آہ! مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی
عبدالخالق ہمدرد
کل رات ایک مجلس میں جانا ہوا۔ رات کافی گزر چکی تھی۔ اچانک ایک شخص نے آ کر یہ جانکاہ خبر سنائی کہ مفتی رفیع عثمانی صاحب فوت ہو گئے ہیں اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ ٹی وی پر پٹی چل رہی ہے۔ میرے لئے یہ خبر غیر متوقع ہونے کے ساتھ ساتھ جگر خراش بھی تھی۔ بھاگ کر ٹی وی پر نظر ڈالی تو واقعی پٹی چل رہی تھی۔ زبان سے بے ساختہ انا للہ نکلی اور واپس دوسرے کمرے میں آ گیا۔
کچھ لوگوں کی وفات کی خبر پر یقین نہیں آتا
موت ایک حقیقت ہے اور اس سے کسی کو مفر نہیں لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی وفات اور انتقال کی خبر کا یقین نہیں آتا یا یوں کہہ لیجئے کہ آدمی اپنے دل کو حوصلہ دیتا ہے کہ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ اس کی ایک بہت واضح مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رویہ تھا۔ موت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے لیکن فاروق اعظم اس خبر کو سننا نہیں چاہتے تھے۔
مفتی صاحب کے اسلوب گفت گو نے سحر میں جکڑ لیا
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد رفیع رحمہ اللہ تعالیٰ کو پہلی بار کوئی تیس برس قبل دار العلوم کراچی کی پرانی مسجد میں دیکھا اور سنا تھا اور اس ایک مجلس نے اپنی محبت کے سحر میں گرفتار کر لیا۔ مجھے اس محفل میں ان کی باتیں اور اسلوب گفتگو بہت پسند آیا۔ بعد کے دنوں میں آپ کی جمعے کی تقریر بارہا سنی لیکن اس اسلوب میں کوئی فرق نہیں آیا۔
آپ دار العلوم کے مہتمم تھے اور مہتمم کو وہاں کی اصطلاح میں صدر کہتے ہیں۔ آپ گاہے بگاہے طلبہ سے اجتماعی خطاب فرمایا کرتے تھے۔ ہم چونکہ اس زمانے میں ابتدائی درجات میں تھے، اس لئے درسگاہ میں آپ سے مستفید ہونے کا موقع نہیں مل سکا۔ صدر دار العلوم ہونے کی وجہ سے آپ کا ایک رعب ضرور تھا لیکن جب طلبہ سے خطاب فرماتے تو “میرے بچو!” کا لفظ اس پیار سے بولتے تھے کہ واقعی ایک شفیق باپ کے الفاظ جیسی حلاوت محسوس ہوتی تھی۔
پوزیشن نہ لینے والے طلباء کی حوصلہ افزائی
امتحانات کے نتائج کے دن آپ کا خطاب ضرور ہوتا تھا اور اس میں آپ سب سے پہلے پوزیشن لینے والے طلبہ کو مبارکباد دیتے اور اس کے بعد ناکام ہونے والوں کو حوصلہ دیتے کہ “بھئی اس بار جو کمی کوتاہی رہ گئی ہے وہ کوشش کر کے اگلے امتحان تک پوری کر لیں تو آپ بھی انعام کے مستحق ہو سکتے ہیں”.
اس خطاب کے بعد نتائج کا اعلان ہوتا تھا۔ اس زمانے میں انعامات میں کتابیں، کپڑے، واسکٹ اور “ڈیوڑھا وظیفہ” شامل ہوتا تھا۔ ہم جیسے طلبہ کے لئے ڈیوڑھا وظیفہ بہت اہم ہوتا تھا۔ نتائج کی یہ مجلس کبھی حضرت ناظم صاحب مولانا سحبان محمود رحمہ اللہ تعالیٰ اور کبھی حضرات شیخین میں سے کسی ایک یا مولانا شمس الحق رحمہ اللہ کی دعا پر اختتام پذیر ہوتی تھی۔
حضرت صدر صاحب طلبہ سے بہت محبت فرماتے تھے اور ان کی آسائش اور آرام کا اسی طرح خیال رکھتے تھے جیسے اپنے بچوں کا رکھا جاتا ہے۔ میں نے دار العلوم کے تین برسوں میں کبھی آپ کو غصے میں نہیں دیکھا۔ آپ طلبہ سے ہمیشہ شفقت اور محبت کا برتاؤ فرماتے تھے۔ طلبہ کو یہ بات معلوم تھی کہ اگر صدر صاحب ایک بار کوئی درخواست منظور نہ کریں تو دوسری بار درخواست دینی چاہئے، منظور ہو جاتی ہے۔
نفاست کے پیکر ،سلام میں پہل کرنے والے
آپ کے مزاج میں بلا کی نفاست تھی جو آپ کی مخصوص ٹوپی اور لباس سے عیاں ہوتی تھی۔ اپنے اس عظیم مرتبے اور دار العلوم کے صدر ہونے کے باوجود ان سے سلام میں کوئی آگے نہ بڑھ سکتا تھا۔ بعض اوقات ہم دوست آپس میں طے کرتے کہ آج صدر صاحب کو پہلے سلام کرنا ہے اور اسی انتظار میں ہوتے لیکن مسجد کی طرف آتے ہوئے ہم پر نظر پڑتی تو فوراً سلام علیکم کہہ دیتے۔ یہی عادت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی بھی ہے۔
صدر صاحب کی ہر عادت نرالی تھی اور طلبہ کے لئے ہر عادت میں شفقت ہی شفقت ہوتی تھی۔ طلبہ کی درخواست پر بہت سے امور بدل دئے جاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ہم طلبہ کے خادم ہیں۔
حضرت کی جمعے کی تقریر سننے کے لئے لوگ دور دور سے آتے تھے جبکہ دار العلوم کی پرانی مسجد میں گنجائش کم ہوتی تھی۔ اس لئے پہلے جمعے کے دن برآمدے میں شامیانے لگائے جاتے تھے مگر بعد میں ٹین کی مستقل چھت ڈال دی گئی۔ ہم طالب علمی کے لا ابالی پن کے باوجود تقریر سننے جاتے تھے۔
لوگ یورپ سے برائیاں تو ساتھ لاتے ہیں خوبیاں نہیں
ایک بار آپ یورپ کے دورے سے واپس آئے تو دو تین جمعے اس سفر پر تبصرہ فرمایا۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ یورپ میں نظم وضبط ہے، عدل وانصاف ہے اور خرابیاں بھی بہت ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے جو لوگ وہاں جاتے ہیں، وہ یورپ کی خرابیاں تو اپنے ساتھ لے آتے ہیں لیکن وہاں سے خوبی کوئی نہیں لاتے۔
حضرت مفتی صاحب سے آٹو گراف لینے کا قصہ
دار العلوم میں تعلیم کے پہلے سال کے اختتام پر میں نے اپنے اساتذہء کرام سے دستخط لئے۔ میری خوش نصیبی کہ اس دن حضرت صدر صاحب سے بھی دستخط لیا۔ اس کی روداد 12 جنوری 1993 کی ڈائری میں یوں درج ہے:
“عشاء کے بعد حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو ان کے انتظار میں رہا کہ کب نماز سے فارغ ہوں تو میں ڈائری آگے کروں۔ چنانچہ جب نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے ڈائری سامنے کی۔ آپ نے ڈائری لی اور پوچھا کہ کس درجے میں پڑھتے ہیں۔ میں نے اولی بتایا۔ انہوں نے ڈائری پر صرف یہ لکھا “العلم لا یعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک” (علم آپ کو اس وقت تک کچھ نہیں دے گا جب تک تم اپنا سب کچھ اسے نہ دے دو). پھر دستخط کیا اور اپنے روایتی انداز میں سلام علیکم کہہ کر چل دئے۔
آج اٹھائیس برس بعد اس تحریر کو دیکھا تو آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ وہ نفیس اور عظیم انسان آج ہم میں نہیں رہے۔ واقعی کسی شاعر نے سچ کہا ہے کہ :
یدوم الخط فی القرطاس دہرا
وکاتبہ رمیم فی التراب
(صفحہء قرطاس پر خط ایک زمانے تک باقی رہتا ہے جبکہ اس کو لکھنے والا پیوند خاک ہو چکا ہوتا ہے)۔
اور پشتو میں ایک اور شعر ہے کہ:
گوتہ قلم تہ را بہ جڑا شو
خط بہ باقی وی مونگہ تورے خاورے شو
(انگلی قلم کے سامنے رو پڑی اور کہا کہ خط باقی رہ جائے گا اور ہم سیاہ خاک ہو جائیں گے).
دارالعلوم کی جدید تعمیرات مفتی صاحب کے اعلی ذوق کی آئینہ دار
العلوم کی نئی تعمیرات حضرت صدر صاحب کے اعلیٰ ذوق اور نفاست کی آئینہ دار ہیں۔ آپ اس عظیم منصوبے کی نگرانی بنفس نفیس کرتے تھے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے آپ کو بار بار وہاں کام کا جائزہ لیتے دیکھا اور وقف مال کا اس قدر خیال فرماتے کہ تعمیرات کے دوران نکلنے والی زائد مٹی بھی باہر نہیں پھنکوائی۔ اسی طرح مسجد کی تعمیر کے دوران بھی اسی تندہی اور فرض شناسی کا مظاہرہ فرمایا۔ ہمارے بعض احباب نے بتایا کہ جب مینار کا کلس لگایا گیا تو پیرانہ سالی کے باوجود آپ نے اوپر چڑھ کر دیکھا اور اطمینان کر لیا کہ کام ٹھیک ہوا ہے۔
الغرض حضرت صدر صاحب کی شخصیت محبت، شفقت، رواداری، حسن انتظام اور حسن تدریس کا ایک نمونہ تھی۔ آج دنیا اس انجمن سے محروم ہو گئی ہے اور گلشن عثمانی کا وہ عظیم پھول اپنے اسلاف صالحین کی محفل میں پہنچ گیا ہے۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔
لاکھوں شاگرد یتیم ہوگئے
حضرت صدر صاحب کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ تو کبھی پر نہ ہو سکے گا کیونکہ ہر انسان دنیا میں ایک ہی بار آتا ہے لیکن وہ اپنے پیچھے جو لواحقین چھوڑ کر گئے ہیں، ان سے امید یہی ہے کہ ان شاء اللہ وہ ان کی اس علمی میراث کو مزید ترقی دیں گے اور ان شاء اللہ دار العلوم کراچی کا یہ سفر یوں ہی جاری وساری رہے گا۔
آپ کی وفات سے صرف دار العلوم یا خانوادہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ، ہی متاثر نہیں ہوا، بلکہ آج آپ کے وہ لاکھوں شاگرد بھی یتیم ہو گئے ہیں جو دنیا کے گوشے گوشے میں دین کی ترویج کے لئے کوشاں ہیں۔ بلا شبہہ آپ کی دینی خدمات کو تا قیامت یاد رکھا جائے گا۔
دکھ کی اس گھڑی میں میں حضرت کے جملہ خاندان اور لواحقین سے عمومی اور اپنے استاد محترم حضرت مولانا زبیر اشرف عثمانی صاحب مد ظلہ العالی سے خصوصی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں کہ غم کے اس لمحے ہمارا دل بھی انہی کی طرح رنجیدہ ہے کیونکہ حضرت صدر صاحب جس طرح ان کے حقیقی والد تھے، اسی طرح ہمارے روحانی باپ تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ صدمہ سہنے کی توفیق بخشے اور حضرت صدر صاحب کے درجات بلند فرمائے۔
اللهم اغفر له وارحمه، وعافه واعف عنه، واكرم نزله ووسع مدخله، واغسله بالماء والثلج والبرد، ونقه من الخطايا كما نقيت الثوب الابيض من الدنس، وابدله دارا خيرا من داره، واهلا خيرا من اهله، وزوجا خيرا من زوجه، وادخله الجنة واعذه من عذاب القبر.