Wednesday, November 20, 2024
HomeLatestبچوں میں کتب بینی کا شوق کیسے پیدا کریں ؟

بچوں میں کتب بینی کا شوق کیسے پیدا کریں ؟

بچوں میں کتب بینی کا شوق:کتابیں انسان کی دوست ،رہنما، ساتھی اور رفیق ہوا کرتی ہیں،  کتابیں انسان کی رہنمائی کیا کرتی ہیں ،روشن سمتوں کا تعین اور ظلمتوں  اور گمراہیوں کی  نشاندہی کیا  کرتی ہیں ،کتب بینی کی عادت بہترین مشغلہ ہے  جو کہ انسان کی نہ صرف علمی رہنمائی کرتا ہے  بلکہ اس کی علمی پیاس میں بھی اضافے کا باعث بنتا ہے  ۔

جن لوگوں کو کتب بینی کی عادت ہوا کرتی ہے  وہ کبھی اکتاتے نہیں  ،وہ  چست اور  چاق و چوبند ہوا کرتے ہیں، دوسرے لوگو ں کے مقابلے میں ان کی معلومات کا ذخیرہ وسیع ہوتاے اور یہ چیز  ان میں خود اعتمادی کو بڑھاتی ہے، کتب بینی کی عادت   انسان میں ٹھہراؤ اور مستقل مزاجی کو فروغ دیتی ہے ۔

بچوں میں کتب بینی

کتب بینی اور ہمارے بچے

 آج کے دور میں بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ  ہمارے دور کے بچے اس بڑے اہم اور مفید مشغلے سے دور ہو چکے ہیں، انہیں کتابوں سے لگاؤ ہے نہ  دلچسپی ،وہ صرف نصاب کی کتابوں کو پڑھتے ہیں وہ بھی باامر  مجبوری  کہ انہیں نے امتحان میں پاس ہونا ہوتا ہے،   نصاب سے ہٹ کر کتابیں پڑھنے کے لیے نہ تو ان کے پاس وقت ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اس طرف مائل ہوتے ہیں ۔

سارا سارا دن وہ موبائل اسکرین پر ڈرامے اور فلمیں دیکھتے رہتے ہیں ،آج ہمارے طلبہ کتب بینی جیسی مفید عادت کو ترک کر چکے ہیں جس کی بنا پر وہ علم سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں، وہ اپنے اوقات کو مفید بنانے کے بجائے وقت گزاری  ،ہلہ گلہ  اور سوتے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، وہ موبائل اسکرین کے لیے گھنٹوں وقف کر دیتے ہیں لیکن کتب بینی کےلیے  ان کے پاس ایک لمحہ نہیں ہوتا۔

شہروں اور بڑے تعلیمی اداروں میں  کتب بینی کے لیے باقاعدہ لائبریریاں  قائم کی جاتی ہیں جہاں تشنگان علم اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے آتے ہیں اور وہاں سے علم کی دولت سے مالامال ہو کرواپس  لوٹتے ہیں لیکن آج اگر ایک نظر ان لائیبریریوں  کی حالت زار اور ویرانی پر ڈالی جائے تو دل خون کے آنسوں روتا ہے  بقول جناب  غالب

گریہ  چاہیے ہے  خرابی  مرے  کاشا نے کی

درودیوار سے  ٹپکے ہے بیا باں ہونا

لائیبریریوں کی حالت زار کا ماتم کریں یا اس قوم کی علم سے بےتوجہی  کا  کہ  جن کا سرمایہ افتخار ہی علم ہوا کرتا تھا، جن کی کتابوں سے استفاد ہ کرکے یورپ ترقی کی  منازل طے کرتا ہوا بلندیوں پر جا پہنچا ، دوسری طرف جن کا شیوہ  ہی  علم و آگاہی تھا،  جن کو بہترین امت کہ کر اس لیے میدان میں اتاراگیا کہ وہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ  دوسروں کی رہنمائی بھی کریں گے  آج وہ خود ذلت کی وادیوں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں،  نہ ان کا  کوئی پرسان حال ہے اور نہ ہی  دنیا میں ان کی کوئی  شنوائی ہے غالب کہتے ہیں کہ۔

حیران ہوں رؤ وں دل کو کہ پیٹوں جگر کو میں

مقدور ہو  تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

ایسی قوم کی حالت زار پر ماتم اور نوحہ ہی کیا جا سکتاہے جو کہ  اپنے مقصد حیات کو بھول چکی ہو  اور جسے اپنے مستقبل کی بھی کوئی فکر نہ ہو اور نہ ہی آخرت میں جواب دہی کا تصور ہو۔

بچوں میں کتب بینی

ہماری ذمہ داری

آج جس دور میں  ہم جی رہے ہیں من حیث  القوم ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس پر غور کریں کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں  ،ہم یہ بھی سوچیں کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو کس طرح  کتاب سے جوڑیں، مانا کہ آج کے دور کے بچے سوشل میڈیا سے منسلک ہیں اور شاید  ان کے پاس معلومات بھی بہت ہوں،لیکن اس  حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتاکہ سوشل میڈیا کبھی بھی کتاب کا نعم البدل   نہیں ہوسکتا،سوشل میڈیا کی تمام ترچکاچوند کے باوجود کتاب کی اہمیت  اپنی جگہ مسلم ہے،  سوشل میڈیا انسان کو عموما موضوع سے بھٹکا دیتا ہے جب کہ کتاب  اس کے ذہن و دل میں اٹھنے والے تما م سوالات کے مکمل  جوابات فراہم کیا کرتی ہے ،لہذا اس سلسلے میں کتاب کا تقابل سوشل میڈیا سے ملنے والی    انفارمیشن سے نہیں کیا جا سکتا ۔

ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ  اپنے بچوں کو سوشل میڈیا  کے غیر ضروری اور بے جا استعمال سے روکیں اور انہیں کتب بینی کی جانب مائل کرنے  کے لیے اقدامات کریں،اب  ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ یہ سب کچھ ہوگا کیسے ؟

بچوں میں کتب بینی

بچوں کیلئے کتب بینی ضروری کیوں؟

بچوں کو کتاب کی طرف راغب کرنے کے لیےکچھ عملی اقدامات

والدین کے کرنے کا کام؛

 اس سلسلے میں  والدین اور اساتذہ کو چند عملی اقدامات کرنے ہوں گے،والدین کا کام یہ  ہے کہ اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی لائبریری قائم کریں جو کہ ایک بک شیلف کی صورت میں  بھی ہوسکتی ہے، جس میں بچوں کی کہانیوں کی کتابیں مثلا نونہال ،ٹوٹ بٹوٹ ،ساتھی اور بچوں کا اسلام  جیسے میگزین رکھے جا سکتے ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی رہنمائی اور اخلاقی تربیت کے لیے آج کل آسان پیرائے میں قصص الانبیا بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے ۔

یہ  مکمل ایک جلد میں بھی مل جاتی ہے اور  علیحدہ علیحدہ جلدوں میں بھی، جو بھی مناسب سمجھیں لا کر شیلف میں رکھیں، شیلف میں سائنس، معلو مات عامہ  سمیت دیگر مختلف موضوعات  کی کتابیں بھی رکھی جائیں۔،

  دوسرا کام یہ کریں کہ  روزانہ کی بنیاد پر ایک گھنٹہ کتب بینی کے لیے  مختص کریں ،گھر کی لائبریری یا شیلف میں موجود کتابوں میں سے کسی ایک کتاب سے کوئی موضوع چن لیں اور اس کے بارے میں صبح  ناشتے کی میز پر ہی بچوں کے ذہن میں  ایک  تجسس  پیدا کریں، مثال کے طور پر آپ بچے سے کہیں ؛کیا آپ کو معلوم ہے  کہ کون سے نبی  مچھلی کے پیٹ میں کچھ عرصہ تک موجود رہے ؟

 اب  انہیں جواب نہ بتائیں،  دو تین انبیا کے  نام بتا کر کہیں کہ میرے خیال میں ان میں سے کوئی ایک تھے  ،بہرحال جب ہم  شام کو بیٹھیں گے تو اس کا جواب  تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

اب سارا دن بچوں کو  یہ تجسس رہے گا اور ہو سکتا ہے کہ وہ شام کو پڑھائی کے  گھنٹے سے قبل ہی  آپ کو اس سوال کا جواب تلاش کرکے دے دیں۔ ورنہ آپ  خود انہیں لےکر بیٹھ جائیں ،کہ آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ ایک کتاب خود لیں اور کچھ بچوں میں تقسیم کریں ،کچھ عرصہ  یہ عمل دہراتے رہیے ،پھر بچے  خود اس طرف  مائل ہو جائیں گے اور یوں ان میں کتب بینی کا شوق پیدا ہوجائے گا۔ لیکن اس کے لیے والدین کو خود شروع میں فکر مند  ہونا ہوگا بقول شاعر ۔

عمل کی سوکھتی رگ میں ذرا سا خون شامل کر

میرے ہمدم صرف باتیں بنا کر کچھ نہیں ملتا

بچوں میں کتب بینی

اساتذہ  کے کرنے کا کام

اساتذہ جب کمرہ جماعت میں داخل ہوں تو ان کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی کتاب ضرور ہونی چاہیے جو کہ سیلیبس سے ہٹ کر ہو ۔ یہ کوئی معلوماتی کتاب بھی ہو سکتی ہے  ،سیرت اور صحابہ کرام کے واقعات پر مشتمل کوئی  کتاب بھی ہوسکتی ہےیا پھر سائنس کے موضوع پر کتاب بھی ہو سکتی ہے۔

اب آپ نے بچوں کو اس کتاب سے روشناس کرانا ہے جس کی صورت یہ ہے کہ  اس  کتاب میں سے چیدہ چیدہ چیزیں طلباٰء کے سامنے پیش کریں،اس کتاب سے کوئی دل چسپ واقعہ ان کو  پڑھ کرسنائیں،بچوں  کو وہ کتاب خریدنے کی ترغیب دیں، پھر روزانہ کتاب اوراس کےعنوانات سےمتعلق بچوں سےگفتگو کریں کہ آج انہوں نے کون ساعنوان  پڑھا ؟

ٹیچرز کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے باقاعدہ   پالیسی بنائیں کہ وہ اس مہینے بچوں کو ن سی  کتابوں  کے بارے میں آگاہی دیں گے ،  یہ کتابیں بھی ایسی ہونی چاہیئں جو کہ آسان پیرائے میں ہوں،  آسانی سے دستیاب ہوں اور کم قیمت بھی ہوں،  اسکول اور تعلیمی اداروں کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

 اسکولوں اور تعلیمی اداروں کی ذمے داری بنتی ہے کہ  بچو ں کی دل چسپی کی کتابوں کو متعلقہ اشاعتی اداروں سے کم قیمت پر  حاصل کریں اور اسی کم قیمت پر بچوں کو فراہم  کریں،ایسی کتابوں پر کوئی نفع نہ کمائیں،  امید کی جا سکتی ہے کہ اس طرح کے اقدامات اور سرگرمیوں سےبچوں میں کتب بینی اور مطالعے کا ذوق پیدا کرنے میں مدد ملے گی ۔

بچوں میں کتب بینی

قوموں کی ترقی میں لائبریری کی اہمیت 

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی