غزوہ بدر کفر واسلام کی وہ پہلی جنگ ہے جو 17رمضان المبارک سن 2ہجری بمطابق 13 مارچ 624ء کو وقوع پزیر ہوئی یہ کفر واسلام کے درمیاں وہ پہلی جنگ تھی جو بدر کے مقام پر ہوئی۔ بدر مدینے کے جنوب مغرب میں 80 میل کی دوری پر تقریبا ساڑھے چار میل چوڑا ایک بیضوی شکل کا میدان ہے جسے میدان بدر کہا جاتا ہے اسی میدان بدر کے نام کی نسبت سےاسلام غالبا کفر واسلام کی رونما ہونے والی اس پہلی جنگ کو جنگ بدرکے نام سے جا نا جاتا ہے تاریخ اسلام کی یہ پہلی جنگ غزوہ بدرتھی جو اسلام اور کفر کے درمیان وقوع پزیر ہوئی اس جنگ میں اسلام اور کفر آمنے سامنے تھے غزوہ بدر جسمیں اللہ تعالی نے اسلام کو فتح سے ہمکنار کیا اور کفر کو شکست وہزیمت سے دوچار کیا۔بدر کے مقام پر رونما ہونے والی اس جنگ میں اللہ کی مدد اور نصرت اسلام کے کے شامل حال رہی اور کفر اور منافقین کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔غزوہ بدر سے یہ ثابت ہوگیا کہ جیت ہمیشہ اسلام کی ہی ہوا کرتی ہے اور کفر کے حصے میں ذلت ورسوائی اور شکست وہزیمت کے سوا کچھ نہیں آتا۔غزوہ بدر میں مشرکین کی تعداد 1000 جبکہ مسلمان تعداد میں صرف 313تھے۔مسلمان آلات حرب کی قلت وکمی کا شکار جبکہ باطل آلات حرب سے آراستہ وپیراستہ لیکن غزوہ بدر سے یہ ثابت ہوا کہ کفر اور شرک چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو اسلام کے مقابلے میں بلآخر اسے پسپا ہونا پڑتاہے۔
بلحاظ محل وقوع بدر کی اہمیت
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ بدر مکے اور مدینے کے درمیان واقع ایک میدان کانام ہے ۔اس میدان بدر کی اہمیت یہ تھی کہ مکے سے شام جانیوالے تجارتی قافلوں کا یہاں سے گزر ہوتا رہتا تھا۔ مشرکین مکہ کے قافلے اسی بدر کے راستے سامان تجارت لے کر شام اوردیگر علاقوں کو جایا کرتے تھے۔مسلمان بھی اس مقام بدر کی اہمیت سے آگاہ تھے۔ان کو معلوم تھا کہ یہی بدر کا ایک مقام ایسا ہے جہاں سے جانیوالے مشرکین مکہ کے تجارتی قافلوں کو روک کر نہ صرف یہ کہ ان سے اسلام اور مسلمانوں کو مکہ سے نکالنے کا بدلہ لیا جاسکتا ہے بلکہ ان پر اپنا رعب ودبدبہ بھی قائم کیا جاسکتاہے
اسباب غزوہ بدر
مقام بدر کی اہمیت کے پیش نظر مسلمان بحکم رسوؒلﷺ یہاں سے گزرنے والے قافلوں پر کڑی نظر رکھا کرتے تھے۔اس حوالے سے رسولﷺ بھی مختلف موقعوں پر صحابہ کرام کی ٹولیوں کو بھیجا کرتے تاکہ مشرکین مکہ کی سرگرمیوں اور ان کی نقل وحمل پر نظر رکھی جاسکے۔
عمرو بن الخضرمی کا قتل
حضور ﷺ نے ایک مہم عبداللہ بن جحش کی سر براہی میں مقام نخلہ کی جانب روانہ کی انہیں کہا یہ گیا کہ مقام نخلہ میں پڑاؤ کریں اور قریش کے حالات کا پتہ لگا کر بارگاہ رسالت میں اطلاع دیں۔ اس مقام نخلہ سے مشرکین مکہ کا ایک قافلہ گزر رہا تھا۔ جو کہ تجارتی سامان لے کر شام جارہا تھا۔ دین اسلام کے جانبازوں نے حضرت عبداللہ کی سربراہی میں اس قافلہ کفر پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں عمرو بن الخضرمی مارا گیا۔ مال غنیمت ہاتھ آیا اور دوافراد گرفتار بھی ہوئے۔
جب یہ مال اور قیدی بارگاہ رسالت میں لائے گئے تو آپﷺ نے عبداللہ بن جحش سے فرمایا کہ” میں نے تمہیں اس بات کی اجازت نہیں دی تھی” آپﷺ نے مال غنیمت قبول کرنے سے بھی انکار کردیا۔علامہ طبری فرماتے ہیں کہ جس چیز نے جنگ بدر کو ابھارا اور وہ تمام غزوات چھیڑ دیں جو آپ ﷺ اور مشرکیں مکہ کے درمیان پیش آئیں ان سب کا سبب یہی عمرو بن الخضرمی کا قتل تھا۔
ابو سفیان کا قافلہ
ابو سفیان کی سربراہی میں ایک کفار مکہ قافلہ ملک شام تجارتی مال لے کر براستہ بدر جا رہا تھا اسلام کے شیداءیوں نے اس قافلے کو روکنا چاہا لیکن قافلہ بچ نکلا اب وہی قافلہ شام سے واپس آرہا تھا اور مسلمانوں نے اب اس واپس آنے والے کفار کے قافلے کو روکنا چاہا ابو سفیان کو خبر ہوگئی کہ مسلما ن اس کے قافلے کی تاک میں بیٹھے ہیں ۔ابو سفیان نے مکے میں ابو جہل کو کہلا بھیجا کہ مسلمان قافلے کو لوٹنا چاہتے ہیں اور تمہاری مدد درکار ہے۔ابو سفیان نےراستہ بدلا اوربدر سے دوسری جانب ہٹتا ہوا مکے جاپہنچا۔
ابو جہل کا قافلہ
جیسے ہی ابو جہل کو خبر ملی کہ قافلہ کفر پر حملہ ہونے والا ہے تو وہ مکے سے قافلے کی مدد کے لئے بدر کی جانب چل نکلا یہ قافلہ ابھی راستے ہی میں تھا کہ ابو جہل کو اطلاع ملی کہ ابو سفیان کا قافلہ بخیر مکے پہنچ گیا ہے لہذا وہ واپس آجائے ۔لیکن ابو جہل ہٹ دھرمی پر قائم رہا اور بتدریج مقام بدر کی جانب بڑھتا چلا گیا اس کی موت اسے مقام بدر کی جانب لئے جا رہی تھی وہ اسلام دشمنی میں اندھا ہو چکا تھا ۔قا فلے والوں کے سمجھانے کے باوجود وہ مسلسل مقام بدر کی جانب بڑھتا چلا گیا۔اور اس کا آگے بڑھتے چلا جانا ہی جنگ بدر اور کؤد ابو جہل کی موت کا سبب بنا
غزوہ بدر کے متعلق مشورہ
رسولﷺ نے اسلام کے جانبازوں اصحاب کرام سے غزوہ بدر کے سلسلے میں مشورہ فرمایا تو انہوں نے اپنی مکمل جانثاری کا یقیں دلایا۔ حضور جب انصار کی جانب متوجہ ہوئے تو سعد بن عبادہ(سردار خزرج) نے کہا کہ” کیا حضور ﷺ کا اشارہ ہماری طرف ہے؟اللہ کی قسم اگر آپ فرمائیں تو ہم سمندر میں کود جائیں”حضرت مقداد نے کہا کہ یا رسول اللہ” ہم آپ سے قوم موسی کی طرح نہیں کہیں گے کہ آپ اور آپ کا رب جا کر ان سے لڑیئے ہم آپ کے دائیں ؛بائیں ‘آگے ‘پیچھے سے لڑیں گے یہ جواب سن کر آپﷺ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا
غزوہ بدر اور حا لت رسولﷺ
غزوہ بدر والے روز حضور اکرمﷺ دعا فرما رہے ہیں کہ “اے اللہ تونے جو مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے آج پورا فرمانا ” آپ ﷺ کے کاندھے سے بار بار چادر گر پڑتی اور آپﷺ کو خبر تک نہ ہوتی کبھی سجدہ کرتے اور فرماتے تھے کہ”خدایا اگر یہ چند نفوس آج مٹ گئے تو قیامت تک کوئی تیرا نام لیوا نہ ہوگا” غزوہ بدر والے روز آپﷺ مسلسل اللہ کی حمد وثناء بجا لاتے رہے۔
فوجیں آمنے سامنے
مقام بدر پر فوجیں آمنے سامنے آتی ہیں کفر اور اسلام کے درمیان جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔عتبہ جو کے کفر کے سردار وں میں سے تھا اور ابو جہل کے ا کسانے پر غصے میں سب سے پہلے اپنے بھائی اور بیٹے کے ساتھ میدان جنگ میں اترا اور مبارز کی طلبی کی اسلام کی طرف سے حضرت عوف.حضرت معاذ.حضرت عبداللہ بن رواحۃ مقابلے پر آئے عتبہ نے نام ونسب ہوچھا تو معلوم ہوا کہ انصار ہیں۔پھر آپ ﷺ کی طرف خطاب کرکے پکارا کہ محمدﷺ یہ لوگ ہمارے جوڑ کے نہیں برابر کے بندے بھیجیں ادھر سے اب حضرت حمزہ.حضرت علی. اور حضرت عبیدہ میدان میں آئے ۔عتبہ حضر ت حمزہ اور ولید حضرت علی سے مقابل ہوئے اور دونوں مارے گئے عتبہ کے بھائی شیبہ نے حضر ت عبیدہ کو زخمی کردیا۔اب عام حملہ ہوا مشرکیں طاقت کے نشے میں چور اور مسلمان صرف اللہ کی مدد کے سہارے لڑ رہے تھے۔غزوہ بدر کا معرکہ اپنے عروج پر تھا جنگ بدر زور وشور سے جاری تھی کفر کو اہنی جمیعت اور سامان حرب پر یقین تھا جبکہ اسلام صرف اللہ کی مدد ونصرت کے بل بوتے پر کفر سے برسرپیکار تھا
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
کافروں کا منہ پھر گیا
غزوہ بدر کے دن جب جنگ اپنے جوبن پر تھی اس وقت نبی ﷺ نے ایک مشت خاک لے کر کافرون کی جانب پھینکی اور کہا کہ شاہتٰ الوجوہ(تمہارے چہرے بگڑ جائیں) وہ خاک ہر مشرک کی آنکھ میں جا پہنچی۔اور پھر جنگ بدر کا نقشہ ہی بدل گیا ۔قرآن کریم میں بیان ہے کہ(اے محبوب جو خاک آپﷺ نے پھینکی وہ آپﷺ نے نہ پھینکی بلکہ آپ ﷺ کے رب نے پھینکی)امام احمد رضا خان فاضل بریلوی اپنے نعتیہ اشعار میں کچھ اس طرح ذکر فرماتے ہیں کہ
میں تیرے ہاتھوں کے قرباں کیسی کنکریاں تھیں وہ
جن سے کتنے کافروں کا دفعتا منہ پھر گیا
ابو جہل کا انجام
غزوہ بدر والے روز ابو جہل کو دو انصاری بھائیوں معاذ اورمعوذ نے مل کر قتل کرڈالا انمیں سے ایک نے عبدالرحمن بن عوف سے پوچھا کہ ابو جہل کہاں ہے۔انہوں نے کہا تم نے اس کا کیا کرنا ہےتو ان میں سے ایک کہنے لگا کہاس کفر کجے کارندے نے دین اسلام کو بڑی زک پہنچائی ہے “میں نے اللہ سے عہد کیا ہے کہ ابو جہل کو جہاں بھی دیکھا تو یا اسے قتل کرون گا یا خود لڑ کر مارا جاؤں گا “وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک جانب اشارہ کیا کہ وہ رہا ابو جہل وہ دونوں بھائی بجلی کی سر عت سے اس کی جانب لپکے اور اگلے ہی لمحوں میں ابوجہل زمین پر آگیا۔
غزوہ بدر والے دن رسولﷺ نے حکم دیا کہ کوئی شخص جاکر ابو جہل کی خبر لائے کہ اس کا کیا انجام ہوا مجاہد اسلام حضرت عبداللہ ابن مسعود اسے تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے اس کفر کے پروردہ کی کچھ سانسیں ابھی باقی تھیں ۔(مزید ذلت قدرت نے اسے دکھانی تھی حضرت عبداللہ نے اس کی گردن پر پاؤں رکھا تو وہ کہنے لگااو بکری چرانے والے دیکھ تو کہاں پاؤں رکھتا ہے حضرت عبداللہ نے اس کی کچھ پرواہ نہ کی اور اس کا سر کاٹ کر لےآئے اور حضورﷺ کے قدموں میں ڈال دیا
غزوہ بدر کا نتیجہ
بدر میں اسلام اور مسلمانو ن کےساتھ اللہ کی مدد ہر ہر پل اور ہر ہر لمحہ شامل حال رہی اللہ تعالی نے مسلمانوں پر اونگھ کی کیفیت ظاری کرکے ان کے دلوں پر سکینت نازل کی تو دوسری جانب آسماں سے پانی برسایا گیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے ریتیلی زمین میں چلنا آسان ہو گیا۔ اللہ نے فرشتوں کا نزول فرمایا جو مومنین کےساتھ مل کر کفا ر سے مقابلہ کرتے اور انہیں واصل جہنم کرتے۔عالم کفر پہلے ایک عمرو بن الخضرمی کو روتے تھے اب مکےکے ایک ایک گھر میں صف ماتم بچھ چکی تھی۔ اسلام کی فتح بدر دراصل مسلمانون کے لئےترقی کی پہلی کڑی تھی اسلام کا رعب ودبدبہ قائم ہوا کفار اور عالم کفر پر بھی مسلمانوں کی دھا ک بیٹھ گئی.غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کے ستر بڑے سردار قتل ہو کر واصل بہ جہنم ہوئے اور ستر ہی قید بھی ہوئے ۔اس جنگ میں اسلام کےچودہ جانباز صحابہ کرام نے جام شہادت نوش کیا۔
حرف آخر
غزوہ بدر آج کے مسلمانو ں کے لئے روشنی کا مینار ہے آج جو کہتے ہیں کہ عالم اسلام عالم کفر سے کس طرح لڑ سکتا ہے وہ تو جدید اسلحہ سے لیس ہیں ہم صرف محکومانہ ذندگی گزار سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔آج فلسظین میں ایک قیامت برپا ہے 58 سے زائد اسلامی ممالک اور دنیا میں اسقدر ذلت آج ہم اپنے اسلاف کے کارناموں کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور کچھ کرنے کو تیار نہیں ہےآج کوئی بتا سکتا ہے کہ صڑف 313 اسلام کے سپاہیوں کے پاس وہ کون سی طاقت تھی بدر میں کہ جس کے بل بوتے پر وہ اپنے سے کئی گنا بھاری دشمن کے سامنے ڈٹ گئے وہ تھی طاقت ایمانی جو کہ آج ہم میں ناپید ہے
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام عالم اسلام فلسطین کی حمایت میں آواز بلند کریں۔کیونکہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے مسلما ن بھائیوں کی مدد کے لئے آگے بڑھیں
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
مزید پڑھیں مختصر واقعہ کربلا