دین اسلام وہ مثالی دین ہے جہاں ہر رشتے کو اہمیت اور اس کا حقیقی مقام دیا جاتا ہے خواہ وہ رشتہ چھوٹا ہو یا بڑا ہر ہر رشتہ اہم ہے اور اس رشتے کا اپنا ایک الگ مقام ومرتبہ ہے ماں باپ کامقام، بہن بھائی کامقام ،شوہرکا مقام اور بیوی کامقام ،اسی طرح دین اسلام نے استاد کے مقام کو بڑی اہمیت دی ہے ازروئے قرآن تو اس کائنات میں بسنے والے ہر انسان کا استاد اللہ رب العزت ہے فرمان باری تعالی ہے
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا
ترجمہ ۔اور اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے نام سکھادیئے
اَلرَّحْمٰنُ(1)عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ
ترجمہ ۔رحمان نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ
ترجمہ ۔ اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا انسان کو
الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ(4)عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ
ترجمہ: جس نے قلم سے لکھنا سکھایا آدمی کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔
تو اس بات سے یہ معلوم ہوا کہ اس کائنات کے سب سے بڑے استاد اور معلم اللہ تعالی ہیں اور اس کے بعد وہ باکمال اور عظیم ہستی کہ جس کے بارے میں قرآن نے فرمایا
وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ
ترجمہ ۔جو کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کرے
اور یہ ہستی ہے میرے نبی پاک ﷺ کی ذات اقدس جو صفہ کی درسگاہ کے معلم واستاد ہیں اور ایک لاکھ چوبیس ہزار کم وبیش صحابہ کے استاد ہیں فرمان رسول ﷺ ہے کہ
اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً
مجھے مُعلّم بنا کر بھیجا گیا۔(ابنِ ماجہ،ج 1،ص150،حدیث:229
وہ معلم کائنات دنیا کا وہ عظیم استاد جس نے مردہ انسانیت میں زندگی کی نئی روح پھونک دی جس نے جینے کا سلیقہ سکھایا جس نے انسانیت کو اس کے حقیقی مقام ومرتبے تک پہنچایا جس نے کائنات کو رب تعالی کی ذات سے روشناس کرایا جس نے ڈوبتے ہوؤں کو سہارے دیئے جس کی نگاہ کرم نے دنیا کو وہ عظیم لوگ عطا کئے کہ جن کے نام کے ڈنکے آج تک لوگوں کی زباں پر ہیں
جس طرف اٹھ گئی دم میں دم آگیا
اس نگاہ عنایت پہ لاکھوں سلام
جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑے
اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام
صفہ کی درسگاہ کی وہ ہستی استاد معلم تھے میرے سرکارﷺ جنہوں نے زمانے کو کتاب وحکمت کی تعلیم دی اور دین اسلام سے قبل کے عرب معاشرے کا ایسا تزکیہ کیا عرب والوں کو تعلیمات محمدی نے وہ مقام عطا کیا کہ ایک دوسرے کی جانوں کے دشمن ایک دوسرے کی جانوں کے محافظ بن گئے زما نے کے رہبر بن گئے رہنما بن گئے زمانے کے استاد بن گئے اور دین اسلام کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا اور آج دنیا ان کا نام بڑی عزت واحترام کے ساتھ لیتی ہے دین اسلام نے استاد کو روحانی والد کا مقام عطا کیا ہے دین اسلام میں حصول علم ودرس اور تدریس میں استاد کو مرکزی مقام اور حیثیت حاصل ہے نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ
لوگوں کو بھلائی سکھانے والے پر اللہ اور اس کے فرشتے آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات حتی کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں سمندر میں دعا کرتی ہیں (ترمذی2675)
نبی کریم ﷺ کا ارشاد عالی پاک ہے ہے کہ
علم والے انبیاء کے وارث ہیں
یعنی استاد جو معاشرے کو تعلیم دیتا ہے اس کا مقام ومرتبہ یہ ہے کہ اسے انبیاء کا وارث کہا گیا ہے دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں ہے کہ جس نے استاد کو یہ اعلی مقام دیا ہے اسی مناسبت سے استاد کو اس کے حقوق بھی ملنے چاہئیں استاد معاشرے کا وہ اعلی تریں فرد ہوتا ہے کہ جس کے ہاتھوں میں ملک کا مستقبل ہوتا ہے وہ دل میں صلے کی تمنا نہیں رکھتا کیونکہ اس میں انبیاء والی صفات بھی آجاتی ہیں وہ اپنے رب کا وہ بندہ ہوتا ہے جسے دین اسلام نے انبیاء والا کام سونپا ہوتا ہے اس لئے اس کی یہی صدا ہوا کرتی ہے
تیری بندہ پروری سے میرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلا ہے دوستوں کا نہ شکایت زمانہ
استاد کی ایک ہی تڑپ ہوتی ہے کہ اس کے سامنے اس کے شاگرد کسی مقام پر پہنچ جائیں وہ اچھے انسان اور اچھے شہری بن جائیں اور اس کے لئے وہ استاد اپنے تن من دھن کی قربانی دے کر اپنے شاگردوں کو اچھے مقام تک پہنچاتا ہے
اے دوستوں ملیں تو بس اک پیام کہنا
استاد محترم کو میرا سلام کہنا
کتنی محبتوں سے پہلا سبق پڑحایا
میں کچھ نہ جانتا تھا سب کچھ مجھے بتایا
ان پڑھ تھا اور جاہل قابل مجھے بنایا
دنیا میں علم ودانش کا راستہ دکھایا
مجھ کو دلایا اتنا اچھا مقام کہنا
استاد محترم کو میرا سلام کہنا
استاد بادشاہ نہیں ہوتا لیکن بادشاہ گر ہوتا ہے وہ انسان کو ترقی کی اعلی سے اعلی منازل تک پہنچاتا ہے اسی لئے اسلامی معاشرے یا دین اسلام میں استاد بڑی اہمیت اور فضیلت کا مالک ہوتا ہے اور جو مقام معاشرے اور اسلام کی نظر میں استاد کا ہوتا ہے وہ مقام بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوا کرتا ہے
حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک دن نماز عصر میں دیر سے حاضر ہوئے تو نبی ﷺ نے حضرت علی سے پوچھا کہآپ دیر سے ناز کے لئے کیوں آئے تو حضرت علی نے ارشاد فرمیا یا رسول اللہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جب اٌپنے گھر سے مسجد کی جانب روانہ ہوا تو اس وقت میرے آگے یودیوں کا ایک عالم چل رہا تھا اور وہ عمر میں بھی مجھ سے بڑا تھا میں نے مناسب نہ سمجھا کہ میں اس سے آگے بڑھوں بس اسی بناء پر میں نماز سے لیٹ ہوگیا .
اندازہ کیجئے کہ یہودیوں کا عالم اس کا یہ احترم وہ ہستی کر رہی ہے جسے دین اسلام کی تاریخ میں باب مدینتہ العلم کہا جاتا ہےاور علم کے حوالے سے جس کا رتبہ صحابہ میں سب سے افضل ہے
جو کوفے کی مسجد میں کھڑے ہو کر نعرہ لگاتا ہے سلونی مجھ سے پوچھ لو جو کچھ پوچھ سکتے ہو اس سے قبل کہ میں تم کو چھوڑ کر اللہ سے جا ملوں
جو عِلم کا عَلم ہے، استاد کی عطا ہے
ہاتھوں میں جو قلم ہے، استاد کی عطا ہے
جو فکر تازہ دم ہے، استاد کی عطا ہے
جو کچھ کیا رقم ہے، استاد کی عطا ہے
اُن کی عطا سے چمکا، حاطبؔ کا نام، کہنا
استادِ محترم کو میرا سلام کہنا
سکندر اعظم اپنے باپ سے بھی زیادہ اپنے استاد کی عزت کیا کرتا رتھا کسی نے اس سے سبب پٌوچھا تو کہنے لگا کہ باپ وپ ہستی ہے کہ جس کی وجہ سے میں اس دنیا میں آیا اور استاد وہ ہستی ہے جس نے مجھے زمیں سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا
مجھ کو خبر نہیں تھی آیا ہوں میں کہاں سے
ماں باپ اس زمیں پر لائے تھے آسماں سے
پہنچا دیا فلک تک استاد نے یہاں سے
واقف نہ تھا ذرا بھی اتنے بڑے جہاں سے
مجھ کو دلایا اتنا اچھا مقام کہنا
استاد محترم کو میرا سلام کہنا
دین اسلام کی عظیم وبزرگ ہستی جو کہ لاکھوں لوگوں کے امام اور استاد بھی ہیں اور ان کا ایک مقام بھی ہے ایک بہت بڑی مسلمانوں کی تعداد ان کو فالو بھی کرتی ہے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہایک دن ایک پہاڑ پر بیٹھے وضو فرما رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور پہاڑ پر اوپر بیٹھ کر وضو کرنے لگا اچانک اس کی نگاہ احمد بن حنبل پر پڑی تو وہ شخص پہاڑ سے تھوڑا نیچے کے مقام پر آکر بیٹھ گیا امام احمد بن حنبل کے احترام میں اور نیچے بیٹھ کر وضو کرنے لگا اس شخص کو مرنے کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا اور اس سے پوچھا کہ اللہ تعالی نے تیرے ساتھ کیا معاملہ کیا تو کہنے لگا کہ اللہ تعالی نے مجھے جنت میں امام احمد بن حنبل سے ایک درجہ نیچے کا عطافرمایا اس شخص نے پوچھا کہ تجھ پر اتنی بڑی عنایت کس سبب ہوئی تو وہ شخص کہنے لگا کہ استاد یعنی امام احمد بن حنبل کا احترام کرنے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالی نے مجھے یہ مقام عطا کیا
اللہ تعالی ہم سب کو استاد کا ادب واحترم اور ان کے مقام ومرتبے کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین