
ہندوستان میں باب اسلام سندھ کو کہا جاتا ہے ، کیونکہ 712 عیسوی میں مسلمانوں کی ہندوستان میں پہلی حکومت سندھ پر اس وقت قائم ہوئی جب محمد بن قاسم نے عرب گورنر حجاج بن یوسف کے حکم پر سندھ کے حکمران راجہ داہر پر لشکر کشی کی تھی۔
محمد بن قاسم نے یہ حملہ راجہ داہر کو سزا دینے کےلئے کیا تھا کیوں کہ اس کی سلطنت کی حدود میں لنکا تشریف لے گئے کچھ مسلمانوں کی کشتیاں لوٹ لی گئی تھیں اور راجہ داہر نے قزاقوں کا سدباب نہیں کیا ۔
سندھ ، بلوچستان کا کچھ حصہ اور جنوبی پنجاب اگلی کئی صدیوں تک عرب اسلامی سلطنت کا صوبہ رہا تاہم مسلمانوں کی ہندوستان میں پہلی مرکزی حکومت 1206 میں قطب الدین ایبک نے دہلی پر قبضہ کر کے قائم کی تھی۔ 1206 سے 1290 تک خاندان غلاماں، 1290 سے 1320 تک خلجی خاندان، 1320 سے 1414 تک تغلق خاندان، 1414 سے 1451 تک سید خاندان، 1451 سے 1526 تک لودھی خاندان نے دہلی پر حاکم رہا۔
مگر یہ م یونائیٹڈ انڈیا کی سلطنتیں نہیں تھیں ، یہ مسلم ریاستیں محض ہندوستان کے ایک تہائی خطے جس میں دہلی ، پنجاب ، بنگال ، دکن اورجنوبی ہندوستان کے علاقوں پر مشتمل تھیں۔ یونائٹڈ انڈیا کی حقیقی سلطنتیں ہندوستان میں چند حکمرانوں نے قائم کی ہیں جن میں اشوک اعظم ، مغل حکمران جلال الدین اکبر اور ایسٹ انڈیا کمپنی نمایاں ہیں۔
ظہیرالدین بابر ، ایک کرشماتی بادشاہ:
بابر کا بچپن :
مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر سنٹرل ایشیا کے ایک خوبصورت خطے وادی فرغانہ میں 1488 میں تیموری شاہی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد شیخ مرزا مشہور فاتح عالم امیر تیمور کی پانچویں نسل میں سے تھے جبکہ والدہ کتلک نگار خانم چنگیز خان کی پندرہویں پشت سے تھیں۔
بابر نے اپنی زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے ، وہ صبح تخت نشین ہوتے تو شام کو اپنی جان دشمنوں سے بچاتے پھرتے تھے۔
بابر کی عمر محض 12 برس تھی کہ والد کی اچانک موت کے بعد تخت نشین ہونا پڑا۔ فرغانہ کی پڑوسی ریاستیں جو اس کے اپنے رشتہ داروں کی حاکمیت پ تھیں ان کی حریص نگاہیں فرغانہ پر پڑیں وہ ایک بچے سے فرغانہ جیسا زرخیز خطہ چھین لینا چاہتے تھے۔
اس کی تخت نشینی سے پہلے ہی فرغانہ پر اس کے چچا نے حملہ کر دیا ۔ مگر بابر نے اپنے چچا کو شکست دے دی ۔ اس کی دوسری جنگ اپنے ماموں محمود خان سے ہوئی اور وہ یہ جنگ بھی جیت گیا۔
امیر تیمور کی وسیع سلطنت کا پایہ تخت ثمرقند تھا جس پر بابر کے چچا احمد مرزا کا قبضہ تھا۔ 1494 میں احمد مرزا کی وفات کے بعد اس کے جانشینوں نے خانہ جنگی شروع کر دی ، بابر نے موقع غنیمت جانا مگر پہلا حملہ ناکام ہوا اور 1495 میں اس نے دوسرے حملے میں ثمرقند پر قبضہ کر لیا۔ یہیں سے اس کی قمست کی الٹی گنتی شروع ہو گئی تھی۔
بابر نے ثمرقند پر قبضہ منگولوں سے مل کر کیا تھا جو لوٹ مار کے شیدائی تھے مگر بابر کے انکار پر وہ اس کا ساتھ چھوڑ گے۔ اسی اثناء بابر خود بھی بیمار پڑ گیا۔ بیماری کی خبر اس کے آبائی وطن فرغانہ پہنچی تو وہاں بغاوت ہو گئی۔
بابر فرغانہ کی بغاوت ختم کرنے اپنے آبائی ملک پہنچا تو اسے مایوسی ہوئی کیوں کہ اس کے دارالحکومت پر دشمن قابض ہو چکے تھے اور بابر کم فوج کے ساتھ شہر کا محاصرہ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ وسیع تیاری کی غرض سے دوبارہ ثمرقند روانہ ہوا ، معلوم ہوا اہل ثمرقند نے بھی بغاوت کر دی ہے اور شہر کے دروازے بابر پر بند کر دیے ہیں۔
اب بابر کے پاس نہ فرغانہ رہا اور نہ ہی ثمرقند۔ بابر دو سال تک آوارہ گردی کرتا رہا مگر کوئی اہم جگہ نہ فتح کر سکا۔ سب سے مایوس ہو کر وہ منگول حکمران سلطان احمد کے پاس جا پہنچا اور اس کی مدد لے کر ثمرقند پر دوبارہ حملہ اور ہوا۔
اہل ثمرقند اپنے حکمران شیبانی خان سے پہلے ہی ستائے تھے ۔ رات کی تاریکی میں بابر شہر کے اندر چند سپاہیوں کے ساتھ داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا اور صبح شہر والوں نے اس کا ساتھ دے کر دروازے کھول دیے۔ یوں بابر کو کھویا ثمرقند پھر سے واپس مل گیا۔
شیبانی خان بھاگنے میں کامیاب ہو گیا اور 1501 میں ایک بڑا لشکر لے کر پھر سے بابر پر حملہ اور ہوا۔ ثمر قند کی کھلی لڑائی میں بابر جنگ ہار گیا اور واپس ثمر قند لوٹ آیا۔ شیبانی خان نے ثمرقند کا محاصرہ کر لیا۔
بھوک و افلاس کی وجہ سے بابر نے ثمرقند شیبانی خان کے حوالے کر دیا اور خود صحرا نورد ہو گیا۔ 1503 میں بابر نے ایک بار پھر م شیبانی خان پر حملہ کیا مگر وہ ناکام ہوا اور 1504 میں موجودہ ازبکستان سے جلاوطن ہو کر افغانستان کی طرف نکل آیا۔
کابل پر قبضہ :
21 سالہ بابر نے چند سو سپاہیوں کے ساتھ افغانستان کے دل کابل پر اپنا قبضہ کر لیا حالانکہ اس کی فوج انتہائی قلیل تھی۔ بابر کی اب بھی یہ خواہش تھی کہ فرغانہ پر دوبارہ قبضہ کرنے ۔1510 اور 1511 میں اس نے ازبکستان پر کئی حملے کئے مگر ہر بار وہ ناکام ہوا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی سلطنت پر ابراہم لودھی کی حکمرانی تھی مگر اس کی رعایا اور دیگر راجے اسے سخت ںاپسند کرتے تھے۔ 1521 میں ابراہم لودھی کے افغان وزیروں نے بابر کو خط لکھ کر اسے ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی مگر بابر ہندوستان سے پہلے قندہار پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے قندھار پر حملہ کیا مگر لڑائی نے طول کھینچ لیا۔
رانا سانگا کی دعوت ہند:
1526 میں بابر کو ہندوستان پر حملہ کا ایک اور دعوت نامہ وصول ہوا اور بابر اسے ہر گز مسترد نہیں کر سکتا تھا۔ یہ دعوت نامہ ہندوستان کی راجپوت ریاست میواڑ کے حکمران رانا سنگرام عرف رانا سانگا کی جانب سے تھا۔رانا سانگا نے بابر کو دہلی سلطنت کے خلاف جنگ میں بھرپور مدد کرنے کا وعدہ دیا۔
رانا سانگا کا یہ خیال تھا جو بعد میں انتہائی غلط ثابت ہوا کہ بابر اور اس کی فوج لودھی سلطنت کے خاتمے کے بعد صرف لوٹ مار کر کے ہندوستان کی گرمی سے تنگ آ کر واپس چلی جائے گی اور وہ خود خود دہلی پر قبضہ کر لے گا۔
پانی پت کی پہلی لڑائی :
رانا سانگا کی دعوت پر بابر 12 ہزار کا لشکر کابل سے ہندوستان لے آیا اور دہلی کی جانب کوچ کیا۔ پانی پت کے میدان میں ابرہیم لودھی چالیس ہزار سپاہ اور 1000 جنگی ہاتھیوں کے ساتھ پہلے سے تیار کھڑا تھا۔
مغربی مورخین کے مطابق پانی پت کی پہلی لڑائی دنیا کی سو فیصلہ کن جنگوں میں شامل ہے۔
واضح عددی برتری ابراہم لودھی کو حاصل تھی مگر بابر کے پاس ایک ہتھیار ایسا تھا جو اس سے پہلے کبھی کسی ہندوستان کی جنگ میں استعمال نہیں ہوا تھا ۔ یہ 24 توپیں تھیں جو اس کے ترک توپچی چلا رہے تھے۔
بابر نے اپنی فوج کو چھوٹے چھوٹے دستوں میں تقسیم کیا ، توپوں کو بیل گاڑیوں کی حفاظتی باڑ میں نصب کروایا۔ جب توپوں سے گولہ باری شروع ہوئی تو ابراہم لودھی کی فوج پر قیامت ٹوٹ پڑی اور ان کی صفیں ٹوٹ گئیں۔ بابر کے بارہ ہزار گھڑسوار فوجوں نے چاروں اطراف سے ان پر حملے شروع کر دیے۔
کچھ ہی دیر میں دہلی کی فوج کے پاؤں اکھڑ گے۔ سلطان ابراہیم لودھی جنگ کرتے ہوئے مارا گیا اور دہلی کی افواج فرار ہونے لگیں۔
بابر کا دہلی پر قبضہ :
رانا سانگا کی توقعات کے عین مطابق بابر نے دہلی پر قبضہ کر لیا مگر رانا سانگا کو اس وقت مایوسی ہوئی جب بابر نے اعلان کیا وہ ہندوستان کو ہر گز نہیں چھوڑے گا اور یہاں اپنی سلطنت قائم کرے گا۔ اگرچہ بابر کے کئی عمائدین ہندوستان کی گرمی سے تنگ آ کر کابل واپس چلے گے تھے۔
رانا سانگا کی جنگی تیاریاں:
رانا سانگا نے مایوس ہو کر متحدہ راجپوتانہ سے ایک کثیر لشکر تیار کیا اور شکست خوردہ لودھی سلطنت کی پٹھان فوجوں سے بھی اتحاد کر لیا۔
جنگ کنواہہ : بابر بمقابلہ رانا سانگا
مارچ 1527 رانا سانگا اسی ہزار لشکر اور پانچ سو جنگی ہاتھیوں کے ساتھ آگرہ پر حملہ کرنے نکلا ، بابر بھی چالیس ہزار کے لشکر اور اپنے توپخانہ کے ساتھ آگرہ سے باہر مقابلہ کرنے کےلئے روانہ ہوا۔ 16 مارچ 1527 کو دونوں لشکر کنواہہ کے گاؤں میں آمنے سامنے ہوئے۔
بابر کے سامنے راجپوتوں کا لشکر عظیم تھا اور ایک ابتدائی جھڑپ میں وہ جیت بھی چکے تھے۔ مغل لشکر خوف زدہ تھا مگر بابر نے ایک نہایت جاندار تقریر اپنے لشکریوں کے سامنے کی اور اس لڑائی کو اسلام اور کفر کی لڑائی قرار دے دیا۔ مغل فوج کے پاس جو شراب تھی اس میں نمک ڈال کر سرکہ بنا دیا گیا اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک جہاد قرار دیا۔
بابر نے اپنے لشکر کو چھوٹے دستوں میں تقسیم کیا اور اپنے توپخانہ کو بیل گاڑیوں پر لادا جس سے ان کی میدان جنگ میں حرکت انتہائی سہل ہو گئی۔
17 مارچ کو صبح 9 بجے کے قریب راجپوت گھڑسواروں نے حملہ کا آغاز کیا ، بابر کے توپخانہ نے گولہ باری شروع کی دی ۔ راجپوتوں کے گھوڑے اور جنگی ہاتھی بدک گے اور اپنے ہی فوجیوں کو ہلاک کرنے لگے ۔ رہی سہی کسر بابر کے گھڑ سوار دستوں نے زور دار حملے کے ساتھ پوری کر دی تھی۔ دس گھنٹوں کی لڑائی میں راجپوتوں کو عظیم شکست فاش ہوئی اور ان کے اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا۔
رانا سانگا کا انجام:
زخمی رانا سانگا کو اس کے اپنے ہی وزیروں نے زہر دے کر موت سے ہمکنار کر دیا تھا۔
1529 میں بابر نے ابراہیم لودھی کے فرزند محمد لودھی کو گھاگھرا کی جنگ میں شکست دے کر قتل کر ڈالا۔
بابر نے ہمایوں کی شفایابی کےلئے جان دے دی :
1530 میں بابر کا ولی عہد ہمایوں سخت بیمار پڑ گے اور بچنے کی کوئی امید نہیں تھی ۔ بابر نے اپنے عقیدے کے مطابق ہمایوں کی چارپائی کے اردگرد چکر کاٹے اور منت مانگی کہ ہمایوں کی بیماری اسے منتقل ہو جائے۔ ہوا بھی کچھ ایسے ، ہمایوں صحت یاب ہونے لگا اور بابر بیمار پڑ گیا اور چند ہفتوں میں انتقال کر گیا۔
بابر کی سلطنت: بابر کی مغلیہ سلطنت پنجاب ، کابل ، دہلی ، آگرہ اور جنوبی ہندوستان کے کچھ محدود سے علاقوں پر مشتمل تھی ۔
ہمایوں کی تخت نشینی:
ہمایوں 27 برس کی عمر میں دہلی کے تخت پر نشین ہوا۔ 1534 میں شیر شاہ سوری نے مشرقی سلطنت میں ںےپناہ قوت حاصل کر لی ۔ ہمایوں اس کی سرکوبی کےلئے روانہ ضرور ہوئے مگر اندرونی بغاوت کی وجہ سے واپس آنا پڑا۔
شیر شاہ سوری بمقابلہ ہمایوں :
1537 میں ہمایوں نے بنگال پر لشکر کشی کی مگر ابھی وہ بنگال نہیں پہنچا تھا کہ شیر شاہ سوری نے بنگال کے دارالحکومت گوڑ پر قبضہ کر لیا۔ ہمایوں بنگال میں پھنس گیا کیوں کہ دہلی اور اس کے لشکر کے درمیان شیر شاہ سوری حائل ہو گیا تھا۔
جنگ چوسہ:
بالآخر شیر شاہ سوری اور مغل بادشاہ ہمایوں کے درمیان چوسہ کے میدان میں عظیم لڑائی لڑی گئی تھی۔ ہمایوں کو شکست ہوئی اور وہ اپنی جان بچانے کےلئے بہتے دریا میں کود پڑے ۔ ایک بہشتی نے ان کی جان بچائی۔
بہشتی کی حکومت:
ہمایوں نے دہلی پہنچنے پر بہشتی کو آدھ دن کےلئے بادشاہ بنایا تھا۔
جنگ قنوج : شیر شاہ سوری اور ہمایوں پھر آمنے سامنے
1538 میں ہمایوں نے ایک بار پھر قنوج کی طرف سے شیر شاہ سوری پر حملہ کر دیا۔ ستر ہزار کی فوج کے ساتھ بھی ہمایوں جنگ قنوج میں شیر شاہ سوری سے شکست کھا گے اور جان بچانے کےلئے اگرہ کی طرف بھاگے ۔
اگرہ کے راستے میں انھیں دیہاتیوں نے روک لیا ، وہ بڑی مشکل سے آگرہ پہنچے تاہم دو سال بعد 1540 میں انھیں آگرہ بھی چھوڑنا پڑا تھا۔
ہمایوں کے بھائیوں کی لالچ :
ہمایوں کے دو بھائی ہندال اور کامران تھے جن کے پاس لاہور اور کابل کی حکمرانی تھی۔ ہمایوں کے پاس کوئی سلطنت نہیں بچی تھی ۔ اس نے اپنے بھائیوں سے جب بھی مدد مانگی وہ انکار کرتے رہے۔
ایک طرف دونوں بھائیوں کی بے وفائی تو دوسری جانب شیر شاہ سوری مسلسل ہمایوں کے تعاقب میں تھا۔
ہمایوں نے مجبوری میں ملتان کا رخ کیا اور وہاں سے سندھ عمر کوٹ چلا گیا جہاں اس کے بیٹے اکبر کی پیدائش ہوئی جسے تاریخ ظل الٰہی جلال الدین محمد اکبر کے نام سے جانتی ہے۔
ہمایوں نے اکبر کو اپنے بھائی حاکم کابل کے پاس روانہ کر دیا اور خود شاہ ایران کی سرزمین میں چلا گیا۔
ہمایوں ایران میں :
1544 میں ہمایوں بچتا بچاتا شاہ ایران طہماسپ اول کے پاس جا پہنچا جس نے ہمایوں کا شاندار استقبال کیا تھا۔ شاہ طماسپ نے ہمایوں کی مدد کےلئے دو اہم شرطیں رکھیں۔ اول وہ شیعہ فرقہ قبول کرے اور دوم قندھار فتح کر کے دے۔
ہمایوں نے دونوں شرطیں قبول کر لیں اور 1545 میں ایرانی فوجوں کے ساتھ قندھار فتح کر کے دے دیا۔ اسی سال شیر شاہ سوری کی موت ایک محاصرے کے دوران گولہ پھٹنے سے ہو گئی تھی۔
ہمایوں کی اپنے دونوں بھائیوں سے بھی لڑائیاں ہوئیں جنہیں ہمایوں نے شکست دی اور انھیں مکہ کی طرف جلاوطن کر دیا تھا۔
1554 تک شیر شاہ کی سلطنت انتہائی کمزور ہو چکی تھی کیوں کہ اس کے جانشین انتہائی نااہل تھے۔ ہمایوں ایران کی بارہ ہزار فوج کے ساتھ دریائے سندھ کے راستے ہندوستان داخل ہوا اور سرہند ، پنجاب اور دہلی کی جنگیں جیتنے کے بعد پھر سے اقتدار میں آ گیا تھا۔
ہمایوں پندرہ سال تک جلاوطن رہا رہا تھا۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد صرف چھ ماہ تک وہ تخت نشین رہا اور فروی 1556 میں اپنی لائبریری شیر منڈل کی چھت سے نیچے آتے ہوئے گر پڑا اور قیمتی جان سے گیا۔
ہمایوں کی وفات تک مغل سلطنت کسی حک تک مستحکم ہو چکی تھی ، مغل سلطنت کو سب سے زیادہ وسعت اکبر نے دی ہے جس کی حکمرانی موجودہ پاکستان ، بنگلہ دیش ، افغانستان اور انڈیا پر مشتمل تھی۔
قسط نمبر 2 میں آپ پڑھ سکیں گے شیر شاہ سوری کے عظیم کارنامے ، مغل بادشاہ اکبر کا شاندار دور اور جہانگیر کے تاج محل کی کہانی۔
Be the first to comment