پیرنٹنگ کے چار انداز
میرے ایک دوست نے اپنے گھر کا واقعہ سنایا اور کہنے لگے۔ کہ ایک مرتبہ ہم نے اپنے ایک عزیز کی فیملی کو جب وہ چھٹیاں گزارنے شہر سے گاوں آئی تھی۔ اپنے گھر کھانے پر مدعوکیا ۔وہ اپنے بچوں کو لے کر آئے اور ایک پورا دن ہمارے ساتھ گزارا،۔وہ دن آج تک ہم نہیں بھولے۔ ان کے بچے تھے اللہ کی پناہ۔ دن بھر لڑائی، چیخنا چلانا، رونا دھونا، گالم گلوچ، گھر میں ادھم مچانا اور چیزوں کوپھینک پھینک کر توڑناوغیرہ ۔غرض انسان کے سکون کوبرباد کرنے والی تما م حرکتیں ان میں موجود تھیں۔
لیکن ان کے ماں باپ کو یہ سب کچھ محسوس ہی نہیں ہورہاتھا ۔وہ بالکل پرسکون تھے اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔ اوراپنے بچوں کو ان حرکتوں سے منع بھی نہیں کررہے تھے۔ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ سب کچھ ان کے لئے نارمل ہے۔ جبکہ ہمیں شدت سے یہ سب کچھ محسوس ہورہا تھا ۔لیکن مہمانوں کی لحاظ داری میں صبراور برداشت سے کام لے رہے تھے۔ اللہ اللہ کرکے شام کو جب وہ اپنے گھرلوٹے تب ہم نے عافیت کا سانس لیا ۔اور اگلے دن وہ سب کچھ دوبارہ سے ٹھیک کروانا پڑا جو یہ بچے کرکے گئے تھے۔
گھر کا ماحول بچوں پر اثرانداز ہوتاہے
دراصل یہ گھر کا ماحول اور والدین کی تربیت کا انداز ہوتا ہے۔ جوبچوں کو اس طرح کی عادات اور مزاج کا حامل بناتا ہے۔والدین اپنے بچوں کی تربیت کس انداز سے کرتے ہیں؟ اور اس دوران ان کے کیاکیا طریقہ کار ہوسکتے ہیں؟ کونسا طریقہ کار موثر ،بہتر اور کونسا طریقہ کا رغلط، غیر موثر یا نقصان دہ ہے؟درحقیقت والدین کا انداز تربیت ہی ہوتا ہے۔ جو بچوں کو اچھی بری عادات اپنانے کے لئے موقع عطاکرتا ہے۔
والدین کی طرف سے اپنائے جانے والے مختلف انداز تربیت پر1960کی دہائی میں ایک امریکن سائیکلوجسٹ ڈاکٹرہاؤم رنڈ نے ریسرچ کی ۔جس کے نتیجے میں بچوں کی تربیت کےحوالے سے والدین کےچار انداز سامنے آئے۔ یہاں ہم ان چاروں انداز تربیت کے ساتھ ان کے منطقی نتائج کو بھی بیان کریں گے۔ تاکہ والدین کو اپنے انداز تربیت کا جائزہ لینے کا موقع مل سکے۔ اور پھر تجزیہ کرکے بہترانداز تربیت اپنا سکیں۔
بے توجہی اور غفلت بھرا انداز۔
والدین کاایک انداز بچوں سے بے توجہی اور غفلت اختیار کرنے کاہوتا ہے۔گویا ان والدین کے لئے کام کے مقابلے میں بچے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔ وہ اپنے بچوں کے خواب، خیالات، جذبات اور سوچوں کو یکسرنظر انداز کردیتے ہیں۔ان کی ضروریات کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔یہ انداز بعض والدین یا توشدید غربت کی وجہ سے اختیار کرلیتے ہیں ۔یاوہ بہت زیادہ کام کے لوڈ کی وجہ سے ایسا کرسکتے ہیں۔یاو ہ کسی وجہ سے جذباتی طور پرشدید متاثر ہوچکے ہوتے ہیں اس لئے ایسا کرسکتے ہیں۔ نیز گھریلو ناچاقیوں ، طلاق کی نوبت یابعض والدین محض اپنی سستی و کاہلی کی وجہ سے بھی ایسا رویہ ۔اختیارکرسکتے ہیں
اس انداز تربیت کی وجہ سے بچے اور والدین عملی طور پر ایک دوسرے کے لئے غیر اہم ہوجاتے ہیں۔ والدین کی اس طرح کی غفلت اور بے توجہی پر مبنی پیرنٹنگ سےبچے ذہنی وجذباتی طور پرشدید ڈسٹرب ہوسکتے ہیں۔ ان میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے۔ نیز ان میں متلون مزاجی کی کیفیت بھی جنم لے سکتی ہے۔ ان میں سلیف اسٹیم ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ زندگی میں کوئی بڑا تصور سوچنے کے قابل نہیں رہتے۔یہ انتہائی نقصان دہ طرز عمل ہے جس سے نسل جذباتی طورپر تباہی کا شکار ہوسکتی ہے۔لہذا والدین کو اس انداز تربیت کو ترک کرنا چاہیے۔
سہولت پسنداور غیر منظم انداز تربیت۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین بچوں کو اپنی سہولت کی خاطریا بہت زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے غیر منظم انداز میں بالکل ڈھیلاچھوڑدیں۔ان کے لئے اہداف اورٹارگٹ بنانے سے گریز کریں۔ ان سے کسی کام کا مطالبہ بھی نہ کریں۔ بلکہ ہروقت ان کے مطالبات ہی پورے کرنے میں لگے رہیں۔ ان کو سکھانے اور بتانے سے یہ کہہ کر گریز کریں ۔کہ بڑے ہوکر خود ہی سیکھ جائیں گے۔ یوں اپنی غیر منظم اور غیر ذمہ دارانہ پیرنٹنگ کے انداز سے ان کونہایت سہولت پسندی کا عادی بنائیں۔
ان کے غلط رویوں کو بھی نظر انداز کریں۔ اور بحیثیت والدین نہایت ڈھیلے پن کا مظاہرہ کریں ۔جس سے بچوں میں تساہل پسندی، کاہلی اور سستی کا رجحان پیداہوجائے۔ اور ان میں زندگی کی مہارتیں ناپید ہوجائیں۔ والدین کا یہ رویہ بچوں کے مستقبل کے لئے نہایت تشویشناک ہوسکتا ہے۔ اس انداز تربیت سے اگرچہ بچے اوروالدین میں جذباتی تعلق مضبو ط ہوتا ہے۔ لیکن عملی زندگی میں شدید ناکامی کی وجہ سے بعد میں باہمی تلخیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔والدین کو اس انداز تربیت سے بھی نکلنے کی ضرورت ہے۔
:آمریت پرمبنی اندازتربیت
بچوں کی تربیت کا یہ اندازنہایت سختی اور سخت گیر ی پر مبنی ہوتا ہے۔اس میں والدین بچوں کی حقیقی صلاحیتوں کو پیش نظر رکھے بغیر ان سے بہت بڑی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔ اورپھر ان کو پورا کرنے کے لئے بچوں پر نہ صرف دباؤ ڈالتے ہیں ۔بلکہ نہایت شدت پرمبنی رویہ اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ والدین اپنے بچوں پر سخت کنٹرو ل بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ والدین کے سامنے بچوں کے جذبات، خیالات، احساسات اور جائز خواہشات کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
ان کو محض روبوٹ کی طرح کام نمٹانا پڑتا ہے۔ اگر کاموں میں کوتاہی کریں تو والدین انہیں سختی، ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ جسمانی سزا اور ذہنی سزا سے بھی دوچار کردیتے ہیں۔اس انداز تربیت کو اپنانے والے والدین بچوں سے کوئی کام کروانے کے لئے ان کوسمجھانے یادلیل سے قائل کرنے کی بالکل ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ بلکہ اس کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ یہ والدین اپنے بچوں کو اتنا آرڈر کردینا کافی سمجھتے ہیں۔ کہ تم یہ کرو کیونکہ ہم نے کہہ دیا ہے۔ یا اسی سے ملتی جلتی اور بھی علامات ہیں۔
آمریت پرمبنی پیرنٹنگ کے نقصانات
یہ انداز تربیت اگرچہ وقتی طور پر بچوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے کافی موثر معلوم ہوتا ہے۔ لیکن طویل مدتی اثرات کے لحا ظ سے نہایت غیر مفید بلکہ شدید نقصان دہ ہوتا ہے۔کیونکہ بچوں سے جیسے ہی والدین کا پریشر ہٹ جاتا ہے۔ تو بچے اپنی من مانی شروع کردیتے ہیں۔وہ محض پریشر میں آکر کام کررہے ہوتے ہیں اندر سے اس کام کا شوق اور کرنے کا جذبہ ان میں بالکل نہیں پایاجاتا ۔بلکہ وہ شدید بیزاری کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔ پیرنٹنگ کے اس انداز میں والدین سے بچوں کے تعلقات اچھے نہیں ہوتے۔ بلکہ والدین سے جذباتی طورپربچے دور ہوجاتے ہیں۔
اس طرح کے انداز تربیت سے بچوں کے مزاج اور طبیعت میں چڑچڑاپن او ر غصہ حاوی ہوجاتا ہے۔ان میں قوت فیصلہ اور تخلیقی صلاحیتیں ختم، جبکہ خوداعتمادی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ وہ اندر سے لاوا کی طرح پک رہے ہوتے ہیں۔ جیسے ہی والدین کا پریشر ہٹ جاتا ہے۔ یہ بچے کھل کر اپنی نفرت کا اظہار کردیتے ہیں۔یہ انداز تربیت بھی فورا چھوڑدینے کے قابل ہے۔
:ذمہ دارانہ اور مثبت اندازتربیت
والدین کی طرف سے تربیت کا یہ انداز ذمہ دارانہ،تعمیری اور مثبت ہوتا ہے۔اس میں والدین اپنے بچوں کی حقیقی صلاحیتوں کے مطابق ان سے مثبت توقعات رکھتے ہیں۔بچوں کواپنی ان توقعات اورساتھ ہی ان کی افادیت اور حکمت سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ مستقبل کا ہدف اور خواب معلوم کرنے میں بچوں کی مدد کرتے ہیں۔ ان کو محنت،جدوجہد اور خودانحصاری پر قائل کرنے کی کوشش حکمت سے کرتے رہتے ہیں۔
غرض ان کوواضح ہدف دے کر اس ہدف کو حاصل کرنے کا طریقہ بھی بتلاتے ہیں ۔ا س حوالے سے ان کو موٹیویٹ بھی کرتے ہیں ۔اور ساتھ ہی ان سے رزلٹ کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔ تربیت کے اس انداز میں والدین خود اپنی ذمہ داری کوپوری طرح محسوس کرتے ہیں ۔اور بچوں کوبھی ذمہ داربنانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس انداز تربیت میں بچوں پر غیر ضروری پریشر نہیں ڈالاجاتا ۔البتہ ان کے جذبات، رجحانات، خیالات اور صلاحیتوں کے مطابق ان سے کام کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔غلطی کرنے پر بچے کوخود نتائج بھگتنے کا موقع دیا جاتا ہے۔
معتدل انداز تربیت کے مثبت اثرات
غرض یہ معتدل انداز تربیت ہے۔ جس میں والدین خود ذمہ داری قبول کرتے ہوئےبچوں کوبھی ذمہ دار بنانے کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔ تاہم اس عمل کے دوران بچے سے تعلقات کوبھرپور اہمیت دیتے ہیں ۔کسی قیمت پر انہیں خراب نہیں ہونے دیتے۔کیونکہ بچوں سے مضبوط تعلقات کی مضبوطی ہی جامع اور معیاری تربیت کی بنیاد اور ضمانت ہوتے ہیں۔
اس انداز تربیت کا فائدہ یہ ہوتا ہے ۔کہ والدین اور بچوں میں تعلقات اچھے ہوتے ہیں۔ بچے ذمہ داری کامظاہر ہ کرنے لگتے ہیں۔ ان کو کاموں میں اختیار اور چوائس دینے کی وجہ سے کام سے ان کا جذباتی تعلق ہوتاہے۔ان میں قوت فیصلہ مضبوط ہونے کے ساتھ اپنے ہدف کی طرف بڑھنے کا پختہ عزم پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ بچے جذباتی طور پر نارمل اور خوداعتماد ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اپنی خوشی اور خواہش سے کام کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ ان کے سامنے والدین موجود ہوں یا نہ ہوں یہ درست راستے سے انحراف کرنے کی شعوری کوشش نہیں کرتے۔ ان بچوں میں تصور ذات اور سیلف اسٹیم بھی مضبوط ہوتی ہے۔والدین کے لئے یہی وہ انداز تربیت ہے جس کو اختیار کرکے وہ بہترین پیرنٹنگ کرسکتے ہیں۔