حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہکی ولادت باسعادت 15 رمضان المبارک سن 2 ہجری کوہوئی ۔ آپ کی ولادت مکے میں ہوئی حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کا نام بعد از ولادت نبی ﷺ نے حسن تجویز کیا  حضرت حسن کی ولادت پر رسول ﷺ کو بڑی  خوشی تھی  اسلئے کہ کافر آپ ﷺ کے صاحبزادوں کے رحلت فرمانے کے بعد یہ طعنے دینے لگے تھے کہ اب ان کے دیں کو آگے کون لے کر جائے گا ایسے میں حضرت حسن کی ولادت سورہ کوثر کی عملی تفسیر بن کر سامنے آگئی ۔ حسن عربی زبان کالفظ ہے جس کے معنی نیکی اچھائی اور بھلائی کے ہیں ایک روایت کے مطابق حسن نام رسولﷺ نے اللہ تعلی کے بتانے سے رکھا ۔حضرت امام حسن  حضرت علی وفاطمہ رضی اللہ تعالی کے نور عین دل کے چین رسول اکرم کے نواسے جنتی جوانوں کے سردار متقی ونیکو کار،پرہیزگار،دنیاوی آلائشوں سے پاک اور آسائشوں سے بےزار،دوش محمد ﷺ کےسوار،خدمت خلق کے جذبے سے سرشار،بے کسوں کے مددگار،رضائے رب کے طلبگار،باطل کے لئے بے نیام تلوار، اور حق تعالی کے شکر گزار بندے تھے ۔حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے نانا کے ساتھ اپنے بچپن کا ایک بڑا حصہ گزارا یہی وجہ ہے کہ امام حسن   رضی اللہ تعالی عنہ میں رسولﷺ والی صفات بہت نمایاں تھیں۔حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے نانا اور والدہ سے خصائل جمیلہ کابیشتر حصہ پایا۔نرم خوئی، صلح جوئی، حلم وبردباری،فصا حت وبلاغت ،عفو ودرگزر  کے پیکراور جود وسخا جیسی عظیم صفات کےمرکز ومحور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی ہستی وہ مبارک ہستی ہے جو ولادت کے بعد کبھی نبیﷺ کے ہاتھوں اور کبھی دوش مبارک محمدﷺ تو کبھی سینہ اقدس محمدﷺ پر سوار ۔نبیﷺ کو حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے بے پناہ محبت اور  شدید دلی لگاؤ تھا۔حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ  نبی ﷺ کے چہیتے اور لاڈلے نواسے تھے۔روایت ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ سر سے لے کر ناف تک اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ ناف سے لے کر پاؤں تک حضورﷺ سے مشابہ تھے۔ اپنے اشعار میں احمد رضا بریلوی فرماتے ہیں.

 ایک سر سے ناف تک اور اک وہاں سے پاؤں تک

خط توام میں لکھا ہے یہ دو ورقہ نور کا

نرم مزاج حلم وبرداشت کے پیکر

حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نرم خوئی اور حلم وبرداشت کے پیکر تھے۔ کبھی بھی کسی سے انتقام نہ لیا کرتے تھے۔نرم مزاجی حضرت امام حسن  رضی اللہ تعالی عنہ کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ایک مرتبہ ایک خادمہ سے کوئی برتن گر کر ٹوٹ گیا امام حسن  رضی اللہ تعالی عنہ وہاں موجود تھے۔وہ ڈر گئی اور اس نے یہ قرآنی آیت پڑھی۔والکاظمین الغیض(غصہ پی جانے والے) حسن  رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا میں نے غصہ پی لیا۔پھر اسنے اگلی آیت پڑھی والعافین عن الناس(اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں) امام ھسن رضی اللہ تعالی عنہ  نے فرمایا میں نے تجھے معاف کیا۔پھر اس نے اگلی آیت پڑھی واللہ یحب امحسنین(اللہ پسند کرتا ہے  احسان کرنے والوں کو) امام حسن رضی اللہ تعالئی عنہ  نے فرمایا جا میں نے تجھے آزادکیا۔

حضور ﷺ سے مشابہت

بہی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں  کہ  میں نے عبدللہ بن زبیر  سے پوچھا کہ آپ مجھے بتائیں لوگوں  میں سے کسی کی شکل سب سے زیادہ رسول اکرم ﷺ سے ملتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حسن بن علی  کی شکل حضور ﷺ سے سب سے زیادہ ملتی تھی  اور حضور ﷺ کو  سب سے زیادہ محبت  بھی حسن بن علی سے تھی تھی ۔ بعض دفعہ حضور ﷺ سجدے میں ہوتے تو حسن بن علی  آکر حضور اکرم ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہوجاتے اور جب تک یہ   الگ  نہ ہوجاتے حضور ﷺ سجدے سے سر نہ اٹھاتے اپنے سجدوں کو حسن   کے لئے طول دیتے۔

حضرت معاویہ کے نزدیک مقام حسن

حضرت معاویہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضورﷺ  حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان اور لب مبارک چوس رہے ہیں (حیات صحابہ)

جود وسخاکے پیکر

 ایک مرتبہ ایک آدمی امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں تنگدست اور خستہ حال ہوں میری کچھ مدد فرمائی جائے حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے خزانچی کو بلا کر تمام آمدن اور خرچ کا مکمل حساب کرکے خزانچی کو کہا کہ باقی ماندہ مال بھی لے آؤ لہذا وہ پچاس ہزار درہم اور لے آیا پھر امام حسن   رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا کہ ان پانچ ہزار دنانیر کا کیا ہوا جہ میں نے تمہیں دیئے تھے؟ خزانچی نے کہا کہ وہ میرے پاس ہیں حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں بھی لانے کا حکم دیا جب خزانچی سارے درہم ودنانیر لے آیا تو حضرت حسن نے وہ سارا مال اس شخص کو دے دیا اور اس سے معذرت بھی فرمائی کہ یہ مال تیرے شایان شان نہیں(الحسن والحسین)

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کا رونا

 حضور ﷺ حضرت حسن سے بڑی محبت اور لگاؤ رکھتے تھے اہل سیر نے نقل کیا ہےکہ ایک مرتبہ نبیﷺ نے حضرت حسن کے رونے کی آواز سنی توآپ ﷺ گھر کے اندر تشریف لے گئے اور اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا”کیا تم نہیں جانتی کہ حس رضی اللہ تعالی عنہ کا رونا مجھے بے چین کردیتا ہے”

حضرت  امام حسن سردار ہیں

 حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نماز کی حالت میں امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ آپ ﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہوگئے اور ایسا کئی مرتبہ ہوا لوگوں نے آپﷺ سے عرض کیا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ جس قدر حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو چاہتے ہیں کسی کو اور کو نہیں چاہتے آپﷺ نے ارشاد فرمایا یہ میرا بیٹا  حسن سردار ہے اللہ تعالی اس کے ہاتھوں مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں  میں صلح کروائے گا (المرتضی ص 346 )

ایک مہینے کے اعتکاف سے بہتر

حضرت حسن بن علی کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ حاجت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کو نفل عبادت پر ترجیح  دیتے ایک مرتبہ شخص مسجد میں داخل ہواامام حسن  رضی اللہ تعالی عنہ  اس وقت اعتکاف فرمارہے تھے  اس نے اپنی حاجت ظاہر کی حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ  بے اختیار ہو کر  دائرہ اعتکاف سے باہر آئے اور اس کی حاجت پوری فرمائی اور اس کے بعد فرمایا کہ  “کسی مسلمان بھائی کی حاجت کو پورا کرنا   میرے نزد یک ایک مہینے کے اعتکاف سے بہتر ہے۔ (تاریخ اسلام بحولہ ابن عساکر)

لائیں کہاں سے ڈھونڈ کر ہم تجھ سا دوسرا

 یہ کیوں نہ ہو کہ تجھ کو تیرے روبرو کریں

حسنین کریمین  رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں احادیث

 حسن اور حسین  رضی اللہ تعالی عنہ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں (رواہ التر مذی)

 3)اے اللہ میں حسن اور حسین طرضی اللہ تعالی عنہ سے محبت کرتا ہوں  تو بھی ان سے محبت فرما  اور جو ان سے محبت کرے اس سے محبت فرما  (رواہ الترمذی)

جو مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہئے کہ ان دونوں (حسن اور حسین )سے محبت کرے۔

حسن اور حسین  رضی اللہ تعالی عنہ دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔

  6)جس نے حسن اور حسین  رضی اللہ تعالی عنہ سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی اور جس نے ان سے دشمنی کی ادس نے مجھ سے دشمنی کی۔

 فضائل وخصائل امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ نرم خوئی  حلم وجود سخا پیکر تھے ۔حسن بن علی  رضی اللہ تعالی عنہ نے خلافت سے دستبرداری قبول کرلی اور خلافت امیر معاویہ  کے سپرد کرکے اپنے نانا کی اس حدیث کا مصداق بن گئے کہ “میرا یہ بیٹا حسن سردار ہے یہ مسلمانوں کے دو بڑے گرہوں میں صلاح کرائے گا ۔ بعد از شہادت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ چالیس ہزار سے زائد جانثاروں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی لیکن آپ رضی اللہ تعالی عنہ مسلمانوں کے درمیان رخنہ پڑنے کے سبب اپنی طرف سے چند شرائط حکومت کو پیش کی جن کو مان  لینے کے بعد  تخت خلافت امیر معاویہ کے سپرد کردیا گیا ۔اور یوں امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ اپنی ولادت کے بعدحضور ﷺ کی جانب سے کہی جانے والی اس حدیث کا مصداق بن گئے کہ میرا یہ بیٹا حسن سردار ہے اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا

یوں امت مسلماء ایک بڑے سانحے سے دوچار ہوئے بنا دوچار ہونے سے بچ گئی ۔ امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ  جنگ و جدل کو مسلمانوں کے در میان اچھا خیال نہیں کرتے تھے  یہی سبب تھا کہ جب بلوائیوں نے حضرت عثمان کے قتل کا منصوبہ بنا لیا تو حضرت حسن عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دروازے پر پہرا دیتے تاکہ کوئی انہیں نقصان نہ پہنچائے ۔

شہادت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ

    حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ  کو زہر دیا گیا جو کہ ان کی وفات کا سبب بنا عمیر بن اسحاق  فرماتے ہیں کہ میں ایک قریش کے آدمی کے ساتھ حسن بن علی کے پاس گیا  تو حسن بن علی نے مجھے بتایا کہ مجھے بار بار زہر دیا گیا ہے ۔ اور ہر مرتبہ پہلی بار سے  سخت اور تیز زہر دیا گیا ۔اس وقت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ  پر نزع کی کیفیت طاری تھی ۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے  اور سرہانے بیٹھ گئے ۔ اور کہا کہ اے میرے بھائی جان آپ کو کس نے زہر دیا حضرت حسن نے فرمایا کہ کیا تم اسے قتل کرنا چاہتے ہیں ۔ حضرت حسین نے ہاں میں جواب دیا حضرت حسن نے فرمایا اگرمجھے زہر دینے والا وہی ہے جسے میں سمجھ رہاہوں تو اللہ زیادہ سخت امتحان لینے والا ہے  اور اگر وہ نہیں ہے تو میں نہیں چاہتا کہ تم کسی بے قصور  وکو قتل کرو ( البدایہ ونہایہ )  ۔

امام واقدی ثعلبہ بن مالک سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جس دن حسن بن علی کی وفات ہوئی میں وہاں موجود تھا ۔انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا میں نے جنت البقیع اتنا بڑا مجمع دیکھا کہ اگر کوئی سوئی پھینکی جاتی تو وہ زمین پر نہیں کسی نہ کسی کے سر پر گرتی ۔

وہ حسن پیکرجود وسخاوعطا

دوش سوار پیمبر پہ لاکھوں سلام

مزید پڑھیں مختصر واقعہ کربلا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top