اساتذہ والدین کا غصہ بچوں کیلئے نقصان دہ ہیں

اساتذہ، والدین کا غصہ بچوں کیلئے نقصان دہ ہیں

 ماہرین نفسیات کے مطابق والدین کے آپس کے جھگڑوں کے مضر اثرات بچوں کی شخصیت پر پڑتے ہیں، جو ان کی شخصیت کو مسخ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ لہذا ایسے والدیں جو بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑے کرتے ہوں، انہیں اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ والدین کا  کردار بچوں کی شخصیت پر بڑے دور رس اثرات مرتب  کرتا ہے۔ آج اگر آپ کے پاس اپنے بچوں کو دینے کے لئے وقت نہیں تو کل بڑھا پے میں آپ کا کوئی استحقاق نہیں کہ وہ  آپ کو وقت دیں۔

اساتذہ والدین کا غصہ

یہ بھی پڑھیں: والدینیت ( پیرنٹگ ) کے زعم میں والدین کی چند کوتاہیاں

والدین کا  وقت بے وقت  غصہ بچوں کی شخصیت میں ایسے الجھاؤ پیدا کردیتا ہے اور انہیں ایسی کیفیات سے دو چار کر دیتا ہے، کہ جن سے نکلنے کی پھر کوئی سبیل نہیں ہوتی ۔بچوں کے گھر سے فرار اور دوری کا ایک بڑا سبب والدین کا ہر وقت غصہ کرتے رہنا اور نصیحت کرتے رہنا  بھی ہوتا ہے۔ بقول غالب:

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا

تو بچوں سے دوستی لگا ئیے۔ انہیں کبھی کبھار شام میں گھمانے پھرانے لے کر جائیے۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو گھر میں کسی ان ڈور گیم کا اہتمام کریں یا پھر چائے کی ٹیبل پر مل بیٹھیں۔ ٹین ایجر کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچوں کو بھی ساتھ بٹھائیں اور چھوٹے بچوں کو بھی انہماک سے سنیں۔ تاکہ انہیں یہ احساس ہو کہ ہمیں اہمیت دی.  جا رہی ہے۔

چھوٹے بچوں کو زیادہ سرزنش یا نصیحتیں مت کریں وہ عموماً آپکی حرکات و سکنات ہی سے سیکھ جاتے ہیں۔. بچوں کا پسندیدہ ترین کردار مسٹر بین ہے جو کہ بولتا بالکل نہیں لیکن بچے اسے دیکھ کر مخطوظ ہوجاتے ہیں۔ تو پھر والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں سے نرمی اپنائیں۔ اور ان کو کم نصیحت کریں۔

چیخنے چلانے کی عادت، غصہ اور ڈانٹ ڈپٹ اگر والدین کریں گے، تو اس کے رجحانات غیر محسوس طریقے سے بچوں میں منتقل ہو جائینگے۔  پھر وہ ان راہوں پر چل نکلیں گے جہاں سے واپسی عموما ممکن نہیں ہوتی۔ اور خود کو بھی بھول جائیں گے۔ بقول غالب

پھر بے خودی میں بھول گیا راہ کوئے یار

جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو میں

اساتذہ والدین کا غصہ

بچوں کی زندگی میں اساتذہ کا کردار

ہر دور  میں اساتذہ کا کردار بچوں کی شخصیت سازی میں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ایک اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو بچوں کے لئے آسانیاں پیدا کرے نہ کہ دشواریاں۔ آج کے دور میں خوش قسمتی سے وہ تمام وسائل مہیا ہیں جو اساتذہ کو چاہییں۔ لیکن ان وسائل سے یا تو  استفادہ نہیں کیا جاتا یا پھر ان کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔

 استاد کی پہلی ذمہ داری بچے کی مزاجی کیفیت اس کے فیملی بیک گراؤنڈ اور اس کی نفسیات سے آگاہ ہونا ہے۔ اس سے بچے کی تعلیم و تربیت اور شخصیت سازی میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اور اگر خدانخواستہ استاد بھی غصے سے بھری طبیعت کا مالک مل گیا۔ تو بچے میں منفی رحجانات پروان چڑھنا شروع ہو جائینگے۔

اساتذہ والدین کا غصہ

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ سے واضح مثال ہمارے پاس موجود ہے۔ وہ معلم اعظم جس نے ساری دنیا کو کتاب و حکمت کا درس دیا۔ زمانہ جسکے در اقدس سے علم و حکمت کے موتی چنتا رہا۔ اس با عظمت نبی ﷺ  کی بارگاہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کامل دس سال تک ایک  خادم کی حیثیت سے  ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ  میری خدمت کے ان  دس سالوں میں مجھ سے کبھی بھی نبی علیہ السلام نے یہ نہ کہا کہ اے انس  تو نے یہ کام نہ کیا تو کیوں اور کیا تو کیوں کیا؟

 غور طلب بات یہ ہے کہ ہادی دو عالم صلی اللہ علیہ  تو تشریف ہی ہدایت اور اصلاح کے لئے لائے تھے۔ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فریضے کو ادا نہ فرمایا ہو۔ یقیناً حضور نے ان کی تربیت بھی فرمائی ہے۔ البتہ   فرق اتنا ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے تربیت کرنے میں تذلیل اور غصے کا پہلو بالکل  نہیں ہوتا تھا۔

انہیں ہمیشہ نرم لہجے اور حکیمانہ انداز سے سمجھا دیتے، جس سے سامنے والے کے دل پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوتے۔  دس سال کے طویل عرصے میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نہ تو حضرت انس کی تذلیل کی اور نہ ہی کبھی ناگواری کا اظہار فرمایا۔ جس کا اثریہ ہوا  کہ استاد اور شاگرد کا تعلق انتہائی مضبوط ہو گیا۔

اساتذہ والدین کا غصہ

یہ بھی پڑھئیے: بچوں کی جذباتی تربیت اور والدین کی ذمہ داری

آج  بچوں کے ساتھ اساتذہ کا رویہ

آج بچوں کے ساتھ اساتذہ کا رویہ اسکے بالکل برعکس ہے۔ یاد رکھئے اگر ہم استاد ہیں تو ہم نائب رسول صلی اللہ علیہ وال وسلم بھی ہیں۔ کیونکہ وہ معلم اول اور معلم اعظم ہیں اور ہم ان کے پیرو کار ہیں۔  بچوں پر اساتذہ کی جانب سے  ہمیشہ غصہ اور ڈانٹ  ڈپٹ  کرنے پر ان کی شخصیت میں مجروح ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔ لہذا اساتذہ  کرام کو اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔  غصے اور مار پیٹ سے کام لینے کے بجائے حکیمانہ طریقوں سے بچوں کو منزل کی جانب رواں دواں رکھنا چاہئے ۔ان کے درد کو سمجھیں گے  تو ہی ہم  اچھے استاد بن سکیں گے ۔

متاع درد جسے نہ مل سکی اے یونس

بھلا وہ خاک تیرا درد آشنا ہوگا

اساتذہ والدین کا غصہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top