لیڈرشپ کی اہمیت ،اقسام اور خصوصیات
ڈاکٹر محمد یونس خالد
لیڈر شپ کی تعریف
لوگوں کے کسی گروپ ، جماعت، تنظیم یا ادارے میں تحریک پیدا کرکےآگے بڑھنے کے لئے ان کودرست رہنمائی فراہم کرنا تاکہ وہ طے شدہ منزل کو پاسکیں، لیڈرشپ یا قیادت کہلاتا ہے۔یعنی بصیرت اور وژن کی بنیاد پر لوگوں کو کسی اہم مقصد پر جمع کرکے ان میں تحریک پیداکرنا اور پھر ان کو منزل کی طرف بڑھانا لیڈرشپ ہے۔ جوشخص یہ سرگرمی سرانجام دے اسے قائد یا لیڈرکہتے ہیں۔ قیادت کا بنیادی مقصد لوگوں کودرست رہنمائی فراہم کرنا اور مسائل کے حل میں ان کی مددکرنا ہوتا ہے۔لیڈرشپ جب اہل ، باشعور،با صلاحیت ، باکرداراور دیانتدار ہو تو لوگوں کے انفرادی مسائل اور قوموں کے اجتماعی مسائل آسانی سے حل ہونے لگتے ہیں۔قیادت درحقیقت تاثیر اور کردار کے مجموعہ کانام ہے۔اس وقت دنیا میں ہمیں جو قومیں ترقی کرتی نظرآرہی ہیں اس کا بنیادی سبب ان کو باکرداراور باصلاحیت لیڈرشپ کا میسر آنا ہی ہے۔اس کے برعکس دنیا کی جوقومیں مسائل کا شکار نظرآرہی ہیں اس کا بھی ایک اہم اور بنیادی سبب نااہل اور بدکردار لیڈرشپ ہے۔
لیڈرشپ کی اہمیت
لیڈرشپ کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ جب لیڈر شیر ہو اوراس کے پیچھے بھیڑیں بھی چل رہی ہوں تو وہ اپنے آپ کو شیرجیسا محسوس کرتی ہیں اور شیروں جیسا رویہ اپناتی ہیں کیونکہ ان کا لیڈر شیرہے۔ اس کے برعکس اگر لیڈر بھیڑ ہو اور پیچھے سارے شیر چل رہے ہوں تو بھی وہ اپنے آپ کو اندر سے بھیڑ ہی محسوس کرتے ہیں اور بھیڑوں جیسا رویہ اپناتے ہیں، کیونکہ ان کا قائد اور لیڈر بھیڑ ہے۔بالکل اسی طرح جب انسانوں کا لیڈر شیرجیسا ہوتا ہے باکردار اور باصلاحیت ہوتا ہےتو وہ اپنی بھیڑوں کو بھی شیربنادیتا ہے لیکن اگر لیڈر بھیڑ کی طرح بے ہمت ہو، حکمت وبصیرت اور شعور سے خالی ہو، تعیش پسندی اور سستی وکاہلی کا شکار ہو،اس میں کرداراور صلاحیتوں کا فقدان ہوتو وہ اپنے پیروکاروں کی صلاحیتوں کو بھی ڈبودیتا ہےلہذا لیڈر شپ بہت اہم چیز ہے۔
لیڈر کی قسمیں
پیدائشی لیڈر
لیڈرز کی تین قسمیں ہوتی ہیں پہلی قسم پیدائشی(By birth) لیڈرز کی ہوتی ہے۔ یہ لوگ موروثی طور پر لیڈرشپ کے اوصاف یعنی کردار و تاثیر اپنے ساتھ لے کر پیداہوتے ہیں۔یہ زندگی میں کسی بھی مقام پرکھڑے ہوں اور کسی بھی قسم کے حالات سے دوچار ہوں لیکن ان کی فطری لیڈرشپ جھلکتی ہوئی خودبخود سامنے آجاتی ہے۔ لیڈرشپ ان کی گفتگو سے ، باڈی لینگویج سےاور رویوں یا ایٹی چیوڈ سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ مثلاکوئی ہنگامی صورتحا ل ہو تو ایسے لوگ خود سے سامنے آتے ہیں اورصورت حال پر قابوپانے میں اپنا کردار اداکررہے ہوتے ہیں۔
حادثاتی لیڈر
دوسری قسم ان لیڈرز کی ہوتی ہے جوفطری طورپر لیڈر تو نہیں ہوتے لیکن زندگی میں اچانک افتاد ان پر ایسی آجاتی ہے یاحالات اچانک کچھ اس طرح پلٹا کھاتے ہیں کہ وہ خودبخود لیڈرشپ کے اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں اور اس کی ذمہ داریاں سنبھالنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔اب حالات اور مجبوری کی وجہ سے وہ لیڈر کا کردار ادا کرناشروع کرتے ہیں اور پھر کرتے کرتے لیڈرشپ کے اوصاف سیکھ جاتے ہیں یوں وہ بھی لیڈربن جاتے ہیں۔ مثلا ایک لڑکا اچانک والد کی وفات کی وجہ سے باپ کی سیٹ سنبھالتا ہےاوروالد کی ساری ذمہ داریاں ادا کرنا شروع کرتا ہے۔ اب ان ذمہ داریوں کو اداکرتے کرتے وہ بھی لیڈرشپ سیکھ جاتا ہے حالانکہ یہ صفت شاید اس میں پہلے سے موجود نہ ہو۔
اکتسابی لیڈر
تیسری قسم ان لیڈرز کی ہوتی ہے جوپیدائشی طورپر لیڈرشپ کی صلاحیتوں کے مالک تو نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کو ایسے حالات ملتے ہیں جن سے وہ لیڈرشپ سیکھ سکتے لیکن وہ شعور ی طور پراسکی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں اور اسے سیکھنے کی باقاعدہ کوشش کرتے ہیں۔ مثلا کتابوں کے ذریعے ،کورس ورک سے، وڈیوز، ورکشاپس ،پریزنٹیشن سے یاکسی مینٹور سے رہنمائی حاصل کرکے یا خود اپنی پریکٹس سے۔ اس طرح وہ لیڈرشپ اور اس کے اوصاف کو سیکھ کر پریکٹس کرنا شروع کرتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد لیڈر بن جاتے ہیں۔اس عنوان کے تحت ہم لیڈرشپ کے کچھ اوصاف بھی ذکر کریں گےاگر آپ میں یہ اوصاف فی الحال موجود نہیں تو گھبرانے کی قطعاضرورت نہیں ۔ آپ کے اندر سیکھنے کا شوق ، محنت کا جذبہ اور مستقل مزاجی کی صفت ہو تو آپ لیڈرشپ سیکھ سکتے ہیں اور کامیاب لیڈربن سکتے ہیں۔
لیڈر کادرست تصور کیا ہے؟
لیڈر کا تصور ہمارے معاشرے میں بہت ہی محدودمعنی کا حامل ہے عام طور پر سیاسی لیڈرز کو ہی لیڈر سمجھاجاتا ہے اس کے علاوہ لیڈرشپ کاتصور کم ہی پایا جاتا ہے۔حالانکہ لیڈرشپ کی تعریف کے مطابق دنیا کے ہرکام کی انجام دہی اور ہر میدان عمل میں قیادت کرنے کو لیڈرشپ کہا جاسکتاہے۔چاہے وہ سیاسی میدان کی قیادت ہو یاتعلیمی میدان کی، معاشی اور معاشرتی میدان کی قیادت ہو یا مذہبی میدان کی۔ گھرکے لوگوں کی قیادت ہو یا کسی ادارے کے انتظام انصرام کی قیادت ، کھیلنے والی ٹیم کی قیادت ہو یامیدان جنگ میں لڑنے والی فوج کی قیادت، کسی بزنس و کاروبار کی قیادت ہو یا سڑکوں پر ہونے والے جلسے جلوس کی قیادت ہو یاکسی اور اہم پروجیکٹ پر کام کرنے والی ٹیم کی قیادت ہو ۔ مسجدکی امامت وخطابت ہو یاکسی تعلیمی ادارے میں طلبا کوپڑھانے کی ذمہ داری ہو، غرض یہ سب قیادت کی مختلف شکلیں ہیں اور ان کاموں کو انجام دینے والے لوگ اپنی اپنی جگہ لیڈر اور قائد کا رول اداکرتے ہیں اور لیڈرکہلانے کے مستحق ہیں۔
حقیقی لیڈرکون ہوتا ہے ؟
صرف لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر تقریریں کرنے سے لیڈر بنا جاسکتا ہے اورنہ ہی بغیر وژن اور پلاننگ کے بلند بانگ دعوی کرنے سے لیڈرکہلایاجاسکتاہے۔ لیڈر کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومنے سے بناجاسکتا ہے اور نہ ہی دوسروں کے پروجیکٹ پر اپنے نام کی تختی لگانے سے لیڈربناجاسکتا ہے۔لیڈر کرپشن کامال اکٹھاکرنے سے بناجاسکتاہے نہ زندہ باد اور مردہ باد وغیرہ کے نعرے لگوانے سے ۔ ۔لیڈر ٹائی کوٹ پہننے اور مغربی گیٹ اپ اپنانے سے بناجاسکتا ہے نہ ہی صرف انگریزی بولنے اور اپنے آپ کو لبرل ظاہر کرنے سے بناجاسکتاہے۔لیڈرشپ گریڈ، عہدے ،پیسے اور اتھارٹی کی محتاج ہے اورنہ ہی ہائی لیول پروٹول کے ساتھ گھومنے کی محتاج ہے۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پھر حقیقی لیڈرشپ کیا ہے؟
اس کا جواب یہی ہے کہ حقیقی معنی میں لیڈر وہ ہے جس میں کردار اور تاثیر ہو اور وہ اجتماعی مفاد کا پاسبان ہو۔اس میں ایمان داری اور دیانتداری کے اوصاف ہوں،جس میں قربانی اور خدمت کا جذبہ ہو۔جس میں ذاتی مفاد پر طے شدہ ہدف کے حصول کاجذبہ حاوی ہو۔جس میں وعدے کی پاسداری ہو ، جس میں منزل کو پانے کی جستجو اور لگن ہو۔ جس کا اپنا دامن ہرطرح کی آلودگی سے صاف ہو اور وہ لوگوں کے لئے رول ماڈل ہو۔ وہ ٹیم کاحصہ بن کررہتا ہو اور عسر و یسر میں اپنی ٹیم کو کبھی مایوس نہ کرتاہو۔ وہ وژنری انسان ہو جو حال میں رہتے ہوئے مستقبل سے آشنائی رکھتا ہو۔
وہ قوم ، وہ ادارہ ، وہ جماعت، وہ تنظیم اور وہ گروہ خوش قسمت ہے جس کے پاس بہترین قائد ، اچھارہنما اور حقیقی لیڈر موجودہو۔ حقیقی لیڈر جس کمیونٹی کے پاس ہوتا ہے وہ کمیونٹی دنیا میں ضرور ترقی کرتی ہے، اعلی مقام حاصل کرتی ہے۔ اور جو کمیونٹی بدقسمتی سے ایسی لیڈرشپ سے محروم ہو وہ دنیا میں مستحکم ہوپاتی ہے نہ آگے بڑھ سکتی ہے۔ا س کی بے شمار مثالیں ہماری دنیا میں موجود ہیں۔