کربلا کا واقعہ

کربلا میں ہونے والے اس واقعے میں حضرت امام حسین کی اور دیگر اہل بیت اطہار کے ساتھ کربلا میں پیش آنے والے اندوہناک واقعے کو مختصرا بیان کیا گیا ہے۔

واقعہ کربلا تاریخ اسلامی کا وہ اندوہناک سانحہ ہے جو 10محرم الحرام 61 ہجری کوعراق میں کربلا کے مقام پر پیش  آیا سانحہ کربلا میں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے اہل بیت اور رفقاء کے ساتھ دین اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی جانون کے نذرانے پیش کئے تاریخ عالم شہادتوں کی ایسی لازوال داستان آج تک نہ پیش کرسکی  کہ جس میں ایک مجاہد نے اپنے پورے کنبے کو دین اسلام کی سربلندی اور رب کی رضا کے لئے قربان کردیا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت ﷺ کے نواسے حضرت فاطمہ الزھرا رضی اللہ عنہا کے لخت جگر حضورﷺ کے نور نظر اور علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کے فرزند ارجمند ہیں۔ پانچ شعبان سن 6 ہجری میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ حضور اکرم ﷺ کو حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے بڑی محبت تھی۔ بچپن میں کبھی آپ حضور کے کاندھوں پر سوار ہوتے تو کبھی بحالت نماز حضور کی پشت مبارک پر سوار ہوتے۔ اور کبھی آپ ﷺ کے سینہ اطہر کے ساتھ چمٹے ہوتے تھے۔ جب پشت مبارک پر ہوتے تو حضور ﷺ سجدوں کو لمبا فرمادیتے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ حسین چراغ ہدایت ہیں۔

امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ مدینے میں

امیر معاویہ کی وفات کے وقت امام حسین مدینے میں موجود تھے۔ یزید جب تخت نشیں ہوا تو اس نے والی مدینہ ولید بن عتبہ کو حکم دیا کہ حسین رضی اللہ تعالی عنہ، عبداللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عمر سے ان کی خلافت کے لیے بیعت لی جائے۔ والی مدینہ نے جب ان ہستیوں کو بلا کر جب یزید کا پیغام سنایا تو انہوں نے حالات کے پیش نظر مدینے کو چھوڑ دیا اور مکہ چلے آئے ۔

مکہ میں قیام اور اہل کوفہ کے خطوط

مکہ میں امام میں موجود تھے تو کوفہ والوں کے خط آنا شروع ہوگئے کہ یزید تخت پر بیٹھ چکا ہے وہ دین میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا کرنے کا مرتکب ہو رہا ہے اس کے فسق و فجور کو اگر نہ روکا گیا تو دین اسلام کا شیرازہ بکھر سکتا ہے ہم آپ کو اپنی پوری معاونت کا یقین دلاتے ہیں لہذا آپ کوفہ تشریف لے آئیں اسی طرح کے مضامین پر مشتمل تقریبا 900 خطوط امام حسین کو موصول ہوئے امام حسین نے کوفہ جانے کا فیصلہ کرلیا اصحابہ کرام میں سے کئی لوگوں نے امام حسین کو کوفہ جانے سے منع کیا انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی کوفہ والے آپ کے بھائی اور والد گرامی کے ساتھ دھوکہ کر چکے ہیں ان سے کچھ بھی بعید نہیں۔ اب طے یہ پایا کہ امام حسین نے مسلم بن عقیل کو جو کہ ان کے چچا ذاد بھائی ہیں کوفہ بھیجا تاکہ وہ وہاں کےحالات کو پرکھیں اور لوگوں سے امام حسین کے لیے بیعت لیں اور حالات اور تمام صورت حال سے امام حسین کو آگاہ کریں ۔

امام مسلم کی کوفہ روانگی

امام مسلم کوفہ کے لیے روانہ ہوئے کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل نے مختار کے گھر پناہ لی بیعت شروع ہوئی تو تقریبا 12 ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر امام حسین کے لیے بیعت کی مسلم بن عقیل نے امام حسین کو خط لکھا کہ حالات سازگار ہیں فورا تشریف لے ائیں امام اپنے 72 اصحاب کو لیکر کوفہ کی جانب روانہ ہوئے

72 مرد و زن کا قافلہ ترتیب دے ڈالا
یعنی نظام کرب و بلا ترتیب دے ڈالا

امام کوفہ کے لیے روانہ ہوئے تو ادھر کوفہ کے حالات اچانک تبدیل ہو چکے تھے مسلم بن عقیل کی بیعت کی خبر جب یزید تک پہنچی تو اس نے عبید اللہ بن زیاد کو کوفے کا والی مقرر کیا عبید اللہ بن زیاد ظالم ترین شخص تھا اس نے کوفیوں کو ڈرایا دھمکایا اور کہا کہ جس نےبھی یزید کی بیعت توڑی تو میں کوڑے اور تلوار سے کام لونگا کوفیوں نے پینترا بدلنا شروع کیا اور بیعت سے پیچھے ہٹ گئے اس دوران امام مسلم اکیلے رہ گئے اور جاسوسوں کے سبب گرفتار ہوئے عبید اللہ بن زیاد نے ان کا سر کاٹ کر دارالعمارت سے نیچے پھینک دیا ۔

امام حسین کوفے کی جانب

امام حسین کوفے کی جانب عازم سفر ہوئے تو رستے میں فرزدق شاعر ملا یہ کوفہ سے آرہا تھا اس نے امام حسین سے کہا کہ کوفیوں نے عقیل سے کی گئی آپ کی بیعت توڑ دی اورامام عقیل کو شہید کردیا  گیا ہے کوفی وہ لوگ ہیں جن کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن تلوار بنو امیہ کے ساتھ امام نے اصحاب سے مشورہ کیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ واپس لوٹ جانا چاہیے مسلم بن عقیل کے قرابت داروں نے کہا کہ ہم عقیل کا قصاص لینگے امام کا قافلہ کوفہ کی جانب روانہ ہو گیا سب سے پہلے حربن یزید نے امام کا راستہ روکا اس کے بعد عبید اللہ بن زیاد نے چار ہزار کی مزید کمک دے کر عمر بن سعد کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے پر بھیجا گیا امام حسین نے ان کے سامنے اپنی شرائط پیش کی کہ یا مجھے یزید کے پاس جانے دیا جائے یا واپس جانے دیا جائے یا جہاں کسی سرحد پر جہاد ہورہا ہو وہاں کی جانب  جانے دیا جائے۔

امام حسین نے کوفیوں کے خطوط کے وہ تھیلے بھی عمر بن سعد کو دکھائے جو انہوں نے امام کو آنے کے لیے لکھے تھے عمر بن سعد نے عبداللہ بن زیاد کو خط لکھا اور حسین کی تین شرائط بیان کی تو عبداللہ بن زیاد بھی مطمن ہوا کہ معاملہ بات چیت کے ذریعے حل ہو جائے گا شمر ذی الجوشن جو اس وقت دربار میں موجود تھا اس نے عبید اللہ بن زیاد سے کہا کہ کیا آپ حسین کو دوبارہ مہلت فراہم کرہے ہیں کہ وہ آئندہ بھاری طاقت اور جمیعت اکھٹا کرکے ہمارے مقابلے پر آجائے اگر آج امام حسین کو جانے دیا تو آپ لوگ ان پر کبھی قابو نہیں پا سکو گے شمر کے ان الفاظ نے عبید اللہ بن زیاد  کے ذہن کو تبدیل کردیا اس نے شمر کو خط بھیجا اور کہا کہ یہ خظ عمر بن سعد کو دینا۔ اگر وہ ہمارے حکم کو بجا لائےتو ٹھیک ورنہ اس کو قتل کرکے خود لشکر کے امیر بن جانا ۔

پانی کی بندش

 سات محرم کو امام حسین کے لشکر پر پانی بند کردیا گیا دریائے فرآت ٹھاٹیں مارتا ہے اور وہاں سے حسین رضی اللہ عنہ یا ان کا کوئی بھی لشکری پانی نہیں پی سکتا۔ فوج اشقیاء فرآت کے کناے موجود ہیں حسین پر پانی کی مکمل بندش ہے جناب میر انیس اپنے مرثیہ میں اس منظر کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں

حاکم کا حکم یہ ہے کہ پانی بشر پییں
گھوڑے پییں سوار پییں جانور پییں
جو تشنہ لب جان ہیں سب آن کر پییں
کافر طلب کییں تو تم منع نہ کی جیو
بس فاطمہ کے لال کو پانی نہ دیجیو

یہاں پانی کی بندش ہوئی تو اس کیفیت کوبھی شاعر نے اپنے الفاظ میں کچھ ہوں بیاں کی

وعدہ تو کرنا آتا ہے وعدے کو پوراکون کرے
سر دیکے جان و جگر دیکے دیکھو تو ایسا کون کرے
فرماتے تھے شاہ کرب و بلا جنت کا سودا کون کرے
شبیر نے ہنس کر فرمایا پانی کی تمنا کون کرے
عباس علی یہ بول اٹھے پانی نہ ملے تو کیا غم ہے
ہم خلد میں جا کر دیکھیں گے کوثر پر قبضہ کون کرے

  نومحرم کو شمر کربلا پہنچ گیا امام حسین کی کچھ دیر کے لیے آنکھ لگی تو اٹھ کر اپنی صاحبزادی حضرت زینب سے کہا کہ مجھے خواب میں رسول اکرم ﷺکی زیارت ہوئی ہے۔ اور انہوں نے کہا ہے کہ تم ہم سے ملنے والے ہو اس کے بعد امام حسین نے اپنے اصحاب کے سامنے ایک تقریر کی ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ تم نے میرا بڑا ساتھ دیا ہے یہ فوج اشقیاء میرے خون کی پیاسی ہے میں حسین تمہیں یہ کہتا ہوں کہ تم لوگ رات کے اندھیرے میں واپس چلے جاؤ اور عورتوں اور بچوں کو بھی ساتھ لیکر چلے جاؤ۔

امام حسین نے فرمایا کہ بیٹا علی اکبر چراغ کو گل کردو اور اصحاب سے کہا کہ وہاں اگر کوئی پوچھے کے حسین کو تنہا کیوں چھوڑا تو کہہ دینا عورتوں اور بچوں کی وجہ سے ہمیں حسین نے واپس کردیا جب چراغ دوبارا جلایا گیا تو تمام اصحاب موجود تھے اور کوئی بھی واپس جانے کے لیے تیار نہ تھا زہیر بن قین نے کہا کہ اے امام حسین اگر دشمن ہمارے جسم کو قینچیوں سے بھی کترے کترے کردے تو پھر بھی ہم آپ کی مدد سے پیچھے نہ ہٹیں گے۔

  دس محرم کی صبح حر نے یزیدی لشکر کو چھوڑ کر امام کے لشکر میں شمولیت اختیار کرلی امام نے دشمن فوج کے سامنے خطبہ دیا پہلے اہل بیت کے مناقب بیان کیے پھر اپنے بارے میں بنی ؑ کی احادیث بیان کی فرمایا کہ ہم شباب اہل جنت ہیں حضور کے نواسے اور بتول و علی کے بیٹے ہیں تمہارے لیے کسی طور پر بھی جائز نہیں کہ میرے خون سے اپنے ہاتھ رنگ دو۔ کیا میں نے کسی کو قتل کیا ہے جس کے قصاص میں تم مجھے قتل کر رہے ہو کیا میں نے کسی کا مال لوٹا یا کسی کو زخم لگایا ؟

امام حسین نے ایک ایک کوفی کو نام لیکر پکارا اور کہا اے فلاں بن فلاں اے فلاں بن فلاں اے فلاں بن فلاں اے بلاں بن فلاں کیا تم نے مجھے خط نہیں لکھے تھے کیا مجھے آنے کا نہیں بولا تھا یہ لوگ یزیدی فوج میں موجود تھے تو وہ لوگ مکر گئے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ خطوط کے تھیلے عمر بن سعد اور شمر کو دکھائے جو ان کو لکھے گے تھے لیکن کیا کہیں کہ بدبختی ولعنت فوج یزید کا مقدر ہوچکی تھی اتنا سمجھانے کے باوجود بھی اقتدار اور زر کی ہوس نے انہیں اندھا کردیا تھا کوفیوں نے ایک نہ سنی فوج کے عہدے داروں کو یہ معلوم تھا کہ اگر یزید کو خبر ہوگئی کہ ہم نے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا ہے تو وہ ہمیں قتل کردے گا یہی وجہ تھی کہ حسین  رضی اللہ عنہ کو یزید تک نہ پہنچنے دیا گیا۔

جنگ کا باقاعدہ آغاز

سب سے پہلے عمر بن سعد نے حسینی لشکر کی جانب تیر چلایا اور کہنے لگا گواہ رہنا پہلا تیر چلانے والا اب باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا امام حسین کے سپاہی ایک ایک کر کے اپنی بہادری اور شجات کے جوہر دکھاتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے اہل بیت اطہار میں حضرت عباس کے بازو قلم کردیے گئے حضرت قاسم امام علی اکبر داد شجات دیتے ہوئے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے عون و محمد شہید ہوئے پھر چھ ماہ کے امام علی اصغر کو حسین کے ہاتھوں پر حلق میں تیر مار کر شہید کردیا گیا 10 محرم کی شام پھیلنے لگی تھی حسین کے ساتھیوں نے میدان کربلا میں بڑی بہادری اور شجات دکھائی اب آخری باری حسین بن علی کی آئی حسین میدان جنگ میں پہنچھتے ہیں علی کا شیر حیدری جب حضور ؑ کا امامہ اور پٹکا باندھے علی کی زوالفقار لیکر میدان کربلا میں پہنچا اور ایک ایک کو بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹنے لگا اور کہنے لگا آؤ تین دن کے بھوکے اور پیساے کی جنگ دیکھو علی کے فرزند کی جنگ دیکھودشمن کی فوج میدان چھوڑ کر گھر بھاگنے لگی جب شمر نے یہ منظر دیکھا تو کہا کہ تم اکیلے اکیلے اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے سارے مل کر یک بار گی حسین پر حملہ کردو ۔

دم لینے دو نہ فاطمہ زہرا کے چین کو

سینے پر نیزے رکھ کر گرادو حسین کو

میدان کربلا میں سینکڑوں نیزے تلواریں خنجر اور تیر حسین کی جانب بڑھے حسین کو شہید کردیا گیا شمر نے خولی سے کہا کہ اس کا سر کاٹ لو وہ آگے بڑھا تو اس کے ہاتھ کانپ گئے پھر شقی سنان بن انس نے یہ کام انجام دیا بعد از قتل کے حسین کے سر کو نیزوں پر بلند کیا گیا اور لاش کو گھوڑوں سے روندا گیاکربلا میں ایک قیامت بپا ہو گئی خیام حسینی کو آگ لگاد ی گئی حسین کا سر جب یزید کے دربار میں پہنچا تو اس نے سراقدس حسین کے ہونٹوں پر چھڑی ماری اور کہا کہ ہم کامیاب ہوئے زید بن ارقم صحابی رسول جو اس موقع پر دربار میں موجود تھے انہوں نے کہا او بدبخت چھڑی ہٹالے میں نے نبی ؑ کو دیکھا کہ وہ ان ہونٹوں کو چوما کرتے تھے یزید کی بیوی ہندہ بنت عبداللہ نے جب یہ خبر سنی کہ یزید نے امام حسین کو شہید کردیا ہے تو وہ دربار میں جا پہنچی اور یزید کو لعن طعن کرنے لگی یزید نے پینترا بدلا اور کہنے لگا خدا غارت کرے ابن زیاد کو کہ اس نے جلدی جلدی میں امام حسین کو قتل کردیا (ان للہ واناالیہ الراجعون)

خوشبوئے خلد دب گئی خاک شفاء کے بعد

جنت کا نام آنے لگا کربلا کے بعد

بعد از حسیں اور نہ کوئی حسنی ہے

نہ اور کوئی کربلا اس کربلا کے بعد

ہوتا اگر حسین بھی دنیا میں دوسرا

پھر اور ہوتی کربلا اس کربلا کے بعد

ازخود غلط ہےحضرت جوہر کا یہ کہا

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

کرے تسلیم روح جوہر مرحوم یہ کرے

اسلام زندہ ہو چکا بس کر بلا کے بعد

کربلا کا اندوہناک سانحہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top