تحریر : مولانا لطیف الرحمن لطف
آج کے دور میں تعلیم کی کوئی کمی نہیں ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے تعلیم وتعلم کو وسیع اور نت نئے مواقع فراہم کئے ہیں۔ گلی گلی تعلیم گاہیں موجود ہیں۔ ریڈیو، ٹیلی وژن، اخبارات اور انٹرنیٹ سے علمی استفادہ ممکن ہوگیا ہے۔
آن لائن کلاسز کے ذریعے دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دوسرے کونے تک علم منتقل کیا جا رہا ہے۔ ڈیجیٹل لائبریریوں اور پی ڈی ایف فائلوں نے مطالعے کے شوقین لوگوں کو کتاب کی خرید وفروخت سے بے نیاز کر دیا ہے۔
فیس بک، ٹوئٹر ،واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارم بھی اپنے صارفین میں علم بانٹ رہے ہیں۔ اس کے باوجود معاشرے میں اخلاقی خرابیاں ہیں کہ کم ہی نہیں ہو رہیں ۔بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ جس کا بنیادی سبب علم پر عمل کا نہ ہونا ہے۔ جدید ذرائع سے معلومات تو حاصل ہو سکتی ہیں علم کی روشنی نہیں مل سکتی۔
حقیقی علم کیا ہے؟
حقیقت میں علم وہی ہے جو انسان کے رویوں میں تبدیلی لائے۔ اس کے اخلاق وعادات کو نکھارے اور کردار کو چمکا دے ۔ کردار سازی کےلئے نرا علم کافی نہیں ہوتا بلکہ مناسب تربیت بھی ضروری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے کتابیں کم نازل کیں مربی انبیا زیادہ مبعوث کئے۔
بڑی آسمانی کتابوں کی تعداد صرف چار ہے۔ جبکہ پیغمبروں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہے قرآن پاک نے جہاں پیغمبر کا وظیفہ یعلمھم الکتاب والحکمة (تاکہ انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے )بتایا ہے وہیں ”ویزکیھم“ کہہ کر تزکیہ نفس یعنی تعلیمِ کتاب کے ساتھ تہذیب نفس اور تربیت ِ عمل کو بھی مقاصد نبوت میں شمار کیا ہے۔
انسان کو بری خصلتوں سے پاک کرنا اور اچھی خوبیوں سے آراستہ کرنا قرآن کریم کی اصطلاح میں تزکیہ کہلاتا ہے اسی کا دوسرا نام تربیت ہے۔
بچوں کی تربیت ضروری کیوں؟
ہر انسان تربیت کا محتاج ہوتا ہے۔ چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، عالم ہو یا جاہل ۔ تاہم چھوٹے بچے تربیت کے سب سے زیادہ محتاج اور قابل توجہ ہوتے ہیں۔ اس لیے بھی کہ وہ قوم کا مستقبل ہوتے ہیں آنے والے وقتوں میں ملک و ملت کی لگام ان کے ہاتھوں میں آنے والی ہے۔
ان کی درست نہج پر تربیت پوری قوم کے مستقبل کو تابناک بنانے کے مترادف ہے۔ نیز اس بنا پر بھی کہ یہ عمر تربیت کے لئے سب سے موزوں ہوتی ہے اس عمر میں عادتیں بن کر پختہ ہورہی ہوتی ہیں ۔ اس عمر میں سیکھی ہوئی چیزیں عمر بھر یاد رہتی ہیں۔
بچوں کا ذہن ا ور دماغ کسی صاف تختی کی مانند ہوتا ہے۔ جس پر آپ آسانی سے کچھ بھی نقش کر سکتے ہیں۔ ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
ان الغصون اذا لانیتھا اعتدلت
ولن یلین اذا لا نیتہ خشب
ترجمہ: شاخیں جب تک شاخیں ہوں، نرم ہوں تو آپ ان کو سیدھا کر سکتے ہیں۔ ان کی تراش خراش اور کاٹ چھانٹ کرسکتے ہیں ۔لیکن جب یہی شاخیں خشک ہوکر لکڑی میں بدل جائیں، تو آپ انہیں سیدھا کر سکتے ہیں نہ ہی اپنی مرضی کے مطابق ان کو سنوار سکتے ہیں۔
اولاد زینت بھی فتنہ بھی
قرآن پاک نے ایک طرف اولاد کو “زینة الحیاة الدنیا” قرار دیا ہے۔ کہ اولاد دنیاوی زندگی کی خوب صورتی ہیں۔ ان کے ہونے سے انسان کی زندگی خوش گوار ہوجاتی ہے۔ آنکھوں کو ٹھنڈک ملتی ہے۔ قلب و نظر سرشار ہوجاتے ہیں۔ تو دوسری جگہ اسی قرآن نے “انما اموالکم والادکم فتنة” کہہ کر اولاد کو فتنے سے تعبیر کیا ہے۔
جب انسان اولاد کی محبت میں اندھا ہو جائے ۔اور ان کی آسائش کے لیے حلال وحرام کی تمیز کھودے۔ اولاد کی فکر میں منہمک ہوکر زندگی کا حقیقی مقصد ہی بھول جائے۔ اور اولاد کی اچھی تربیت کے فریضے کو پس پشت ڈال دے۔ تو یہی اولاد انسان کے لیے سب سے بڑا فتنہ بن جاتی ہے۔
اولاد کے لئے والدین کا بہترین تحفہ کیا ہے؟
ایک حدیث میں ارشاد نبوی ؑہے۔ “سب سے بہترین تحفہ جو والدین اپنی اولاد کو عطا کر سکتے ہیں وہ ان کی اچھی تربیت ہے” ۔اگر اولاد کےلئے بہت ساری جائیداد جمع کر لی جائے۔ بڑا بینک بیلنس بنایا جائے۔ اعلی سے اعلی تعلیم دلوائی جائے۔ ڈگریوں کے ڈھیر لگا دئیے جائیں۔ لیکن تربیت میں کمی چھوڑی جائے۔
تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ایسے ماں باپ نے گویا اپنی اولاد کو سب کچھ ۔دینے کے باوجودکچھ نہ دیا ۔کیونکہ اس قسم کی اولاد نہ اللہ تعالیٰ کے حقوق سے آشنا ہوتی ہے ،اور نہ ہی ماں باپ کی خدمت اور ادب واحترام کا احساس رکھتی ہے۔ اکبر الہ آبادی مرحوم نے اسی پرکہا تھا
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
اولاد کی اچھی تربیت کے لیے ضروری ہے، کہ والدین سب سے پہلے تربیت کے درست طور طریقوں کو جانتے ہوں۔ وقت کے چیلنجوں کا صحیح معنی میں ادراک رکھتے ہوں ۔بچوں کی نفسیات سے آگاہ ہوں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے حساس ترین منصب اور اس کی ذمہ دا ریوں سے واقف ہوں ۔
ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر محمد یونس خالد نے “تحفہ والدین برائے تربیت اولاد” کے نام سے ایک کتاب لکھ کر اس اہم ترین معاملے میں والدین کی رہنمائی کی کوشش کی ہے۔ مزیدپڑھیے
کتاب تحفہ والدین
اگرچہ اردو میں اپنے موضوع پر یہ کوئی پہلی کتاب نہیں ہے، اس سے قبل اس موضوع پر متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں تاہم عوام کے لیے یہ اس لحاظ سے زیادہ قابل استفادہ ہے۔ کہ اس کا اسلوب نہایت آسان ہے زیادہ ٹھیٹھ اردو لکھنے کی کوشش میں مشکل تعبیرات کے استعمال سے گریز کیا گیا ہے۔
اور بوقت ضرورت موجودہ عرف میں استعمال ہونے والے الفاظ و اصطلاحات استعمال کیے گئے ہیںِ۔ سمجھانے کے لیے بعض مضامین کا تکرار بھی کتاب میں گوارا کیا گیا ہے۔
کتاب کی ایک اور امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تربیت کے صرف قدیمی منہج اور اصولوں پر اکتفا کرنے کے بجائے نئی فکر اور جدید نفسیات کی روشنی میں بھی بات کی گئی ہے۔ یہ اس لیے اہم ہے کہ آج کے دور میں دیگر معاملات کی طرح تربیت کے حوالے سے بھی نئے قسم کے مسائل درپیش ہیں۔
جن سے فرار کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے۔ ہاں ان کا ادراک کرتے ہوئے ان سے اسی انداز میں نمٹا جا سکتا ہے۔ اقبال نے بہت پہلے نئی پیش آمدہ حقیقتوں سے چشم پوشی اور ہر صورت پرانے ڈگر پہ اڑے رہنے کی روش کا شکوہ کیا تھا۔
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
کتاب کی مزیدخوبیاں
کتاب کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ دیکھنے والوں کےلئے جاذب نظر ہے ٹائٹل بھی دیدہ زیب ہے۔ اور فونٹ بھی ایسے جلی استعمال کیے گئے ہیں کہ قاری کو پڑھنے میں دشواری اور آنکھوں کو چبھن محسوس نہیں ہوتی۔ چونکہ مولف خود اسکولنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
بحیثیت پرنسپل گزشتہ دو دہائیوں سے بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف ہیں۔ اس لیے تربیت کے حوالے سے اپنے ذاتی تجربات کو بھی قارئین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
عربی کا مقولہ ہے “سل المجرب ولا تسئل الحکیم“(تجربہ کار سے پوچھو، اہل حکمت سے نہیں) ڈاکٹر صاحب اہل حکمت بھی ہیں، پی ایچ ڈی ہیں۔ دینی و دنیاوی دونوں قسم کی تعلیم سے بہرہ مند ہیں۔ ساتھ ساتھ تعلیم وتربیت کا بیس سالہ تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ اس لیے امید ہے ان کی حکمت اور تجربے کا یہ نچوڑ قارئین کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔