تھر پارکر ،جہاں چوری کا ڈر اور نہ ہی ڈکیتی کا خوف
نوید نقوی
آئیے اس بار پاکستان کے پر امن خطے تھر پارکر اور اس کے میٹھے شہر مٹھی کی سیر کرتے ہیں۔ گیت‘سنگیت اور ریت کی سرزمین ،سسی، پنوں۔ ماروی، عمر اور مائی بھاگی کی سرزمین جہاں حد نگاہ ریت کے ٹیلے اور خشک جھاڑیاں نظر آتی ہیں ۔
اٹھارہ لاکھ آبادی کا صحرا ڈھائی ہزار گوٹھوں تک پھیلا ہوا ہے
جغرافیائی لحاظ سے یہ پاکستان کا اہم خطہ ہے جو معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے، تھر کا شمار دنیا کے نویں بڑے صحرا میں ہوتا ہے ۔19 ہزار چھ سو سینتیس مربع کلو میٹر پر پھیلے ہوئے صحرائے تھر کی آبادی18 لاکھ کے قریب ہے اس صحرا میں ڈھائی ہزار گوٹھ دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں ۔
پینتالیس فیصد آبادی ہندوؤں کی ہے
یہاں تقریباً45 فیصد کے قریب آبادی ہندو مذہب کی پیروکار ہے اس ضلع کی ڈویژن میر پور خاص ہے مٹھی اس کا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہے مٹھی ‘ ڈپلو‘ چھاچھروننگر پارکو اور اسلام کوٹ اس کی تحصیلیں ہیں ، یہ 44 یونین کونسلز پر مشتمل ہے اس کے ساتھ عمر کوٹ ،بدین اور میر پور خاص کے اضلاع لگتے ہیں۔ مشرق میں راجھستان کے اضلاع جپسلمیر‘ برمتر اور جیلور واقع ہیں ۔
تھر پاکستان کے لائیو اسٹاک کی 20 فیصد ضرویات پوری کرتا ہے
تھر پارکر پاکستان کے لائیو سٹاک کی20 فیصد سے زائد ضروریات پوری کرتا ہے ،ملک کا سب سے زیادہ پرامن ضلع تھرپارکر اپنی خوبصورتی میں بھی بے مثال ہے، یہاں روایت اور ثقافت اپنی اصل شکل میں موجود ہیں۔ یہاں نہ چوری کا ڈر ہے اور نہ ہی ڈکیتی کا خوف ہے نہ ماحول کی آلودگی کی پریشانی اور نہ ہی اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں کے باسی ہمیشہ اپنی اقدار کی پاسداری کرتے ہیں ۔
رسائی آسان ہونے کی وجہ سے دوست صحرا بھی کہا جاتا ہے
تھر پارکر دنیا کا واحد صحرا ہے جس کو دوست صحرا بھی کہا جاتا ہے دوست صحرا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس تک رسائی آسان ہے اور سروائو کرنا بھی مشکل نہیں ہے۔ مٹھی شہر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہونے کےساتھ ساتھ سب سے جدید اور خوبصورت شہر بھی ہے یہ شہر ایک خاتون کے نام پر آباد ہے بعض روایات کے مطابق یہاں مائی مٹھی نامی خاتون کا کنواں تھا۔ جس میں سے مسافر پانی پیا کرتے تھے۔ مٹھی پہنچنے کے لیے عمر کوٹ‘ میر پور خاص اور بدین سے راستے آتے ہیں۔ تھر کوئلے‘ گرینائیٹ اور چائنہ کلے کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ یہاں کوئلے کا دنیا بھر میں ساتواں بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ تقریباً8.2 بلین ٹن کوئلہ تھرپارکر میں موجود ہے یہاں کوئلے ے بجلی بنانے کے منصوبوں کی وجہ سے حکومت سندھ نے سڑکوں کا جال بچھادیا ہے آپ قومی شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے کراچی سے مکلی‘ مکلی سے سجاول‘ وہاں سے بدین اور پھر بدین سے تھرکی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں۔
مٹھی میں درجن سے زائد مسلم درگاہوں کے منتظمین ہندو ہیں
کراچی سے مٹھی تک تقریباً282 کلو میٹر کافاصلہ ہے اور5 سے 6 گھنٹے میں آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے۔ تھر میں ہندومسلم صدیوں سے رہتے آئے ہیں کبھی یہاں مسلمانوں تو کبھی ہندوئوں کی حکومتیں رہی ہیں۔ عید ہو یا ہولی کا تہوار‘ دہرہ ہو یا محرم‘ دونوـں مذاہب سے تعلق رکھے والے اس میں شریک ہوتے ہیں ۔ مٹھی شہر میں موجود درجن سے زائد مسلم درگاہوں کے منتظمین ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
گائے کی قربانی اور گوشت کے فروخت کا رواج نہیں
اس شہر میں گائے کی قربانی نہیں کی جاتی اور اس کا گوشت بھی فروخت نہیں کیا جاتا۔ مٹھی شہر ایک پیالہ نما خوبصورت اور جدید شہر ہے یہ ٹیلوں کے درمیان واقع ہے اس کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے یہاں کا سیاحتی مقام ایک خوبصورت پارک ہے جو اونچے ٹیلے پر بنایاگیا ہے جس کو گڈی بھٹ کہتے ہیں اس پارک میں ایک چبوترہ بھی بنایاگیا ہے جیسے ہی ٹیلے کے عقب میں سورج ڈوب جاتا ہے تو شہر کی بتیاں جگمگا اٹھتی ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے مہندی کی تھالی میں موم بتیاں سجا دی ہوں ،آسمان پر جھل مل کرتے تارے اس منظر کو مزید دلکش بنا دیتے ہیں۔
یہاں کی دستکاری بھی مشہور ہے ،کچھ چادریں آج بھی کھڈی پر بنائی جاتی ہیں
تھرکی دست کاری کراچی‘ اسلام آباد سمیت ملک کے کئی بڑے شہروں میں دستیاب ہے۔ جس میں روایتی کپڑے‘ گرم شالیں ‘ لیٹر بکس‘ وال پیس وغیرہ شامل ہیں ۔ بعض لباس آج بھی بلاک پرنٹنگ سے بنائے جاتے ہیں۔ کچھ چادریں آج بھی کھڈی پر بنائی جاتی ہیں جو مشین کی بنی ہوئی چادروں سے زیادہ پائیدار ہوتی ہیں۔
مارواڑی گیت یہاں کی مشہور لوک گیت ہے ،گلوکارہ مائی بھاگی ‘ عارب فقیر‘ صادق فقیر اور کریم فقیر کی وجہ سے یہاں کی سنگیت کی روایت کو زندہ ہے۔
سنت نیٹو رام کے آشرم کے لنگر سے انسانوں کے علاوہ جانور اور پرندے بھی مستفید ہوتے ہیں ۔
تھر میں کسی زمانے میں بڑی تعداد میں نیم کے درخت ہوتے تھے جس وجہ سے اس کو نچوں کا شہر بھی کہا جاتا تھا یہاں کے ایک بزرگ سنت نیٹو رام کا آشرم مشہور ہے ۔ اس آشرم کا لنگر نہ صرف انسانوں کو ملتا ہے بلکہ حیوانوں اور پرندوں کے لیے بھی موجود ہوتا ہے۔
لوگوں کی اکثریت اگلونما کچے کمروں میں رہتی ہے
تھر میں لوگوں کی اکثریت اگلونما کچے کمروں میں رہتی ہے۔ ان کی چھتیں گھاس کی بنی ہوتی ہیں جو گرمی میں ٹھنڈے رہتے ہیں۔ یہاں پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے حکومت سندھ نے آر او پلانٹس لگا ئے ہیں، ان پلانٹس میں سے ایشیا کا سب سے بڑا ریورس اوسموس پلانٹ بھی شامل ہے اس پلانٹ سے مٹھی شہر اور آس پاس کے تقریباً100 گوٹھوں کے ایک لاکھ کے قریب مکینوں کو ڈھائی لاکھ ملین گیلن پانی یومیہ پہنچایا جارہاہے اس پلانٹ سے دو پائپ لائنیں نکلتی ہیں ایک مٹھی شہر اور دوسری پی این اے کے پائپ کے ذریعے اسلام کوٹ تک جاتی ہے جو 45 کلو میٹر طویل ہے ان پلانٹس سے زندگیوں میں آسانی پیدا ہوئی ہے۔
مور صبح گھروں میں دانہ چگنے آتے ہیں پھر واپس جنگلوں میں چلے جاتے ہیں
تھر کا موسم ایسا ہے کہ یہاں سے جانے کا دل نہیں کرتا جیسا کہ مثال مشہور ہے تھر کی ہوا آدمی کو عاشق بنا دیتی ہے تھر کے اکثر گائوں میں مور گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں جو صبح کو گھر وں میں دانہ چگنے آتے ہیں اور پھر جنگلوں میں چلے جاتے ہیں اور شام کو پھر لوٹتے ہیں جہاں ہندو آبادی زیادہ ہے وہاں موروں کی تعدا د بھی زیادہ ہے کیونکہ اسے شری کرشنا اور سرسوتی دیوی سے منسوب کیا جاتا ہے۔
کارونجھ پہاڑی نے شہر کو جیسے گود میں لے رکھا ہے
تھر میں ہرن اور نیل گائے بھی پائی جاتی ہے، مٹھی سے تقریباً130 کلو میٹر دور قدیمی شہر نگر پارکر واقع ہے، کارونجھ پہاڑی نے اس شہر کو جیسے گود میں لے رکھا ہے ۔ سرخ گرینائیٹ پتھر کے اس پہاڑ کا رنگ سورج کی روشنی کے ساتھ تبدیل ہوتے ہوئے نظر آتا ہے، یہاں ہندو مذہب کے کئی آستھان موجود ہیں جن میں سب سے زیادہ مشہور سادپڑو گام ہے ،بعض روایات کے مطابق مہا بھارت میں جب کوروں نے پانڈوں کو13 سال کے لیے جلا وطن کیا تھا تو پانچ پانڈے اس پہاڑ پر آکر بس گئے تھے۔ ان کے نام سے پانی کے تالاب موجود ہیں۔
تھر کی کھلی فضا میں رات گزارنا زندگی کا نہایت خوش گوار تجربہ ہوتا ہے
ننگر پارکر پہاڑ سے شہد اور جڑی بوٹیوں سمیت لکڑیاں حاصل کی جاتی ہیں ایک روایت ہے کہ کارونجھر روزانہ سوا سیر سونا پیدا کرتا ہے نگر پارکر اور اس کے آس پاس جین مندر بھی واقع ہیں جو بارہویں صدی میں قائم کیے گئے تھے۔ تھرکی کھلی فضا میں رات گزارنا زندگی کا ایک خوشگوار تجربہ ہوتا ہے ۔ جو انسان کو ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ آپ کو بھی پارکر ضرور جانا چاہئے اور پاکستان کے سب سے زیادہ پرامن خطے میں قدرت کے شاہکاروں کا نظارہ کرنا چاہئے۔