سستی وکاہلی ختم کرنے کے طریقے

بچوں میں  سستی ،کاہلی ختم کرنے کے 7موثر طریقے

ڈاکٹرمحمدیونس خالد۔ تربیہ پیرنٹنگ کو چ ، کاونسلر، ٹرینر

کیا آپ کو لگتا ہے  کہ آپ کا بچہ ہر کام میں سستی  اور کاہلی دکھاتا ہے؟ پڑھائی، نماز، ہوم ورک یا گھر کے عام اور  معمولی کام ،  سب میں ،بعد میں کروں گا، تھوڑی دیر میں کروں گا” کا رویہ رہتاہے۔یہ رویہ اکثر والدین کے لیے مایوسی کا باعث بنتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سستی فطری ہے، موروثی ہے یا تربیت  کی کمی کی وجہ سے بچوں کی کہیں سے سیکھی ہے؟

درحقیقت، سستی ایک سیکھا ہوا رویہ کا نام  ہے ۔  اگر صحیح حکمتِ عملی اپنائی جائے تو اسے بآسانی ختم کیا جاسکتا ہے یا چستی سے بدلا جاسکتا ہے۔آئیے سیکھتے  ہیں وہ 7  طریقے  جو آپ کے بچے کو متحرک، منظم اور محنتی بنا سکتے ہیں۔

طریقہ  نمبر 1:بچوںمیں مقصدیت پیدا کیجئے۔

سستی اور کاہلی  کی سب سے بڑی وجہ بے مقصد زندگی ہوتی  ہے ، کہ بچے کے پاس کسی کام کو کرنے کوئی مضبوط وجہ نہیں ہوتی یا ورژن نہیں ہوتا۔ جب بچے کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ کیوں پڑھ رہا ہے، کیوں نماز پڑھنی ہے، کیوں ذمہ داری لینی ہے؟ تو اس کے اندر  سے تحریک اور ذمہ داری لینے کا جذبہ  ختم ہوجاتا ہے۔

 لہذا بچے کے اندر ذمہ داری کا جذبہ  ، احساس اور کسی بھی کام میں  دلچسپی پید اکرنے کیلئے اس میں مقصدیت اور موٹیویشن لانے کی ضرورت ہوتی  ہے۔ بچے میں موٹیویشن لانے کیلئے مندرجہ کام کرسکتے ہیں۔

  • بچے سے روزانہ گفتگو کریں کہ وہ بڑا ہوکر کیا بننا چاہتا ہے۔ یا جوکام اسے دیا جارہا ہے اسے کرنے سے اسے کیافائدہ ہوگا۔ اور مستقبل کے بارے میں بڑا خواب اسے دکھاتے رہیں۔
  • اس کے خواب کو حقیقت کے قریب لانے کی اسے ترغیب دیں اور اس کی  مدد بھی  کریں۔
  • مقصد کی طرف ہر چھوٹا قدام اٹھانے  پر اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ اور  اسے یقین دلائیں کہ وہ اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اور قریب ہوتا جارہا ہے۔
  • قرآن کریم میں ارشاد ہے: لَيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ( سورۃ النجم: 39)۔ اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی ہو۔

یعنی کوشش اور جدوجہد  ہی انسان کی پہچان ہے اور انسان کو منزل تک پہنچادیتی ہے ۔   جب بچے کو مقصد سمجھا دیا جائے  تو سستی اور کاہلی خود بخود کم ہوجاتی ہے۔

طریقہ  نمبر 2: نظم و ضبط اور ڈسپلن قائم کریں۔

بچے سست نہیں ہوتے، بلکہ اکثر غیر منظم ہوتے ہیں۔ یا ڈسپلن سے خالی ہوتے ہیں۔اگر ان کی زندگی میں واضح اوقات، اصول، اور نتائج کا سامنا کرنے کا خوف  نہ ہوں تو وہ کام کو ٹالتے رہتے ہیں۔ لہذا انہیں ڈسپلن کیجئے ، نتائج ان کےسامنے واضح کرکے انہیں نتائج کا سامنا کرنے دیجئے۔ اس سے ان میں نظم وضبط آجائے گا۔جس سے سستی وکاہلی خود بخود ختم ہوجائے گی۔ اس کیلئے مندرجہ ذیل  عملی اقدامات کرسکتے ہیں۔

  • گھر میں روٹین اور  روزانہ  کا شیڈول بنائیں ۔ سونے، جاگنے، کھانے پینے ، نماز پڑھنے، اسکول ومدرسہ جانے اور کھیلنے سمیت ہرکام کیلئے  اوقات مقررہوں  اور ان کی پابند ی کی جاتی ہو۔
  • اس شیڈول کی یاد دہانی کے لیے  اسے چارٹ بناکر دیوار پر  لگائیں۔
  • والدین خود اپنی رول ماڈلنگ سے نظم و ضبط   ، ڈسپلن کا نمونہ بنیں۔

یاد رکھئے۔ ریسرچ کے مطابق وہ بچے جو predictable routines میں رہتے ہیں، ان میں self-control زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔

طریقہ نمبر 3: چھوٹے کام بچوں کے ذمہ لگا کر ذمہ داری سکھائیں۔

بعض والدین بچوں کو کام کرنے نہیں دیتے ۔ اور  ہر کام میں ان کی  مدد کرتے ہیں ، حتیٰ کہ ان کے جوتے پالش کرنے، بیگ سیٹ کرنے، یا پانی کا گلاس بھی خود پکڑا دیتے ہیں۔ایسا ماحول بچے کو “dependent” بنا دیتا ہے، متحرک اور ذمہ دار نہیں بناتا۔

بچوں کو چھوٹے چھوٹے کاموں کی ذمہ داری دیں اور انہیں خود سے وہ کام مکمل کرنے دیں۔ اس دوران شدید ضرورت کے بغیر ان کی  مدد بالکل نہ کریں۔ اس سے ان میں ذمہ داری اٹھانے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔ کچھ اور عملی اقدامات ہیں جو آپ کرسکتے ہیں۔ مثلا

  • بچے کو روزانہ ایک چھوٹا سا گھر کا کام سونپیں۔مثلاً کمرہ صاف کرنا، دسترخوان  لگانا، پودوں کو پانی دینا۔کپڑے دھونا یا کپڑے استری کرنا وغیرہ
  • کام مکمل ہونے پر بچے کی محنت کی ضرور تعریف کریں، نتیجہ چاہے جیسا بھی ہو۔بچے کو نتائج سے زیادہ کوشش پر سراہیں۔
    یعنی کہیں: مجھے یہ بات  پسند آئی تم نے خود کوم کرنے کی کوشش کی۔ یہ جملہ بچے کے دماغ میں اقدام یعنی ایکشن لینے کی اہمیت پیدا کرتا ہے۔

طریقہ نمبر 4: اسکرین ٹائم محدود کریں۔

آج نئی نسل کو سستی وکاہلی کی طرف لے جانے کا سب سے بڑ اسبب  موبائل فون، سوشل میڈیا، یوٹیوب، گیمز اور کارٹون ہیں۔جب بچہ اسکرین سے مسلسل ڈوپامین (خوشی کا ہارمون)  بہت زیادہ مقدار میں حاصل کرتا ہے تو عام کام چاہے وہ بذات خود مزے دار بھی ہوں اسے پھر بورنگ لگنے لگتے ہیں۔ اس کیلئے مندرجہ ذیل حکمت عملی اختیار کریں۔

  • روزانہ ایک ،   ڈیڑھ  گھنٹے سے زیادہ اسکرین ٹائم بچے کو  بالکل نہ دیں۔
  • “No Screen Zone” کے اوقات متعین کریں، مثلاً کھانے کے اوقات  اور سونے کے وقت۔
  •  بچے کو متبادل جسمانی سرگرمیاں دیں۔ مثلا کھیل، ورزش، کتاب کا مطالعہ، ڈرائنگ ، باغبانی، یا کوئی پروجیکٹس۔
  • اسلام نے ہرکام میں  اعتدال کا حکم دیا ہے۔ لہذا بچوں کی تربیت میں بھی یہی توازن ضروری ہے۔

طریقہ نمبر 5: حوصلہ افزائی اور محبت بھرا ماحول دیں۔

بچے تنقید سے نہیں، تعریف سے بدلتے ہیں۔اگر ہر بات پر تنقید کر تے رہیں گے کہ   تم ہمیشہ سست رہتے ہو۔تو بچہ یہ بات اپنے ذہن میں سچ مان لیتا ہے اور پھر وہ سستی ہی کو اپنا لیتا ہے۔ ذیل چند عملی تراکیب بتائی جارہی ہیں۔ ان پر عمل کرسکتے ہیں۔

  • بچے کی چھوٹی کامیابیوں کو نوٹس  کریں اور اس کی کوششوں کی تعریف کریں۔
  • بچوں کی زبانی تعریف کریں، شاباشی دیں، اسٹیکرز، یا چھوٹے انعامات دیں۔
  • بچوں کو ناکامی پر بالکل طعنہ نہ دیں بلکہ  حوصلہ افزائی کرکے کہیں کہ آؤہم مل کر  دوبارہ کوشش کرتے ہیں۔
  • رسول اللہ ﷺ کبھی کسی بچے کو برا بھلا نہیں کہتے تھے۔بلکہ فرمایا:من لا یَرحم لا یُرحم۔( صحیح بخاری)
    جو دوسروں پر  رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔یعنی نرمی اور محبت ہی تربیہ کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔

طریقہ  نمبر 6: جسمانی سرگرمیاں بڑھائیں

تحقیقات بتاتی ہیں کہ جسمانی سرگرمی دماغ میں Motivation Hormones کو متحرک کرتی ہے۔
جو بچہ روز کھیلتا یا حرکت کرتا ہے، اس کی توانائی اور فوکس دونوں بہتر ہوتے ہیں۔ اس کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات کرسکتے ہیں۔

  • روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ باہر کھیلنے کا موقع دیں۔
  • اسکول میں جسمانی تعلیم (Physical Education) پر زور دیں۔
  • والدین خود بچوں کے ساتھ واک یا ورزش کریں۔
    اسلام نے ایمان کے ساتھ  جسمانی صحت کو  اللہ کا پسندیدہ  قرار دیا ہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا۔المؤمن القوي خیر وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف. (صحیح مسلم)طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔

طریقہ نمبر 7: دعا، ضبطِ نفس، خود پر کنٹرول اور استقامت سکھائیں۔

سستی صرف جسمانی نہیں، روحانی کمزوری بھی ہے۔نبی ﷺ  دعا فرمایا کرتے تھے:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ۔ (صحیح بخاری)۔اے اللہ! میں کاہلی  اور سستی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔(بخاری)

  • بچے کو سکھائیں کہ ہر صبح  اور شام کو اللہ سے   یہ دعا مانگا  کرے۔
  • روزمرہ کے چھوٹے اہداف طے کر کے انہیں مکمل کرنے پر اللہ کا  شکر ادا کرے۔
  • صبر اور ضبطِ نفس کی کہانیاں سنائیں ،مثلاً حضرت ایوبؑ یا نبی ﷺ کے صبر کی مثالیں۔

سستی اور کاہلی میں فرق:

سستی اور کاہلی دونوں بظاہر ایک جیسی دکھائی دیتی ہیں، مگر حقیقت میں دونوں کی نوعیت مختلف ہے۔
سستی ایک عارضی کیفیت ہے۔ انسان کے دل میں کام کرنے کی خواہش تو ہوتی ہے مگر جسم، ماحول یا وقتی کمزوری کی وجہ سے وہ فوراً متحرک نہیں ہو پاتا۔ جیسے کبھی تھکن، نیند یا موڈ کی کمی کے باعث کام مؤخر ہو جائے۔

جبکہ کاہلی ایک مستقل رویہ ہے۔ کاہل شخص کے اندر کام کرنے کا جذبہ ہی ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ محنت سے بچتا ہے، ذمہ داریوں کو ٹالتا ہے اور آرام پسندی کو زندگی کا معمول بنا لیتا ہے۔

یوں سمجھ لیجیے: کہ سستی وقتی رکاوٹ ہے، جوذرا سی موٹیویشن ملنےپر جلد ختم ہو سکتی ہے۔
کاہلی مستقل عادت اورجسمانی یا ذہنی کمزوری ہے، جسے مسلسل تربیت اور عزم سے ہی بد لنا ممکن ہے۔ کاہل شخص کو بدلنے کے لیے اندرونی اصلاح اور تربیت درکار ہوتی ہے۔

اختتامی پیغام

یاد رکھیں ،  بچے میں سستی کوئی پیدائشی عیب نہیں بلکہ یہ تربیہ کا موقع فراہم کرتی ہے۔اگر والدین محبت، نظم، مقصد اور دعا کے ساتھ مستقل مزاجی سے کام کریں تو ہر سست بچہ ایک دن فعال، بااعتماد اور ذمہ دار انسان بن سکتا ہے۔ اسلامی تربیہ کا مقصد بچے سے  صرف اطاعت کروانا نہیں بلکہ  اس میں ذاتی تحریک پیدا کرکے محنت اور جدوجہد کیلئے اسے تیار کرنا ہے۔اور یہی ایجوتربیہ پاکستان کا پیغام ہے:
"Raising Hearts. Sharpening Minds. andTransforming Lives.”

شکریہ

Check Also

فیملی ٹائم کو مؤثر کیسے بنائیں؟

فیملی ٹائم کو مؤثر کیسے بنائیں؟

 والدین اور بچوں کے لیے 15 عملی تجاویز آج کے مصروف دور میں، جب اسکرین …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے