم قسم کے جادوگر، جنات، چڑیلیں، دیو وغیرہ۔

کہانی کی کتابیں گھر لانے پر والد صاحب کف افسوس ملتے پائے گئے

والد مرحوم بعد میں کفِ افسوس ملتے پائے گئے کہ اس دن کہانیوں کی کتابیں کیوں لایا تھا؟ تیر مگر کمان سے نکل چکا تھا۔ رفتہ رفتہ ہم بچوں والی کہانیوں سے اشتیاق احمد کے ناولوں، ایچ اقبال کی پرمود سیریز، اثر نعمانی کی شگفتہ شہزاد سیریز، مظہر کلیم کی عمران سیریز اور ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں تک پہنچ گئے۔

پانچویں،آٹھویں اور دسویں کے امتحان کے بعد دو ڈھائی ماہ کی چھٹیاں لائبریریوں میں گزرتیں

ابنِ صفی کی عمران سیریز نیا رُخ ڈائجسٹ اور کرنل فریدی سیریز نیا اُفق ڈائجسٹ میں ہر ماہ شائع ہوتی تھی۔ ان دنوں ایک اچھی بات یہ تھی کہ پانچویں، آٹھویں اور دسویں کے بورڈ کے امتحان ہوتے تھے۔ ایسے ہر امتحان کے بعد دو ڈھائی ماہ تک چھٹیاں ہوتیں۔ اکیڈمیوں کا عفریت نہیں آیا تھا، بچے ان چھٹیوں کو خوب مزے سے گزارتے ۔ ہمارے جیسے طلبہ لائبریریوں کے چکر لگاتے۔ کرایے پر ناول، کتابیں دینے والی لائبریریوں کا آخری دور چل رہا تھا۔
میں نے نسیم حجازی، عبدالحلیم شرر اور قمر اجنالوی کے تمام ناول قمر لائبریری سے پڑھے۔ سب رنگ ڈائجسٹ پہلی بار بڑی ہمشیرہ سے لے کر پڑھا اور پھر اس کی لَت پڑ گئی۔ بعد میں ان ہی سے خواتین، شعاع، کرن ڈائجسٹ وغیرہ بھی پڑھتے رہے۔ جاسوسی، سسپنس، نیا رُخ، نئے اُفق، مسٹری میگزین، ایکشن، عمران ڈائجسٹ اور پرانے عالمی ڈائجسٹ کے ساتھ پرانے سب رنگ اسی قمر لائبریری سے پڑھے۔

قمر لائبریری کے مالک کا نام یاد نہیں۔ لائبریری کے ساتھ گھڑیوں کی مرمت کا کام بھی کرتے تھے۔ آج وہ کرایہ کی لائبریریاں بہت بڑی نعمت محسوس ہوتی ہیں۔ میرے جیسے لاکھوں کو ان سے نفع پہنچا۔ میرا سکول شہر کا سب سے بڑا ہائی سکول تھا، گورنمنٹ ایس اے (صادق عباس) ہائی سکول۔ کہنے کو تو اس سکول میں لائبریری تھی۔ معلوم نہیں کون وہاں جاتا تھا، کسے کتاب ایشو ہوتی تھی، ہم واقف نہیں۔

افسوس! ادبی ذوقِ بڑھانے میں اسکول انتظامیہ اور اساتذہ کا کوئی کردار نہیں

خیر سے سکول انتظامیہ اور اساتذہ میں سے کسی نے ہمارا ادبی، علمی ذوق سنوارنے میں کوئی حصہ نہیں ڈالا۔ چھوٹے پسماندہ شہروں کا شائد یہ مشترک المیہ ہے۔ البتہ کالج دور میں لائبریری سے خوب کتابیں ایشو کرائیں۔ احمد پور شرقیہ کا ہی کالج تھا، گورنمنٹ صادق عباس ڈگری کالج۔ صادق عباس دراصل آخری نواب بہاولپور کا نام تھا، جس نے بہاولپور ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا اور پھر الحاق کے ذریعے ون یونٹ کا حصہ بنایا۔ ون یونٹ ٹوٹا تو بہاولپور کی ریاست صوبہ پنجاب کا حصہ بنی اور آج تک چلی آ رہی ہے۔

صحافتی کیرئیر کا آغاز

کالج، یونیورسٹی کے بعد صحافت کا دور شروع ہوا۔ اُردو ڈائجسٹ کی لائبریری سے خوب فائدہ اُٹھایا۔ لاہور میں کسی اخبار، جریدے کے پاس اُردو ڈائجسٹ جیسی لائبریری نہیں۔ کئی سال بعد ایکسپریس کا میگزین انچارج بنا تو کتابوں پر تبصروں کا سلسلہ شروع کیا۔ ابتدا میں اپنی خریدی ہوئی کتابوں پر ہی تبصرہ کرتے، پھر کچھ اشاعتی اداروں اور مصنفین نے تبصرے کے لئے کتابیں بھیجنا شروع کر دیں۔ انہی میں ایک بہت ہی خوشگوار اور حسین اضافہ جہلم سے آنے والی کتابوں کا تھا۔ بک کارنر جہلم کی کتابیں نہایت دلکش، خوش رنگ طباعت میں کتاب دیکھ کر دل خوش ہوتا۔ اسلامی ہیروز پر پوری سیریز تھی، خالد بن ولیدؓ، محمد بن قاسم ،صلاح الدین ایوبی، شیر شاہ سوری وغیرہ۔ حیرت ہوتی کہ جہلم میں کوئی پبلشر اتنی عمدہ کتابیں کیسے شائع کر سکتا ہے؟

جہلم بک کارنر نے اتنی عمدہ کتابیں شائع کیں کہ یقین نہیں آتا

جہلم کے بک کارنر کی کتابوں سے بعد میں رابطہ اور تعلق بڑھتا گیا۔ ہر سال لاہور کے کتاب میلے میں بڑا سٹال ان کی کتابوں کا ہوتا اور دیکھ کر جی خوش ہو جاتا۔ چند سال پہلے ایکسپو سنٹر کے اسی کتاب میلے سے کئی ہزار روپے کی کتابیں خریدیں۔ عالمی سب رنگ افسانے، ساحر لدھیانوی کی آپ بیتی ”میں ساحر ہوں“، شاعروں ادیبوں کے لطیفے، ادبی لطائف اور نجانے کیا کیا۔ پچھلے دو ڈھائی برسوں میں جہلم بک کارنر نے اتنی زیادہ عمدہ کتابیں شائع کیں کہ یقین نہیں آتا۔
گلزار کی کتابیں، شمس الرحمٰن فاروقی کا ناول ”کئی چاند تھے سرِ آسماں“ اور ان کی دیگر تخلیقات پر مشتمل ”مجموعہ شمس الرحمٰن فاروقی“، دوستوئیفسکی کی ”برادرز کرامازوف“، جوسٹین گارڈر کی ”سوفی کی دُنیا“، شولوخوف کا ”اور ڈان بہتا رہا“، جارج اورویل کی 1984، رسول حمزہ توف کی ”میرا داغستان“ منفرد فِکشن نگار علی اکبر ناطِق کی پانچ کتابیں، رﺅف کلاسرا کے دو منتخب تحریروں کے مجموعے اور بالزاک کے دو ناولوں کے تراجم، کرشن چندر کے تین ناول، بلونت سنگھ کے مشہور ناول، قاضی عبدالستار کے شاہکار ناول دارا شکوہ، غالب اور وہ سیریز جو میرے دل میں نقش ہے سب رنگ کہانیاں (جلد اول، دوم، سوم) سمیت درجنوں اعلی طباعت سے آراستہ حسین کتابیں بک کارنر ہی نے شائع کیں۔

اردو قارئین تک خوب صورت کتابیں پہنچانے والے شاہد حمید

یہ سب کتابوں اور اس مساعی کے پیچھے جو شخص تھا، جس نے اپنی زندگی کے پچاس سال کتابوں کو پھیلانے، پروموٹ کرنے کے لئے وقف کر دئیے، مہکتی کتابیں شائع کرنے والا وہ خوشبو جیسا شخص شاہد حمید مارچ کے ایک اُداس دن رخصت ہو گیا۔ شاہد حمید صاحب سے تعارف ان کی خوبصورت کتابوں کے ذریعے ہی ہوا۔ وہ ناشر تھے، کتابیں چھاپنا ان کا کام اور پیشہ تھا۔ کتاب کو مگر جس محنت، خوبصورت اور دِل سے وہ چھاپتے، اسے پھیلاتے رہے، کتاب میلوں میں بہت اچھے ڈسکاﺅنٹ کے ساتھ آگے پہنچاتے رہے، یہ انہی کا خاصہ تھا۔ ان کے صاحبزادوں گگن شاہد، امر شاہد سے ابھی تک میری باقاعدہ ملاقات نہیں ہوئی، صرف فون پر دو چار بات ہوئی۔ جب بھی ذکر ہوا، انہوں نے یہی بتایا کہ والد صاحب کی یہ خواہش ہے کہ اُردو میں دُنیا کا بہترین لٹریچر منتقل ہو اور ایسی خوبصورت کتاب مناسب داموں میں چھاپی جائے کہ پڑھنے والوں کی رُوح سرشار ہو جائے۔

مَیں گواہی دیتا ہوں کہ شاہد حمید صاحب اور ان کی اگلی نسل اس مقصد میں کامیاب ہوئی۔ کتابوں سے ہمیں عشق کا دعویٰ نہیں، مگر دلی محبت ضرور ہے۔ فٹ پاتھ پر رکھی پھٹی پرانی کتاب بھی اُٹھا لیتے ہیں کہ شائد کچھ صفحات پڑھنے کو مل جائیں۔ کتاب اچھے کاغذ پر چھپی ہو یا پُرانی طباعت ہو، اسے کسی نہ کسی طرح پڑھ ہی لیا۔ بک کارنر جہلم کی کتابوں کو پڑھتے ہوئے جیسی سرشاری اور مسرت مِلی، یہ منفرد اور اچھوتا احساس ہے۔ یہ معلوم کر کے مزید خوشی ہوئی کہ شاہد حمید صاحب نے آنہ لائبریری سے آغاز کیا تھا، وہ کتابیں بڑے ذوق شوق سے چھاپتے اور پھیلاتے رہے، رفتہ رفتہ اسے اس نہج پر لے گئے کہ عالمی معیار کی کتابیں شائع کرنے لگے۔
شاہد حمید صاحب سے ملاقات کی شدید خواہش تھی، کورونا کے باعث مَیں نے اپنی آمدورفت بہت محدود کی ہوئی ہے، خواہش کے باوجود جہلم نہ جا پایا۔ میری کتاب زنگار شائع ہوئی تو گگن شاہد نے بتایا کہ ابو نے آپ کی کتاب مزے لے کر مکمل پڑھی ہے اور انہیں پسند آئی۔ ارادہ تھا کہ ملاقات پر ان کی رائے دریافت کروں گا۔ پوچھنا تو یہ بھی چاہتا تھا کہ اتنی کامیابیوں کے بعد آپ کے دِل میں لاہور یا اسلام آباد منتقل ہونے کا خیال کیوں نہیں آیا؟ یہ بھی کہ آپ نے جہلم جیسے متوسط درجے کے شہر میں اتنی عمدہ متنوع کتابیں چھاپنے والا ادارہ کیسے بنا ڈالا؟سب کچھ تشنہ رہ گیا۔

شاہد حمید تو چلے گئے لیکن خوشبو کا سفر جاری رہے گا

شاہد صاحب چلے گئے، ان کی خوشبو بھی ان کے ساتھ گئی۔ اسلام آباد میں مِسٹر بُکس کے یوسف صاحب کے بارے میں بھی رﺅف کلاسرا، آصف محمود جیسے دوست ایسے ہی قصّے سناتے ہیں۔ مہکتی کتابیں چھاپنے والے لوگ چلے گئے۔ ان کی خوشبو فضاﺅں میں بکھر گئی۔ خوشبو کا یہ سفر ان شاءاللّٰہ جاری رہے گا۔ اچھی، معیاری، خوبصورت کتابیں چھپتی رہیں گی۔ ہم نہیں ہوں گے تو دوسرے لوگ انہیں پڑھتے، سراہتے رہیں گے۔ کتابوں کا یہ سفر رب نے چاہا تو جاری رہے گا۔ ڈیجیٹل کتابوں، ای بکس، پی ڈی ایف کی یلغار کے باوجود کتاب ان شاءاللّٰہ اپنا وجود برقرار رکھے گی۔ یہ وہ لڑائی ہے جو ہم سے پہلے والوں نے لڑی، جب تک ہم ہیں اللّٰہ نے چاہا تو اسے جاری رکھیں گے، اس کے بعد کوئی اور جھنڈا اُٹھائے گا۔
(میری نئی کتاب وازوان سے انتخاب ۔ وازوان کتاب ہوم ڈیلیوری منگوانے کے لئے اس واٹس ایپ نمبر پر رابطہ کر سکتے ہیں۔ 03144440882 )

یہ بھی پڑھیں

کچھ ذکر لیڈروں کی کتب بینی کا

RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی