زندگی کا ماسٹر پلان
ڈاکٹر محمد یونس خالد
(یہ آرٹیکل ایجو تربیہ کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر محمد یونس خالد کی زیر طبع کتاب “کامیاب شخصیت کی تعمیر” سے ماخوذ ہے)
ہم زندگی میں ہر بڑے پروجیکٹ کو شروع کرنے اور اسے انجام تک پہنچانے کے لئے سب سے پہلے ایک ماسٹرپلان تیار کرتے ہیں، جس میں اس پروجیکٹ کے بنیادی مقاصد اور ثانوی مقاصد کو پوری طرح پیش نظر رکھاجاتا ہے۔ ماسٹر پلان بناتے وقت پروجیکٹ کی تمام تفصیلات کو باقاعدہ ڈیٹا ، ڈرائینگ،گراف اور ماڈل کی شکل میں ظاہر کرتے ہیں۔ ماسٹر پلان کی تیاری کے بعد اس پروجیکٹ کو کئی چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرکےہر حصے پر الگ کام شروع کیاجاتا ہے اور ان چھوٹے حصوں کو بھی ماسٹرپلان نقشے کے مطابق ہی بنایا جاتا ہے۔ جب پروجیکٹ کا ہرحصہ اپنی جگہ کامیابی سے تیار ہوجاتا ہے تو ماسٹرپلان کاپورا منظر خوب صورت انداز سےہمیں نظر آنے لگتا ہے۔اور ہم خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے پروجیکٹ مکمل کیا ہے۔
خدائی ماسٹر پلان
اللہ نے ہمیں زندگی عطاکی اور زندگی کا ماسٹرپلان بھی عطافرمایا ہے۔ اگر ہم زندگی کو ایک بڑے پروجیکٹ سے تشبیہ دیں جس کا ماسٹر پلان بھی خود خالق نے بتایا ہو۔ اور ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہمیں اپنی زندگی میں پیش آنے والے تمام واقعات ، سرگرمیوں ، تعلیمی کیرئیر ،عملی زندگی، اپنے بزنس وکاروبار، اپنی ملازمت اور اپنی ہرمصروفیت کو اسی ماسٹرپلان کے مطابق ہی چلانا ہے اور ہم عملی طور پر ایساکرنے لگ جائیں تو یقینا خدائی منشا کے مطابق یہ ماسٹرپلان اپنی تکمیل کو پہنچے گا اور کامیابی ہمارا قدم چومے گی۔
تاہم قدرت نے ہمیں اس ماسٹرپلان کے مطابق ہی سب کچھ کرنے پر مجبورنہیں کیا بلکہ پورا اختیار عطاکیاہے ۔اب ہماری آزمائش یہی ہے کہ ہم زندگی کی تمام سرگرمیوں اورحصوں کو اللہ کے عطاکردہ ماسٹرپلان کے مطابق پورا کرتے ہیں یا اپنی مرضی سے اس نقشے میں ردوبدل کرکے خدائی ماسٹرپلان کے پورے منظر نامے کو خراب کردیتے ہیں ۔ یہی ہماری آزمائش ہے اور اسی کا احتساب قیامت کے دن ہرایک سے ہوگا۔
ماسٹرپلان کی تکمیل اور ہماراکردار
اللہ رب العزت نے انسان کو پیداکیا اور اس کا مقصد تخلیق(Purpose of creation)بھی بتایا اسی کو ہم نے خدائی ماسٹرپلان قراردیا ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ الذاریات میں فرمایا:
وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون “
اور ہم نے انسان اور جنا ت کو اپنی بندگی ہی کے لئے پیدا کیاہے۔”
خداکی طرف سے مقصد تخلیق کا بیان ہی وہ ماسٹر پلان ہے جس کا ذکر اوپر ہوا۔ یعنی انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد رب کی بندگی ہے جس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی زندگی کی تمام سرگرمیوں، فیصلوں اور اقدامات میں اسی مقصد کو پیش نظر رکھیں تاکہ زندگی میں ہمارے اعمال سے خدائی ماسٹرپلان کی تکمیل ہوسکے۔قرآن کریم اور نبی مکرم ﷺکی سیرت طیبہ کے ذریعے ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان کا کوئی بھی عمل عبادت یا رب کی بندگی سے خالی نہیں مگر شرط یہ ہے کہ انسان اپنی ہر سرگرمی کورب کے ماسٹرپلان کے مطابق یعنی مقصد تخلیق سے جوڑ کر اور سنت کے سانچے میں ڈھال کر انجام دے۔
ماسٹر پلان اور ایم آف لائف
انسان زندگی میں مختلف کام سرانجام دیتا ہے۔ وہ پہلے تعلیم حاصل کرتا ہے اس دوران اپنے لئے ایک کیرئیر منتخب کرتا ہے ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے سوچے ہوئے منصوبے کے مطابق ملازمت اختیار کرتا ہےیا کوئی کاروبار شروع کرتا ہے جسے عام طور پر ” ایم آف لائف’ یا زندگی میں کامیابی کے لئے بڑی مشغولیت کا نام دیا جاتا ہے۔ اب یہاں دو چیزیں ہوگئیں ایک مقصد تخلیق ہے جسے ہم نے ماسٹرپلان قراردیا اور دوسری ایم آف لائف یعنی زندگی میں کامیابی کےحصول کے لئے بڑی مشغولیت ہے۔جسے زندگی کے مختلف پیشوں کی صورت میں اختیار کیا جاتا ہے۔
خدائی ماسٹر پلان پر عمل کا نتیجہ
اگرہم قرآن کریم کی آیت “ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ”(اے اللہ ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطافرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطافرما)کو پیش نظررکھ کر دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی چاہتے ہیں اور دنیا میں بامقصد زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پروفیشنل زندگی، ذاتی اور معاشرتی زندگی کو خداکی طرف سے عطاکردہ ماسٹرپلان یا مقصد تخلیق سے ہم آہنگ (Align)کرنا ہوگا۔ ہمیں خداکی طرف سے عطاکردہ ماسٹر پلان میں ایک خاص کردار اور ذمہ داری دی گئی ہے جسے ہمیں پروفیشنل لائف، ذاتی او ر معاشرتی زندگی کے دوران ادا کرںا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم اللہ کے بنائے ہوئے ماسٹرپلان کی خوب صورت تکمیل میں نہ صرف حصہ دار ہوں گے بلکہ اس کی تکمیل کا ذریعہ بھی ہوں گےجس کی جزا دنیا وآخرت میں کامیابی کی صورت میں ہمیں ملے گی۔
زندگی کا ماسٹرپلان کامیابی کی ضمانت
ایک مسلمان کے لئے زندگی کا ماسٹر پلان بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ شعوری طور پر اپنی زندگی کی ترجیحات کو دین کے تقاضوں کے مطابق متعین کرے ، زندگی میں اپنے کردار کو واضح کرے۔اپنے تمام دستیاب اور متوقع وسائل کو وقتی اور دائمی دونوں کامیابیوں کے حصول کے لئے یکجاکرے اورپھر ان تمام چیزوں کو یکجا کرکے اسباب کی دنیا کا بہتریں خاکہ تیار کرکے اس کے مطابق عمل کرنا شروع کرے۔ خوب اچھی طرح پلاننگ کرکے عمل کرنا چونکہ اسباب اختیار کرنے کی ایک بہترین شکل ہے جس کا حکم خود رسول اللہ ﷺ نے دیاہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونٹ بان دیہاتی کوحکم دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ پہلے اپنے اونٹ کو باندھ لو اور پھر اللہ پر توکل کرو۔یعنی پلاننگ اور اسبا ب اختیار کرنا یہ توکل کے قطعامنافی نہیں ہے بقول شاعر
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر
کامیاب زندگی کے لئے ماسٹرپلان بناکر عمل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان زندگی میں بڑے خواب دیکھے،اس کے بعد ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے بہترین پلاننگ کرے تاکہ وہ سارے خواب حقیقت کا روپ دھار سکیں ۔
زندگی کی ماسٹر پلاننگ سے زندگی کی سرگرمیوں کو بڑی تصویر میں دیکھنا اور اپنے ہرعمل کو مقصد تخلیق کے مطابق ڈھالنا آسان ہوجاتا ہے۔نیز اس پلاننگ سے زندگی کے واقعات لنکنگ ڈوٹس کی طرح جب درست انداز سے آپس میں ملتے ہیں تو زندگی کی معنویت اورمقصدیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ لہذا ہمیں یومیہ ، ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ بنیادوں پر اپنی زندگی کا ایک لائحہ عمل طے کرنا چاہیے تاکہ ہماری پوری زندگی ایک ماسٹر پلان کے تحت بسر ہو جس کے نتیجے میں ہمارے تمام معمولات زندگی میں نظم و ضبط اور تاثیر پیدا ہو۔