ربیع الاول کے معنی اور فضیلت
ربیع دراصل عر بی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بہار کے ہیں اور اول کے معنی ہیں پہلی یعنی نبی ﷺ کی آمد دراصل روئے زمیں کی وہ پہلی بہار تھی کہ جس کے بعد زمیں سے فسق وفجور کے بادل چھٹ گئے حور وملک آمد ربیع الاول کی خوشی میں ترانے گانے لگے
ہر طرف نور صلے علی ہوگیا
آج پیدا حبیب خدا ہو گیا
اس مہینے کو ربیع الاول کہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ جب اس مہینے کا نام رکھنے کا نمبر آیا تو یہ مہینہ فصل ربیع یعنی موسم بہار کے شروع میں واقع ہوا اس وجہ سے اس کا نام ربیع الاول رکھ دیا گیا.
بارہ ربیع الاول کے دن ابر بہاران چھائے
میرے سرکارصلی اللہ علیہ والہ وسلم آئے
اس دنیاوی اور ظاہری بہار کے علاوہ ایک دوسری اور اصل بہار ہے یہ بہار دراصل نبی ﷺ کی آمد ہے جس سے اسلام کا ڈنکا بجنے لگا، دین کا بول بالا ہونے لگا، صداقت اور ایمانداری کی کرنیں پھیلنے لگیں. یہی نہیں بلکہ بت پرست لوگوں میں ماتم شروع ہوگیا، یہود و نصارا بھی بکھرنا شروع ہوگئے، قارونیت، فرعونیت اور مظلومیت کا خاتمہ ہونے لگا۔یہ وہ بہار ہے جو بے حد حسین و جمیل، سر سے پاؤں تک حسن یہ کسی خزانے سے کم نہیںیہ وہ بہار ہے کہ جس میں یتیموں کے ماوی، محتاجوں کے ملجاء، ساقی کوثر، شافع محشر، ختم الانبیاء، رحمت اللعالمین، دونوں جہانوں کے سردار و تاجدار، آمنہ کے لال،محمد مصطفی، احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
صحن چمن کو اپنی بہاروں پہ ناز تھا،
وہ آگئے تو ساری بہاروں پر چھا گئے.
اسلام میں ماہ ربیع الاول کا ایک خاص مقام ہے جو بعض حیثیتوں سے اس کو دوسرے تمام مہینوں سے ممتاز رکھتا ہے. اور اس کی وجہ صرف اور صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہے. لیکن یہ بہار کوئی وقتی اور عارضی بہار نہیں ہے بلکہ اس لازوال بہار کا معاملہ تو کچھ یوں ہے کہ اب تمام زندگی اسی کے ذکر میں بسر کرنی ہوگی. مؤمن کی شان یہ ہے کہ ہر وقت ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مشغول رہے. کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، چلتے پھرتے غرض یہ کہ کوئی گھڑی بھی ہماری ایسی نا گزرے جس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہ ہو.
حیات محمدی کے درخشاں پہلو
ولادت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک
حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے قبل مکہ مکرمہ کے لوگ سخت قحط اور تنگی میں مبتلا تھے. جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کے شکم اقدس میں تشریف لائے تو اتنی بارش ہوئی،اتنی بارش ہوئی کہ زمین سر سبز و شاداب ہوگئی. درختوں پر پتے اور پھل و پھول لگ گئے اور ہر جگہ خوشحالی کی فضا قائم ہوگئی.ابھی آپ ﷺ شکم مادر ہی میں تھے کہ حضرت آمنہ فرماتی ہیں کہ میرۓ جسم سے ایسی مبارک خوشبو آتی کہ در ودیوار مہکنے لگتے ربیع الاول کی یہ بہار اصل میں رسولﷺ کی آمد ہے
حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیٹ سے باہر تشریف لائے تو میں نے دیکھا کہ آپ سجدے میں جھکے ہوئے ہیں اور اپنی انگلی اوپر اٹھائی ہوئی ہے. اسکے بعد میں نے ایک سفید نورانی بادل آسمان سے اترتے دیکھا، اس نے حجرے میں آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اندر چھپا لیا. پھر صرف یہ آواز سننے میں آئی کہ آپ کو لے جاؤ اور مشرق تا مغرب میں آپ کی زیارت کراؤ، تاکہ آپ کا نام و زبان، شان و صورت سب کو معلوم ہو جائے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آدم کا خلق، شیث کی معرفت، نوح کی شجاعت، ابراہیم کی خلت، اسماعیل کی زبان، اسحاق کی رضا، صالح کی فصاحت، لوط کی حکمت، یعقوب کی بشارت، موسی کی قوت، ایوب کا صبر، یونس کی اطاعت، الغرض تمام انبیاء اکرام کے مبارک اخلاق میں آپ کو رنگ دو… تھوڑی دیر بعد جب وہ بادل ہٹ گیا پھر آپ مجھے نظر آنے لگے، آپ کا چہرہ مبارک کی روشنی چودہویں کے چاند کی سی اور خوشبو مشک کی سی تھی. (مواھب لدینہ)
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہا فرماتے ہیں کہ آپ کی ولادت باسعادت کے وقت کسری کے محل میں زلزلہ آیا اور اس کے چودہ کنگر گر گئے. اور شیطانوں اور جنوں کو آسمان تک جانے سے روک دیا گیا. آپ ناف بریدہ اور ختنے کئے ہوئے اور آنکھوں میں قدرتی سرمہ لگائے ہوئے پیدا ہوئے.
وصال امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جھلک :
حضرت سالم بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت کے دوران آپ پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ پھر جب کچھ افاقہ ہوا تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کو کہو کہ اذان کہےاور ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ اس کے بعد حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ پھر کچھ افاقہ ہوا تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا نماز کا وقت ہو گیا ہے؟ تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بلال کو کہو اذان دے اور ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ میرے والد ابوبکر بڑے نرم دل ہیں، وہ جب اس مصلے پر کھڑے ہوں گے تو روپڑیں گے اور نماز نہ پڑھا سکیں گے، لہٰذا آپ کسی دوسرے آدمی کو نماز پڑھا نے کا حکم دے دیں۔ اس کے بعد آپ پر پھر بے ہوشی طاری ہو گئی۔ جب کچھ افاقہ ہوا تو فرمایا: بلال کو کہو کہ اذان دیں اور ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پھر آپ نے جب کچھ ہلکا پن محسوس کیا تو فرمایا: دیکھو مجھے سہارا دے کر کوئی مسجد تک لے جانے والا ہے؟چنانچہ حضرت بریرہ باندی اور ایک دوسرا شخص آیا اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کے کندھوں کا سہارا لیا اور مسجد تک تشریف لے گئے۔ پھر جب حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ کو آتے دیکھا تو پیچھے ہٹنے کا ارادہ فرمایا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر ثابت قدم رہو یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےنماز مکمل فرمائی اور اسی روز حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ جس شخص نے یہ کہا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ہے میں اپنی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگ اُمّی تھے، اس سے پہلے ان میں کوئی نبی نہیں آیا تھا، لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بات پر سب خاموش ہوگئے۔ پھر بعض لوگوں نے کہا کہ اے سالم! جاؤ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لے آؤ۔ حضرت سالم فرماتے ہیں کہ میں روتا ہوا دہشت کے عالم میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا۔
اس وقت آپ مسجد میں تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر پوچھا: کیا حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا ہے؟ میں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے یہ کہا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا ہے میں اپنی تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ چلو۔ چنانچہ میں بھی ان کے ہمراہ چل دیا۔ جب آپ تشریف لائے تو لوگ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر جمع تھے۔ آپ نے فرمایا: لوگو مجھے راستہ دو۔ چنانچہ لوگوں نے آپ کو راستہ دے دیا۔ آپ آئے اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر گہری نظر ڈال کر آپ کی پیشانی مبارک کو بوسہ دیا، آپ کو چھوا اور یہ آیت پڑھی:
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ ․
[سورۃ الزمر: 30]
آپ بھی وفات پانے والے ہیں اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔
پھر لوگوں نے پوچھا کہ کیا حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں۔ لوگ سمجھ گئے اور ان کو یقین ہوگیا۔ پھر لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! کیا ہم حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ بھی پڑھیں گے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہاں۔ لوگوں نے پوچھا: جنازہ کس طرح پڑھیں؟ آپ نے جواب دیا: ایک جماعت حجرہ کے اندر جائے، وہ تکبیر کہے اور دعا کرے اور حضرت پاک صلی للہ علیہ وسلم پر درود پڑھ کر باہر آجائے، پھر دوسری جماعت حجرہ مبارک میں داخل ہو تکبیر کہے، درود پڑھے اور دعا کرکے باہر آجائے، اسی طرح سب لوگ نماز جنازہ پڑھیں۔ پھر لوگوں نے پوچھا : اے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! کیا حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن بھی کیا جائے گا؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ لوگوں نے پوچھا:
کس جگہ دفن کیا جائے گا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ کو اسی جگہ دفن کیا جائے گا جس جگہ آپ فوت ہوئے، اس لیے کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک اللہ تعالیٰ نے اسی جگہ پر قبض فرمائی ہے جو جگہ اللہ کو پسند ہے۔ صحابہ کو ہرہر بات پر یقین ہوگیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے تمام امور میں ٹھیک راہنمائی فرمائی ہے۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ داروں کو حکم دیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کریں۔ مہاجرین آپس میں خلیفہ کے بارے میں مشورہ کر رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ اپنے انصاری بھائیوں کے پاس چلیں اور انہیں بھی اس معاملہ میں اپنے ساتھ شریک کریں۔ چنانچہ جب مشورہ ہوا تو انصار نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے ہونا چاہیےاور ایک امیر تم میں سے ہوناچاہیے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا: وہ کون شخص ہے کہ جس میں یہ تین فضیلتیں جمع ہیں:
(۱): جس کو قرآن نے ”ثانی اثنین“ کہا یعنی وہ غار میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا تنہائی کا ساتھی ہے۔
(۲): جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی اور رفیق فرمایا ہے۔
(۳): جس کو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غم نہ کرو،اللہ ہمارے ساتھ ہے یعنی اس کو اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہے۔
اے لوگو بتاؤ! وہ دونوں کون تھے جن دونوں کے بارے میں یہ آیتیں اتریں؟ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ بڑھایا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی، پھر دوسرے تمام لوگوں نے بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اپنی رضا مندی اور رغبت کے ساتھ بیعت کرلی۔
ولادت و وفات کی ربیع الاول میں جمع ہونے کی حکمت:
ولادت و وفات کے ایک مہینے کے اندر جمع ہونے میں بزرگان دین نے ایک حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ کوئی شخص ماہ ربیع الاول میں آپ کی ولادت کی وجہ سے نہ تو ” یوم العید ” (خوشی کا دن) منائے اور نہ “یوم الحزن ” (غم کا دن) کیونکہ اگر کوئی اس کو یوم العید بنانا چاہتے ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا خیال اسے روک دے گا. اور اگر کوئی یوم الحزن منانا چاہے تو ولادت شریفہ کا خیال رنج و غم میں رکاوٹ ہو گا. کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت/ وفات سے زیادہ کوئی واقعہ خوشی/ رنج و غم کا نہیں