اولاد کی جامع تربیت کے پانچ ایریاز
تحریر : ڈاکٹرمحمد یونس خالد
اولاد کی تربیت کے حوالے سے عام طور پرہمارے معاشرے میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ کہ ہر انسان اپنے فہم کے مطابق اولاد کی تربیت کی کوشش کررہاہوتا ہے۔ جس میں کوئی نہ کوئی غلطی ضرور پائی جاتی ہے۔ مثلا بعض لوگ اولاد کی تربیت صرف مغربی طرز پر کررہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو دین سے بالکل بے بہرہ کردیتے ہیں۔
حالانکہ ایک مسلمان کی بنیادی ضرورت ہے۔ کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت دینی بنیادوں پر کرے۔ اسی طرح دوسری جانب بعض لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم وتربیت اس انداز سے دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ ان کو جدید علوم سے بالکل ناآشنا کردیا جاتاہے۔
حالانکہ یہ دوسری جانب کی انتہا ہے۔ ہمارا جدید نظام تعلیم بھی رٹے اور نمبروں کے حصول کی دوڑ لگوانے والا نظام تعلیم بن کررہ گیا ہے۔ چنانچہ لوگ نمبروں کے حصول کو ہی بچے کی تعلیم وتربیت کی آخری منزل سمجھنے لگتے ہیں۔
اور بچے کی تربیت وتعمیرشخصیت کے دیگرتمام پہلووں کو نظرانداز کردیاجاتا ہے۔ اب بچے موجودہ ایجوکیشن سسٹم کے تحت نمبراورگریڈتو کسی طرح حاصل کرلیتے ہیں۔ لیکن ان کی پوری شخصیت کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
ان کو جذباتی تربیت کی شدید کمی کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کو دینی اور اخلاقی وکرداری تربیت کی کمی کاسامنا ہوتا ہے وغیرہ۔ ایسے ہی تعلیم یافتہ بچوں کو بعض لوگ پڑھے لکھے جاہل قراردیتے ہیں۔ کیونکہ ان کی ڈگریاں اور مارکس تو بہت بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن شخصیت سازی اور کردار سازی کا عمل پیچھے رہ جاتا ہے۔ نیز اس بچے میں پریکٹیکل دنیا کی اسکلز ومہارتیں پروان نہیں چڑھتیں۔
بہرحال ان تمام انتہاؤں سے بچ کر ہمیں اپنے بچوں کی تربیت دینی تناظر اورعصر حاضر کے تقاضوں کوپیش نظر رکھ کرکرنا چاہیے۔ ذیل میں تعلیم وتربیت کے ان تمام ایریاز اور اس کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے گی۔ جن پر کام کرکے والدین اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوسکتے ہیں۔
یہ کل پانچ ایریاز آف تربیہ ہیں۔ جن پر کام کرنے سے اولاد کی جامع تعلیم و تربیت کے عمل کوضروری بنیادیں فراہم ہوجاتی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ ان پانچوں ایریاز کو برابر اہمیت دیں۔ اور ہرایک پر مستقل کام کے لئے جامع تربیہ پالیسی بنائیں۔ تربیت کے پانچ ایریا مندرجہ ذیل ہیں۔
:جسمانی تربیت
ظاہر ہے جسم ہی وہ پیکر ہے جس میں تمام انسانی خصوصیات پروان چڑھ سکتی ہیں۔ جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کردیتی ہیں۔ اور ان تمام خصوصیات کا حامل جسم ہوتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ صحت مند دماغ صحت مند جسم میں ہی پایا جاتا ہے۔ تو سب سے پہلے انسانی جسم کو صحت مند، متناسب، متوازن اور تہذیب یافتہ ہونا ضروری ہے۔
اگر تربیت کے معاملے میں انسانی جسم کو نظر انداز کیا جائے۔ صرف عقل وشعور کو بڑھانے پر توجہ دی جائے تو یہ جامع تربیت کے خلاف ہوگا۔ جسم کو صحت مند، بیماریوں سے محفوظ ، متوازن اور مہذب بنانے کے لئے بنیادی طور پر چار چیزوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔
: حلال اورطیب غذا
متوازن حلال اور طیب غذا انسانی جسم کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کا سمجھوتہ بچے کی نشوونما میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ تو قدرت کی طرف سے اس کی غذا ایک نالی کے ذریعے سے پہنچادی جاتی ہے۔ اس وقت خود ماں کو متوازن حلال غذا لینی چاہیے تاکہ نومولود کو متوازن غذا ماں کے ذریعےسے مل سکے۔
پیدائش کے بعد بچے کے لئے سب سے بہترین اور مکمل غذا ماں کا دودھ ہوتاہے۔ کوئی مجبوری نہ ہو تو بچے کو ماں کادودھ لازمی پلادینا چاہیے۔اگرماں کا دودھ کم ہو تو ابتدائی چار ماہ تک بچے کو اوپر کا دودھ دینے کی بجائے ماں کو کوئی ایسی غذا دی جائے کہ اس کا دودھ بڑھ جائے۔
چار ما ہ کے بعد ماں کے دودھ کے ساتھ دیگر غذائیں آہستہ آہستہ دی جاسکتی ہیں۔ بچوں میں اچھی اور متوازن غذالینے کی عادت ابتدائی دنوں سے ہی ڈلوانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ورنہ بعدمیں بچے متناسب اورآئیڈیل غذا کو چھوڑ کر غیر متناسب غذا کی طرف بھاگتے ہیں۔
اس وقت بچوں کی متوازن غذا کا مسئلہ معاشرہ کا سب سے اہم مسئلہ بن کررہ گیا ہے۔ کہ بچے وہ غذا نہیں لینا چاہتے جو ان کو لینی چاہیے۔ اس کی جگہ وہ جنگ فوڈز کے لئے ضد کرتے ہیں۔
اس کا حل بچوں کی ڈانٹ ڈپٹ نہیں۔ بلکہ بچپن سے ہی ان کی غذا کے متعلق محتاط رہنا اور باقاعدہ فوڈ پلان تیارکرنا ہے۔ تاکہ بچوں کی روٹین اسی کے مطابق بن سکے۔
بچوں کے لئے آئیڈیل، متوازن اور صحت مند غذا کیا ہوتی ہے؟
اس عنوان کے تحت مشہور چائیلڈ اسپیشلٹ جین بیکر اپنی کتاب میں لکھتےہیں
اچھی غذائی عادات کسی کی زندگی میں ابتداء ہی سے ڈالی جاسکتی ہے۔ ابتدائی8سال غذائی عادات کو ڈھالنے اور بنانے کے لئے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ اور یہ اہم ہے کہ مختلف النوع خوراک گھر پر ہی تیار کی جائیں۔ خوراک میں روٹی، دلیہ، اناج، پھل اور سبزیاں شامل ہونی چاہییں۔ اور یہ ہماری خوراک کا سب سے اہم حصہ ہوتی ہیں۔
دوسری اہم کیٹیگری پروٹینز کی ہے۔ جس میں چکنائی کے بغیر گوشت، سویا پروڈکٹس اور دالیں شامل ہیں۔ اور آخری کیٹیگری جو شاذ ونادر استعمال کرنی چاہیے۔ وہ چکنائی، آئل اور میٹھی چیزں ہیں۔ گھر میں ایسے سادہ کھانے پکائے جائیں۔ جو سیچوریٹیڈ یاکولیسٹرول سے پاک ہوں۔
اورکھانوں میں نمک اور شکر اعتدال سے موجود ہوں۔ بڑھتے ہوئے بچوں کو کیلشیم کی زیادہ مقدار درکار ہوتی ہے۔ لہذا انہیں گہرے ہرے پتوں والی سبزیاں، تل اور مچھلی کھلانی چاہیے۔
بچوں کی تربیت میں حلال وطیب غذاکا کردار
:آرام/نیند
جسمانی نشوونما کے لئے متوازن غذا کے علاوہ مناسب آرام اور نیند بھی بہت ضروری ہے۔ چنانچہ جسمانی تربیت میں بچوں کے مناسب آرام کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ مناسب آرام سے مراد ہرانسان کے لئے اتنی نیند ہے۔ جس کے بعد وہ اپنے آپ کو تازہ دم محسوس کرے۔ اور اسے مزید سستی اور اونگھ کی سی کیفیت کا سامنا نہ کرناپڑے۔
بچپن میں نیند کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ بڑے ہونے کے بعد اس میں کمی آتی ہے۔ جو چوبیس گھنٹوں میں تقریبا چھ سے آٹھ گھنٹے کے درمیان ہونی چاہیے۔ اب ہرانسان کی نیند کتنی ہونی چاہیے؟ اس کے لئے کوئی لگابندھا اصول نہیں۔ بعض لوگ چھ گھنٹے سو کر اٹھنے کے بعد خود کو تازہ دم محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اور بعض لوگوں کو آٹھ گھنٹے سونے کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہاں یہ بھی خیال میں رہنا چاہیے، کہ ضروری آرام سے زیادہ سونے سے بھی انسان سستی اور تکان کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس لئے بچوں کی تربیت میں اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے۔ کہ ان کو صحت مند رہنے کے لئے کتنی مناسب نیند کی ضرورت ہے؟
:جسمانی ورزش
جِسمانی صحت کے لئے متوان غذا اور مناسب آرام کے علاوہ جسمانی ورزش بھی ضروری ہے۔ جسمانی ورزش سے خوراک جزوبدن بن جاتی ہے۔ اور پسینہ نکلنے سے جسم کے فاسد مواد خارج ہوجاتے ہے۔ اگرا نسان کھا پی کر سویا رہے، یا بیٹھا رہے، اور ورزش نہ کرے۔ تو اس کے بے شمار نقصانات ہوتے ہیں۔ اس سے غذا جسم کو نہیں لگتی۔ جسم متوازن نہیں رہتا بلکہ بے ہنگم ہوجاتا ہے۔ اور انسان موٹاپے کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ انسان نفسیاتی طور پر بھی غیرمتوازن ہوجاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بچہ روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ باہر میدان میں نکل کر جسمانی مشقت والا کھیل کھیلے۔ خوب بھاگ دوڑ کرے۔ پسینہ نکالے اور اپنے جسم کو خوب تھکائے۔ اس سے اس کے جذبات اور عقل وشعور پر انتہائی مثبت اثرات پڑیں گے۔
:صفائی و ستھرائی
خوراک، آرام اور ورزش کے علاوہ جسمانی تربیت میں ایک اور اہم چیز صفائی و ستھرائی ہے۔ صفائی ستھرائی کو دین میں آدھا ایمان کہاگیا ہے۔ کہ اس کے بغیر ایمان ہی نامکمل رہ جاتا ہے۔ اور جسمانی لحاظ سے اس کی اہمیت یہ ہے، کہ اس سے بہت سی بیماریوں سے بچاجاسکتاہے۔ صفائی کا خیال رکھنے والا انسان جسمانی وروحانی دونوںطورپر تروتازہ رہتا ہے۔ اللہ اور اس کی مخلوق میں ہردلعزیز بن جاتا ہے۔
لہذا جسمانی صفائی بچے کی تربیت کا اہم ترین حصہ ہونا چاہیے۔ اور اسکی عادات بچپن سے ڈال دینی چاہیے۔ جسمانی صفائی میں روزانہ پورے جسم اور دانتوں کی صفائی کے ساتھ صاف ستھرالباس پہنا بھی شامل ہے۔ جسم اور لباس دونوں صاف ستھرے ہوں، تو انسان روحانی طور پر بھی خوشگوار محسوس کرتا ہے۔ دماغ میں اچھے خیالات جنم لیتے ہیں۔ اور انسان کی خوداعتمادی میں بھی اضافہ ہوجاتاہے۔
بچوں کی جسمانی تربیت کے علاوہ چار اور ایریاز ہیں۔ جن کا خیال رکھنا والدین کیلئے ضروری ہیں۔اور مندرجہ ذیل ہیں۔
بچوں کی دینی واخلاقی تربیت۔ بَچوں کی ذہنی تربیت۔ بچوں کی جذباتی تربیت اور بچوں کی سماجی تربیت ۔ چونکہ ان میں ہرایک کی پوری پوری تفصیلات ہیں۔ ہم ان میں سے ہر ایک پر الگ آرٹیکل آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔ یہاں مضمون کی طوالت کے خوف سے ایک ایریا آف تربیہ پر اکتفاکیا جارہاہے۔ شکریہ