شیر شاہ سوری

شیر شاہ سوری

قسط دوم

 اس پٹھان شیرشاہ سوری سے احتیاط رکھنا”۔  یہ تنبیہ مغل سلطنت کے بانی بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کو کی تھی۔ بابر تو شیر شاہ سوری کو گرفتار تک کرنے والے تھے کہ یہ مستقبل میں بہت بڑا خطرہ بنے گا۔ ایسا ہی کچھ ہوا، کچھ ہی سالوں بعد شیر شاہ سوری تخت نشین تھا اور بابر کا فرزند ہمایوں دربدر تھا۔کون تھے یہ شیر شاہ سوری جن کے عہد حکومت میں بنگال سے پشاور تک ایک نوجوان لڑکی رات کی تاریکی میں بھی سونے سے بھری پوٹلی لے کر تنہا سفر کر سکتی تھی۔ جسے ہندوستان کے بہترین بادشاہوں میں سے ایک کا خطاب ملا ہے۔ اس مضمون میں آپ شیر شاہ سوری کی سلطنت کے عروج و زوال کی مکمل داستان اختصار کے ساتھ پڑھ سکیں گے۔

:شیر شاہ سوری کی ابتدائی زندگی

وہ 1486 میں ایک افغان جاگیردار حسن خان کے ہاں ہریانہ انڈیا میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام فرید خان سوری تھا۔ اس زمانے میں دہلی پر لودھی خاندان کی بادشاہت تھی اور حسن علی خان کے پاس سہسرام ، حاجی پور اور ٹانڈہ کی جاگیریں تھیں۔ 1451 میں افغان نژاد لودھی خاندان کی دہلی پر حکومت قائم ہوئی تو بہت سے افغان سردار ہندوستان میں آباد ہوئے  انھی میں آپ کے دادا ابراہیم سوری بھی شامل تھے جنہیں جاگیر عنایت کی گئی تھی۔فرید خان  سوری حسن علی خان کی چہیتی بیوی سے نہ تھے ، سوتیلی والدہ کی ناپسندیدگی کی  وجہ سے باپ بیٹے کے تعلقات ناخوشگوار رہتے تھے۔  انہوں نے لڑکپن میں ہی والد کی جاگیر چھوڑ دی اور جونپور کے نواب کے ہاں ملازمت اختیار کر لی تھی ۔

:شیر شاہ سوری کی تعلیم

جونپور شہر اس وقت تعلیم و تربیت کا شاندار مرکز تھا ، آپ نے وہیں پر عربی زبان سیکھی، سکندر نامہ ، گلستان اور بوستان کا مطالعہ کیا اور حساب کتاب سیکھا۔

جونپور کے نواب کی کوششوں سے والد اور بیٹے میں ناراضگی ختم ہوئی اور والد حسن علی نے انھیں اپنی جاگیر سہسرام کے انتظامات حوالے کئے ۔ 1497 سے 1518 تک وہ اس جاگیر کے نگران رہے۔

:جاگیروں میں اصلاحات

آپ نے اپنی جاگیر میں متعدد زرعی و مالیاتی اصلاحات کی تھیں۔ اپنی جاگیر میں امن و امان قائم کیا، زمین کی منصفانہ تقسیم کی ، سرکاری کاتب مقرر کئے ، ان افسران کو سخت سزائیں دیں جو کسانوں سے رشوت طلب کرتے تھے۔ جاگیر کی آمدن جو کچھ  سو میں تھیں شیر شاہ نے ہزاروں روپے تک پہنچا دی تھی۔تاہم سوتیلی والدہ کی وجہ سے 1518 میں ان جاگیروں سے والد کے جانب سے بےدخل کر دیے گے اور فرید خان بہار کے نواب کے ہاں ملازم ہو گے۔میں شیر شاہ سوری کے والد کا انتقال ہو گیا اور شیر شاہ سوری لودھی حکمران ابراہیم لودھی سے سند لے کر اپنے والد کی جاگیروں پر قابض ہو گئے ۔تاہم سوتیلے بھائیوں کی وراثت کی تقسیم پر چپلقش جاری رہی۔

:شیر شاہ سوری کا خطاب

آپ کے بہار کے گورنر لوہانی خان سے بےحد قریبی تعلقات تھے۔ ایک مرتبہ دوران شکار فرید خان نے گورنر بہار کی شیر سے جان بچائی جس سے خوش ہو کر گورنر بہار نے انھیں شیر شاہ سوری کا خطاب عطا کیا ۔شیر شاہ کو لوہانی خان نے اپنے بیٹے جلال خان کا اتالیق بھی مقرر کر دیا۔ تاہم کچھ سازشوں کی وجہ سے شیر شاہ سوری کو گورنر بنگال سے راہیں جدا کرنا پڑیں اور وہ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر کی فوج میں بھرتی ہو گے اور ان کی جاگیر پر ان کے بھائیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔

:شیر شاہ سوری بابر کے دربار میں

 پھر (1522 سے1528 )تک آپ مغلیہ فوج میں کمانڈر کے فرائص سر انجام دیتے رہے یہاں تک کہ ایک بار بابر کے ساتھ وہ جنگ جیتنے کے بعد کھانا کھا رہے تھے کہ بابر نے انھیں بےحد اعتماد میں پایا اور ان کے جاہ و جلال سے گھبرا گیا۔بابر نے شیر شاہ سوری کو گرفتار کرنے کا حکم دیا مگر چند وزیروں کی مداخلت سے یہ حکم ٹل گیا اور شیر شاہ سوری آگرہ سے فرار ہو کر بہار پہنچے۔

:شیر شاہ سوری کا بہار پر تسلط

گورنر بہار لوہانی خان  انتقال کر چکا تھا اور اب اس کا کم سن لڑکا جلال خان اپنی ماں کے زیر سایہ تخت نشین تھا۔ جلال خان کی ماں نے شیر شاہ سوری کو بہار آمد پر خوش آمدید کہا اور اسے اپنے بیٹے کا اتالیق مقرر کیا کیوں کہ اسے شیر شاہ جیسے دانا اور بھروسہ مند شخص کی ضرورت تھی۔درحقیقت تخت پر تو جلال خان تھا مگر حکم شیر شاہ سوری کا چلتا تھا ۔ جلال خان ایک کٹھ پُتلی حکمران بن کر رہ گیا۔ شیر شاہ سوری نے اپنے رشتہ داروں کو بہار میں اعلی عہدے دے کر اپنی پوزیشن مزید مستحکم کر لی۔

تاہم 1529 میں بہار میں سابقہ لودھی سلطنت کے مقتول حکمران ابراہیم لودھی کا چھوٹا بھائی محمود لودھی آ گیا جس سے آپ کا اثر و رسوخ خاصا کم ہو گیا۔ محمود خان لودھی بابر کے خلاف ایک افغانوں کی مدد سے ایک عظیم جنگ کی تیاری کر رہا تھا۔ یاد رہے بابر نے افغانوں سے پہلے ان کا اپنا ملک افغانستان چھین لیا تھا اور پھر دہلی کی افغان سلطنت بھی ان سے چھین لی تھی۔1529 میں بابر اور افغانوں کی گھاگھرا کے مقام پر فیصلہ کن جنگ ہوئی اور محمود لودھی مارا گیا۔ آپ کی پوزیشن پھر سے بحال ہوئی اور اس نے بہار کو مغلیہ سلطنت کا ایک صوبہ تسلیم کر کے خراج دینے کا وعدہ کر لیا۔

1530 میں جلال خان کی ماں دادو بی بی انتقال کر گئی اور شیر شاہ سوری اب جلال خان کی جگہ خود کو بہار کا حکمرانی دیکھنے لگا۔اب بہار میں دو گروہ بن گے ایک جو شیر شاہ سوری کے حمایتی تھے دوسرے جو اس کے مخالف تھے اور جلال خان کی خودمختار حکمرانی کے خواہش مند تھے۔ انھوں نے جلال خان کو بنگال منتقل کر دیا تاکہ شیر شاہ سوری سے فیصلہ کن جنگ کی جا سکے۔

انہوں نے اس دوران اپنی پوزیشن مزید مستحکم کر لی اور بہار کے تمام قلعوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ اسی دوران شیر شاہ نے چنرگڑھ کے مغل گورنر کی بیوہ سے شادی کی اور چنرگڑھ کا مضبوط قلعہ اور بےشمار دولت حاصل کر لی۔ 1537 میں جب ہمایوں شیر شاہ کی سرکوبی کےلئے بہار کی طرف بڑھا تو انہوں نے بنگال پر حملہ کر دیا اور بنگال کے دارالحکومت گوڑ پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔

:شیر شاہ سوری کا شہنشاہ ہند بننا

ہمایوں نے شیر شاہ سوری کے خلاف کئی جنگی کاروائیاں کیں مگر وہ ہر بار ناکام ہوا ، 1537 میں بنگال کی مہم ، جنگ چوسہ ، جنگ قنوج وغیرہ کی تفصیلات آپ قسط نمبر 1 میں پڑھ سکتے ہیں کہ کیسے ہر جنگ میں شیر شاہ سوری اپنی بہتر حکمت عملی کی وجہ سے فتح یاب رہا۔شیر شاہ سوری 17 مئی 1540 کو ہمایوں کا دہلی چھوڑنے کے بعد شہنشاہ ہندوستان بن گے۔

شیر شاہ سوری کی اصلاحات1540 سے 1545

آپ کا اقتدار محض پانچ برس کا تھا مگر انھوں نے ہندوستان کی تاریخ پر وہ انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو شاید اگلے پانچ سو برس بھی کوئی نہ نمٹا سکے۔ شیر شاہ سوری کے نمایاں کارناموں میں سب سے اہم ان کی اصلاحات ہیں ۔

:شیر شاہ سوری نے کسانوں کو خوشحال کر دیا

شیر شاہ سوری کا ماننا تھا اگر ملک خوشحال بنانا ہے تو پہلے کسان کو خوشحال کرنا ہو گا۔ فصلوں کا لگان ایک بیگھا زمین پر ڈھائی سیر اناج مقرر کیا گیا جو پہلے تیسرے حصہ پر مشتمل تھا۔ زمین کی زرخیزی کی حساب سے اس کو تین اقسام میں تقسیم کیا گیا اور اپنا اپنا مالیہ مقرر کیا گیا۔لگان زمین کی پیداوار کے حساب سے مقرر کیا گیا ، پہلے یہ قانون تھا کہ چاہے قحط ہو یا سیلاب  فصل کا خراج ہر حال میں جمع کیا جائے گا۔کسانوں کا استحصال کرنے والے اہلکاروں کو سخت سزائیں سنائی گئیں اور کھاتہ داروں کے کھاتے چھاپے مار کر چیک کرنے کا حکم دیا گیا۔چند ہی برسوں میں نہ صرف فصلوں کی پیداوار بڑھی بلکہ کسان بھی خوشحال زندگی بسر کرنے لگے۔

:شیر شاہ سوری کا کارنامہ ،  جی ٹی روڈ

آپ نے صرف پانچ برس کی قلیل مدت میں کلکتہ ( بنگال ) سے پشاور ( پاکستان ) تک ایک جرنیلی سڑک تعمیر کروائی تھی۔ یہ سڑک موجودہ تین ممالک بنگلہ دیش ، انڈیا اور پاکستان کو آپس میں ملاتی تھی۔ اس روڈ پر 1700 سے زائد سرائے بنوائے گے تھے جہاں ہندو اور مسلمان مسافروں کو الگ الگ طعام و قیام کی سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔ سڑک کے گرد سایہ دار درخت لگائے گے اور ہر پانچ کوس بعد  فوجی چوکیاں قائم کی گئی تھیں ۔

مشہور ہے کہ آپ کے دور میں ایک دوشیزہ لڑکی سونا پہنے کلکتہ سے پشاور محفوظ سفر کر سکتی تھی ۔ دراصل جرنیلی سڑک کی حفاظت کی زمہ داری مقامی زمینداروں کی تھی اگر کسی کسی زمیندار کی حدود میں کوئی واردات ہو جائے تو اس کی سزا اور جرمانہ زمیندار پر عائد ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جرنیلی سٹرک موجودہ موٹر ویز سے بھی زیادہ محفوظ تھی۔

:شیر شاہ سوری نے معیاری سکے جاری کیے تھے

شیر شاہ نے سکوں میں ضروری اصلاحات کروائیں۔ سونے ، چاندی اور تانبے کے سکے رائج کئے گے۔ سونے کے سکے کا وزن 167 گرام تھا جسے اشرفی کہا جاتا تھا۔ چاندی کے سکے کا وزن 175 گرام تھا جسے روپیہ کہا جاتا تھا جو آج پاکستان اور انڈیا کی کرنسی ہے اور تانبے کے سکے کا وزن 332 گرام تھا۔ اسی طرح وزن کا بھی معیار مقرر کیا گیا جو آج انٹرنیشنل وزن کے معیار کے مساوی تھا۔

:میرٹ پر بھرتیاں

ہندوستان میں رواج تھا کہ  بادشاہ جاگیرداروں کو نجی فوج رکھنے کی اجازت دیتے تھے جو بوقت ضرورت بادشاہ کےلئے جنگی خدمات دیتی تھی۔ہر جاگیردار اپنے منصب کے حساب سے پانچ سو ، ہزار ، پانچ ہزار اور دس ہزار تک فوج رکھ سکتا تھا۔جاگیردار اس فوج کے اخراجات شاہی ٹیکس دیتے وقت کاٹ لیتے تھے ۔ اس لئے ٹیکس بچانے کےلئے اکثر جاگیرداروں نے کم فوج بھرتی کی ہوتی تھی مگر کاغذوں میں زیادہ تعداد دکھائی ہوتی تھی۔

شیر شاہ سوری نے اس کا سختی سے تدارک کیا اور پہلی بار تحریری طور پر ہر سپاہی کا ریکارڈ تحریر کیا گیا اور “ داغ و چہرہ “ کا نظام متعارف کروایا گیا تھا۔ گھوڑوں کےلئے داغ اور سپاہیوں کےلئے چہرہ ان کی شناخت مقرر کی گئی۔ سپاہیوں کی بھرتی کےلئے قابلیت کا الگ معیار مقرر کیا گیا۔

:انتظامیہ کے نئے عہدے متعارف کروائے گئے

انتظامیہ میں کلرک ، چہرہ داروں ( تفصیلات کی فہرست رکھنے والے ) ، اسپ خانہ دار ( اصطبل کا انچارج ) ، تفنگ دار ( اسلحہ کا نگران ) ، کوتوال اور شقدار جیسے عہدے قائم کئے گے جس سے امن و امان کا مسلہ حل ہوا اور مرکز میں حکومت مضبوط ہوئی۔

دیوان قضا : ایک ایسے ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں عوام کے مسائل حل کئے جاتے تھے اور ان کو قانونی مشاورت بھی فراہم کی جاتی تھی۔

مذہبی رواداری: شیر شاہ سوری نے جب تمام ہندوستان کی زمینوں کی پیمائش کروائی تو اس میں انھوں نے ہندو برہمنوں کی مدد حاصل کی تھی۔ تقریباً تمام اہم عہدوں پر ہندو بھی تعینات کئے جاتے تھے۔ آپکا سب سے قابل جرنیل برہم جیت گوڑ بھی ہندو تھا۔

!قلعہ روہتاس شیر شاہ سوری نے تعمیر کروایا تھا

جہلم شہر سے چند کلومیٹر دور روہتاس کا تاریخی قلعہ واقع ہے جوانہوں نے گھکڑوں کو قابو میں رکھنے کےلئے بنوایا تھا۔ اس قلعے میں ایک لاکھ فوج قیام کر سکتی تھی۔گھکڑوں نے ہمایوں کا ساتھ دیا تھا ، بعدازاں شیر شاہ سوری نے روات میں قائم گھکڑوں کے قلعے پر حملہ کیا اور سلطان سارنگ خان کو قتل کر دیا تھا۔ روہتاس کا یہ قلعہ بھی گھکڑوں کو قابو میں رکھنے کےلئے بنوایا گیا تھا۔

 :شیر شاہ سوری کی موت

شیر شاہ سوری کی موت 22 مئی 1545 کو کالنجر کے محاصرے کے دوران بارود پھٹنے سے ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے قلعہ فتح ہونے کے تک وہ حالت نزع رہے اور فتح یابی کی خبر سن کر جان آفریں کی۔شیر شاہ سوری نے اپنے حریف بادشاہوں میں بھی عزت پائی تھی۔ ہمایوں انھوں “ بادشاہوں کے بادشاہ “ کہا کرتا تھا۔

:سوری سلطنت اگلے دس سالوں میں

:اسلام شاہ سوری1545 سے 1554 تک

1545 میں شیر شاہ سوری کے انتقال کے بعد شیر شاہ سوری کا فرزند اسلام شاہ سوری تخت نشین ہوا۔ اسلام شاہ کے خلاف اس کے بھائی عادل شاہ نے بغاوت کی مگر جنگ میں ناکام ہوا۔

اسلام شاہ بھی اپنے والد شاہ سوری کی طرح ذہین و جرت مند شہنشاہ تھا۔ اس نے معتدد اصلاحات متعارف کروائیں۔ گرینڈ ٹرنک روڈ پر قائم سرائوں میں پانی ، مسجد اور دیگر سہولیات بڑھائیں۔ ناچ گانے کی محفلوں پر پابندی لگا دی تھی اور شاہی طرز کی قیام گاہیں بنانے پر پابندی عائد کر دی۔ اسلام شاہ میں واحد کمزوری یہ تھی کہ وہ درست فیصلہ نہ کر سکتا تھا اسی لئے وہ صحیح جانشین کا انتخاب نہ کر سکا۔

اسلام شاہ 1554 میں فوت ہوا ۔ ہمایوں کی نظریں اس وقت ہندوستان پر گہری تھیں اور وہ کھویا تخت حاصل کرنے کےلئے بہترین موقع کی تلاش میں تھے۔

فیروز شاہ سوری : 1554

فیروز شاہ سوری کو تخت نشینی کے چند ہی دنوں بعد شیر شاہ سوری کے بھتیجے مبارز خان نے قتل کر دیا تھا اور خود محمد شاہ عادل کے لقب سے تخت نشین ہو گیا تھا۔

محمد عادل شاہ : 1554 تا 1555

یہ بھی محض ایک سال تخت نشین رہا اور اپنے سالے ابراہیم شاہ سوری کی بغاوت کی وجہ سے مارا گیا۔ یہاں سوری سلطنت چار حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔

سکندر شاہ سوری  :1555

ابراہم شاہ سوری محض ایک ماہ دہلی پر قابض رہ سکا اور فروری 1555 میں آگرہ کے قریب جنگ میں سکندر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست مارا گیا۔سکندر شاہ سوری نے دہلی اور آگرہ کے بعد پنجاب پر بھی قبضہ کر لیا ۔ ابھی سکندر شاہ سوری ابراہیم شاہ سوری کے خلاف جنگ میں مصروف تھا کہ جلاطن مغل بادشاہ ہمایوں ایرانی اور بلوچی فوجوں کے ساتھ ہندوستان وارد ہوا اور فروری 1555 میں لاہور پر قبضہ کر لیا۔

مغل افواج نے دیپالپور ، سرہند اور جالندھر پر بھی قبضہ جما لیا۔ سکندر شاہ نے پہلے تیس ہزار کا لشکر مغل افواج کے خلاف بھیجا مگر وہ ناکام رہا اور پھر 80 ہزار کی فوج لے کر خود ہمایوں کے مقابلہ پر آیا مگر شکست کھائی اور پنجاب کی شیوالک پہاڑیوں کی جانب فرار ہو گیا۔

:ہمایوں کی دوبارہ تخت نشینی

1555 میں سکندر شاہ کو ہرانے کے بعد ہمایوں پندرہ سال کی جلاوطنی کے بعد دوبارہ تخت نشین ہوا۔ اگرچہ ہمایوں دہلی پر قابض ہونے کے صرف چھ ماہ بعد ہی شیر منڈل حادثے میں فوت ہو گے تھے۔سور سلطنت محض پندرہ برس تک برس اقتدار رہی مگر تاریخ کے جھروکوں میں جب بھی جھانکا جائے تو اس کے تذکرے کے بغیر تاریخ  ادھوری لگتی ہے۔اگلی قسط میں آپ اکبر بادشاہ کے بارے میں مفصل تفصیلات کا مطالعہ کر سکیں گے۔

یہ بھی پڑہیں

مغلیہ سلطنت کا قیام اور درپیش ابتدائی مشکلات

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top