علامہ شاہ احمد نورانی ، بے داغ سیاست دان ،اتحاد امت کا علم بردار عالم دین
تحریر ؛ محمد اسلم الوری
مولانا شاہ احمد نورانی نے 1926ءمیں پوپی(انڈیا) کے مردم خیز خطہ میرٹھ کے ایک ممتاز علمی و روحانی خانوادے میں آنکھ کھولی۔میرٹھ1857ءکی جنگ آزادی کا مرکز رہا تھا برطانوی سامراج کے ظلم وجبر کے خلاف تاریخی جدوجہد کا آغاز بھی اسی شہر کے گلی کوچوں سے ہو ا تھا-آپ کا تعلق اشراف کے اس خاندان سے تھا جنہوں نے کئی صدیوں سے تعلیم و تربیت اور تبلیغ و ارشاد کا کام اپنے ذمہ لے رکھا تھا۔
والد امام احمد رضا خان بریلوی کے خلیفہ تھے ، دادا بڑےشاعر اور مولوی اسماعیل میرٹھی کے بھائی تھے
آپ کے والد ماجد مبلغ اسلام مولانا شاہ عبد العلیم صدیقیؒ کا شمار برصغیر کے نامور عالم اور مذہبی مصلح امام احمد رضا خان بریلوی ؒ کے اجل خلفاءمیں ہوتا ہے – علامہ شاہ احمد نورانی کے دادامولا نا عبدالحکیم صدیقی نامور محدث اورصوفی شاعر تھے اور ان کے بھائی مولوی اسماعیل میرٹھی کا نام بھی اردو و شعر وا دب خصوصاً بچوں کے ادب کے حوالے سے ایک سند کا درجہ رکھتا ہے-
تایا مولانا نذیر احمد خجندی نے رتن بائی سے قائد اعظم محمد علی جناح کا نکاح پڑھایا تھا
آپ کے تایا مولانا نذیر احمد خجندی بھی ممتاز عالم دین تھے اورممبئی میں رتن بائی سے قائداعظم کا نکاح آپ ہی نے پڑھایا تھا ۔
اردو کے علاوہ انگریزی ،ملائی، ڈچ ، فرانسیسی، ہسپانوی اور گجراتی زبانوں پر عبور تھا
مولانا شاہ احمد نورانی نے سات برس کی عمر میں اردو ،فارسی عربی کی ابتدائی کتب کی تکمیل اور حفظ قرآن کی سعادت حاصل کی ۔درس نظامی ، عربی فاضل میرٹھ کے معروف دارلعلوم اور گریجویشن الہ آباد یونیورسٹی سے کرنے کے بعد تبلیغی ضروریات کے پیش نظر انگریزی،ملائی،ڈچ،فرانسیسی،ہسپانوی اور گجراتی زبانوں پر عبور حاصل کیا- آپ کا نکاح مدینہ منورہ میں امام احمد رضا خان بریلوی ؒ کے نامور خلیفہ قطب مدینہ مولانا ضیاءالدین مدنی کی پوتی سے ہوا۔مولانا ضیاءالدین مدنی بیسویں صدی کے اوائل میں سیالکوٹ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں حضور سرور دو عالم ﷺ کے قرب و جوار میں مقیم تھے اور آپ کا آستانہ دنیا بھر سے آ نے والے علماءومشائخ اور عاشقان مصطفی ﷺ کا مرکز تھا۔
مہمان نوازی ،حسن اخلاق ،شائستگی، تواضع و انکساری اور خودداری کے پیکر تھے
دیا ر حبیب ﷺ سے یہ نسبت انہیں ہر وقت سر شار رکھتی تھی۔ آپ کی شخصیت ایک عجب حسن و دلکشی اپنے اند ر رکھتی تھی ۔روایتی علماء و خطبا، آئمہ مساجد اور مدارس دینیہ سے وابستہ افراد کے برعکس وہ مذہبی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ جب کوئی شخص ان کی مجلس میں آتا توان کی مہمان نوازی ،تہذیب و شائستگی،علم و حکمت سے بھرپور گفتگو سن کر مبہوت ہو کر رہ جاتا-آپ حسن ادب کا مرقع،سرکار دو عالم ﷺکے خلق عظیم کا پر تو اور ہماری عظیم تہذیبی روایات کے امین تھے- فیاض قدرت نے انہیں پیکر جمال بنایا تھا، تہذیب و شائستگی گھٹی میں پڑی تھی ،گھر میں علم و ادب کا بحر بیکراں موجزن تھا، مہمان نوازی،تواضع و انکساری ، عشق رسول اور فقر و خودداری وراثت میں ملے تھے۔سند ارشاد پہلے سے گھر کے آنگن میں سجی تھی جس پر وہ نو عمری سے وفات تک فائز رہے۔اس خاندانی پس منظر نے علامہ شاہ احمد نورانی کی شخصیت کی تشکیل اور کردار سازی میں بنیادی کردار ادا کیا اورآپ نے جس سنجیدہ علمی ادبی اور روحانی ماحول میں پرورش پائی تھی اس کے اثرات تا حیات قا ئم رہے۔
سنہ 1970 ء میں جب نیشنل عوامی پارٹی اور بائیں بازو کی دیگر سیاسی جماعتوں نے ملک میں سرخ انقلاب کا نعرہ لگایا اور پیپلز پارٹی سوشلزم کے نفاذ کا منشور لے کر میدان میں اتری تو اعتدال پسند سنی علما و مشا ئخ نے ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور اپنے عقیدت مندوں کی نمائندگی کے لئےٹوبہ ٹیک سنگھ کے مقام پر آل پاکستان سنی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا جس میں ملک بھر سے سنی دینی مدارس اور خانقاہوں سے وابستہ سینکڑوں علما و مشائخ سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی – علامہ شاہ احمد نورانی ؒ نے علماءو مشائخ کے پرزور اصرار پر اپنے خسر مولانا فضل الرحمان المدنی ؒ کے ہمراہ اس کانفرنس میں شرکت کی ۔ آپ کے اثر انگیز خطاب نے اس عظیم الشان اجتماع میں شریک علما و مشائخ کے ہجوم میں ملک بھر سے آئے سنی عوام کو امید بھری نظروں سے آپ کی طرف دیکھنے پر مجبور کردیا۔
جمعیت علمائے پاکستان کےپلیٹ فارم سے 1970 کے انتخابات میں ممبر قومی اسمبلی بنے
سنہ 1970 ءمیں جمعیت علمائے پاکستا ن کے مختلف دھڑوں کے مابین اتفاق رائے کے بعدشیخ الاسلام خواجہ قمرالدین سیالوی کی قیادت میں مرکزی جمعیت علمائے پاکستان کے پلیٹ فارم سے عام انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیاگیا- انتخابی مہم کے لیے وقت اور وسائل کی قلت کے باوجود کوچہء سیاست میں نووارد جماعت جمعیت علما ئے پاکستان کے سات ارکان نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور حاصل شدہ ووٹوں کے حوالے سے جے یو پی پیپلز پارٹی کے بعد مغربی پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی -منتخب ہونے والے ارکان میں پنجاب سے غلام حیدر بھروانہ، نذیرسلطان،مولانا محمد ذاکر اور ابراہیم علی برق، سندھ سے مولانا شاہ احمد نورانی، شیخ الحدیث مولانا عبدالمصطفی الازہری اور حیدرآباد سے مولانا محمد علی رضوی شامل تھے-پنجاب کے تین غیر علما اراکین کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد مولانا شاہ احمد نورانی کو قومی اسمبلی میں جمعیت علماء پاکستان کے پارلیمانی گروپ کا قائد مقرر کیا گیا-
آئین ساز کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے 73 کے متفقہ آئین کی تشکیل میں فعال کردار ادا کیا
17 اپریل 1972 ءکو اسمبلی میں موجود تمام پارلیمانی جماعتوں پر مشتمل آئین ساز کمیٹی تشکیل دی گئی تو آپ جمعیت علمائے پاکستان کی طرف سے اس کے رکن نامزد ہوئے ۔ پارلیمان کے سرکاری ریکارڈ اور آئین کی مختلف شقوں پر ہونے والے مباحث سے سے دستور سازی کے عمل میں آپ کی شبانہ روز محنت اور سیاسی و دینی بصیرت کا پتا چلتا ہے۔14 اگست 1973 ء کو آپ کی بھرپور کوششوں سے ملک کا نیا متفقہ دستور نافذ ہوا تو بعض دفعات پر تحفظات کے باوجود آپ کے علاوہ مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالستار خاں نیازی اور مولانا ظفر احمد انصاری نے اسے اسلامی آئین قرار دیا۔
1970 ء کے الیکشن میں قو می و صوبائی اسمبلی میں کراچی ، حیدرآباد اور سکھر کے شہری حلقوں سے جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مولانا نورانی ٹرین سے اسلام آباد جاتے ہوئے خانیوال بلدیہ کے سابق چئرمین صوفی عبدالحق رضوی مرحوم اور دیگر زعما کی دعوت پر پہلی بار خانیوال تشریف لائے تو مجھے بھی آپ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا – بعدازاں 1973ءمیں معروف دینی درس گاہ جامعہ عنائیتہ خانیوال میں جمعیت علماءپاکستان کے مرکزی کنوشن اور دیگر متعدد مواقع پر ان کو قریب سے دیکھنے اور ملاقات کرنے کی سعادت نصیب ہوئی-
ذوالفقار علی بھٹو دور کے فاشزم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا
نورانی میاں ایک بے باک،نڈر اور صاحب بصیرت سیاستدان اور تجربہ کارپارلیمانی رہنما تھے-ایوان نمائندگان میں ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی جیسی جماعت سے تھا جس کی قیادت جاگیردارانہ مزاج اور فاشسٹ ذہنیت کے حامل رہنما مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کررہے تھے ۔انہوں نے اپنے دور اقتدار میں اپنے سیاسی مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا-اپنی میکیاولی ذہنیت کے باعث غلام مصطفی کھر، جے اے رحیم، مختار رانا اور معراج محمد خاں جیسے ان کے قریبی ساتھی بھی ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہ رہ سکے تھے-ڈاکٹر نذیر احمد، نواب احمد خاںقصوری،عبدالصمد اچکزئی،ڈاکٹر رفیق اور درجنوں معصوم حروں کے خون ناحق کا الزام ان کی گردن پر تھا۔ ان کی پارٹی کے نوجوان باغی رہنما احمد رضا قصوری کی طرف سے اپنے والد کے قتل کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا جو عدالتوں میں طویل مقدمہ بازی کے بعد آخر کار ان کی پھانسی کی متنازع سزا پر منتج ہوا جسے قانونی ماہرین کی کثیر تعداد اب عدالتی قتل سے تعبیر کرتی ہے اور اس بات کی عدالت عظمٰی سے باقاعدہ توثیق کے لئے ایک اہم مقدمہ بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔-خوف و دہشت کے اس ماحول میں بھی مولانا نورانی نے مجاہد ملت عبدالستار خان نیازی، علامہ غلام علی اوکاڑوی، علامہ عبدالمصطفی الازہری اورمولانا محمد ذاکر جیسے اپنے مٹھی بھررفقا کے ساتھ جرات و ہمت اور حق گوئی و بے باکی کی وہ زریں مثالیں قائم کیں جو ہمارے ملک کی جمہوری تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی-
سنہ 1975 کو حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کے طور قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوئے
1975ء میں سیاسی آزادیوں پر عائد حکومتی پابندیوں کو ناکام بنانے اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی غرض سے آپ نے قومی اسمبلی کی اپنی نشست سے استعفٰی دے کر ضمنی انتخابات کی شکل میں عوامی رابطے کے قیمتی مواقع پیداکئے۔آپ کی خالی نشست پر اپوزیشن اتحاد نے آپ کی جماعت کے نامزد کردہ نوجوان اور ایک باصلاحیت طالب علم رہنما محمد حنیف حاجی طیب کی حمائت کا فیصلہ کیاجنہیں جماعت اسلامی کی ذیلی طلبا تنظیم اسلامی جمعیت طلبا کے مقابلے میں انجمن طلبا ء اسلام کے نام سے ملک گیر طلبا تنظیم کی قیادت کا اعزاز حاصل تھا ۔اس ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار جسٹس نورالعارفین کو سرکاری طور پر کامیاب قرار دیا گیا لیکن غیر جانب مبصرین اصرار کرتے ہیں کہ الیکشن میں حکومت نے وسیع پیمانے پر دھاندلی کی تھی۔
آپ کی خداداد سیاسی بصیرت، دلربا شخصیت ، بین الاقوامی حالات و امور پر ماہرانہ نظر،تنظیمی و تبلیغی تجربہ، خاندانی و روحانی پس منظر اور بے پناہ ابلاغی صلاحیت نے انہیں صدر کراچی کی میمن مسجد کے منبر سے اٹھا کر ملک کے اعلیٰ ترین ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ میں لا کھڑا کیاجہاں وہ جمعیت علماءپاکستان کے پارلیمانی قائد مقرر کئے گئے اور اس کے بعد ان کی شخصیت کے سحر نے ایوان سے باہر کروڑوں عوام کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔ تحریک ختم نبوت ، بنگلہ دیش نا منظورتحریک،آئین سازی، جمہوریت کی بحالی، تحریک نظام مصطفی، آمریت کے خلاف جدوجہد ، اتحاد ملی،خلیج میں امریکی جارحیت کے خلاف ملک گیر مہم غرض ہر قومی تحریک اور سیاسی موڑ پر ہر طرف ان کا طوطی بولتا تھا-
ورلڈ اسلامک مشن سمیت متعدد تعلیمی اداروں کا قیام ان کا علمی کارنامہ ہے
نو آموز رکن قومی اسمبلی ہونے کے باوجود آپ نے جس سماجی شعور، دینی حمیت ، سیاسی بصیرت، قائدانہ صلاحیت اور صبرو استقامت کا مظاہرہ کیا وہ ہماری پارلیمانی تاریخ کا ایک روشن باب ہے- بات کرنے کا ڈھنگ اور اپنی بات منوانے کا اسلوب وہ خوب جانتے تھے -حق وصداقت کی نشانی ، شاہ احمد نورانی کا نعرہ، زبان خلق بن کر ان کی پہچان بن گیا ۔ بین الاقوامی سطح پر ورلڈ اسلامک مشن اور دیگر علمی و تعلیمی اداروں کے قیام کے علاوہ انہوں نے نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ اور مقام مصطفی ﷺ کے تحفظ کی اصطلاحات کو قومی زندگی کے تمام شعبوں میں متعارف کروانے اور دنیا بھر میں سامراجی عزائم کو نا کام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحٖفظ ، متفقہ دستور کی تدوین اور اس میں اسلامی دفعات کی شمولیت ، خان عبدالولی خان اور بھٹو جیسے سیکولر رہنماوں سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلانا اور انہیں دلائل سے قائل کرکے مسلمان کی متفقہ تعریف دستور پاکستان میں شامل کرانا آپ کی تاریخی کامیابی قرار دی جاسکتی ہے-
اپنے موقف پر ڈٹ جانے کے باوجود سوچ میں اعتدال اور عمل میں توازن کا مظہر تھے
اپنے موقف پرچٹان کی طرح ڈٹ جانے کے باوجود ان کی سوچ میں اعتدال اور عمل میں توازن قائم رہا.۔شدید اختلا ف رائے اور مسلکی و نظریاتی مخالفت کے باوجود تمام سیاسی و مذہبی رہنماؤں سے ان کے تعلقات نہائت خوشگوار رہے، ذوالفقار علی بھٹو، سردار شیر باز مزاری ، ایئر مارشل اصغر خاں ، خان عبدالولی خاں، محمود علی قصوری ،غوث بخش بزنجو،پروفیسر غفور احمد، قاضی حسین احمداور نوابزادہ نصراللہ خا ں جیسے اکابر سیاستدان انہیں بے پناہ قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 1973 ءکے دستور کی روشنی میں وزیر اعظم کے انتخاب کا موقع آیا تو حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھٹو مرحوم کے مقابلے میں مشترکہ طور پر انہیں وزیر اعظم کے لئے اپنا امیدوار نامزد کیا تاکہ وہ بلا مقابلہ منتخب نہ ہوسکیں۔
بھٹو نے کہا “آپ ہمارے کاموں میں کیڑے نکالتے ہیں تو جواب دیا”اپنے کیڑے خود نکالیں ہمیں زحمت نہ دیں “
آپ کی طبیعت میں بلا کی شوخی اور چنچل پن تھا-سیاسی پابندیوں کے پر گھٹن ماحول میں آپ کی دل آویز شخصیت ساری پارلیمان پر بھاری تھی-بذلہ سنجی، شوخی طبع،حس مزاح اورفطری ذہانت نے ان کی شیریں مقالی سے مل کر ایوان زیریں و بالا کی کارروئیوں کو بہت ہی ثروت مند بنادیا تھا-موقع بہ موقع وہ طنزو ظرافت کے ایسے تیر برساتے کہ حریف زچ ہوکر رہ جاتا- ایک مرتبہ اسمبلی مین بھٹو مرحوم نے ان سے شکوہ کیا کہ مولانا آپ ہر وقت ہمارے کاموں میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں- مولانا نے بر جستہ جواب دیا،جناب میں بھی تویہی کہتا ہوں کہ آپ اپنے کیڑے خود ہی نکال لیجئے تاکہ مجھے یہ زحمت نہ اٹھانی پڑے-
ایک موقع پر آپ قومی اسمبلی میں اہم مسئلہ پر خطاب کر رہے تھے کہ مغرب کی اذان کا وقت ہو گیا- پیپلز پارٹی کے خوبرو وزیر قانون و پارلیمانی امور عبدالحفیظ پیرزادہ نے مداخلت کرتے ہوئے طنزا یاد دلایا کہ مولانا آج تو آپ جوش خطابت میں نماز بھی بھول گئے- نورانی میاں نے روئے سخن حفیظ پیرزادہ کی طرف کرتے ہوئے برجستہ جواب دیا : چہرہ بتوں کا دیکھ کر نیت بدل گئی، اور پورا ایوان زعفران زار بن گیا-
آپ کے کردار کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ آپ وسیع المطالعہ شخصیت تھے بین الاقوامی سیاسی و جغرافیائی تبدیلیوں پر عمیق نظر رکھتے تھے- عالمی رسائل و جرائد ہمیشہ زیر مطالعہ رہے – عراق کے صدام حسین ، لیبیاء کے معمر قذافی ، فلسطین کے مفتی امین الحسینی، سفیر عراق سید عبدالقادر گیلانی ، سعودی وزیر پیٹرولیم ذکی یمانی سمیت اسلامی دنیا کے مختلف سربراہوں اور سفارتکاروں سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی امور اور ملکی حالات کے حوالے سے سرکاری پالیسیوں اور اقدامات کے بارے میں ان کا نقطہ نظر ہمیشہ منفرد پایا جاتا ان کے بیانات مقامی صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کیلئے سوچ بچار کا ساماں اور آگہی فراہم کرتے –
سیاچن کے معاملے پر انہوں نے اس وقت آواز اٹھائی جب کسی کو اس کے محل و قوع تک کا علم نہ تھا-آپ واحد سیاسی رہنما تھے جنہوں نے 1970ء کے انتخابی عمل میں مشرقی پاکستان میں امریکی سفیر فارلینڈ کی ملک دشمن سرگرمیوں اور وزارت خزانہ و منصوبہ بندی کے سینئر قادیانی افسر ایم ایم احمد کی اقتصادی پالیسیوں اور اقدامات کی نشاندہی کرتے ہوئے آواز بلند کی۔آپ ہی کی زبان سے ضیا ء دور میں پاکستان کے عوام کو اس بات کا علم ہوا کہ اسلام آبا د د نیا میں امریکی سی آئی اے کا سب سے بڑا مرکز ہے-
امریکی مفادات کے لئے مسلم آبادیوں کو نشانہ بنانے کے خلاف تھے اس لئے افغان جہاد پر بھی تحفظات تھے
جہا د افغانستان کے حوالے سے بھی انہوں نے یکسر جداگانہ موقف اختیار کیا- مولانا شاہ احمد نورانی قیام پاکستان کے بعد مولانا عبدالحامد بدایونی ؒ کی سربراہی میں ایک وفد کے ہمراہ روس کا مطالعاتی دورہ کرچکے تھے اس لیے وہاں کے مسلمانوں کے مسائل و مشکلات سے بخوبی واقف تھے۔آپ افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو روس کے چنگل سے آزاد کرانے کے بھر پور حامی لیکن امریکی مفادات کیلئے مسلم علاقوں اور آبادیوں کو مشق ستم بنانے کے شدید مخالف تھے آپ نے اس ضمن میں جن مضمرات کی طرف اشارہ کیا تھا وہ افغا ن جہا د کے بعد حقیقت واقعہ بن کر ہمارے سامنے رونما ہوئے
سیاسی اور تنظیمی مصروفیات کی وجہ سے کبھی دینی معمولات کو ترک نہیں کیا
آپ مالی معاملا ت میں انتہائی شفاف،گفتگو میں نہایت نرم و شفیق اور نظم و ضبط کے بارے میں بے حد سخت تھے – اپنے روز مرہ معمولات کے حوالے سے ان کی زندگی نہایت منضبط تھی۔سفر و حضر میں ان کے ساتھ رہنے والے اس بات کی شہاد ت دیتے ہیں کہ نورانی میاں نے سیاسی و تنظیمی مصروفیات اور طویل ملک گیر اور بیرون ملک دوروں کے باوجودکبھی اپنے دینی معمولات اور روحانی وظائف کو ترک نہیں کیا- مولانا اوائل جوانی ہی سے تہجد گزار اور شب بیدار تھے- قرآن حکیم سے انہیں عشق تھا- بچپن سے رمضان شریف کے مبارک مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت و سماعت کرتے آئے تھے- برسہا برس تک آپ نے کراچی صدر کی میمن مسجد میں تراویح کی نماز میں قرآن مجید سنایا – آپ کا معمول تھا کہ ہر چارتراویح کے بعد تلاوت کردہ آیات قرآنی کے مطالب و معانی بیان کرتے جسے سننے کے لئے عوام ملک کے مختلف شہروں اور خاص کر کراچی کے مختلف علاقوں سے دوردراز کا سفر کرکے میمن مسجد کا رخ کرتے-
مالی معاملات میں شفافیت کے چند حیران کن واقعات
آپ نے ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی لیکن اس میں بھی نفاست و پاکیزگی کا خیال رکھا- پان اور خوشبو آپ کو نہائت مرغوب تھے – ذاتی استعمال کی اشیاءاور ضروریات زندگی کے حوالے سے کبھی بھی کسی کا احسان لینا پسند نہیں فرمایا ۔اگر نکاح کی تقریب میں جاتے تو اپنی طرف سے دولہا دولہن کو تحائف و نقدی پیش کرتے-ایک مرتبہ خانیوال سیاسی جلسہ میں شرکت کے لئے تشریف لائے،جمعیت علمائے پاکستان کے صدر ملک غلام سرور اعوان کے مکان پر قیام فرما تھے۔ نورانی میاں ایک مخصوص برانڈ کا شیمپو استعمال کرتے تھے جو اتفاق سے اس موقع پر موجود نہیں تھا -آپ نے میزبان سے کسی قسم کی فرمائش کرنے کی بجائے میرے سامنے میرے پرزور اصرار کے باوجود اپنی جیب سے پیسے نکالے اور بازار سے شیمپو منگوالیا اورصاحب خانہ کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہوئی- اسی طرح آپ نے جمعیت کے کارکن لالہ سعید قریشی مرحوم کوجو کپڑے کا کام کرتے تھے ،اپنی والدہ محترمہ کے لئے کاٹن کے دوپٹے اور چادریں لانے کو کہا لیکن یہ سامان اس وقت تک قبول نہیں کیا جب تک رقم کی ادائیگی نہیں کردی-ایک اور موقع پر خانیوال تشریف لائے تو کسی کارکن نے اپنی دختر کا نکاح پڑھانے کی درخواست کی جو آپ نے منظور فرمالی-نکاح کے بعد حسب روایت آپ کو اس زمانے میں پا نچ سو روپے کا نذرانہ پیش کیاگیا-آپ نے کارکن کی دلجوئی کے لئے وہ نذرانہ تو قبول کرلیا لیکن اس میں اتنی ہی رقم اپنی طرف سے شامل کرکے بیٹی کے باپ کو دی کہ خوشی کے اس موقع پر یہ ان کی طرف سے اپنی دختر نیک اختر کو پیش کردے۔ اسی طرح ایک دفعہ جامعہ عنائتیہ کے مہتمم اور جمعیت علما پاکستان کے رہنما مولانا ایوب الرحمان حامدی ؒ نے اپنے مدرسہ کے سالانہ جلسہء دستار فضیلت کے لئے نورانی میاں کو شرکت کی دعوت دی جو آپ نے قبول کرلی لیکن اچانک بیرون ملک دورے کے باعث آپ اس پروگرام میں شرکت سے قاصر رہے-دو سال بعد جب آپ کو دوبارہ جلسے میں شرکت کی دعوت دی گئی توآ پ نے فرمایا مولانا مجھے ٹکٹ بھیجنے کی زحمت نہ کیجئے گا کیونکہ آپ کے پچھلے غیر استعمال شدہ ٹکٹ کے پیسے میرے پاس آپ کی امانت ہیں-
ایک مرتبہ لاہور میں جمعیت علماء پاکستان کی سینٹرل کمیٹی کے ارکان کے تربیتی اجتماع کے موقع پر آپ تشریف لائے تو دیکھا کہ شدید گرمی میں بھی پینے کے پانی کا انتظام تسلی بخش نہیں تھا-معلوم ہوا فنڈز کی کمی کے باعث اب تک واٹر کولر کا بندوبست نہیں کیا جاسکا ، آپ نے فورا اپنی جیب سے واٹر کولر خرید کر دفتر کے سپرد کیا تاکہ کارکنوں کو شدید گرمی میں تکلیف نہ اٹھانی پڑے-یہ اور اس قسم کے سینکڑوں واقعات ہیں جو انہیں روائتی علما اور پیران عظام کے طبقہ سے ممتاز کرتے ہیں-
مولانا شاہ احمد نورانی خوش خوراک، خوش لباس، خوش گفتار، خوش عقیدہ اور اجلے کردار و عمل کے مالک تھے۔آپ کی طبیعت میں کشادگی ، لہجے میں دھیما پن،گفتگو میں حد درجہ شائستگی تھی، میل جول میں حفظ مراتب کا خاص خیال رکھتے۔آپ کی روح عشق رسول سے سرشار اور قلب و ذہن تعمیر وطن کے جذبہ سے معمو ر تھے آپ خلیفہ اول حضرت سیدنا صدیق اکبرؓکی اولاد سے تھے- آپ کی شخصیت صدیق اکبرؓ کے سوزو عشق ، حضرت عمر فاروق ؓ کی دینی حمیت، عثمان غنی ؓ کی سخاوت و فیاضی، حضرت علی کی جرات و بے نیازی ، فقر بوزر، حکمت ابو حنیفہؓ سیدنا عبدالقادر جیلانی کے جمال و جلال، مجد د الف ثانی ؒ کے تبلیغی جوش وخروش، مجاہدین جنگ آزادی کی حریت فکر، امام احمد رضا کی دینی عصبیت اور شاہ عبدالعلیم صدیقی کی وسیع النظری اور ابلاغی مہارت کا حسین پر تو تھی۔
فوجی آمریت کے سخت خلاف تھے تاہم بہ طور ادارہ فوج پر کبھی تنقید نہیں کی
آپ نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو برصغیر پر انگریزی سامراج مسلط تھا- جنگ عظیم اول کے بعد خلاف عثمانیہ کا خاتمہ ہو چکا تھا اور پورے عالم اسلام کو سامراج نے اپنی گرفت میں لے کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا تھا -آل سعود اور ابن وہاب کے خانوادوں نے انگریزی تسلط کی راہ ہموار کرنے اور خلافت اسلامیہ کے خاتمہ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا یہی وجہ ہے کہ علامہ نورانی برطانوی سامراج او ر ان کے آلہ کار بن کر مختلف مواقع پر امت مسلمہ کو شدید نقصان پہنچانے والے نجدی خاندان کے بعض افراد کو سخت ناپسند کرتے تھے۔آپ کی امریکہ مخالف پالیسی اور سخت بیانات کی وجہ سے آپ کے سعودی عرب داخلہ پر پابندی عائد رہی۔ فوجی آمریت کے آپ ہمیشہ سے سخت مخالف تھے لیکن فوج کو بطور ادارہ انہوں نے کبھی ہدف تنقید نہیں بنا یا- مسلح افواج کو وہ قومی امنگوںکا ترجمان ، ملکی سرحدوں کی محافظ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی فوج کے القابات سے یاد کرتے تھے-
فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے ملی یک جہتی کونسل کی بنیاد رکھی
پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کی وارداتوں کے خاتمہ اور بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کے لیے آپ ہی نے قاضی حسین احمد ، مولانا فضل الرحمان ، علامہ ساجد نقوی اور مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ملی یکجہتی کونسل کی بنیا د رکھی ۔مولانا سمیع الحق مرحوم کی دعوت پر دارالعلوم اکوڑہ خٹک تشریف لے گئے اور سینکڑوں اساتذہ اور طلباء سے اسلام کی ترویج و اشاعت اور برصںغٰر میں برطانوی سامراج کے خلاف تحریک آزادی میں علما و مشائخ اہل سنت کے موضوع پر فصیح عربی میں خطاب فرمایا ۔آپ عمر بھر اپنے مسلک پر قائم رہے ، مجلس عمل اور ملی یک جہتی کونسل کے جلسوں میں بھی قصیدہ بردہ شریف اور جلسہ کے اختتام پر درودوسلام کی اپنی روایت کو ترک نہیں کیا اور نہ ہی کسی دوسرے مکتب فکر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ آپ کے اخلاص عمل اور قومی اتحا د و اتفاق کیلئے جدوجہد کے نتیجے میں تمام مکاتب فکر نے سیادت و قیادت کیلئے آپ کو منتخب کیا۔
جنرل ضیاء الحق کی ترغیبات ٹھکراتے ہوئے غیر جمہوری حکومت کا حصہ بننے سے انکار کیا
سنہ 1977 میں جنرل ضیاءکے اقتدار پر ناجائز قبضہ کے بعد تحریک نظام مصطفی میں شامل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، پاکستان جمہوری پار ٹی اور دیگر جماعتوں نے مختلف حیلے بہانوں سے حکومت میں شمولیت کو ترجیح دی-لیکن مولانا نے ہر قسم کی ترغیبات و تحریصات کو پائے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے غیر جمہوری نظام کا حصہ بننے سے صاف انکار کردیا ۔
آپ ایک فعال اور مثالیت پسند دینی و سیاسی رہنما تھے اور عا م روش کے برعکس عوامی نمائندگی کو ایک مقدس امانت اورسیاست کو عبادت سمجھتے تھے-شاہ تراب الحق، عبدالمصطفی الازہری، مفتی طفر علی نعمانی جیسے علمااورشہید ظہور الحسن بھوپالی، عثمان کینیڈی ،احد ایڈووکیٹ، محمد حنیف حاجی طیب جیسے جد تعلیم اور سماجی شعور سے بہرہ ور آپ کے نوجوان اور عملیت پسند رفقا کا خیال تھا کہ سیاست عوامی رابطے اورلوگوں کو درپیش مقامی اور فوری نوعیت کے سنگین مسائل و مشکلات کے حل کا نام ہے اور اس کے لئے اقتدار میں شمولیت یا ارباب بست و کشاد سے قریبی روابط رکھناضروری ہیں- اس کے برعکس اکابر صوفیا ءکی طرح آپ بھی عوام دشمن حکمرانوں اور مفاد پرست سرکاری اہل کاروں سے ربط و تعلق کے ہرگز روادار نہ تھے اور اس قسم کے تعلقات کو جماعتی نظم کے لئے زہر قاتل سمجھتے تھے۔ فکر و عمل کے ان اختلافات نے رفتہ رفتہ آپ کو اپنے بیشتر قابل ترین رفقا سے جدا کردیا۔
ضیاء دور میں جماعتی کارکنان کی عمومی نفسیات کے برعکس بحالی جمہوریت تحریک کی کھل کر حمایت کی
جنرل ضیاء کے آمرانہ دور میں آپ نے جماعتی کارکنان کی عمومی نفسیات اور احساسات کے خلاف اپوزیشن کی بحالئی جمہوریت تحر یک کی پرزور حمایت کی جس کے نتیجے میں آپ کو حیدرآباد میں اپنےحلقہ انتخاب میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
85ءکے غیر جماعتی انتخابات کا بائکاٹ کیا ،جماعت کے دیگر رہنما الیکشن اور جونیجو حکومت کا حصہ بنے
بعد ازاں افغان جہاد کی شدید مخالفت اور 1985 ءکے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے عام انتخابات کے بائیکاٹ کے نتیجے میں آپ کی شخصیت داخلی سیاسی محاذ پرمسلسل غیر فعال ہوتی چلی گئی۔ اس خلا کو پر کرنے کےلئے طالب علم رہنما اور نوجوانوں میں وسیع تر مقبولیت کی حامل شخصیت حاجی حنیف طیب ، عبدالمصطفی الازہری،علامہ شاہ تراب الحق ، مفتی ظفر علی نعمانی ، حافظ محمد تقی اوردوست محمد فیضی جیسے فعال اور عملیت پسند رہنما آگے بڑھے اورانہوں نے سیاسی میدان اپنے مخالفین کے لئے کھلا چھوڑنے کی بجائے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا۔ان انتخابات میں نظام مصطفی گروپ کو بھرپور کامیابی ملی اور یوں جمعیت کے عملیت پسند رہنماؤں کو حاجی حنیف طیب کی قیادت میں محمد خاں جونیجو کی سربراہی میں بننے والی مسلم لیگ کی حکومت میں شمولیت کا نادر موقع ہاتھ آگیا۔
غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہونے والے بلدیاتی اور عام انتخابات نے ملک میں کرپشن ، برادری ازم ، لسانی و مذہبی تعصبات اور روپے پیسے کی سیاست کو فروغ دیا ۔سیاست کا ماحول یوں بدلا کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے مخلص اور نظریاتی کارکنان پس منظر میں چلے گئے اور مفاد پرست افراد نے ا ن کی جگہ لے لی۔ تعلیم ، صحت ،روزگاراور دیگر سنگین شہری مسائل کے شکار رائے دہندگان نے قومی معاملات اور نظریاتی سوچ کے حامل باکردار اور باصلاحیت مگر کم وسیلہ افراد کی بجائے اپنی نمائندگی کے لئے اپنے ذاتی مفادات ، گروہی و مذہبی تعصبات اورمقامی حالات کے محدود تناظرمیں ایسے با اثر اور مال دارافراد کا چناؤ شروع کردیا جو حکومتی حلقوں میں اپنے تعلقات یا مختلف مافیاز کے ساتھ قریبی روابط کی بنا پر ان کے کام آسکیں۔
اس بدلتے سیاسی و سماجی ماحول میں مولانا شاہ احمد نورانی جیسے قومی سوچ اور پاکیزہ کردار کی دولت رکھنے والے بے وسیلہ قائدین کی گنجائش کم ہوتی چلی گئی اور تیزی سے جنم لیتے شہری مسائل نے مذہبی قیادت اور مارشل لا کے مختلف ادوار میں پروان چڑھنے والے نوجوان ووٹروں کے مابین وہ خلیج پیدا کردی جس نے آگے چل کرپہلے حادثاتی طور پرمہاجر قومی موومنٹ اور پھر متحدہ قومی موومنٹ کی تشکیل اور بے پناہ مقبولیت میں مدد دی-
ضیائی آمریت کی مخالفت کی پاداش میں مولانا کی جماعت کو داخلی انتشار سے دوچار کیا گیا
جنرل ضیا کی افغان جہاد پالیسی اور جمہوریت کش اقدامات کی شدید مخالفت کے باعث آپ کی اندرون ملک اور بیرون ملک نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں-ایجنسیوں کی مدد سے آپ کے ہم نوا ساتھیوں کومختلف ترغیبات کے ذریعے آپ سے بدظن کرنے اور جماعت مین داخلی انتشار کو ہوا دینے کی مجرمانہ کوششیں کی گئیں۔
جمعیت علمائے پاکستان کا شیرازہ کیوں بکھرا ؟
شاہ احمد نورانی حیرت انگیز طور پر کسی مدرسہ کے مہتمم، کسی خانقاہ کے متولی یا کسی کاروباری ادارہ کے سربراہ نہ تھے۔ اس لئے انہیں ان کے متبعین کو روزمرہ بنیادوں پر درپیش مالی، انتظامی اور دیگر پیچیدہ مسائل و مشکلات سے نبٹنے کا کوئی عملی تجربہ نہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ شدید مسائل کے شکار ان کے مذہبی کارکنان خاص طور پر مدارس دینیہ اور خانقاہوں سے وابستہ مذہبی اشرافیہ کے لئے ان کی بے غرض اور آزاد منش طبیعت کا اتباع دن بدن مشکل ہوتا چلا گیا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق آپ کی مثالیت پسندی ، سخت گیر طبیعت ، عوام سے عدم رابطہ، ظہورالحسن بھوپالی، حاجی حنیف طیب، علامہ ازہری، رفیق باجوہ اور علامہ عبدالستار خاں نیازی جیسے تجربہ کار ساتھیوں کی مفارقت اور حکومتی سطح سے کی جانے والی غیر جمہوری کوششوں کے نتیجے میں ملک کے سواد اعظم کی نمائندہ مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء پاکستان کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا- یہی وجہ ہے کہ اسی کی دہائی میں پاکستان کی سیاست میں رونما ہونے والے اخلاقی قدروں کے زوا ل، منافقت و ضمیر فروشی ، سول و عسکری اشرافیہ کی بے لگام حرص وہوس اور تیزی سے بدلتے بین الاقوامی حالات کے تناظر میں ان کی جماعت نے مختلف قومی امور پر اپنا اصولی مؤقف تو سختی سے اپنائے رکھا لیکن عوامی سطح پر سیاسی حوالے سے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہ کرسکی۔
بایں ہمہ نو آموز رکن قومی اسمبلی ہونے کی حیثیت سے آپ نے جس سماجی شعور، بالغ نظری، دینی حمیت ، سیاسی بصیرت، قائدانہ صلاحیت اور صبرو استقامت کا مظاہرہ کیا وہ ہماری پارلیمانی تاریخ کا ایک روشن باب ہے- بات کرنے کا ڈھنگ اور اپنی بات منوانے کا اسلوب وہ خوب جانتے تھے -حق وصداقت کی نشانی ، شاہ احمد نورانی کا نعرہ، زبان خلق بن کر ان کی پہچان بن گیا ۔ بین الاقوامی سطح پر ورلڈ اسلامک مشن اور دیگر علمی و تعلیمی اداروں کے قیام کے علاوہ انہوں نے نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ اور مقام مصطفی ﷺ کے تحفظ کی اصطلاحات کو قومی زندگی کے تمام شعبوں میں متعارف کروانے اور دنیا بھر میں سامراجی عزائم کو نا کام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحٖفظ ، متفقہ دستور کی تدوین اور اس میں اسلامی دفعات کی شمولیت ، خان عبدالولی خان اور بھٹو جیسے سیکولر رہنماوں سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلانا اور انہیں دلائل سے قائل کرکے مسلمان کی متفقہ تعریف دستور پاکستان میں شامل کرانا آپ کی تاریخی کامیابی قرار دی جاسکتی ہے-
علامہ نورانی کا 33 سالہ سیاسی کیریئر جرات اظہار سے عبارت ہے
اپنے 33 سالہ سیاسی سفر کے دوران ان کی زندگی میں بڑے خطرنا ک موڑ آئے۔ناؤ نوش کے شوقین جنرل یحیٰ خان کو اس کی قومی معاملات میں غیرسنجیدگی، شراب نوشی اور مذموم سیاسی عزائم پر اس کے ساتھیوں کی موجودگی میں لٹاڑا۔
بھٹو مرحوم نے 1970ء کے عام انتخابات کے بعد جب نومنتخب اراکین اسمبلی کو ڈھاکہ میں بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے روکا اور انہیں ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی تو مولانا نورانی ؒ نتائج کی پروا ہ کیے بغیر بڑی شان و جرءت کے ساتھ ڈھاکہ گئے ، اکثریتی پارٹی کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان سے ملاقات کی اور اسے ملک کے وسیع تر مفاد میں دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کیا۔
بھٹو دور میں جھوٹے مقدمات بنائے گئے ،کراچی میں ایم کیو ایم کی تشدد آمیز سیاست کو ہمیشہ للکارا
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے، لاہور میں ان کی دستار شکنی کی گئی، کوٹ ادو اور دیگر مقامات پر فائرنگ ہوئی، جنرل ضیاء الحق کو اس کے منہ پر غاصب اوراس کی حکومت کو غیر آئینی کہا، عراق پر امریکی حملہ کی کھل کر مخالفت کی اور امریکی جارحیت کے خلاف ملک بھر میں جلسے اور ریلیاں نکالیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی لسانی سیاست کے خلاف وہ تنہا شخص تھے جو گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی اپنے مؤقف کی صداقت پر ڈٹے رہے اور ایم کیو ایم کو کبھی بھی ایک سیاسی جماعت کے طور پر قبول نہیں کیا۔ قادیانیوں کی طرف سے قومی اسمبلی اور سینٹ میں ان کے خلاف قرار داد پیش نہ کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کے عوض کروڑوں روپے کی پیش کش کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا۔
نواز شریف نے 1979 کے مجوزہ انتخابات کے لئے جے یو پی کا ٹکٹ مانگا اور بھاری چندے کی پیشکش کی
1979 ء کے مجوزہ انتخابات کے موقع پر نواز شریف نے جماعت کے لیے بھاری چندہ کے عوض جمعیت علماء پاکستان کے کوٹہ سے قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے حصول کی درخواست کی تو نورانی میاںؒ نے یہ پیشکش سختی سے مسترد کردی۔ المختصر ترغیب و تحریص اور خوف و دہشت کے تمام ابلیسی ہتھکنڈے ان پر آزمائے گئے۔دشنام طرازی،کردار کشی، بچوں کے اغواءو قتل کی دھمکیاں، وزارت و صدارت کی پیش کش، قیدو بند کی صعوبتیں ، زبان بندی و سیاسی مقاطعہ، احباب کی جدائی و بے اعتنائی، رفقاءکی مجبوریاں ، جماعتی گروہ بندیاں ور اہل خانہ پرویزہ کی پابندیاں سب کچھ ہو ا مگر ان کے پائے استقامت میں ذرہ بھر لغزش نہیں آئی – سیاست کو کبھی پیشہ یا مشغلہ نہیں ہمیشہ عبادت سمجھا ۔ جسے حق سمجھا اس پر تا حیا ت استقامت سے ڈٹے رہے اور جسے باطل گردانا اس کی ناپاک گرد بھی اپنے دامن پر نہ پڑنے دی۔ وہ عمر بھر خوف و حزن سے پاک قلب سلیم لئے، زندگی کے صراط مستقیم پر ابدی سعادتوں کی منزل کی جانب گامزن رہے ۔
گیارہ دسمبر 2003 یوم وفات
آخر کا ر قومی سیاست کا یہ مر د درویش ، جادہء حق و صداقت کا سچا راہی ، نظام مصطفی کا داعی ، مقام مصطفٰی ﷺ کا محافظ ، عالم اسلام کا عظیم سپاہی، مولیٰ یاصل وسلم دائم ابدا کا ورد کرتے11دسمبر2003ءبروز جمعرات دوپہر ایک بجے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا اور پوری امت مسلمہ کو سوگوار کر گیا ۔اللہ پاک ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کی تمام دینی اور ملی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔
یہ بھی پڑھیں