Tuesday, November 19, 2024
HomeArticles12ربیع الاول آمد مصطفیﷺکے مقاصد اور تقاضے

12ربیع الاول آمد مصطفیﷺکے مقاصد اور تقاضے

آمد مصطفیﷺہوئی کفر روانہ ہو گیا

جس کے حضور ہو گئے اس کا زمانہ ہوگیا

12ربیع الاول آمد رسول ﷺ کا دن ہے جس دن کہ سر کار علیہ الصلواۃوالسلا م اس دنیا میں تشریف لائے اور اس عالم رنگ وبو کو عزت بخشی آقا علیہ السلا م کی آمد کے ساتھ ہی آتش کدہ ایران سرد پڑ گیا مدتوں سے اس آتش کدے میں برابر آگ جل رہی تھی جو کبھی سرد نہ ہتی تھی آگ کی پوجا کرنے والے لوگ اسے سرد نہ ہونے دیتے تھے

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا

دوشنبے کا دن تھا سحر کا اجالا

وہ مکے میں پیدا ہوا کملی والا

12ربیع الاول سحر کا ہلکا ہلکا اجالا تھا اور صبح بڑی جاںفزا تھی جب میرے آقا اس دنیا میں تشریف لائے کریم مصطفی ﷺ کی آمد ہوئی تو تڑپتی سسکتی اور بلکتی ہوئی انسانیت کو قرار مل گیا آمد مصطفی ﷺہوئی تو کائنات کی ہر شے جھوم جھوم اٹھی ہر طرف خوشیوں کے ترانے تھے کہ  حضورﷺ آگئے ہیں خالق کائنات نے بھی اس رحمت والے آقائے مصطفی ﷺ کی آمد کو قرآن میں بیان کرتے ہوئے  خوشی سے فرمایا

لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ  بَعَثَ  فِیْهِمْ  رَسُوْلًا  مِّنْ  اَنْفُسِهِمْ  یَتْلُوْا  عَلَیْهِمْ  اٰیٰتِهٖ  وَ  یُزَكِّیْهِمْ  وَ  یُعَلِّمُهُمُ  الْكِتٰبَ  وَ  الْحِكْمَةَۚ-وَ  اِنْ  كَانُوْا  مِنْ  قَبْلُ  لَفِیْ  ضَلٰلٍ  مُّبِیْنٍ(164)

ترجمہ: کنزالعرفان

بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے ۔ وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناکھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے

مقاصد آمد رسولﷺ

نبی ﷺ کی آمد کے جو مقاصد اللہ تبارک وتعالی نے بیان فرمائے ہیں ان میں پہلے تو اللہ تبارک وتعالی نے اپنے احسان کو بیان فرمایا کہ یہ میرا مومنوں پر احسان ہے جس پر ہمیں چاہئیے کہ اللہ تبارک وتعالی کا شکر ادا کریں

آمد رسول ﷺ کا پہلا مقصد آیات قرآنی کی تلاوت

آمد رسول ﷺ کا پہلا مقصد آیات قرآنی کی تلاوت ہے وہ قرآن کریم سے استدلال فرما کر عرب کے اس وحشی معاشرے تک پیغام حق پہنچایا کرتے تھے

آمد مصطفی ﷺ کادوسرا مقصدتزکیہ نفس

آمد نبی ﷺ کا دوسرا مقصد نفوس کا تزکیہ ہے عرب کے اس معاشرے میں جہان ظلم بر بریت لوٹ مار قتل وغارت گری اپنے عروج پر تھی اور لوگ اپنے جرائم پر شرمندہ ہونے کے بجائے برملا اپنے اشعار  میں ان کے تذ کرے کیا کرتے تھے پھر جب ان لوگوں کا نبی ﷺ  نے تزکیہ فرمایا تو ایک دوسرے کی جان ومال کے دشمن ایک دوسرے کے محافظ کے بن گئے

آمد مصطفی کا تیسرا مقصد کتاب کی تعلیم

پیغمبر ﷺ کی آمد کا تیسرا مقصد عرب کے اس معاشرے کو اللہ کریم کے احکامات کی تعلیم دینا تھا کہ اللہ تعالی نے کیا کیا حرام تھہرایا ہے اور کسے کسے حلال قرار دیا ہے نبی ﷺ نے قپنی ساری زندگی اسی میں صرف کردی قرآن سنایا اور اپنے قول وفعل سے اس پر عمل کر کے بھی دکھایا تاکہ حجت خدا تمام ہو جائے

آمد مصطفی ﷺکا چوتھا مقصدحکمت کی تعلیم

آمد رسول کا چوتھا مقصد عرب کے لوگوں کو دانائی اور حکمت کی تعلیم دینا تھا آپ ﷺ نے ساری زندگی عرب کے معاشرے کو حکمت اور دانائی سکھانے میں صرف کردی اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روز حضرت عمر صحابہ کرام کے ساتھ جا رہے تھے تو ایک جگہ کا طرف اشارہ کرکے فرمایا یہ وہ جگہ ہے جہاں میں اونٹ چرایا کرتا تھا اور میرے اونٹ کھو جاتے یا کوئی اونٹ گم ہو جاتا تو میرا باپ مجھے بہت مارا کرتا اور آج عمر کی حکومت 23 لاکھ مربع میل پر ہے

یہ وہ مقاصد تھے جن کے حصول کی خاطر اللہ تبارک وتعالی نے نبی اکرم ﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا

آیت مبارکہ کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ اس سے قبل تو انسانیت صریح گمراہی میں مبتلا تھی آج جو دین ہم پر سایہ کئے ہوئے ہے یہ سب رب کریم کی عطا اور نبی ﷺ کی آمد اور ان کی کرم نوازی کا اثر ہے کہ آج ہم دین اسلام پر عمل پیرا ہیں آج ہم مسلمان ہیں مومن ہیں غازی ہیں نمازی ہیں حاجی ہیں الغرض ہم جو کچھ ہیں وہ سرکار کی وجہ سے ہیں اور ہمیں اس پر فخر ہے کہ محبوب رب العالمین ﷺ بروز قیامت اپنی امت کی بخشش کرائیں گے اور بخشش کروا کر اپنی امت کو داخل جنت فرمائیں گے اس میں کوئی شک نہیں

فقط اتنا سبب ہے انعقاد بزم محشر کا

کہ ان کی شان محبوبی دکھائی جانے والی ہے

قیامت کے دن کی ہولناکیاں الاما ںوالحفیظ اس دن انبیاء بھی خوف خداوندی سے کانپ رہے ہوں گے رب کا جلال عروج پر ہوگا انبیاء اپنی اپنی  امتوں سے کہہ رہے ہوں گے اذھہبو الی غیرآج کسی اور کا دامن پکڑلو ہم رب کے غضب کا سامنا نہیں کر سکتے ایسے میں ایک آواز آئے گی انا لھا انا لھا میں ہوں نا شفاعت کے لئے میں ہوں نا شفاعت کے لئے

حشر میں ان کو دیکھیں گے جس دم امتی یہ کہیں گے خوشی سے

آرہے ہیں وہ دیکھو محمدؐجن کے کاندھے پہ کملی ہے کالی

تو حضور شفاعت فرمائیں گے جنت تو ہمیں انشااللہ مصطفی کریم ﷺ کے صدقے میں مل ہی جانی ہے لیکن سوچئیے اس دن اگر رسول ﷺ نے پوچھ لیا ناں بڑا امتی ہونے کا دعوی کرتا ہے

کیا تونے دین کے وہ تقاضے نبھائے ہیں جو میں نے بتائے تھےتو سو چئیے کہ پھر کیا حال ہونا ہے بات یہ ہے کہ آمد رسول کے کچھ مقاصد اور کچھ تقاضے ہیں میرے آقا رسول  خدا ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ

لا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَـکُوْنَ ھَوَاہُ تَـبَعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ
’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک حقیقی مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش نفس اس کی تابع نہ ہو جائے جو میں لے کر آیا ہوں

کیا یہ معیار ہے ہمارے ایمان کا آئیے دیکھتے ہیں کہ کہ آمدمصطفی ﷺ کے کیا کیا تقاضے ہیں

آمد رسول ﷺ کا پہلا تقاضہ شکر بجا لانا

آمد مصطفی ﷺ کا پہلا تقاضہ یہی ہے کہ ہم  آمد رسول ﷺ پر اللہ تبارک وتعالی کے اس احسان کا شکر بجا لائیں کہ جاس کو خود باری تعالی نے مومنوں پر بڑا احسان قرار دیا ہے

آمد مصطفی ﷺ کا دوسرا تقاضہ اطاعت رسول ﷺ

پہلے تقاضے کے ساتھ ساتھ دوسرا بڑا یہ ہے کہ رسول ﷺ کی پیروی کی جائے جس کا حکم

باری تعالی نے دیا ہے

وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی اگر تم ایمان والے ہو

آمد مصطفی ﷺ کا تیسرا تقاضہ مودت رسول ﷺ

پہلے اور دوسرے تقاضے کے ساتھ ساتھ تیسرا تقاضہ یہ ہے کہ مومنیں کو رسول ﷺ سے محبت نہیں بلکہ مودت رکھنی چاہیئے  جیسا کہ قرآن نے ارشاد فرمایا کہ

قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ

آپ فرمادیجئے اے نبیﷺ کہ میں تم سے رسالت کا کوئی اجر نہیں طلب کرتا بلکہ قرابت داروں کی مودت

مودت دراصل محبت کا اعلی درجہ ہے مچھلی کو پانی کے ساتھ مودت نہیں بلکہ اسے پانی کے ساتھ مودت ہے کیونکہ وہ پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی بس مودت اسے کہتے ہیں کہ کوئی کسی کے ساتھ ایسی محبت رکھے کہ اس کے بنا جینا ناممکن ہوجا ئے اللہ تعالی ہمیں بھی اپنے حبیب پاک کی سچی ؐحبت نصیب فر مائے (آمیں )

قرآن کریم میں ایک اور جگہ ارشادباری تعالی ہے کہ

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ.

یہ نبی ﷺمسلمانوں کی جان کے ان سے زیادہ مالک ہیں

ایک مومن کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو اس کی زندگی کے تقاضے میں نبی ﷺ سے بڑھ کر کوئی شے نہیں ہونی چاہیئے پیارے مصطفی ﷺ کا فر مان ذی شان ہے کہ

لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ
’’تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک حقیقی مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے محبوب تر نہ ہو جاؤں اپنے باپ سے بھی‘اپنے بیٹے سے بھی‘اور تمام انسانوں سے بھی

‘زمین و زماں تمہارے لئے ، مکین و مکاں تمہارے لیے

چنین و چناں تمہارے لئے ، بنے دو جہاں تمہارے لیے

دہن میں زباں تمہارے لئے بدن میں ہے جاں تمہارے لیے

ہم آئے یہاں تمہارے لئے اٹھیں بھی وہاں تمہارے لیے

ایک مومن کا جان مال عزت وآبرو سب کا سب  مومنٰ کی جان آقا علیہ الصلواۃ والسلام کی ذات اقدس پر اور ان کی ناموس پر قربان ہونا چاہیئےاور یہی معیار ہونا چاہیئے ایک مومن کے ایمان کا

آمد مصطفی ﷺ کا چوتھا تقاضہ احکامات رسولﷺ پر عمل

آمد رسول ﷺ کے جتنے تقاضے ہیں ان میں ایک تقاضہ یہ بھی ہے ہے کہ رسولﷺ کے احکامات کی سختی سے پیروی کی جائے صرف زبانی دعوے نہیں بلکہ عملی طور پر بھی اظہار ہونا چاہیئے

غلام ہیں غلام ہیں رسولؐ کے غلام ہیں

غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے

جو ہو نہ عشق مصطفی تو زندگی فضول ہے

یہ بالکل ٹھیک ہے اور ہونا بھی اسی طرح چاہیئے لیکن غلامی رسول ﷺمیں موت کے ساتھ ساتھ زندگی کو بھی شامل کریں رسولﷺ کو اپنی اطاعت میں کسی امتی کا گزارا ہوا ایک ایک لمحہ بھی اتنا ہی پسند ہے جتنا کہ غلامی رسولﷺ میں موت غلامی رسول ﷺ میں اگر موت آجائے تو ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑی سعادت کوئی نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ زندگی بھی غلامی رسول ﷺ اور اطاعت رسول ﷺ میں بسر کی ہو تو اس سے بڑا کمال کوئی نہیں ہے

حضرت خواجہ نظام الدین اولیائ کی خدمت میں میں ایک شخص آیا اور کہنے لگاکہ میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں آپ نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں خانقاہ میں رہتے رہو وہ خانقاہ میں رہنے لگا چھ سال گزر گئے ایک دن کہنے لگا اب میں واپس جانا چاہتا ہوں خاجہ صاحب نے کہا کہ کیوں بھئی کہنے لگا کہ میں تو آپ کی کرامات کی بڑی شہرت سن کر آپ کے پاس آیا تھا لیکن مجھے تو ان چھ سالوں میں آپ میں کوئی کرامت نظر نہیں آئی آپ نے فرمایا کیا ان چھ سالوں میں تونے مجھ سے کوئی فرض چھوٹتے دیکھا کہبنے لگا نہیں کوئی سنت چھوٹتے دیکھی کہنے لگا نہیں کوئی نفل دیکا جو میں نے چھوڑا ہو کہنے لگا نہیں کبھی کسی گناہ میں ملوث دیکھا کہنے لگا نہیں تو فرمایا بندہ خدا اس سے بڑی کرامت اور کیا ہوسکتی ہے کہ میں نے چھ سال سے اپنے رب کی کوئی نافرمانی بھی نہیں کہ اور رسولﷺ کا بھی اطاعت گزار رہا ۔اللہ تعالی اپٌنے رسول کی سچی محبت اطاعت اور پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین )

 

 

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی