ایک سوال دو جواب
پاکستان کیوں بنا؟ اگست کا مہینہ جب بھی آتا ہے ہمارے ملک میں یہ سوال دہرایا جاتا ہے اور اصحاب دانش اس کا جواب تلاشنے شروع ہو جاتے ہیں ، اس سوال کے مختلف جوابات سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں البتہ دو جواب ہمارے ہاں زیادہ مشہور ہیں اور دونوں دو مختلف مکاتب فکر کی ترجمانی کرتے ہیں۔
سیکولر پاکستان
ایک مکتب فکر کہتا ہے کہ پاکستان کا بننا صرف ایک سیاسی عمل تھا مسلم لیگ کی قیادت میں مسلمانوں نے ایک الگ وطن کی تحریک اس لیے چلائی تھی کہ متحدہ ہندوستان بن جانے کی صورت میں ان کے سیاسی اور معاشی مفادات کو شدید نقصان پہنچ سکتا تھا ،اس سیاسی عمل کے پیچھے کچھ گروہی مفادات بھی تھے ،مسلمانوں کی ایلیٹ کلاس کا خیال تھا کہ متحدہ ہندوستان کے مقابلے میں منقسم ہندوستان میں ان کے سیاسی اور معاشی مفادات کو بہتر تحفظ ملے گا۔
قائد اعظم اور سیکولر پاکستان
یہ مکتب فکر اپنے موقف کی تائید میں بابائے قوم محمد علی جناح کی بعض تقریروں کو پیش کرتا ہے ان میں سے سب سے زیادہ اس تقریر کے مندرجات کو بہ طور دلیل پیش کیا جاتا ہے جو بابائے قوم نے اپریل 1948 کو کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔ اس خطاب کے مندرجات ملاحظہ ہوں ؛
“اب آپ آزاد ہیں اس مملکت پاکستان میں۔ آپ آزاد ہیں مندروں میں جائیں ،اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں ۔آپ کا کسی مذہب ،ذات یا عقیدے سے تعلق ہو مملکت کو اس سے کوئی سروکار نہیں ۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل انگلستان کے حالات ہندوستان کے موجودہ حالات سے بھی بد تر تھے ،وہاں رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ایک دوسرے پر ظلم اور زیادتیاں کرتے تھے ،انگلستان کے عوام کو طویل وقت تک تلخ حقائق اور مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ،اب وہاں نہ رومن کیتھولک ہیں نہ پروٹسٹنٹ ،بلکہ اب وہاں ہر فرد برطانیہ کا یکساں شہری ہے۔ ہمیں اپنا ایک نصب العین بنانا ہوگا اس کی پابندی کے نتیجے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ ہندو ،ہندو رہے گا نہ مسلمان ،مسلمان رہے گا ، ایسا مذہبی طور پر نہیں ہوگا کیونکہ مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے بلکہ ایسی سوچ ریاست کے شہریوں میں سیاسی معنوں میں فروغ پائے گی “
بابائے قوم کی یہ تقریر بہ ظاہر سیکولر اپروچ کی حامل ہے ،لیکن جس طرح سیکولر طبقہ اس تقریر کے مندرجات سے اپنا مطلب اخذ کرتا ہے دوسرا طبقہ بھی اسی تقریر کی اپنے مطلب کے مطابق تشریح کرتا ہے جس کو ہم آگے ذکر کریں گے ۔
اس مکتب فکر کا یہ بھی کہنا ہے کہ بابائے قوم اور ان کے قریبی رفقاء لبرل سوچ کے حامل تھے ، ان کی طرز زندگی اور رہن سہن کے طور طریقے بھی لبرل سوچ کی عکاسی کرتے تھے ، ان کو مذہب اور مذہبی ریاست سے کیا دل چسپی ہو سکتی ہے ان کے بہ قول اسی وجہ سے قائد اعظم محمد علی جناح شروع میں گانگریس کے رہنما تھے جو سیکولر ازم پر یقین رکھنے والی جماعت تھی، یہ مکتب فکر دعویٰ کرتا ہے کہ نظریہ پاکستان کی کوئی حقیقت نہیں ہے یہ بعد میں مولویوں کے زیر اثر ایجاد کیا گیا ۔
اسلامی پاکستان
پاکستان کیوں بنا؟ اس سوال کے جواب میں دوسرا مکتب کہتا ہے پاکستان ایک نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا نظریہ یہ تھا کہ متحدہ ہندوستان بننے کی صورت میں مسلمان وہاں ایک اقلیت کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے ،ملکی سیاست میں ان کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہوگا، وہ اپنے دین کے تقاضوں کے مطابق اس ہندو اکثریتی ملک میں آزادانہ طور پر زندگی نہیں گزار سکیں گے اس موقف کی تائید کے لئے دو قومی نظریہ کو بھی پیش کیا جاتا ہے جو بنیادی طور پر 1857 کی جنگ آزادی کے بعد سر سید احمد خان نے پیش کیا تھا اور بعد میں تحریک پاکستان کے رہنماؤں نے اس کی تجدید کی ۔
قائد اعظم اور اسلامی پاکستان
اسلامی پاکستان کے قائلین بابائے قوم محمد علی جناح کی ان تقاریر کا بھی حوالہ دیتے ہیں جو انہوں نے تحریک پاکستان کے دوران اور پاکستان بننے کے بعد مختلف مواقع پر کی تھیں ، پاکستانیات کے ماہر ڈاکٹر صفدر محمود کے بہ قول بابائے قوم نے اپنی تقریروں میں سو سے زائد مرتبہ پاکستان کے اسلامی تشخص کا ذکر کیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ پاکستان اسلامی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے ۔
ہم بابائے قوم کی اسلامی رنگ میں ڈھلی ہوئی تقاریر میں سے کچھ کو بہ طور نمونہ پیش کئے دیتے ہیں ۔
1938 کو بہار میں مسلم لیگ کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بابائے قوم نے کچھ یوں کہا تھا؛
“آج کے اس عظیم الشان اجتماع میں آپ نے مجھے مسلم لیگ کا جھنڈا لہرانے کا اعزاز بخشا ہے ، یہ جھنڈا درحقیقت اسلام کا جھنڈا ہے کیونکہ آپ مسلم لیگ کو اسلام سے الگ نہیں کر سکتے ۔ کچھ لوگ ہمیں غلط سمجھتے ہیں جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ یہ جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے تو وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مذہب کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں حالانکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں “
اس تقریر سے پتہ چلتا ہے کہ بابائے قوم نہ صرف تحریک پاکستان بلکہ مسلم لیگ اور اس کے جھنڈے تک کو اسلام سے جوڑتے تھے، ان کے نزدیک سیاست میں مذہب کا حوالہ استعمال کرنا معیوب نہیں بلکہ باعث فخر تھا ۔
1945 کو گاندھی جی کے نام ایک خط میں بابائے قوم نے کچھ اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا؛
“ہندو اور مسلمان ہر چیز میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ،ہمارا مذہب ،تہذیب وثقافت ،تاریخ، زبان ،طرز تعمیر ،موسیقی،قانون، اصول قانون ،کھانے پینے کے انداز ، معاشرت کے طور طریقے ،لباس غرض ہر چیز ہندوؤں سے مختلف ہے ،صرف ووٹ ڈالنے کی صندوقچی میں دونوں اکٹھے نہیں ہو سکتے”
بابائے قوم کی یہ تقریر ثابت کر رہی ہے کہ وہ دو قومی نظریے کے قائل تھے اور اسی کی بنیاد پر تحریک پاکستان کی قیادت کر رہے تھے ان کے نزدیک مسلمانوں کے لئے الگ ملک کی ضرورت اس لئے تھی کہ ان کا دین، تہذیب وثقافت ،رسم و رواج ،طرز معاشرت اور زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط ہندوؤں سے یکسر مختلف تھے ۔
مارچ 1948 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے بابائے قوم نے یہ کہا تھا؛
” پاکستان تو اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا ،مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے وطن اور نسل نہیں “
یہاں بھی بابائے قوم مذہبی بات کر رہے ہیں سیاسی نہیں ۔
13جنوری 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے بابائے قوم نے فرمایا تھا:
’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔‘‘
اس خطاب میں بابائے قوم نے محض سیاسی پاکستان کے تصور کی واضح طور پر نفی کی ہے اور پاکستان کو اسلامی نظام کے ایک تجربہ گاہ کے طور پیش کیا ہے ۔
25 جنوری 1948 کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے بابائے قوم نے ان خیالات کا اظہار کیا تھا؛
“اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لئے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے قابل عمل تھے ،وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ لوگوں کا ایک گروہ جان بوجھ کر اور فتنہ اندازی سے یہ بات کیوں پھیلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت کی بنیادوں پر مدون نہیں کیا جائے گا “
اس تقریر میں تو بابائے قوم نے کھل کر اس طبقے کے موقف کو مسترد کیا ہے جو اس وقت بھی سیکولر پاکستان کا داعی تھا اور آج بھی اس کا علم بردار ہے۔
نظریہ پاکستان مولویوں نے گڑھا ہے ؟
اسلامی پاکستان کے قائلین اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ بعد میں مولویوں کا تراشیدہ ہے تحریک پاکستان میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ، ان کا کہنا ہے کہ دو قومی نظریہ اصل میں سر سید احمد خان کا ایجاد کردہ ہے جن کو ہمارا سیکولر طبقہ اپنا آئیڈیل مانتا ہے تحریک پاکستان کے موقع پر اس نظریے کی بس تجدید کی گئی،سرسید احمد خان نے ہندوؤں کے جس تعصب کا مشاہدہ اپنے دور میں کیا تھا اور اس کی بنیاد پر ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے جدا گانہ تشخص کی بات کی تھی بانیان پاکستان نے ستر ،اسی سال بعد اس موقف کو ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے درست سمجھا اور اسی پر تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی ۔
بابائے قوم کی تقاریر میں بہتر تطبیق
یہ ایک اصول ہے کہ بڑے لوگوں کی باتوں میں اگر کہیں تضاد نظر ائے تو پہلی کوشش کی جاتی ہے کہ ان میں تطبیق کی صورت پیدا کی جائے یعنی قائل کے قول کی ایسی تشریح کی جائے کہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ درست رہیں۔ چونکہ بابائے قوم کی اکثر تقاریر اسلامی پاکستان کی ترجمانی کرتی ہیں جبکہ چند ایک تقریریں ایسی ہیں جن سے سیکولر پاکستان کا بیانیہ کشید کیا جاتا ہے ،اسں لئے ان چند بیانات کی مناسب تاویل کی جائے گی تاکہ وہ بابائے قوم کی اکثر تقاریر کے ساتھ منطبق ہو جائیں ۔
تطبیق کی صورت یہی ہے کہ بابائے قوم کی 1948 میں کراچی میں اسٹیٹ بینک کی تقریب والی تقریر سے یہ مراد لی جائے کہ اس میں بابائے اپنی اس تقریر میں بابائے قوم نے پاکستان کے اقلیتوں کو تحفظ کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے بابائے قوم نے یہ باور کرایا ہے کہ پاکستان اگرچہ اسلامی نظریے کی بنیاد پر بنا ہے لیکن اس میں تمام مذاہب کے لوگوں کو یکساں حقوق ملیں گے کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوگا ،حقیقت میں اسلام بھی یہی کہتا ہے ، ایک اسلامی ملک اپنے تمام شہریوں کے حقوق کا ضامن ہوتا ہے اور تمام مذاہب کے پیروکاروں کی مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے یہی بات بابائے قوم نے اپنی تقریر میں کہی ہے ۔
بانیان پاکستان سے بد گمانی
یہ بات تو درست ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان میں اس اسلامی نظام کے حامی نہ تھے جس کو ملائیت سے تعبیر کیا جاتا ہے البتہ وہ پاکستان کو ایک جدید اسلامی اور فلاحی ریاست کے طور دیکھنے کے خواہاں تھے ۔ جس تحریک پاکستان کے ہر جلسے میں ” پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ” کے فلک شگاف نعرے گونجتے تھے اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ملک کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوگا یہ دعویٰ قائد اعظم محمد علی جناح سمیت دیگر بانیان پاکستان کے اخلاص نیت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے ، کیا اس دعوے کا سیدھا سادہ مطلب یہ نہیں ہے کہ بانیان پاکستان نے بر صغیر کے مسلمانوں کو دھوکا دیا اور ان کے اسلامی جذبات کو نہایت مکاری کے ساتھ اپنے سیکولر سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ؟ ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے سیکولر پاکستان کے قائلین کو یہ سوچ مبارک ہو!
♥️♥️♥️